"KMK" (space) message & send to 7575

اِک آگ کا دریا ہے اور تیر کے جانا ہے

تنخواہ داروں کی بات اور ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ سیاسی پنڈتوں کے سارے اندازے غلط ثابت ہوئے ہیں۔ یہ بات تو طے شدہ تھی کہ پیپلزپارٹی کا اقتدار غروب ہورہا ہے اور مسلم لیگ ن بطور اکیلی سب سے بڑی سیاسی پارٹی کے طورپر سامنے آئے گی لیکن اس بات پر تجزیہ نگاروں کا ’’اجماع امت ‘‘تھا کہ مسلم لیگ کے پاس حکومت بنانے کے لیے درکار نشستیں بہرحال نہیں ہوں گی۔ تجزیہ نگاروں کے نزدیک مسلم لیگ ن نوے سے ایک سو سیٹوں کے لیے فیورٹ تھی۔ ایک معلق پارلیمنٹ کے بارے میں بات شکوک سے کہیں آگے تھی اور مستقبل میں پارلیمنٹ کے استحکام کے بارے میں ایک مکمل بے یقینی کی صورت حال تھی۔ مسلم لیگ ن کے اکیلی بڑی پارٹی ہونے کے بارے میں تقریباً تمام لوگ متفق تھے مگر اتنی نشستوں کی توقع کسی کو بھی نہ تھی۔ میاں صاحب کی بات دوسری ہے کہ وہ تو دوتہائی اکثریت اور کلین سویپ کی بات کررہے تھے۔ نتائی توقعات سے کسی حدتک مختلف ہیں مگر یہ فرق جمہوری حوالے سے بڑا مثبت اور سیاسی استحکام کے لیے بڑا مُمدومعاون ہے۔ نیا سیاسی منظر نامہ شاید اتنا مشکل نظر نہیں آرہا مگر معاشی صورتحال بڑی خوفناک ہے۔ بجلی کا مسئلہ اپنی جگہ پر ہے ۔ نیا این ایف سی ایوارڈ ایک اور پنڈورابکس ہوگا اور جنوبی پنجاب وبہاولپور کے بطور ایک نئے صوبے کی تشکیل کا معاملہ ایسے معاملات ہیں جو حل ہونے چاہئیں مگر یہ کام جوئے شیر لانے کے مترادف ہوگا ۔ پیپلزپارٹی کی حکومت جاتے جاتے آنے والوں کے لیے کچھ تو ایسے مسائل چھوڑ گئی ہے جو اسے بھی ورثے میں ملے تھے تاہم اپنے پانچ سالہ دور حکومت میں اس نے ان مسائل کو حل کرنا تو ایک طرف رہا ،بیسیوں گنا بڑھا دیا۔ لوڈشیڈنگ ، اندرونی وبیرونی حکومتی قرضے، سرکلر ڈیٹ یعنی بجلی کے سیکٹر میں گردشی قرضہ اس کی صرف چندمثالیں ہیں۔ ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے اور جاتے جاتے کسانوں کے لیے ٹیوب ویل کے لیے بجلی کے رعایتی شرح آٹھ روپے فی یونٹ اسی قسم کے مسائل ہیں۔ کسان پچھلے کئی ماہ سے ٹیوب ویلوں کے بجلی کے بل ادا نہیں کررہے۔ پنجاب میں سب سے زیادہ ٹیوب ویل ہیں اور پنجاب میں چار ڈسٹری بیوشن کمپنیوں میں سب سے زیادہ زرعی کنکشن میپکو میں ہیں ۔لاہور، فیصل آباد اور گوجرانوالہ کی ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کے مقابلے میں میپکو میں زرعی کنکشن تینوں کمپنیوں کے مجموعی زرعی کنکشنوں سے بھی زیادہ ہیں۔ میپکومیں اس وقت زرعی کنکشنوں یعنی کسانوں سے اربوں روپے کی وصولی التوا میں ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ بجلی کی مد میں بلوں کی وصولی کا مسئلہ وفاقی حکومت سے جڑا ہوا تھا اور پنجاب حکومت نہ صرف یہ کہ اس رقم کی وصولی سے لاتعلق تھی بلکہ بل نہ دینے کے سلسلے میں کسانوں کی باقاعدہ حوصلہ افزائی کررہی تھی۔ گویا وہ اس طرح مرکز میں حکمران پیپلزپارٹی اور اس کے اتحادیوں کو خوار کرنا چاہتی تھی۔ بلوں کی وصولی میں ناکامی کے بعد واحد طریقہ یہ رہ جاتا ہے کہ نادہندہ کا کنکشن کاٹ دیا جائے ۔واپڈا کی ایسی تمام کاوشیں کسانوں نے ڈنڈے کے زور پر روک دیں۔ اب اس کام پر عملدرآمد کا واحد حل یہ رہ جاتا ہے کہ بذریعہ ریاستی طاقت یہ وصولی کی جائے یا کنکشن کاٹے جائیں ۔اس کام کے لیے صوبائی حکومت کی مدددرکار ہوتی ہے کہ پولیس صوبائی حکومت کا ماتحت ادارہ ہے مگر پنجاب حکومت نے مرکزی حکومت کو اس سلسلے میں کوراجواب دے دیا اور اس کی وجہ صرف اور صرف سیاسی چپقلش اور ایک دوسرے کو تنگ کرنا تھا۔ اوپر سے پیپلزپارٹی حکومت نے جاتے جاتے زرعی کنکشنوں پر اربوں روپے کی سبسڈی کا اعلان کردیا۔ پیپلزپارٹی کی حکومت نے زرعی کنکشنوں پر دی جانے والی رعایت پر خود تو عمل نہ کیا مگر اب یہ معاملہ آنے والی حکومت کے گلے میں ہڈی بن جائے گا۔ اگر نئی حکومت یہ رعایتی نرخ قبول کرے تو پاور سیکٹر میں ہونے والا خسارہ اور اس کے نتیجے میں گردشی قرضہ مزید بڑھ جائے گا اور رعایتی نرخ کی منسوخی یا واپسی ایک اور مصیبت کھڑی کردے گی۔ سب سے بڑا فراڈ جو جاتے جاتے پیپلزپارٹی آنے والوں کے لیے کر گئی ہے وہ پاک ایران گیس پائپ لائن کا معاملہ ہے ۔ یہ منصوبہ ایک اعشاریہ تین بلین ڈالر کا ہے ۔ پاکستانی روپوں میں یہ رقم تقریباً ایک کھرب تیس ارب روپے کے قریب بنتی ہے۔ اتنے پیسے نہ ایران کے پاس ہیں اور نہ پاکستان کے پاس ۔ ایران کا عالم یہ ہے کہ یوکرین سے خریدی گئی گندم جس کی رقم اربوں ڈالر نہیں کروڑوں ڈالر تھی ،ادا نہیں کرسکی اور اس کی نادہندہ ہوگئی۔ یہی حال بھارت سے درآمد کیے گئے چاولوں کے سلسلے میں ہوا اور ایران بھارت کو بھی ادائیگی نہ کرسکا۔ یہ حال ایرانی معیشت کا بھی ہے جس کے پاس زرمبادلہ کے ذخائر خود اس کی ضروریات کے لیے ناکافی ہے۔ پاکستانی معیشت کا حال بھی اگر ایران جیسا نہیں تو اس سے کوئی خاص بہتر بھی نہیں ہے۔ پاکستان کے پاس اس وقت محض دواڑھائی ماہ کی درآمدات کے لیے زرمبادلہ موجود ہے۔ حکومت اپنے معاملات چلانے کے لیے مقامی بینکوں سے ہزاروں ارب روپے قرض لے کر گزارہ چلاتی رہی ہے اور نئی حکومت سرسے پائوں تک قرض میں ڈوبی ہوئی ہے ،وہ مقامی بینکوں کا ہویا عالمی معاشی اداروں کا، حالات صرف برے نہیں بہت برے ہیں۔ اب اس گیس پائپ لائن کے لیے عالمی اور مقامی بینکوں سے قرض کا معاملہ باقی رہ جاتا ہے مگر عالمی معاشی ادارے امریکی پابندیوں کے ڈر سے اس معاملے پر سوچنا بھی گناہ سمجھتے ہیں۔ دوست عرب ملک امریکی آشیرباد کے بغیر اس سلسلے میں پاکستان کو دوروپے بھی نہیں دے گا۔ اوجی ڈی سی یعنی آئل اینڈ گیس ڈویلپمنٹ کمپنی لمیٹڈ گردشی قرضے کے باعث خود معاشی تباہی کے کنارے پر ہے۔ نیشنل بینک اس معاملے پر ای سی سی کو اپنی معذوری سے آگاہ کرچکا ہے۔ اب صورت حال یہ ہے کہ پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے کا افتتاح ہوچکا ہے۔ صدر زرداری صاحب اس منصوبے کا کریڈٹ بھی لے چکے ہیں مگر یہ سارا منصوبہ محض ہوا میں تعمیر شدہ محل سے زیادہ اہمیت کا حامل نہیں ہے کہ اس منصوبے پر عمل ہونا تقریباً ناممکنات میں سے ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ اگر مسلم لیگ کی نئی حکومت اس منصوبے پر عملدرآمد کے لیے ہاتھ پائوں مارکرکہیں سے کچھ بندوبست کربھی لے تو امریکی پابندیاں لگ جائیں گی اور اس کے ساتھ ہی دیگر عالمی طاقتیں بھی امریکی تقلید میں ہمارامعاشی بائیکاٹ کردیں گی اور فی الوقت ہم ایسی کسی پابندی کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ اگر اس منصوبے کو ختم کرتے ہیں تو ایک اور مصیبت ہے کہ شور مچ جائے گا کہ مسلم لیگ کی حکومت نے پاکستان کے مفاد میں کیا جانے والا ایک عظیم منصوبہ ختم کردیا ہے۔ ’’نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن ‘‘ والا معاملہ ہے۔ پیپلزپارٹی جاتے جاتے آنے والی حکومت کے لیے مسائل کا ایک انبار چھوڑ گئی ہے۔ معاملات کیونکہ ہاتھ سے نکلتے جارہے تھے اس لیے پیپلزپارٹی والے پچھلے ایک عرصے سے ان معاملات کو درست کرنے کے بجائے اپنے ذاتی معاملات کو درست کرنے میں مصروف تھے۔ ان حالات کے پیش نظر پیپلزپارٹی الیکشن 2013ء میں شاید سیریس بھی نہیں تھی۔ یہ محض ایک دومعاملات تھے ،اس طرح کے بے شمارمعاملات ہیں جو آنے والی حکومت کو ورثے میں ملیں گے۔ ’’اک آگ کا دریا ہے اور تیر کے جانا ہے‘‘۔ دعا ہے کہ نئی حکومت ورثے میں ملنے والے مسائل اور ان مسائل کے باعث ظہور میں آنے والے اسی قسم کے دیگر بے شمار مسائل سے عہدہ برآہوسکے۔ اس کے لیے ترجیحات قائم کرنا ہوں گی۔ بلوچستان کے مسئلے کا سیاسی اور دیرپا حل، بجلی اور گیس کے مسائل ، مہنگائی ، ڈرون حملے، دہشت گردی، امن وامان ،غرض ایک لمبی فہرست ہے۔ یہ بات طے ہے کہ اب اس سلسلے میں راستہ بنائے بنا معاملات چل نہیں سکیں گے۔ یہ ناممکنات میں سے نہیں ہے۔ اخلاص اور لگن سے یہ راستہ بنایا جاسکتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں