پہلے ملک میں شاذ و نادر ہی موبائل نیٹ ورک یا انٹرنیٹ بند کیا جاتا تھا۔ اگر کبھی ہوتا بھی تھا تو بہت مجبوری کے حالات میں‘ لیکن اب تو انٹرنیٹ اور موبائل نیٹ ورک کی بندش ایک معمول بن گئی ہے‘ اور کوئی بھی اس بندش کی ذمہ داری لینے کو تیار نظر نہیں آتا۔ گزشتہ روز سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی نے ملک میں انٹرنیٹ کی سست روی پر تشویش کا اظہار کیا تو سیکرٹری انفارمیشن ٹیکنالوجی نے اعتراف کیا کہ قومی سلامتی کو درپیش خطرے کی صورت میں انٹرنیٹ سروس بند کی جاتی ہے مگر ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کے چیئرمین نے یہ بھی تسلیم کیا کہ انٹرنیٹ کو سست کرنے کی کوئی پالیسی نہیں ہے۔ یعنی ہر کوئی اپنا دامن بچا کر صاف نکلنا چاہتا ہے۔ عوام اس حوالے سے سوال کریں تو کس سے‘ کوئی بھی انہیں درست جواب دینے کو تیار نہیں۔ دیکھا جائے تو ہمارے ہاں ایک طبقہ سوشل میڈیا کی طاقت سے خائف ہے۔ سوشل میڈیا بہت سے ممالک میں انقلاب برپا کرنے کا باعث بنا ہے‘ اُن ممالک میں یہ نوجوان نسل کا سب سے بڑا ہتھیار ہے۔ شاید اسی لیے ہمارے ہاں کچھ طبقات سوشل میڈیا سے خوفزدہ نظر آتے ہیں۔ اس وقت اظہارِ رائے کی آزادی پر اتنی قدغنیں لگ چکی ہیں کہ بیشتر لوگ اب چپ رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ لیکن کیا بار بار موبائل سروس بند کرنا یا انٹرنیٹ کو سست کرنا مسائل کا حل ہے؟ یقینا اس کا جواب نفی میں ہے۔ ان مسائل کا حل صرف مذاکرات میں ہے۔ اپوزیشن سے‘ نوجوانوں سے اور دیگر ناراض طبقات سے بات کریں اور ان کے مسائل کو حل کریں۔ طاقت کے مزید استعمال سے معاملات مزید بگاڑ کا شکار ہوں گے۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس وقت ہمارے سوا دنیا کا ہر ملک ترقی کی منازل طے کر رہا ہے۔ حالیہ دنوں میں‘ جب ہمارے ہاں انٹرنیٹ کی سروسز متاثر تھیں‘ دبئی میں ایک عالمی کانفرنس منعقد ہوئی‘ ریاض میں تیز ترین میٹرو ٹرین کا افتتاح ہوا مگر ہم عملی طور پر دنیا سے کٹے ہوئے تھے۔ اس وقت ساری دنیا کے ممالک کی خواہش ہے کہ ان کے ہاں سرمایہ کاری ہو‘ وہاں سیاحت کو فروغ ملے‘ ان کا ملک دنیا کے اہم سیاحتی مقامات میں شامل ہو‘ وہاں ہر طرف امن اور خوشحالی ہو۔ ہمارے ہاں لیکن اس کے برعکس صورتحال ہے۔ شاید ہمارے ہاں اشرافیہ کو کوئی فرق ہی نہیں پڑتا۔ یہاں یہ سمجھا جا رہا ہے کہ سب کچھ خود سے ٹھیک ہو جائے گا‘ لیکن ایسا نہیں ہوگا۔ سب ٹھیک کرنے کیلئے بنیادی انسانی حقوق کی فراہمی ضروری ہے‘ مساوی مواقع ملنا اہم ہے‘ ملک میں اصل جمہوریت ہونا ضروری ہے۔
اقتصادی ترقی اور معاشی خوشحالی جیسے عوامل کسی ملک کی ترقی کے ضامن ہیں۔ وطنِ عزیز میں فی الحال ایسا کچھ نظر نہیں آرہا۔ امیر امیر تر اور مزید طاقتور ہو رہے ہیں جبکہ غریب مزید غریب ہوتے جا رہے ہیں۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ انٹرنیٹ پر کنٹرول سے سب کچھ کنٹرول کیا جا سکتا ہے‘ مگر ایسا نہیں ہے۔ انٹرنیٹ لوگوں کیلئے رابطے اور معاش کا ذریعہ ہے اور اس کی بندش سے روزانہ لاکھوں ڈالر کا نقصان ہوتا ہے۔ 2023ء کی ایک رپورٹ کے مطابق ایک گھنٹہ انٹرنیٹ بند ہونے سے آئی ٹی انڈسٹری کو نو لاکھ 10 ہزار ڈالر کا نقصان ہوتا ہے۔پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس کے مطابق 24 گھنٹے کی انٹرنیٹ بندش معیشت کو 130 ارب روپے روزانہ (جی ڈی پی کا 0.57 فیصد) کا نقصان پہنچاتی ہے۔ صرف 2023ء میں انٹرنیٹ پابندیوں کی وجہ سے مجموعی نقصان 65 ارب روپے تک پہنچ گیا جس نے کاروبار‘ فری لانسرز اور بین الاقوامی صارفین کے ساتھ تعلقات کو متاثر کیا۔رواں برس یہ نقصان 85 ارب تک پہنچنے کا اندیشہ ہے۔انٹرنیٹ معلومات کے حصول کا ذریعہ اور کام کرنے میں معاونت دینے والا ایک ٹول بن چکا ہے۔ انٹرنیٹ کی بندش کے باعث عوام کو کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ نہ تو کوئی فائل اَپ لوڈ ہو پاتی ہے اور نہ ہی ڈاؤن‘ جس کی وجہ سے انسان ورک فرام ہوم کی سہولت سے بھی فائدہ نہیں اٹھا سکتا۔ تین چار سال پہلے تک پاکستان کے نوجوانوں کو 'ففتھ جنریشن واریئر‘ کہا جاتا تھا لیکن اب صورتحال اس کے برعکس ہے۔ پالیسیوں میں اتنی تیزی سے آنے والی تبدیلی نے سب کچھ اتھل پتھل کر دیا ہے۔ ذہن سازی ایک وقت طلب کام ہے‘ جسے سخت اقدامات سے تیز نہیں کیا جا سکتا۔ ایسا تحمل مزاجی ہی سے ممکن ہے۔ ملک میں انٹرنیٹ کی بندش کے باوجود کوئی فائدہ نہیں ہو رہا‘ کیونکہ حکومت یہاں لوگوں کی آواز بند کر سکتی ہے مگر بیرونِ ملک مقیم لاکھوں پاکستانی جو بات کرتے ہیں‘ اس کا کیا حل نکالا جائے گا؟ شنید ہے کہ حکومت نے سائبر کرائم ترمیمی بل کا ابتدائی مسودہ تیار کرلیا ہے جس کے تحت فیک خبر دینے والے کو پانچ سال قید یا 10 لاکھ روپے جرمانے کی سزا ہوگی۔فیک نیوز‘ پروپیگنڈا اور سائبر کرائمز کے تدارک کیلئے قانون سازی اچھی بات ہے لیکن اس کا اصل فائدہ تبھی ہوگا جب ایسے قوانین کا استعمال صرف کرمنلز کے خلاف کیا جائے اور حکومت مخالف سماجی کارکنان‘ صحافی یا محض اپوزیشن والے ہی اس کی زد میں نہ آئیں۔
انٹر نیٹ کی بندش سے آن لائن ٹیکسی سروس بھی متاثر ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں روزگار کے مواقع کم ہونے کے باعث عوام کی ایک بڑی تعداد اس شعبے کے ذریعے حصولِ رزق کیلئے کوشاں ہے مگر انٹرنیٹ کی سست روی اور بندش سے لوگوں کا ذریعہ معاش متاثر ہوتا ہے اور لوگوں کو آمد و رفت میں بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اسی طرح آن لائن گراسری سٹورز اور فوڈ ڈلیوری والے بھی متاثر ہوتے ہیں۔ اس کے ساتھ بہت سے چھوٹے کاروبار انسٹاگرام کی مدد سے چل رہے ہیں‘ انٹرنیٹ کی بندش ان کو بھی متاثر کرتی ہے۔ جبکہ کوریئر سروسز اور آن لائن بینکنگ بھی متاثر ہو تی ہے جس کی وجہ سے لوگوں کو بینکوں کا رُخ کرنا پڑتا ہے جس میں بہت سا وقت صرف ہوتا ہے۔نیز کوئی شعبہ ایسا نہیں جو موجودہ دور میں انٹر نیٹ کی بندش سے متاثر نہیں ہوتا۔ طب‘ تعلیم‘ تجارت‘ فضائی سروسز‘ ٹیلی کام‘ میڈیا‘ کون سا ایسا شعبہ ہے جس کا انحصار انٹرنیٹ پر نہیں ہے؟
ملک میں نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد فری لانسنگ کے شعبے سے منسلک ہے لیکن انٹرنیٹ سروسز کی سست روی کی وجہ سے وہ اپنا کام بروقت مکمل نہیں کر پاتے جس کی وجہ سے انہیں نئے آرڈرز کے حصول میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اگر حکومت نوجوانوں کیلئے روزگار کے نئے مواقع پیدا نہیں کر سکتی تو ایسے حالات بھی پیدا نہیں کیے جانے چاہئیں جن سے اُن کا روزگار متاثر ہو۔ اسی طرح سے بہت سے لوگوں کا ذریعہ معاش یوٹیوب ہے‘ وہ اس پلیٹ فارم سے معقول آمدن حاصل کر رہے ہیں۔ انٹرنیٹ سروسز کی معطلی کی صورت میں وہ اپنا کانٹینٹ اَپ لوڈ نہیں کرپاتے۔ فیس بک‘ انسٹاگرام اور ٹویٹر (ایکس)کی تو بات ہی نہ کی جائے کہ ان کی مونٹائزیشن پاکستان میں ممکن ہی نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں پے پال اور اسٹرائپ موجود نہیں‘ نہ ہی حکومت اس معاملے میں کوئی دلچسپی رکھتی ہے۔ بھارت میں آئی ٹی کا شعبہ کتنا پھل پھول رہا ہے اور یہاں انٹرنیٹ کی سست روی کی وجہ سے آئی ٹی کا شعبہ کس نہج پر پہنچ گیا ہے۔
انٹرنیٹ تفریح کا بھی ایک بڑا ذریعہ ہے۔ پہلے حکومت کی طرف سے ہر شہر میں لوگوں کی تفریح کیلئے لوک میلوں کا اہتمام کیا جاتا تھا‘ لیکن اب یہ سلسلہ بہت محدود ہو چکا ہے۔ اس لیے لوگ مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو اپنے تفریح کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ وہ اس پر فلمیں اور ڈرامے دیکھتے ہیں مگر انٹرنیٹ بند ہونے سے وہ اس تفریح سے بھی محروم ہو جاتے ہیں۔ حکومت کو یہ سمجھنا چاہیے کہ انٹرنیٹ کی بندش مسائل کا حل نہیں ہے۔ انٹرنیٹ سماجی رابطے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے‘ اس کی معطلی لوگوں میں خوف اور بے چینی پیدا کرتی ہے۔ضروری ہے کہ اس حوالے سے کوئی بہتر حکمت عملی اپنائی جائے۔ ہر بندہ سوشل میڈیا پر افواہیں نہیں پھیلاتا‘ جن لوگوں کا روزگار اس سے جڑا ہوا ہے‘ ان کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے۔