دین اسلام ہمیں پڑھنے لکھنے اور غور وفکر کرنے کی تلقین کرتا ہے۔ ہمارے پیارے رسولﷺ پر جو پہلی وحی نازل ہوئی‘ وہ بھی علم کے حوالے سے تھی۔ ''پڑھو‘ اپنے رب کے نام سے‘ جس نے (انسان کو) پیدا کیا‘‘۔ اللہ کے آخری نبیﷺ نے علم حاصل کرنا ہر مسلمان (مرد و عورت) کے لیے لازم قرار دیا۔ دینِ اسلام ہمیں دینی امور کے ساتھ ساتھ دنیاوی علوم سیکھنے کی بھی تلقین کرتا ہے۔ تاہم ہماری نئی نسل دنیاوی علوم میں زیادہ الجھ گئی ہے اور دین سے دور ہو گئی ہے‘ حالانکہ اعتدال کا تقاضا تو یہ ہے کہ دین اور دنیا دونوں کو ساتھ لے کر چلا جائے۔ ہماری نسل کو روٹی‘ کپڑا اور مکان کی دوڑ میں ایسا الجھایا گیا ہے کہ اس کی زندگی اسی جدوجہد اور اسی دائرے تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ کسی کے جوان کندھوں پر بہنوں کی شادیوں کا بوجھ ہے تو کسی کو ماں باپ کا قرض اتارنا ہے۔ کسی نے بوڑھے والدین کے لیے گھر بنانا ہے تو کسی نے سارے خاندان کی کفالت کرنی ہے۔ یہ تبھی ممکن ہو سکتا ہے جب اعلیٰ تعلیم حاصل کی جائے اور ساتھ میں محنت مزدوری بھی کی جائے تاکہ اپنے تعلیمی اخراجات بھی پورے ہو جائیں اور گھر بھی چلتا رہے۔ یہ تگ و دو نوجوانوں سے ان کا بچپن اور جوانی چھین لیتی ہے۔ نوجوان اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے ایک اچھی زندگی گزارنے کے خواب دیکھتے رہتے ہیں مگر جب اندرونِ ملک یونیورسٹیوں میں انہیں داخلہ نہیں مل پاتا تو ماں باپ عمر بھر کی جمع پونجی سے ان کو تعلیم کے لیے بیرونِ ملک بھیجنے کی کوشش کرتے ہیں۔ پاکستان میں درسگاہیں بہت کم ہیں اور طالبعلم ملکی آبادی کا لگ بھگ نصف ہیں۔ تعلیمی اداروں میں نشستیں کم ہونے کی وجہ سے‘ سرکاری اور پرائیوٹ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں داخلہ نہ ملنے کے باعث کچھ افراد اپنا تعلیمی سلسلہ ہی منقطع کر دیتے ہیں جبکہ کچھ کے ماں باپ اپنے بچوں کو بیرونِ ملک کسی بھی یونیورسٹی میں بھیجنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔ امریکہ اور برطانیہ میں تو صرف اشرافیہ کے بچے جاتے ہیں‘ جنہیں واپس آکر اپنے والدین کی گدّی مل جاتی ہے۔ عام پاکستانی اپنے بچوں کو تعلیم کی خاطر ایسے ممالک ہی بھیج پاتے ہیں جہاں کی زبان سے بھی مانوسیت نہیں ہوتی اور وہاں کے تعلیمی ادارے بھی عالمی رینکنگ میں بہت نیچے ہوتے ہیں۔
جب یوکرین میں جنگ شروع ہوئی تھی تو بہت سے پاکستانی طالبعلم وہاں پھنس گئے تھے۔ اس وقت کئی لوگوں نے یہ سوال بھی اٹھایا تھا کہ پاکستانی بچے ایسے ممالک میں تعلیم کیوں حاصل کر رہے ہیں جہاں کی زبان ہمارے لیے آشنا نہیں اور جہاں موسم بھی شدید ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ تو اپنے ملک میں مواقع کا کم ہونا ہے۔ ہرسال ہزاروں بلکہ لاکھوں طالبعلم اپنے ملک کے تعلیمی اداروں میں داخلوں سے محروم رہ جاتے ہیں‘ اس لیے ان کو باہر کا رخ کرنا پڑتا ہے۔ جو بہت لائق فائق ہوتے ہیں ان کو سکالرشپ مل جاتا ہے۔ بہت سے طالبعلم غیر معروف درسگاہوں اور دور دراز ممالک کا رخ کرتے ہیں کیونکہ ہر کوئی امریکہ اور برطانیہ کی مہنگی درسگاہیں افورڈ نہیں کر سکتا۔ اس لیے بچے اپنا تعلیمی کیریئر بچانے کے لیے مشرقی اور وسطی یورپ کے ممالک میں چلے جاتے ہیں۔ ہاسٹل میں رہائش‘ وطن سے دوری‘ پھر اپنے ملک جیسے موسم اور پکوان کا نہ ملنا‘ ان حالات میں جینا اور تعلیم حاصل کرنا آسان نہیں ہوتا۔ جب چین میں کووِڈ کی وبا پھوٹی تھی‘ تب بھی بہت سے پاکستانی طالبعلم وہاں پھنس گئے تھے اور جب سوشل میڈیا پر یہ معاملہ سامنے آیا تو ان طالبعلموں کی شنوائی ہوئی۔ وہاں لاک ڈائون کے سبب سب کچھ بند ہو گیا تھا اور طالبعلم بھوکے‘ پیاسے خوف کی حالات میں ہاسٹلز میں اکیلے رہ گئے ‘ اُس وقت میڈیا اور سوشل میڈیا ہی ان کی آواز بنا ۔ اسی طرح جب یوکرین میں پاکستانی طالبعلم جنگ میں محصور ہو گئے تو اس وقت بھی ان کی آواز اقتدار کے ایوانوں میں سوشل میڈیا ہی نے پہنچائی۔ حکومت اسی میڈیم کو بند کرنے کے لیے اب سرتوڑ کوشش کر رہی ہے۔ شاید سچ سننا اس کو زیادہ پسند نہیں ‘ اسی لیے سوشل میڈیا کا گلا گھوٹنا جا رہا ہے۔
گزشتہ جمعہ کی شب اچانک میرا فون میسجز سے بھر گیا‘ مجھے بہت عجیب لگا کہ کہ رات کو تو اس طرح میرے فون پر میسج نہیں آتے۔ جب میسج کھولے تو نوجوان صحافیوں کے گروپوں میں سب لوگوں کو پریشان دیکھا کہ کرغزستان کے شہر بشکیک میں پاکستانی طالبعلموں پر نسلی حملے کیے جا رہے ہیں‘ ان کی جان شدید خطرے میں ہے‘ ان کو مارا پیٹا گیا ہے۔ سب لوگ پریشان تھے کہ کیسے ان طالبعلموں کی جان بچانے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔ واقعے کی تفصیلات کے مطابق کچھ مقامی افراد کا مصری طالبعلموں سے جھگڑا ہوا تھا‘ جس کے بعد تمام غیر ملکی سٹوڈنٹس مقامی افراد کے حملوں کی زد میں آ گئے۔ بہت سے افراد پاکستانی طالبعلموں کے ہاسٹلز پر حملہ آور ہو گئے اور طالبعلموں کو زد وکوب کیا۔ اس سے افواہوں کا بازار گرم ہو گیا اور والدین اپنے بچوں کی سلامتی کے حوالے سے فکرمند ہونے لگے۔ بہت سے طالبعلموں نے پاکستان میں موجود صحافیوں سے رابطہ کیا اور وہاں کی صورتحال سے آگاہ کیا۔ انہوں نے بتایا کہ طلبہ کے ساتھ ساتھ طالبات کو بھی نشانہ بنایا گیا اور باتھ رومز میں چھپ کر انہوں نے خود کو محفوظ رکھا۔ یہ طالبعلم ان حملوں کے بعد بہت خوفزدہ ہو گئے تھے۔ ان کے والدین کی عمر بھر کی جمع پونجی اس تعلیمی ڈگری پر لگی ہوئی تھی مگر خوف کی وجہ سے اب وہ وہاں نہیں رہ سکتے تھے۔ سوشل میڈیا پر اپیلوں کے بعد حکومت اور سفارتخانے کو کچھ ہوش آئی۔ پہلے یہ ایڈوائزری جاری کی گئی کہ طالبعلم باہر نہ نکلیں۔ کسی ہنگامی صورتحال میں محض یہ پیغام کافی نہیں ہوتا۔ کیا ان کے پاس کھانا‘ ادویات اور ضرورت کی چیزیں موجود ہیں‘ کیا ان کی زندگی محفوظ ہے‘ سب سے پہلے ان سوالات کا جواب تلاش کرنا چاہیے۔ بہرکیف دو‘ تین دن کی ہنگامہ آرائی کے بعد اب حالات کچھ ٹھیک ہوئے ہیں اور وہاں کے اساتذہ نے طالبعلموں کو ہاسٹلز سے یونیورسٹی کے اندر منتقل کرا دیا‘ جہاں وہ خود کو محفوظ قرار دے رہے ہیں۔ اب بھی بہت سے طالبعلم واپس آنے کے خواہشمند ہیں اور ان کو وہاں سے نکالنے کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔ اب تک پانچ پروازوں پر 810 طالبعلم واپس آ چکے ہیں‘ تاہم اب بھی بہت سے اُدھر پھنسے ہوئے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ لگ بھگ سبھی طالبعلم خود ٹکٹ خرید کر واپس آئے ہیں۔ حکومت کو یہ معاملہ بھی دیکھنا چاہیے اور سفارتی سطح پر کرغز حکومت کے ساتھ سخت احتجاج بھی کرنا چاہیے کیونکہ نہتے اور بے قصور طالبعلموں کا نشانہ بنایا گیا۔ اب ان کو تعلیم ادھوری چھوڑ کر واپس آنا پڑا ہے‘ ان کی ڈگری کا مستقبل کیا ہو گا‘ آگے معاملات کیسے چلیں گے‘ ہنوز بہت سے سوالات جواب طلب ہیں۔ کرغز حکومت کو اس رویے پر معافی مانگنی چاہیے اور ذمہ داروں کو سخت سزا دینی چاہیے تاکہ آئندہ کوئی بھی پاکستانیوں کے ساتھ ایسا سلوک نہ کر سکے۔
پاکستانی طالبعلم اپنی محنت کے بل بوتے پر بیرونِ ملک جا کر تعلیم حاصل کرتے ہیں اور چھوٹی موٹی نوکری کرکے اپنی گزر بسر کرتے ہیں۔ یہ گرے پڑے نہیں بلکہ محنت کر رہے ہیں اور کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ ان کے ساتھ ایسا سلوک روا رکھے۔ بدقسمتی سے ہمارے حکمران ہر جگہ ذاتی مفاد کو ترجیح دیتے ہیں۔ طالبعلموں کیلئے نہ تو ملک میں زندگی آسان ہے اور نہ ہی باہر۔ یہاں فیسیں زیادہ اور سیٹیں کم ہیں۔ میرٹ کی دھجیاں بکھیر کر طالبعلموں کی زندگی کو تباہ کر دیا جاتا ہے۔ بیرونِ ملک ان کو نسلی تعصب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جیسے تیسے ڈگری مکمل ہوتی ہے تو یہ تلوار لٹکنا شروع ہو جاتی ہے کہ نوکری ملے گی بھی یا نہیں۔ میں اخبارات میں دیکھتی ہوں کہ خاکروب‘ ڈرائیور اور کلرک سے اوپر کی نوکری شاذ ونادر ہی آتی ہے۔ ہمارے ملک میں طالبعلموں کو فیس کے لیے قرضہ جات بھی نہیں ملتے اور نہ ہی کوئی بزنس لون ملتا ہے۔ نئی نسل کے لیے بس مشکلات ہی مشکلات ہیں۔ جب تک ملک میں سیاسی عدم استحکام رہے گا‘ طالبعلموں کے مسائل دور نہیں ہو سکتے۔