"KMK" (space) message & send to 7575

ناشائستگی اور جمہوریت میں فرق ہونا چاہیے

وہ شاید مسلم لیگ ن میں میرا واحد دوست سیاستدان ہے۔ نام لکھنا ضروری نہیں۔ اس گئے گزرے اور روز بروز انحطاط کی جانب مائل سیاسی اخلاقی اقدار کے دور میں اس جیسے لوگوں کا دم غنیمت ہے۔ وہ ایک مہذب اور وضعدار آدمی ہے۔ گر اس روٹ لیول سے اٹھ کر اوپر آیا ہے اور پاکستانی سیاست کے دائو پیچ سے آگاہ ہے۔ اس میں اور بھی مثبت صلاحیتیں ہیں مگر فی الحال ’’فنافی السیاست‘‘ ہے۔ لہٰذا دیگر صلاحیتوں سے استفادہ ممکن نہیں ہے۔ ہماری دوستی کا آغاز محض ایک ملاقات سے ہوا۔ ملاقات کروانے والا درمیان سے نکل گیا اور میری اس سے دوستی چل پڑی۔ یہ دوستی کا معاملہ بھی عجیب ہوتا ہے۔ مجھے دوسروں کا تو پتہ نہیں مگر میرے ساتھ کم از کم یہ معاملہ صرف عجیب نہیں بلکہ عجیب تر ہے۔ میرے اکثر دوست ایسے ہیں جن سے ملاقاتوں کا آغاز کسی اور دوست کے ذریعے شروع ہوا اور ایک دن پتہ چلا کہ نیا شخص ہمارا دوست بن چکا ہے اور اس سے ملاقات کروانے والا ہمارا پرانا دوست نہ صرف درمیان سے بلکہ کسی حد تک ہماری زندگی سے ہی نکل چکا ہے۔ ہر شخص کا کوئی نہ کوئی کام ہوتا ہے‘ شاید اس دوست کا کام صرف یہی تھا کہ وہ ہم سے اپنے ایک دوست کی ملاقات کروائے اور خود درمیان میں سے نکل جائے۔ میرے ساتھ ایسے معاملات کی شرح اسی فیصد سے زیادہ ہے کہ میرے جتنے قریبی دوست ہیں ان کو مجھ سے ملانے والے دوست غائب ہوچکے ہیں، عرصے سے رابطے میں نہیں یا راستہ تبدیل کرچکے ہیں۔ میں اپنے ان تمام دوستوں کا ہمیشہ دل سے شکرگزار ہوں کہ وہ مجھ سے ایسے لوگوں کو ملا گئے جو آج میرے دل کے نہایت قریب ہیں اور میرے لیے عمر بھر کا اثاثہ ہیں۔ اب ہم دونوں نے ایک دوسرے کو بلکہ زیادہ مناسب یہ ہے کہ میرے اس سیاست دان دوست نے مجھے برداشت کرنا سیکھ لیا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ ہماری باہمی دوستی میں زیادہ نہیں بلکہ تقریباً سارا کریڈٹ اس کی قوت برداشت اور تحمل کو جاتا ہے‘ مجھ میں ان دونوں چیزوں کی مقدار نامناسب حد تک کم ہے۔ جاوید ہاشمی نے جب مسلم لیگ ن چھوڑی تو میں نے ایک کالم لکھا جس میں میں نے جاوید ہاشمی کے اس اقدام کو مسلم لیگ ن کی قیادت بلکہ یوں کہیں کہ میاں صاحبان کے رویے کا نتیجہ اور ردعمل قرار دیا۔ میرے اس مسلم لیگی دوست کو میرے اس کالم پر سخت اعتراض تھا مگر جیسا کہ میں پہلے کہہ چکا ہوں وہ ایک متحمل، بردبار اور روادار آدمی ہے لہٰذا اس نے میرے کالم پر فون کرکے احتجاج تو کیا مگر اس کا طریقہ کار نہایت ٹھنڈا ٹھار تھا۔ وہ میرے باقی سارے کالم بھول گیا ہے مگر یہ والا کالم اسے یاد ہے اور وقتاً فوقتاً اس حوالے سے پھلجھڑیاں چھوڑتا رہتا ہے۔ کوئی دوست علیل ہوجائے وہ مجھ سے پوچھے گا کہ کیا اس کی بیماری میں ہمارا (مسلم لیگ ن کا) کوئی عمل دخل ہے یا یہ معاملہ اس بار براہ راست قدرت سے منسلک ہے؟ جاوید ہاشمی کے ساتھ کوئی اونچ نیچ ہوجائے تو وہ مجھ سے پوچھے گا کہ کیا اس بار بھی ملبہ ان پر یعنی مسلم لیگ پر گرے گا یا یہ ذمہ داری میں کسی اور پر بھی ڈالوں گا؟ وہ اس معاملے کو دل پر لیے بیٹھا ہے اور موقع ملتے ہی ایک آدھ جملے میں اپنا احتجاج ریکارڈ کروا دیتا ہے۔ اس کا یہ طریقہ احتجاج نہایت مہذب ہے اور ایک ایک دو دو جملوں کی نہایت چھوٹی چھوٹی قسطوں میں نشر ہوتا ہے لہٰذا کبھی بدمزگی کی نوبت نہیں آئی۔ اسے معلوم ہے کہ میرا اور جاوید ہاشمی کا تعلق دوستی کا نہیں احترام کا ہے کہ اس کا مرحوم چھوٹا بھائی مختار ہاشمی میرا دوست تھا۔ کل رات اس مسلم لیگی دوست کا ایس ایم ایس آیا جس کو من و عن لکھ رہا ہوں: ’’کیا جاوید ہاشمی نے یہ دن دیکھنے کے لیے مسلم لیگ ن چھوڑی تھی کہ اسے اس کی اپنی پارٹی کے لوگ ہی ذہنی اور جسمانی مریض کہیں۔ڈیئر خالد! یہ الفاظ پی ٹی آئی کے عمر چیمہ نے استعمال کیے ہیں۔ کیا تم یہ سوچ سکتے ہو کہ اس نے یہ بات گریٹ خان کی اجازت کے بغیر کی ہے؟؟ میرا خیال ہے کہ اس کے دوست ہونے کے حوالے سے ہم سب کو اس غیر اخلاقی رویے پر آواز اٹھانی چاہیے‘‘۔ جیسا کہ میں پہلے لکھ چکا ہوں میرا یہ مسلم لیگ ن کا سیاست دان دوست فنا فی السیاست ہے اور میاں صاحبان کا متوالا ہے۔ ممکن ہے اس ایس ایم ایس میں اس نے جاوید ہاشمی سے محبت کے بجائے پی ٹی آئی سے سیاسی اختلافات کو ذہن میں رکھ کر یہ بات لکھی ہو مگر میں دوستوں کے بارے میں خوش گمان آدمی ہوں اور یہ بات دوستوں کے بارے میں بدگمان ہونے سے کروڑ درجہ بہتر ہے۔ لہٰذا میں گمان کرتا ہوں کہ یہ بات اس نے پورے خلوص سے لکھی ہے تاہم یہ بات اگر کسی اور مقصد سے بھی لکھی گئی ہے تب بھی ایک سچ ہے۔ ایک ناقابل تردید سچ۔ یہ بات پڑھ کر مجھے دلی دکھ ہوا۔ جاوید ہاشمی کے بارے میں یہ ریمارکس پی ٹی آئی میں جاوید ہاشمی کے مقابلے پر پارٹی الیکشن میں صدارتی امیدوار عمر چیمہ نے انٹراپارٹی الیکشن کے لیے مقرر کئے گئے الیکشن کمشنر حامد خان ایڈووکیٹ کو تحریری درخواست میں دیئے ہیں اور لکھا ہے کہ جاوید ہاشمی کا نام مہران بنک سکینڈل اور اصغر خان کیس میں پیسے لینے والے سیاستدانوں میں شامل ہے۔ مزید یہ کہ وہ ذہنی اور جسمانی طور پر معذور ہے۔ لہٰذا اسے پارٹی انتخابات کے لیے نااہل قرار دیا جائے۔ الیکشن کمشنر نے عمر چیمہ کی یہ درخواست غیر اخلاقی قرار دے کر مسترد کردی اور ان الزامات کو غیر قانونی، کردار کشی پر مبنی اور افسوسناک قرار دیا ہے۔ لیکن میرا خیال ہے کہ صرف یہی کافی نہیں۔ پی ٹی آئی کو اپنے کارکنوں کی اخلاقی تربیت پر زور دینا ہوگا۔ مجھے اپنے دوست مسلم لیگی سیاستدان کے اس جملے سے اتفاق نہیں کہ ’’کیا تم یہ سوچ سکتے ہو کہ اس نے یہ بات گریٹ خان کی اجازت کے بغیر کی ہے؟؟‘‘ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اب وقت آگیا ہے کہ عمران خان جمہوریت اور شائستگی کا فرق اپنے ورکروں کو نہ سہی مگر ذمہ داروں کو ضرور سمجھائے۔ انٹرا پارٹی الیکشن میں جو ہوا اسے ہم مناسب رویہ نہ بھی کہیں تو کم از کم اسے جمہوری رویہ کہہ کر کسی حد تک مناسب جواز پیش کرسکتے ہیں مگر شائستگی اور اخلاقیات کی پامالی جمہوریت ہرگز نہیں اور اگر یہ جمہوریت ہے تو پھر کم از کم میں اس جمہوریت پر تین حرف بھیجتا ہوں۔ جاوید ہاشمی اگر (خدانخواستہ) مکمل طور پر مفلوج بھی ہوجائے تو ایسا شخص ہے کہ جس کی جمہوری جدوجہد، ایثار، قربانی اور بہادری اسے پاکستانی سیاست میں ایک ایسا مقام و مرتبہ عطا کرتی ہے جو بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتا ہے۔ پارٹی الیکشن میں مارکٹائی، بہرحال یہ ظاہر کرتی ہے کہ لوگ اپنی ساری توانائیوں کے ساتھ الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں اور جہاں جوانی یعنی یوتھ ہوگی وہاں معاملات کا تھوڑا بے قابو ہوجانا بڑا فطری ہے مگر ذمہ دار افراد کی جانب سے غیر شائستہ رویہ اور زبان بے پناہ نقصان دہ ہے‘ پارٹی کے لیے بھی اور جمہوریت کے لیے بھی۔ ہر بدتمیزی، غیر اخلاقی رویے اور ناشائستگی جیسی بدنمائی کو جمہوریت کی پیکنگ میں لپیٹ کر کام نہیں چلایا جاسکتا۔ وقت آگیا ہے کہ ناشائستگی اور جمہوریت میں فرق کو سمجھا جائے اور سمجھایا جائے۔ اگر ایسا آج نہ کیا گیا تو کل ایسا شاید ممکن نہ رہے کہ لوگ اسے بھی جمہوریت کا حصہ سمجھنے لگ جائیں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں