"KMK" (space) message & send to 7575

جنوبی پنجاب اور الیکشن 2013ء

ممکن ہے کچھ لوگ میری بات سے اتفاق نہ کریں مگر یہ کوئی حیرانی کی بات نہیں ہے۔ ہر نقطۂ نظر سے عین اتفاق ممکن بھی نہیں۔ اختلاف رائے جمہوری حق سے زیادہ انسانی فطرت ہے جو قادرِ مطلق نے تنوع میں تخلیق کی ہے۔ میرا خیال ہی نہیں بلکہ یقین ہے کہ گزرے چھ سات دن سے لے کر الیکشن کے دن یعنی گیارہ مئی تک‘ صورتحال کا تمام تر فائدہ صرف اور صرف عمران خان کو ہوگا۔ ہر آنے والا دن الیکشن والے دن کی صبح تک صورتحال کو عمران خان کے حق میں بہتر کرتا رہے گا۔ نوجوانوں کو چھوڑیں کہ وہ تو اس سارے عمل کے خالق ہیں۔ اب وہ لوگ عمران خان کے بارے میں سوچ تبدیل کر رہے ہیں جو چند ماہ پہلے تک اسے محض یہ منفی کریڈٹ دیتے تھے کہ وہ میاں نوازشریف یعنی مسلم لیگ ن کے ووٹ خراب کر کے پیپلز پارٹی کی فتح کی راہ ہموار کرنے کے علاوہ اور کچھ نہیں کر پائے گا۔ اب وہ بھی اپنی اس سوچ میں ترمیم کرنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔ اب عمران خان مسلم لیگ ن یا میاں صاحبان کے ووٹ بینک پر ڈاکہ نہیں ڈال رہا۔ وہ اپنے ذاتی ووٹ بینک کا مالک ہے۔ ہر پارٹی کا ووٹ بینک صرف وہی ہوتا ہے جو اس کے پاس ہو۔ ضلع ملتان کے چھ قومی اسمبلی کے حلقوں کا حال یہ ہے کہ اب اس میں چار حلقوں میں مقابلہ تحریک انصاف اور دوسری پارٹیوں کے درمیان ہے۔ کم از کم تین حلقوں میں تحریک انصاف کا پلڑا بھاری ہے۔ ایک پر سخت مقابلہ ہے۔ ایک حلقے میں مسلم لیگ ن اور ایک حلقے میں پیپلز پارٹی کو نسبتاً اپنے حریفوں پر برتری حاصل ہے تاہم ایک بُری خبر یہ ہے پیپلز پارٹی کو جس ایک حلقے میں برتری حاصل ہے وہ حلقہ قومی اسمبلی کے ان تین حلقوں میں شامل نہیں جہاں سے سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کے دو فرزند حج کرپشن فیم عبدالقادر گیلانی اور ایفی ڈرین فیم علی موسیٰ گیلانی اور ان کا برادر خورد مجتبیٰ گیلانی عرف مجو سائیں الیکشن لڑ رہے ہیں۔ حالات و واقعات یہ بتاتے ہیں کہ گیارہ مئی کو ہونے والے انتخابات میں گیلانی خاندان کم از کم اگلے پانچ سال کے لیے پارلیمانی سیاست سے آئوٹ ہو جائے گا اور کونسلر سے ترقی کر کے وزیراعظم بن جانے والے اور انتخابی سیاست کے ’’کیڑے‘‘ سید یوسف رضا گیلانی کے لیے یہ ایک سانحے سے کم نہ ہوگا۔ تاہم یہ سانحہ صرف پارلیمانی سیاست تک محدود رہے گا باقی صورتحال سید یوسف رضا گیلانی کے لیے خاصی خوش کن ہے۔ زندگی میں پہلی بار سید یوسف رضا گیلانی اپنے الیکشن پر پلے سے پیسے لگا رہا ہے۔ یہاں اپنے سے مراد اپنے بیٹوں اور بھائی کا الیکشن ہے وگرنہ اس سے قبل یہ سارا خرچہ انویسٹرز اور سپانسرز کیا کرتے تھے لیکن برا ہو اس شہرت کا کہ اب سید یوسف رضا گیلانی کے پاس بڑے پیسے ہیں ۔سپانسرز اور انویسٹرز پیچھے ہٹ گئے ہیں ۔ نیچے سے صوبائی الیکشن لڑنے والے جب تک احمد حسین ڈیہڑ جیسے لوگ موجود تھے تو وہ اوپر والی قومی اسمبلی کے امیدوار یعنی گیلانی صاحب یا ان کے اہل خانہ کا خرچہ اٹھایا کرتے تھے مگر اب بچے بچے کی زبان پر ہے کہ یوسف رضا گیلانی کے پاس بہت پیسہ ہے لہٰذا سب سمجھدار ہو گئے ہیں اور کھلے ہاتھ والے احمقوں نے بھی ہاتھ کھینچ لیا ہے۔ شنید ہے کہ اب الیکشن کمیشن کے لیے کرائے پر حاصل کی گئی گاڑیوں کی ادائیگی بھی گیلانی خاندان کو پلے سے کرنا پڑ رہی ہے۔ وہ بھی کیا خوب دن تھے جب سید یوسف رضا گیلانی کی ساری الیکشن مہم مانگے تانگے کی گاڑیوں میں اِدھر اُدھر سے ڈلوائے گئے پٹرول اور ڈیزل پر چلائی جاتی تھی۔ لیکن اس وقت سید یوسف رضا گیلانی ایک پھٹیچر سی جیپ پر ہوتے تھے اب ماشاء اللہ ان کے بچے اپنی ’’ذاتی آمدنی‘‘ سے بلٹ پروف گاڑی بمعہ ڈیوٹی امپورٹ کر سکتے ہیں اور دنیا کی چند بہترین کاروں میں سے ایک کار ’’بینٹلے‘‘ پر چڑھے پھرتے ہیں۔ بینٹلے کی قیمت ایک لاکھ پچھتّرہزار ڈالر سے شروع ہو کر تقریباً تین لاکھ ڈالر تک بغیر ڈیوٹی کے ہے پاکستانی کرنسی میں اس کی کم از کم قیمت بغیر ڈیوٹی پونے دو کروڑ ہے۔ ڈیوٹی ڈال کر یہ تین کروڑ روپے کے لگ بھگ بن جاتی ہے۔ یہ قیمت میں نے محض اس لیے لکھی ہے کہ سید یوسف رضا گیلانی کے حاسدین کی کم از کم آج کی رات کی نیند کا مزا خراب کیا جائے۔ وگرنہ مجھے کیا پڑی تھی کہ قیمتوں کی تحقیق کے چکر میں پڑتا۔ بات تحریک انصاف کے حوالے سے ہو رہی تھی۔ ضلع ملتان کے چھ میں سے صرف دو حلقے ایسے ہیں جہاں تحریک انصاف براہ راست مقابلے میں نہیں ہے تاہم وہاں بھی اس کے امیدوار جو انتخابی سیاست کے حوالے سے بالکل نووارد اور غیر معروف ہیں حتیٰ کہ ان کے حلقے کے لوگوں کو بھی ان کا نام معلوم نہیں مگر صرف اپنے انتخابی نشان ’’بلے‘‘ کے باعث پندرہ بیس ہزار ووٹ حاصل کر لیں گے۔ ضلع وہاڑی کی چار میں سے کم از کم دو سیٹوں پر مقابلہ تحریک انصاف کے امیدوار سے ہے۔ ضلع لودھراں کی دونوں سیٹوں پر تحریک انصاف کے امیدوار مقابلے کی دوڑ میں نہ صرف براہِ راست شریک ہیں بلکہ کم از کم ایک حلقے میں پی ٹی آئی کو فی الوقت برتری حاصل ہے۔ خانیوال کی ایک سیٹ پر تحریک انصاف کا امیدوار اب اس مقام پر ہے کہ پیپلز پارٹی چھوڑ کر ن لیگ میں آنے والا ممبر قومی اسمبلی مشکل میں ہے۔ روز بروز اب صرف تحریک انصاف ہی فائدے میں جائے گی۔ جو لوگ یہ کہتے تھے کہ ہم تحریک انصاف کو ووٹ دے تو دیں مگر فائدہ کوئی نہیں، ہمارا ووٹ ضائع چلا جائے گا، تحریک انصاف کے امیدوار نے کون سا جیتنا ہے، اب وہی لوگ تبدیل شدہ صورتحال کو دیکھ کر وہی کچھ کرنے جا رہے ہیںجو ان کے دل کی آواز تو تھی مگر وہ ایک خوف کے مارے ہوئے تھے۔ اب وہ خوف دور ہوتا جا رہا ہے اور ایسے لوگ تحریک انصاف کی جانب پلٹ رہے ہیں۔ ڈانواڈول‘ خوف زدہ‘ ووٹ ضائع جانے کے شک میں مبتلا اور محض وفاداری کے نام پر ایک پارٹی سے جڑے رہنے والے لوگ صورتحال قطعی تبدیل کر سکتے ہیں اور یہ ساری تبدیلی تحریک انصاف کے حق میں جا رہی ہے۔ جنوبی پنجاب کی مجموعی صورتحال کم از کم پیپلز پارٹی کے لیے مجموعی طور پر بری ہے۔ سوائے ضلع رحیم یار خان کے جہاں بنیادی فرق صرف مخدوم احمد محمود کے باعث ہے ،پیپلز پارٹی اپنے تمام مضبوط مورچوں پر خراب صورتحال میں ہے۔ بہاولپور میں اسے محض ایک سیٹ پر برتری ہے۔ ضلع مظفر گڑھ جو منی لاڑکانہ تھا اب اس کی صرف ایک سیٹ پر گرفت مضبوط ہے ۔دو پر مقابلہ ہے۔ لیہّ میں اسے اطمینان بخش صورتحال کا سامنا ہے۔ ڈیرہ غازی خان میں صرف سیف کھوسہ کی سیٹ پر کچھ امید کی جا سکتی ہے ،صرف اُمید! جنوبی پنجاب میں پیپلز پارٹی کم از کم پچھلی بار کے مقابلے میں محض ساٹھ فیصد سیٹوں پر کامیاب ہو رہی ہے اور چالیس فیصد سیٹیں اس کے ہاتھ سے جا رہی ہیں۔ ملتان‘ ڈیرہ غازی خان مسلم لیگ ن کے ہاتھ سے نکل رہا ہے۔ ضلع وار تفصیل اگلے کالم میں۔ فی الحال صرف یہی بات اہم ہے کہ تحریک انصاف بہت سے روایتی حلقوں میں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے برج الٹ رہی ہے مگر اس بات پر شورو غوغا صرف میاں صاحبان کر رہے جس سے تاثر یہ بن رہا ہے کہ تحریک انصاف سے اصل خوف صرف مسلم لیگ ن کو ہے۔ یہ بات کسی حد تک تو درست ہو سکتی ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ نوجوان ووٹر قطع نظر اس بات کے کہ اس کے بڑے ،مسلم لیگی ہیں یا پیپلئے ہیں ،عمران کی طرف ہیں۔ نقصان میں پیپلز پارٹی بھی ہے مگر شور صرف میاں صاحبان مچا رہے ہیں۔ زرداری صاحب حسب معمول خاموش ہیں۔ ایسے موقعوں پر چپ اور خاموش رہنے والے شخص کے لیے بہت کچھ کہا جا سکتا ہے‘ مگر آج رہنے دیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں