اسلام آباد میں آج کل اس قدر گرمی پڑ رہی ہے کہ بیان سے باہر ہے۔ وفاقی دارالحکومت میں تعمیرات کے نام پر جنگلات اور درختوں کا خاصی حد تک صفایا کر دیا گیا ہے۔ رہی سہی کسر مارگلہ کی پہاڑیوں پر آئے روز لگنے والی آگ نے پوری کر دی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ آگ جان بوجھ کر لگائی جاتی ہے تاکہ ٹمبر مافیا اپنے مطلوبہ مقاصد حاصل کر سکے۔ وہ اسلام آباد‘ کسی زمانے میں جہاں پیڑ ہی پیڑ ہوتے تھے‘ موسم متعدل ہوتا تھا‘ سارا دن پرندوں کے چہچہانے کی آوازیں آتی رہتی تھیں‘ ہوا میں پھولوں کی خوشبو پھیلی ہوتی تھی‘ اب وہ کہیں کھو گیا ہے۔ اب یہاں انڈر پاسز‘ فلائی اوورز اور تعمیرات کی بھرمار ہے۔ شہر میں آلودگی بڑھتی جا رہی ہے اور کسی کو کوئی پروا ہی نہیں۔ جو نئے پل اور فلائی اوور بنے ہیں وہاں لوگ سورج کی تپش سے جھلس رہے ہوتے ہیں۔ پہلے شاہراہوں کے دونوں اطراف گھنے درخت ہوتے تھے مگر اب ہر جگہ سے درختوں کا صفایا ہو چکا ہے۔ ہجرتی پرندے بھی کہتے ہوں گے کہ وہ پیڑ کہاں گئے جہاں ہمارا ٹھکانہ ہوا کرتا تھا۔ انسان بھی یہ سوچتے ہوں گے کہ یہ تو وہ شہر ہی نہیں جو کبھی ہمارا مسکن ہوا کرتا تھا۔ اسلام آباد کی کچھ گلیاں ایسی تھیں کہ جہاں دونوں اطراف درخت تھے‘ دن کے وقت وہاں سے گزرتے ہوئے ایسا لگتا تھا کہ کسی سرنگ میں آ گئے ہیں لیکن اب ایسا کچھ نہیں۔ اب ایک سیکٹر سے دوسرے سیکٹر میں جانے کیلئے پل پر سے گول چکر کاٹ کر ہی آپ جا سکتے ہیں‘ باقی سب راستے بند ہیں۔ یہ وقت کا بھی ضیاع ہے اور پٹرول کا بھی۔ گرمی میں ہر کوئی کوفت کا شکار ہو جاتا ہے کہ ایک سیکٹر سے دوسرے میں جانے کے لیے بھی پل کا استعمال کرنا چاہیے؟ پل کے بغیر کیوں نہیں سیکٹر میں داخل ہوا جا سکتا؟ ان پلوں‘ اوور ہیڈ سڑکوں اور انڈر پاسز کو بنانے کے لیے ہزاروں‘ لاکھوں کی تعداد میں جو درخت کاٹے گئے ان کی وجہ سے ہی ماحولیاتی تبدیلیوں نے اس شہر کے درجہ حرارت کو تبدیل کر دیا۔ اسلام آباد میں پلازے بھی خوب بن رہے ہیں اور سڑکیں بھی‘ لیکن سی ڈی اے نے طویل مدت سے کوئی رہائشی سیکٹر عوام کیلئے نہیں بنایا۔ عوام آج بھی محدود رہائشی یونٹس کا ہزاروں سے لاکھوں میں کرایہ دینے پر مجبور ہیں۔ اسلام آباد میں اپنے گھر کا خواب‘ خواب ہی رہ جاتا ہے۔ اب یہاں بنیادی سہولتوں کی بھی کمی ہے اور شہری پانی کی قلت کا سامنا کر رہے ہیں۔ شہرِ اقتدار میں عوام کے لیے کوئی نیا سیکٹر تو نہیں بنا لیکن مارگلہ نیشنل پارک میں مختلف تجاوزات ضرور قائم ہو گئیں۔
گرمی نے سب کو ستایا ہوا ہے اور لوگ اب اس کے حل پر متوجہ ہو رہے ہیں مگر اس کا حل ٹھنڈے شربت یا اے سی نہیں‘ اس کا حل درجہ حرارت کو کم کرنا ہے۔ اس وقت بھارت اور پاکستان شدید گرمی کی لپیٹ میں ہیں‘ درجہ حرارت 50 ڈگری سینٹی گریڈ سے بھی بڑھ گیا ہے۔ لوگ شدید گرمی سے نہ صرف بیمار بلکہ ہلاک بھی ہو رہے ہیں۔ اس وقت پوری دنیا ہی موسمیاتی تبدیلیوں کی زد میں ہے۔ اس سال حج کے موقع پر بھی شدید گرمی تھی اور حجاج کرام میں سے سینکڑوں گرمی کی شدت کی وجہ سے جانبر نہیں ہو سکے۔ بتایا گیا ہے کہ ان میں سے اکثر وہ تھے جو رجسٹرڈ نہیں تھے۔ ہر سال دسیوں لاکھ لوگ حج کے لیے آتے ہیں اور سعودی حکومت حجاج کرام کی میزبانی میں کوئی کسر نہیں چھوڑتی۔ خیموں میں بھی اب اے سی موجود ہوتے ہیں‘ ہر جگہ پانی کا وافر بندوبست ہوتا ہے۔ پانی کا چھڑکائو بھی جاری رہتا ہے تاکہ حجاج گرمی کی شدت سے بچے رہیں۔ وہاں لوڈشیڈنگ نہیں ہوتی‘ یہاں تک کہ منیٰ‘ مزدلفہ اور عرفات میں بھی حجاج کے لیے پنکھے اور اے سی موجود ہوتے ہیں۔ تاہم اس بار درجہ حرارت پچاس ڈگری سے بھی تجاوز کر گیا جس کی وجہ کچھ حجاج کرام ہیٹ سٹروک کا شکار ہو گئے۔ اتنی گرمی میں حج کرنا یقینا اعلیٰ ترین نیکی ہے‘ اللہ تعالیٰ تمام افراد کا حج قبول فرمائے اور تمام حجاج خیریت سے اپنے گھروں کو لوٹ آئیں۔
پاکستان میں گرمی سے نمٹنے کے لیے زیادہ انتظامات ہی نہیں کیے جاتے‘ کسی شاہراہ پر اگر گاڑی خراب ہو جائے تو نہ ہی کہیں نزدیک پانی میسر آتا ہے نہ پٹرول اور نہ ہی آس پاس کوئی واش روم ہوتا ہے۔ ایسی صورتحال میں اکثر افراد کو ہیٹ سٹروک ہو جاتا ہے اور سن سٹروک کا بھی خدشہ رہتا ہے۔ گرمی کی شدت میں جیسے جیسے اضافہ ہوتا ہے‘ لوڈشیڈنگ بھی شروع ہو جاتی ہے۔ گھر میں بیٹھے اگر بجلی چلی جائے تب بھی آپ ہیٹ سٹروک کا شکار ہو سکتے ہیں۔ حکومت اور ادارے عوام کو ان کو حال پر چھوڑ کر بری الذمہ ہو چکے ہیں۔ حکومت اس حوالے سے بالکل چپ ہے اور عوام کو آگاہی نہیں دے رہی کہ ہیٹ ویو کی صورت میں کیا کِیا جائے۔ لوگ خود پر پانی کا چھڑکاؤ کریں‘ بار بار ٹھنڈے شربت پئیں‘ بچوں کی ٹنڈ کرائیں یا چوبیس گھنٹے اے سی میں بیٹھے رہیں‘ اس سے کچھ نہیں ہو گا۔ درجہ حرارت میں کمی صرف درخت لگا کر ہی کی جا سکتی ہے۔ درخت بھی ایسے جو دیسی ہوں اور ہمارے ماحول سے مطابقت رکھتے ہوں۔ اکثر جب پلوں‘ فلائی اوورز یا نئی رہائشی سکیموں کیلئے جنگلات اور درختوں کا بے دریغ قتل ہوتا ہے تو پھر نمائشی پودے لگا دیے جاتے ہیں۔ ایک پودے کو پیڑ بننے میں کئی سال لگتے ہیں۔ اسی وجہ سے گرمی کی شدت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے کیونکہ ترقی اور تعمیرات کے نام پر قدرتی توازن بگاڑ دیا گیا ہے۔ مئی کے آغاز سے شدید گرمی پڑ رہی ہے اور بارشیں نہ ہونے کے برابر ہیں‘ اسلام آباد میں بھی اب درجہ حرارت چوالیس‘ پینتالیس ڈگری تک جا رہا ہے۔ لوگ اس صورتحال سے پریشان بھی ہیں اور بیمار بھی ہو رہے ہیں۔ کوئی بھی انسان چوبیس گھنٹے نہ تو اے سی چلا سکتا ہے نہ ہی کمروں میں قید ہو کر رہ سکتا ہے۔ انسان فطری طور پر قدرت کے قریب رہنا چاہتا ہے‘ اگر کھلی ہوا میں بیٹھنا چاہتے ہیں تو درجہ حرارت کو کم کریں‘ ماحول دوست سرگرمیاں اپنائیں اور درخت لگائیں۔ اسلام آباد میں چنار اور پائن ٹری لگا کر ماحول کو بہتر کیا جا سکتا ہے۔ پوٹھوہار خطے میں کچنار‘ زیتون‘ امرود‘ مالٹا‘ دلو‘ پاپولر‘ بیری‘ مالٹا‘ جامن اور انجیر کے درخت لگائے جا سکتے ہیں۔ کثیر تعداد میں درخت لگانے سے ماحول میں خوشگوار تبدیلی آئے گی۔ فی الحال گرمی بہت ہے اس لیے اپنی صحت کا خیال رکھیں‘ سایہ دار اور ہوا دار جگہ پر رہیں اور پانی کا استعمال زیادہ کریں۔ پانی ہمیں ہیٹ سٹروک سے محفوظ رکھتا ہے۔ اگر کسی شخص کو ہیٹ سٹروک میں مبتلا دیکھیں تو اس کے سر پر ٹھنڈا پانی ڈالیں اور اسے ٹھنڈی جگہ منتقل کر دیں۔ اگر دھوپ میں نکلنا ضروری ہو تو کپڑے‘ ٹوپی یا چھتری کا استعمال کریں۔ اپنے ساتھ پانی کی بوتل رکھیں‘ گرمی لگے توکپڑے کو گیلا کر کے سر اور گردن پر رکھیں۔ اگر کوئی شخص سن سٹروک کا شکار ہو جائے تو اس کے اوپر پانی ڈال کرکے پنکھے یا اے اسی میں لے جائیں۔ اگر بجلی نہ ہو تو ٹب میں پانی اور تھوڑی برف ڈال کر مریض کو گردن تک اس میں لٹا دیں۔ یہ بھی ممکن نہ ہو تو مریض کو ٹھنڈی پٹیاں کریں اور فوراً ہسپتال منتقل کر دیں۔
اس قیامت خیز گرمی میں کام سے زیادہ ضروری جان بچانا ہے۔ ذرا سی غفلت انسان کو موت کے منہ میں دھکیل سکتی ہے۔ ہیٹ ویو کا سلسلہ ابھی کچھ دن مزید چلے گا‘ پھر آگے مون سون شروع ہو جائے گا‘ اس لیے احتیاط برتیں اور خود کو ہیٹ ویو سے محفوظ رکھیں۔ اس گرمی میں جانوروں اور پودوں کا بھی خیال رکھیں‘ ان کو بھی پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ پانی کے برتن بھر کر گھر کی چھتوں پر رکھیں اور گھر اور گلی میں موجود پودوں اور درختوں کو باقاعدگی سے پانی دیں تاکہ وہ بھی ہیٹ ویو سے بچ سکیں۔ گلی میں موجود گارڈز‘ مالی اور ڈرائیورز کو بھی ٹھنڈے پانی کی بوتلیں دیں تاکہ وہ کام کے دوران گرمی کی شدت سے محفوظ رہ سکیں۔ میں لاہور کے ایک بلاگر کو دیکھ رہی تھی کہ وہ ٹھنڈے پانی کی بوتلیں ٹریفک پولیس اور راہگیروں میں تقسیم کر رہا تھا۔ سب اس کی نیکی پر مسرت کا اظہار کر رہے تھے۔ ہم سب بھی ایسا کرکے ہیٹ ویو کے اثرات کو وقتی طور پر کچھ کم کرسکتے ہیں۔