ہمارے ملک کو جو مسائل دہائیوں سے درپیش ہیں‘ وہ آج تک حل طلب ہیں۔ ہر وہ چیز جو ملک اور عوام کے فائدے میں ہے‘ اس کو یہاں سیاست کی بھینٹ چڑھا دیا جاتا ہے۔ پاکستان کی دو بڑی سیاسی جماعتیں پیپلز پارٹی اور اے این پی ڈیموں کی مخالفت کرتی رہی ہیں۔ اب جب مون سون بارشوں کے پانی سے فائدہ اٹھانے کا وقت آیا ہے تو وہ پانی ڈیموں اور آبی ذخائر میں سٹور ہونے کے بجائے سیلاب کی صورت ملک کے شمالی اور میدانی علاقوں میں تباہی مچاتے ہوئے گزر رہا ہے۔ہمارے مقابلے میں بھارت بڑے ڈیم‘ بیراج‘ کینال اور چھوٹے آبی ذخائر بناتا رہا جبکہ پاکستان میں ڈیم سیاست کی نذر ہوگئے۔ یہاں کسی حکومت کو کچھ احساس ہی نہیں۔ ویسے بھی یہاں دو‘ تین سال سے زائد حکومت چلتی نہیں اور اوسطاً ڈھائی سال بعد وزیراعظم کو ایوانِ وزیراعظم سے نکال کر اٹک یا اڈیالہ جیل بھیج دیا جاتا ہے‘ اس لیے ہر حکومت کی نظر وقتی معاملات تک محدود رہتی ہے۔ جو معاملات ہماری قومی سلامتی سے براہِ راست جڑے ہوئے ہیں‘وہ بھی سرد خانے کی نذر ہو جاتے ہیں۔ اب قیمتی پانی ضائع ہورہا ہے مگر حکومت سیاست میں مصروف ہے۔ اس وقت دریاؤں میں طغیانی ہے اور پانی قریبی بستیوں میں داخل ہو رہا ہے۔ جہاں دریا نہیں ہیں‘ وہاں نالوں‘ ندیوں پر تجاوزات کی وجہ سے اربن اور فلیش فلڈنگ کی صورتحال پیدا ہو جاتی ہے۔ یہ پانی رہائشی علاقوں اور بازاروں میں داخل ہوکر شہریوں کا کروڑوں کا نقصان کرتا ہے۔ یہ مناظرہم سالہا سال سے دیکھ رہے ہیں‘ تاہم آج تک یہ مسائل حل نہیں ہوسکے۔
گزشتہ دنوں میں مارگلہ روڈ کی طرف سے گزررہی تھی‘ جو ایونیو ای الیون میں شادی ہالزکے سامنے ہے‘ اس سے بارش کا پانی تیزی سے گاڑیوں اور موٹر سائیکل سواروں پر گررہا تھا۔ جس نے بھی یہ پل بنایا وہ شاید نکاسی ٔ آب کا بندوبست کرنا بھول گیا۔ پانی پوری طاقت سے پل سے نیچے گررہا تھا اور کتنے ہی شہری‘ خصوصاً جو موٹرسائیکل سوار‘ انتظار کررہے تھے کہ کب بارش رکے اور وہ دوبارہ سفر کا آغاز کریں۔پانی کی طاقت اتنی زیادہ تھی کہ موٹرسائیکل سوار پھسل رہے تھے۔ یہی پانی قریبی ایف نائن پارک کو سیراب کرسکتا ہے مگر یہاں کسی کو واٹر مینجمنٹ کی پروا ہی نہیں ہے۔
انڈس بیسن کے قیمتی پانی کا بھی یہی حال ہے‘ دریائوں پر تجاوزات بنالی گئی ہیں‘ پانی کی سٹوریج کا کوئی نظام نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ پانی آبادیوں میں داخل ہوجاتا ہے۔گزشتہ چند روز سے مون سون کی بارشوں کا سلسلہ جاری ہے۔ ان بارشوں نے حکومت کے تمام انتظامات کا پول کھول دیا ہے۔ کراچی‘ لاہور‘ اسلام آباد‘ راولپنڈی اور پشاور سمیت سب شہروں میں بارش کی وجہ سے پانی کھڑا ہو گیا۔ اسلام آباد چونکہ پلاننگ کے ساتھ بسایا گیا ایک جدید شہر ہے‘ لہٰذا یہاں بہت کم ایسا ہوتا تھا کہ سیلابی صورتحال پیدا ہوجائے لیکن اگر انتظامیہ کام نہیں کرے گی یا ندی نالوں پر تجاوزات کی اجازت دے گی تو وہی صورتحال پیدا ہوسکتی ہے جو چند سال قبل ای الیون میں پیدا ہوئی تھی۔ ہر شہر کی انتظامیہ کا یہ فرض ہے کہ وہ مون سون کے آغاز سے پہلے ہی ندی نالوں کو صاف کرائے‘ بند گٹر کھلوائے تاکہ بارشوں کا پانی جمع نہ ہو۔ اس طرح عوام کیلئے ایڈوائزری جاری کرے تاکہ وہ بھی اپنے گھروں اور کام کی جگہوں کوبارش سے محفوظ رکھنے کے انتظامات کرلیں۔ نیز دورانِ بارش بجلی کے کھمبوں اور ٹرانسفارمرز سے دور رہیں۔ کپڑوں کو سکھانے یاپتنگ بازی میں دھاتی تار کا استعمال مت کریں۔ بجلی کے آلات کو بغیر چپل اور گیلے پیروں کیساتھ مت چھوئیں۔ تیز بارش کے دوران ندی نالوں کو کراس کرنے سے پرہیز کریں۔ بچوں کو ندی نالوں میں نہانے سے منع کریں۔ خراب موسم میں شمالی علاقہ جات کا سفر مت کریں۔ کتنے ہی سیاح بارش اور سیلابی کیفیت کی وجہ ناران اور چترال میں پھنس گئے۔ ناران میں ہوٹل مالکان نے سیاحوں کو کمرے مفت مہیا کر دیے مگر اتنی خوش اخلاقی ہر جگہ نہیں ہوتی‘ لہٰذا بارشوں میں پکنک اور ٹرپ وغیرہ پلان نہ کریں۔ بارش کے دوران گھر کی گھنٹی کو بھی لکڑی یا کسی پلاسٹک سٹک کی مدد سے بجائیں۔ بہت سے لوگ اسی وجہ سے برسات میں کرنٹ لگنے کا شکار ہوتے ہیں۔ علاوہ ازیں ڈوبنے اور ٹریفک حادثات بھی اس موسم میں عام ہو جاتے ہیں۔ ہر انسان کی جان قیمتی ہے‘ آگاہی اور بہتر انتظامات سے موسمِ برسات کو زحمت کے بجائے ایک ایسے موسم میں تبدیل کیا جاسکتا ہے جس میں پکوان کھائے جائیں اور بارش انجوائے کی جائے۔ حکومت کچھ نہیں کررہی تو عوام خود واٹر مینجمنٹ کریں‘ بارش کے پانی کو محفوظ کریں اور اس سے اپنی گاڑی‘ ٹیرس اور گیراج وغیرہ کو دھوئیں یا پودوں کو پانی دیں۔
جب تک پانی کو ذخیرہ کرنے کیلئے چھوٹے‘ بڑے پروجیکٹس نہیں بنائے جائیں گے سیلاب کا خدشہ منڈلاتا رہے گا۔ ہم موسمیاتی تبدیلیوں کی زد میں ہیں‘ اور ان کا مقابلہ مزید درخت اور جنگلات اُگا کر ہی کر سکتے ہیں۔ اس کے ساتھ سولر‘ ونڈ اور ہائیڈرو پاور کا استعمال کرکے سستی بجلی بھی پیدا کرسکتے ہیں۔ ڈیم بنانے کے پیسے نہیں‘ تالاب بنانے کے تو ہوں گے‘ چھوٹے تالابوں اور مصنوعی جھیلوں میں ہی پانی جمع کرلیں۔ جن علاقوں میں زیادہ بارشیں ہورہی ہیں‘ وہاں پانی کو محفوظ کرنے کے بعد اسے زرعی آبپاشی کیلئے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ مجھے افسوس ہورہا ہے کہ ناران میں دریا میں طغیانی کی وجہ سے سیاح اب وہاں نہیں جاسکتے۔ اگر بہتر انتظامات کیے جائیں تو مئی سے ستمبر تک بھرپور سیاحت ہوسکتی ہے لیکن کسی کی توجہ ہی نہیں ہے۔ ایک بارش ہوتی ہے تو شہر تالاب کا منظر پیش کرنے لگتے ہیں۔ یہ مسئلہ وائپر لے کر ٹک ٹاک بنانے سے حل نہیں ہوگا۔ اس کا مستقل تدارک یہ ہے کہ پانی کو ذخیرہ کرنے کی جگہ ہو اور نکاسیٔ آب کا نظام کارآمد ہو۔ تاہم یہ دونوں ہی معاملات ہمارے ملک میں زبوں حالی کا شکار ہیں۔
2022ء میں ساڑھے تین کروڑ آبادی کو سیلاب نے متاثر کیا تھا اور پانی کئی مہینوں تک ملک کے ساحلی علاقوں میں کھڑا رہا تھا۔ وہ لوگ جو کہتے تھے کالا باغ ڈیم بنانے سے انڈس ڈیلٹا ختم ہوجائے گا‘ یہ سب انہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ پانی تو ہر جگہ موجود تھا۔ جو منصوبے سیاست کی نذر ہوگئے‘ اگر آج بن گئے ہوتے تو بجلی بھی سستی ہوتی اور ہر سال سیلاب کا خطرہ بھی نہ ہوتا۔ ہر سال ایک ہی جیسی خبریں آتی ہیں؛ تیز بارش سے غریب شہری کے مکان کی چھت گرگئی‘کیونکہ اس کے پاس پیسے ہی نہیں تھے کہ چھت پکی کرا لیتا۔ لینڈ سلائیڈنگ سے سیاحوں نے رات سڑک پر گزاری کیونکہ ان کو کسی نے آگاہ ہی نہیں کیا کہ اس موسم میں سیاحت ٹھیک نہیں۔ سیاح پائوں پھسلنے سے ڈوب گیا کیونکہ اسے ریاست نے تیراکی کی تربیت ہی نہیں دی۔ اردگرد لوگ وڈیوز بناتے رہے کیونکہ ان کو ابتدائی طبی امداد یا ہنگامی حالت میں کیا کرنا ہے‘ اس کی ٹریننگ سے محروم رکھا گیا۔ آسمانی بجلی گرگئی‘ متعدد افراداور مویشی جان سے گئے کیونکہ ان کو کسی نے بروقت آگاہی نہیں دی کہ محفوظ مقام پر چلے جائو۔ بارش کے ساتھ ہی بجلی بھی چلی گئی کیونکہ بوسیدہ ترسیلی نظام تیز ہوا اور بارش کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ یہ ہی خبریں ہم نجانے کب سے سن رہے تھے اور خدا جانے کب تک سنتے رہیں گے کیونکہ حکومت مون سون کی بارشوں کے دوران عوام کے کام کرنے میں دلچسپی ہی نہیں رکھتی۔ جو اپنے مطلب کا بل ہوتا ہے‘ وہ ایک ہی دن میں قومی اسمبلی اور سینیٹ سے پاس ہو جاتا ہے‘ جو کام نہیں کرنا‘ وہ چالیس سال بھی گزر جائیں تو نہیں کریں گے۔ اب بارش‘ آندھی میں درخت گر جائیں‘ کوئی کچی چھت آن گرے یا اڑاتا ہوا بل بورڈ گرے‘ کسی کھمبے سے کرنٹ لگ جائے‘ کسی کی نئی گاڑی انڈر پاس میں ڈوب جائے‘ حکومت کو کیا فکر۔ اس میں اربابِ حکومت کی کیا غلطی ہے‘ وہ تو صرف حکومت کرنے آئے ہیں۔ غلطی تو آپ کی ہے کہ آپ یہاں پیدا ہوئے اور اس موسم میں گھر سے باہر ہی کیوں نکلے۔