"KMK" (space) message & send to 7575

چند سوالات

سیاست اور الیکشن جس رخ پر جارہے ہیں اسے کوئی احمق ہی تسلی بخش کہہ سکتا ہے۔ ہماری سیاست ہربار موقع ملنے کے باوجود بہتری کی طرف مائل ہونے پر تیار نہیں ہے۔ ظاہر ہے سیاست خود تو کوئی مادی چیز نہیں ہے۔ یہ ہمارے سیاستدانوں کے طرز عمل کا نتیجہ ہے اور ہمارے سیاستدانوں کا طرز عمل صرف بچگانہ ہی نہیں قابل افسوس ہے کہ اب بچے بھی اس طرز عمل پر سوال اٹھا رہے ہیں۔ صبح گھر میں اخباروں کا ایک پلندہ آتا ہے جسے میں اکیلا پڑھتا ہوں ۔ پہلے میری اہلیہ اس کارخیر میں میرا ہاتھ بٹاتی تھی مگر گزشتہ چھ ماہ نودن سے میں یہ کام اکیلا ہی سرانجام دیتا ہوں۔ بچوں کے نزدیک یہ لاحاصل اور فضول کام ہے۔ وہ زیادہ سے زیادہ اس چیز کے قائل ہیں کہ ٹی وی پر کسی ایک خبرنامے کی ہیڈلائنز سن لی جائیں اور بس۔ بقول ان کے خبروں میں کوئی اچھی چیز، مثبت سوچ یا بھلے کی بات کم ہی ہوتی ہے اس لیے اس کام میں وقت صرف کرنا نرا وقت کا ضیاع ہے ۔ پوری طرح نہ سہی مگر میں اب ان سے جزوی طورپر متفق ہوتا جارہا ہوں۔ گزشتہ دنوں میں نے کوشش کی کہ میرا بیٹا ایک آدھ اخبار دیکھ لیا کرے۔ انگریزی میڈیم سکول کی آٹھویں جماعت کا طالب علم اسد مسعود اردو میں بہت اچھا نہیں ہے۔ صرف اسی کا کیا کہوں انگریزی میڈیم میں پڑھنے والے اکثر بچوں کا یہی حال ہے۔ اسے اردو لکھتے ہوئے اب بھی ’’ع‘‘ اور ’’آ‘‘ کے درمیان فرق محسوس نہیں ہوتا اور وہ ان دونوں حروف کو خلط ملط کردیتا ہے۔ یہی حال س، ص اور ث کا ہے۔ وہ سب سے زیادہ تنگ ز، ذ اور ض سے ہے اوپر سے ک اور ق کا معاملہ بھی کافی ٹیڑھا ہے لہٰذا وہ املا میں کافی غلطیاں کرتا ہے جس سے اس کے نمبر کم آتے ہیں جنہیں وہ دوسرے مضامین میں لیے گئے نمبروں سے برابر کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ میں چاہتا تھا کہ وہ اردو اخبارات پڑھے۔ لگے بندھے کتابی اسباق پڑھنے کے بجائے اگر وہ اخبار پڑھے گا تو زیادہ نئے الفاظ سیکھے گا۔ ملکی صورتحال کا کچھ نہ کچھ ادراک ہوگا۔ تازہ صورت حال سے آگاہ ہوگا۔ معلومات میں اضافہ ہوگا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اردو ذخیرہ الفاظ میں بڑھوتری ہوگی۔ یہ ایک پنتھ کئی کاج والا معاملہ تھا۔ اتوار کو میں نے اسے زبردستی ایک اخبار تھما دیا اور کہا کہ وہ زیادہ نہ سہی صرف دس منٹ تک یہ اخبار پڑھے ۔ پھر میں نے ہنس کر کہا کہ محض اخبار کو سامنے رکھ کر نہ بیٹھ جانا۔ یہ ٹیسٹ ہے اور میں دس منٹ بعد تم سے یہ سنوں گا کہ تم نے کیا پڑھا ہے اور کیا سمجھا ہے ۔ وہ بادل نخواستہ اخبار لے کر بیٹھ گیا۔ دوایک منٹ کے بعد میں نے محسوس کیا کہ وہ اخبار کو واقعتاً پڑھ رہا ہے۔ اب زبردستی کا عمل ہوچکا تھا۔ مجھے تھوڑی تسلی ہوئی کہ اس کے اخبار کے ساتھ تعلقات اتنے کشیدہ نہیں رہے جس کی مجھے توقع تھی۔ اس نے پانچ سات منٹ تک وہ اخبار دیکھا پھر دوسرا اخبار اٹھالیا۔ پانچ سات منٹ بعد اس نے تیسرا اخبار دیکھا اور اس پر بھی تقریباً اتنی ہی دیر لگائی۔ پھر اس نے اخبار رکھ دیا اور میری جانب متوجہ ہوا۔ کہنے لگا۔ بابا ! پوچھیں کیا پوچھنا ہے ؟میں نے کہا پہلے تو یہ بتائو کہ پڑھنے میں کوئی دقت ہوئی ہے ؟وہ کہنے لگا مجھے پڑھنے میں نہیں بلکہ لکھنے میں مشکل پیش آتی ہے اور بعض اوقات مجھے یہ نہیں پتہ چلتا کہ ’’مذاق‘‘ کو ’’ز‘‘ سے لکھنا ہے، ’’ذ‘‘ سے لکھنا ہے یا ’’ض‘‘ سے ۔اسی طرح یہ پتہ نہیں چلتا کہ بندوق کو ’’ک‘‘ سے لکھنا ہے یا’’ق‘‘ سے۔ حتیٰ کہ مجھے ابھی تک یہ پتہ نہیں چل سکاکہ طوطاکس طرح لکھنا ہے۔ مجھے ’’ط‘‘ اور ’’ت ‘‘ کا نہیں پتہ چلتا کہ کہاں کس کو استعمال کرنا ہے تاہم پڑھتے ہوئے ایسا کوئی معاملہ یا مشکل درپیش نہیں آتی ۔وہاں ایسی کوئی مشکل نہیں کہ کہاں کیا حرف استعمال کرنا ہے جولکھا ہے وہ پڑھ لینا ہے اور میں وہ پڑھ لیتا ہوں۔ میں نے پوچھا اب یہ بتائو تم نے کیا پڑھا ہے ؟ وہ مسکرا کر کہنے لگا خبریں پڑھی ہیں۔ میں نے پوچھا کیسی تھیں ؟ جواب ملا تمام خبریں پریشان کن، بری اور خراب تھیں ۔مثلاً؟میں نے سوال کیا۔بم دھماکے ، قتل ،خوکشیاں اور دہشت گردی کی خبریں تھیں۔میں نے پوچھا کہ تم نے تین اخبار دیکھے ہیں تم کس نتیجے پر پہنچے ہو۔وہ کہنے لگا تینوں اخبار بالکل ایک جیسے تھے۔میں تو یہ سوچ کر پریشان ہورہا ہوں کہ آپ روز صبح اتنے اخبار کیسے پڑھ لیتے ہیں اور اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ آپ اتنے اخبار کیوں پڑھتے ہیں ؟میں نے کہا میں اتنے اخبار بڑے مزے سے پڑھتا ہوں اور اس لیے پڑھتا ہوں کہ یہ میرا شوق بھی ہے اور پیشہ بھی ہے۔ مجھے چیزوں کے بارے میں اپنا علم اپ ٹوڈیٹ رکھنا ہے۔ وہ پوچھنے لگا کہ کیا یہ میری مجبوری ہے ؟ میں نے کہا تمہاری بات کسی حدتک شاید درست ہو مگر یہ میرا شوق بھی ہے۔ وہ کہنے لگا آپ صرف ایک اچھا سا اخبار کیوں نہیں پڑھتے ؟ میں نے کہا پہلے تو یہ بات طے کرنا مشکل ہے کون سا ایک اخبار ’’اچھا‘‘ ہے ۔دوسری بات یہ کہ ایک اخبار خواہ کتنا بھی اچھا کیوں نہ ہو اس سے بات نہیں بنتی۔ ایک اخبار میں سب کچھ نہیں ہوتا۔ خاص طورپر کالم۔ ان کالموں کیلئے مختلف اخبار پڑھنا لازمی ہے۔ وہ ایک دو لمحے خاموش رہا ،پھر کہنے لگا، یہ کالموں والی بات میرے ذہن میں نہیں تھی وگرنہ صبح پڑھنے کے لیے ایک اخبار ہی کافی ہے کیونکہ میں نے دیکھا کہ تینوں اخباروں میں صرف خبروں کی جگہ تبدیل ہے یا الفاظ مختلف ہیں مگر خبریں ایک جیسی ہیں۔ ہرچیز ایسے ہے جیسے ایک دوسرے کی نقل ماری ہو یا ایک ہی شخص نے اپنے پاس موجود خبروں کو مختلف انداز میں لکھنے کی کوشش کی ہو۔ میں نے بات بنانے کے لیے اسے کہا کہ کئی خبریں ایسی ہوتی ہیں جو دوسرے اخبارات میں نہیں ہوتیں۔ ہراخبار میں دوچار ایسی خبریں ہوتی ہیں۔ وہ کہنے لگا ہوسکتا ہے کہ ایسا ہو مگر مجھے تو نظر نہیں آئیں ۔ میں نے کہا تم نے آخری صفحہ یا اندر کے صفحات نہیں دیکھے ۔ وہ کہنے لگا اس کا مطلب ہے کہ وہ یقینا غیر اہم خبریں ہوں گی۔ میرے پاس اس کی اس دلیل کا کوئی جواب نہیں تھا۔ پھر وہ کہنے لگا، بابا ! آپ ایک بات مجھے بھی بتائیں کہ یہ سارے سیاستدان جھوٹ کیوں بولتے ہیں ؟ ایک دوسرے کو برابھلا کیوں کہتے ہیں ؟ ایک دوسرے پر ذاتی حملے کیوں کرتے ہیں ؟یہ ایک دوسرے کو گالیاں دینے کے بجائے بجلی کے معاملے کا حل کیوں نہیں نکالتے ؟ہم سی این جی کے لیے قطار میں لگنے کے بجائے مہنگا پٹرول خریدتے ہیں ،یہ سی این جی کا مسئلہ کیوں حل نہیں کرتے ؟ میرے بھائی کو نوکری نہیں ملتی۔ یہ نوکریاں کیوں نہیں دیتے ؟یہ ایک دوسرے پر الزامات لگاتے ہیں ،خود اچھے کام کیوں نہیں کرتے؟ اگر انہوں نے پانچ سال میں کچھ کیا ہے تو وہ ہمیں نظر کیوں نہیں آتا؟ دوسال سے ہماری سڑک بوسن روڈ نامکمل پڑی ہے ،اس کو مکمل کرنا کس کی ذمہ داری ہے ؟ اور یہ سارے سیاستدان جو پڑھے لکھے، سمجھدار اور عقلمند لوگ ہیں ،تقریروں میں ایک دوسرے کو گیدڑ ، مداری، بزدل ، بھگوڑا ، ڈگڈگی بجانے والا اور اسی قسم کے دوسرے گھٹیا الفاظ سے کیوں پکارتے ہیں؟ میرے پاس اس کے کسی سوال کا جواب نہیں تھا۔ تاہم میں نے ایک فیصلہ ضرور کیا ہے کہ میں اسے اخبارات سے دور رکھوں گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں