"KMK" (space) message & send to 7575

محاوروں کی ایسی کی تیسی

اللہ جانتا ہے جب آئین کی دفعہ باسٹھ تریسٹھ اور جعلی ڈگری والے معاملے پر بقول چودھری شجاعت حسین ’’مٹی پائو‘‘کے مصداق مٹی پڑی ہوئی تھی تب افسوس‘ ملال اور بے بسی کی وہ کیفیت نہیں تھی جو آج ہے۔ ریٹرننگ افسران نے جس طرح ہتھوڑا مار قسم کے سوالات سے آغاز کیا اور راجہ رنجیت سنگھ کی طرح امیدواروں کی نااہلیاں کیں وہ اپنی مثال آپ تھیں۔ لیکن جس طرح عدالتوں نے بعد میں سب کو بری کر دیا وہ بھی تاریخ کا ایک انوکھا اور حیران کن باب ہے۔ سارا معاملہ دودھ کے اُبال کی طرح اُٹھا اور ایک پنجابی سنسر شدہ محاورے کے مطابق ’’پانی‘‘ کی جھاگ کی طرح بیٹھ گیا۔ ایمانداری کی بات ہے کہ آئین کی دفعہ باسٹھ تریسٹھ کی چھلنی سے جس طرح امیدوار گزر کر سرخرو ہوئے ہیں اس سے صادق اور امین کا سارا مفہوم ہی بدل کر رہ گیا ہے۔ چور‘ اُچکے‘ خائن‘ بے ایمان، نادہندہ‘ جھوٹے‘ جرائم پیشہ‘ جعل ساز‘ رشوت خور‘ بدچلن‘ بداطوار اور لوٹ مار کرنے کی شہرت والے لوگ جس طرح صادق اور امین قرار پائے ہیں اور اس فیصلے سے اصلی اور حقیقی صادق و امین لوگوں کے ساتھ ایک ہی صف میں کھڑے ہوئے ہیں‘ اس سے علامہ اقبال کا شعر نئے مفہوم کے ساتھ سامنے آیا ہے: بندہ و صاحب و محتاج و غنی ایک ہوئے! تیری سرکاری میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے! ایک شخص اپنی تعلیمی اسناد کے ساتھ جعلی ڈگری لف کرتاہے۔ ڈگری جعلی ثابت ہوتی ہے۔ وہ نااہلی سے بچنے کے لیے اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ دے دیتا ہے اور دوبارہ الیکشن میں کھڑا ہوجاتا ہے۔ فیصلہ سپریم کورٹ نے دیا ہے مگر جب وہ دوبارہ الیکشن لڑتا ہے تو پھر ایکشن نہیں لیا جاتا۔ چار سال وہ شخص اسمبلی کے مزے لوٹتا ہے۔ لوگوں کو بے عزت کرتا ہے‘ سرکاری فنڈ پر گلچھڑے اُڑاتا ہے‘ عوام کے ٹیکس سے تنخواہ اور مراعات حاصل کرتا ہے اور ا گلے الیکشن میں پھر امیدوار بن جاتا ہے۔ اب ریٹرننگ آفسر کو یاد آتا ہے کہ اس کی ڈگری جعلی ہے‘ وہ اسے نااہل قرار دیتا ہے، تین سال قید کی سزا سناتا ہے اور پانچ ہزار روپے جرمانہ کرتا ہے۔ عدالت عالیہ میں اپیل ہوتی ہے۔ وکیل صاحب قانونی موشگافیوں سے یہ ثابت کرتے ہیں کہ ان کی ڈگری جعلی نہیں۔ جعلی ڈگری وہ ہوتی ہے جو وہ خود بنائے۔ اگر وہ ڈگری کسی ادارے کی جاری کردہ ہے اور وہ ادارہ اس ڈگری کے اجرا کا اقرار کر لے تو ڈگری جعلی نہیں ہے۔ مدرسے کا مولوی عدالت میں پیش ہو کر کہتا ہے کہ یہ ڈگری ہم نے جاری کی ہے۔ معاملہ ختم ہوجاتا ہے۔ سزا کالعدم ہوجاتی ہے۔جرمانہ معاف ہوجاتا ہے۔ نااہلی منسوخ ہوجاتی ہے اور موصوف الیکشن کے لیے اہل قرار پاتے ہیں۔ امیدوار حلقے میں الیکشن مہم چلا رہا ہے اور جعلی ڈگری جاری کرنے والا مولوی مزے کررہاہے۔ اگلی اسمبلی پھر جعل سازوں‘ چوروں‘ نادہندگان‘ جرائم پیشہ‘ اچکے‘ خائن اور لٹیروں کے لیے دروازے کھولے منتظر ہے۔ اللہ سابق وزیراعلیٰ بلوچستان سردار اسلم رئیسانی کو مزید ہیوی بائیک چلانے کی اور ایک منی چینجر کی جانب سے ان کے کئی ارب روپے غتر بود کرنے کے صدمے سے نکلنے کی توفیق عطا فرمائے‘ ان کے ایک جملے کا بڑا مذاق بنا تھا ’’ڈگری ڈگری ہوتی ہے اصلی ہو یا جعلی۔‘‘ آج ان کا یہ جملہ جو ایک عرصے تک لوگوں کی تفنن طبع کا باعث بنتا رہا تھا بالکل درست ثابت ہوا ہے۔ اگر کوئی شخص کبھی مدرسے نہیں گیا‘ تعلیم حاصل نہیں کی‘ پیسے یا زورآوری سے ڈگری حاصل کرتا ہے اور ڈگری جاری کرنے والا ادارہ اقرار کرتا ہے کہ یہ ڈگری اس نے جاری کی ہے تو قانوناً اب یہ ڈگری جعلی نہیں رہی۔ ’’شہادۃ العالمیہ فی علوم الاسلامیہ والعربیہ‘‘ پرائمری کے بعد گیارہ سال کی تعلیم یعنی کل سولہ سالہ تعلیم پر مشتمل ڈگری ہے جس میں طالب علم کو ابتدائی کلاسوں میں انگریزی، حساب، سائنس وغیرہ پڑھائی جاتی ہے اور آخری سالوں میں قرآن، تفسیر، حدیث، فقہ، ترجمہ اور گرائمر کے علاوہ قدیم اور زمانہ جاہلیت کا عربی ادب تک پڑھایا جاتا ہے اور ’’دیوان حماسہ‘‘ جس میں امرائو القیس وغیرہ کی شاعری بھی پڑھائی جاتی ہے۔ ایک ایسی ہی ڈگری کے حامل شخص نے خود چیف جسٹس کی موجودگی میں سپریم کورٹ کے بنچ کو ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ اس نے حضرت نوحؑ کی لکھی ہوئی قرآن مجید کی تفسیر پڑھی ہے۔ میرا خیال ہے کہ چیف جسٹس صاحب کو اپنی ساری زندگی میں اس سے زیادہ ’’علمی‘‘ جواب سے واسطہ نہیں پڑا ہوگا۔ اب بغیر تعلیم حاصل کیے،بنا مدرسے یا تعلیمی ادارے جائے‘ بغیر کتابیں کھولے اور علم یا ادارے کی شکل دیکھے بغیر حاصل کی گئی ڈگری اصلی ہے۔ ایسی ڈگری پیش کرنے والا صادق ہے اور ایسی ڈگری جاری کرنے والا امین ہے۔ ملتان کے نواحی ضلعے سے دو بھائیوں کے کاغذات نامزدگی پر اعتراض ہوا کہ دونوں بھائیوںنے محکمہ مال کو علی الترتیب تریسٹھ لاکھ اور تیئس لاکھ ادا کرنے ہیں۔ دونوں بھائی تین چکوک کے نمبردار ہیں اور اس نمبرداری کے عوض پچھلے کئی عشروں سے آدھ مربع اراضی فی نمبرداری یعنی کل ڈیڑھ مربع اراضی سے مستفید ہورہے ہیں۔ اس نمبرداری کے عوض وہ چک کے کاشتکاروں اور زمینداروں سے آبیانہ اور کاشت کی رقم وصول کرکے سرکاری خزانے میں جمع کروانے کے پابند ہیں۔ محکمہ آبپاشی متعلقہ چک کے کاشتکاروں کی کھتونی کا شت بنا کر محکمہ مال کو دیتا ہے۔ محکمہ مال اس کھتونی کی بنیاد پر ’’ڈھال باش‘‘ تیار کرتا ہے جس میں ہر کاشتکار کے ذمہ واجب الادا آبیانہ کا حساب ہوتا ہے۔ محکمہ مال یہ ڈھال باش نمبردار کو دیتا ہے۔ نمبر دار اس کے مطابق وصولی کرکے سرکاری خزانے میں جمع کرواتا ہے۔ وہ جمع شدہ رقم کو سرکاری خزانے میں جمع کروانے کا پابند ہے اور جمع شدہ رقم کا امین ہے۔ اب دونوں ’’امین‘‘ بھائیوں نے یہ کیا کہ پچھلے تین سال میں اکٹھے کیے جانے والے تریسٹھ لاکھ اور تیئس لاکھ روپے یعنی کل چھیاسی لاکھ روپے اپنے ذاتی اکائونٹ میں ڈال لیے۔ جب کاغذات کی سکروٹنی کا وقت آیا توریٹرننگ آفیسر نے کہا کہ شام چار بجے تک چھیاسی لاکھ روپے جمع کروائیں بصورت دیگر الیکشن سے چھٹی سمجھیں۔ دونوں بھائیوں نے امانت میں خیانت کرکے گزشتہ تین سال سے دبائے ہوئے چھیاسی لاکھ روپے نااہلی کے ڈر سے نیشنل بینک کورٹ برانچ خانیوال میں جمع کروائے اور ریٹرننگ افسر سے امین ہونے کے سند حاصل کرنے کے بعد الیکشن کے لیے درکار ایمانداری کا معیار بمعہ اہلیت حاصل کرلیا۔ اب ملک عزیز میں ہر وہ شخص جس نے سرکاری پیسے‘ یوٹیلٹی بلز اور بنکوں کا قرض دبا رکھا ہے‘ اب الیکشن میں نااہلی کے خوف سے نہ چاہتے ہوئے بھی جمع کروا کر امین بننے کی سند حاصل کرسکتا ہے۔ یہ پیش کش محدود مدت کے لیے ہے ۔ اب ہر شخص جعلی ڈگری جاری کرنے والے ادارے یامولوی کو عدالت میں پیش کرکے ایک حرف پڑھے بغیر جعلسازی‘ دھوکے‘ اور جھوٹ کی بنیاد پر حاصل کی گئی اپنی ڈگری کو اصل قرار دلوا سکتا ہے بلکہ شیخ وقاص اکرم کے کیس میں اگر ڈگری جاری کرنے والے اور تصدیق کرنے والے ادارے ڈگریوں کو سراسر جعلی قرار دے بھی دیں تو عدالتیں ان کو اصلی تسلیم کرسکتی ہیں۔ ایسی صورتحال کے لیے بھی پنجاب کا ایک مناسب محاورہ موجود ہے مگر اس صورت حال میں تو پنجابی محاورے کی ایسی کی تیسی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں