"KMK" (space) message & send to 7575

بقیہ اگلے کالم میں

چودھری سرور میرا یونیورسٹی فیلو ہے ہم دونوں بہاء الدین زکریا یونیورسٹی میں ایک ہی سیشن میں زیر تعلیم تھے۔ سرور فارمیسی ڈیپارٹمنٹ اور میں بزنس ایڈمنسٹریشن میں تھا۔ دونوں شعبے اولڈ کیمپس تھے لہٰذا روز کا ملنا معمول تھا۔ ہم دونوں سیاسی طور پر دو مختلف طلبہ تنظیموں سے وابستہ تھے اور بڑے متحرک بھی تھے۔ وہ جامعہ زکریا کی سٹوڈنٹس یونین کا جوائنٹ سیکرٹری بھی منتخب ہوا تھا۔ یونیورسٹی سے فارغ ہونے کے کچھ عرصہ بعد وہ امریکہ آ گیا۔ پھر تقریباً پچیس سال تک ہماری ملاقات نہ ہوئی۔ گزشتہ سے پیوستہ سال میں امریکہ آیا تو ایک دو دوستوں نے بتایا کہ پیپلز پارٹی نیویارک کا صدر جامعہ زکریا والا چودھری سرور ہے میں تب واپس پاکستان جا رہا تھا لہٰذا سرور سے ملاقات نہ ہو سکی۔ گزشتہ سال امریکہ آیا تو ایک دوست سے اس کا نمبر لیا اور فون کیا مگر آگے ریکارڈنگ لگی ہوئی تھی میں نے اپنا پیغام ریکارڈ کروایا مگر رابطہ نہ ہو سکا۔ اس بار میں نے نیویارک ایئرپورٹ پر اترتے ہی اسے فون کیا۔ میں نے بتایا کہ میں خالد مسعود بول رہا ہوں۔ پھر میں نے درمیان میں گزرے ہوئے پچیس سال کے عرصے کو مدنظر رکھتے ہوئے پوچھا کہ کیا وہ مجھے پہچان گیا ہے؟ جواباً اس نے ایسی پکی نشانی بتائی کہ ہم دونوں کا ہنس ہنس کر برا حال ہو گیا۔ ایک طویل عرصے کے بعد یہ ایک خوشگوار ابتدا تھی۔ اس نے مجھ سے میرا پروگرام پوچھا اور ملاقات پر زور دیا۔ میں نے اسے بتایا کہ فی الحال میں نیو جرسی جا رہا ہوں اور تقریباً دو ہفتے بعد نیویارک آئوں گا۔ اس دوران میرا اس سے مسلسل رابطہ رہا اور بالآخر ہم لانگ آئی لینڈ نیویارک کے مشاعرے میں مل ہی گئے۔ اس کا وزن بھی میری مانند خاصا بڑھ چکا تھا۔ ہم گلے مل کر دیر تک ایک دوسرے سے لپٹے رہے۔ یونیورسٹی میں قیام کے دوران کبھی بھی ایک دوسرے کو اس محبت سے نہیں ملے تھے جس طرح پردیس میں پچیس سال بعد مل رہے تھے۔ مشاعرہ تو بس مل بیٹھنے کا بہانہ تھا وہ مجھ سے میرے دوسرے کلاس فیلو دوستوں کا نام لے کر پوچھتا رہا۔ ملتان کے دیگر دوستوں کا ذکر ہوتا رہا اور یونیورسٹی کے گزرے ہوئے دنوں کی باتیں ہوتی رہیں۔ زمانہ طالب علمی میں چودھری سرور کا تعلق این ایس ایف سے تھا اور بعدازاں وہ ’’جیالا‘‘ بن گیا۔ اس نے اپنی زندگی کا سنہری دور جیالے پن کی نذر کردیا۔ وہ جیالوں کی اس قبیل سے ہے جن کا جینا مرنا ’’بھٹوئوں‘‘ کے لیے ہوتا ہے۔ وہ نیویارک پیپلز پارٹی کا صدر تھا اور بڑا متحرک اور مخلص صدر تھا مگر اب پیپلز پارٹی کے نئے دور میں اخلاص کے معیار بدل گئے ہیں۔ سرور نے نیویارک میں پارٹی کی خاطر اپنے کاروبار کی پروا کی اور نہ گھر پر وہ توجہ دی جس کے دونوں حقدار تھے۔ اس کے ساتھ بھی وہی ہوا جو پیپلز پارٹی کے باقی مخلص اور بے لوث کارکنوں کے ساتھ ہوا تھا۔ اسے پاکستان سے آئی ہوئی اوورسیز پیپلز پارٹی کی کھڑپینچ فوزیہ حبیب کی ناراضگی کا سامنا کرنا پڑا۔ ساری عمر پارٹی کے لیے جدوجہد کرنے والا سرور یہ نہ سمجھ سکا کہ اب بے نظیر بھٹو کا نہیں آصف زرداری کا دور ہے اور اس دور میں بے نظیر سے اور بھٹو سے وفاداری خوبی نہیں شاید خامی بن چکی ہے۔ فوزیہ حبیب جو زرداری صاحب کی عزیزہ ہے سرور سے ناراض ہو گئی اور ظاہر ہے زرداریوں کا چراغ ہی جلنا تھا۔ چودھری سرور کو معطل کردیا گیا۔ تنظیم توڑ دی گئی مگر سرور اب بھی جیالا ہے اور زوردار جیالا ہے۔ میں مشاعروں سے فارغ ہوا تو حسب معمول نیویارک برادر عزیز شوکت فہمی کے پاس آ گیا کہ دو چار دن اس کے ساتھ نہ گزارے تو یوں لگے گا کہ میں امریکہ آیا ہی نہیں۔ سرور سے یہ بات طے تھی کہ جب میں واپسی پر نیویارک آئوں گا تو کہیں مل کر بیٹھیں گے۔ میں ڈیٹرائٹ تھا جب اس سے طے پایا کہ ہم پرسوں دوپہر کا کھانا اکٹھے کھائیں گے۔ سرور نے کھانے کا اہتمام ایک ترک ریستوران میں کیا تھا۔ میں اس ریستوران میں تین سال قبل ڈاکٹر عبدالرحمان عبد کی دعوت پر آ چکا تھا۔ میں اور شوکت فہمی جب ریستوران میں پہنچے تو سرور چھ سات دوستوں کے ہمراہ ہمارا منتظر تھا۔ ٹریفک جام کی وجہ سے مجھے آمد میں تاخیر ہو گئی تھی۔ وہاں پہنچ کر پتہ چلا کہ سینیٹر اعتزاز احسن بھی آ رہے ہیں۔ اعتزاز ا حسن اپنے بیٹے کی شادی کے سلسلے میں امریکہ آئے ہوئے ہیں۔ کھانا شروع ہوا تو باتیں بھی شروع ہو گئیں۔ چودھری اعتزاز احسن بڑی فارم میں تھے۔ کھانے پر نیویارک میں مقیم صحافی محسن ظہیر بھی موجود تھے۔ ایک سوال کے جواب میں اعتزاز احسن کہنے لگے کہ زرداری اور میاں نوازشریف کے سیاسی جوڑ توڑ میں بنیادی فرق یہ ہے کہ زرداری صاحب نے گزشتہ پانچ سال کے دوران سیاستدانوں اور سیاسی پارٹیوں سے ڈیل کی ہے جبکہ میاں نوازشریف نے عدلیہ اور الیکشن کمیشن سے ڈیل کی ہے۔ اگر موجودہ حکومت اور الیکشن کمیشن حالیہ الیکشن کے شفاف ہونے پر یقین رکھتے ہیں تو انہیں عمران کی صرف چار حلقوں میں انگلیوں کے نشانات نادرا سے چیک کروانے کے مطالبے پر اعتراض کرنے کے بجائے عمل کرنا چاہیے تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے۔ چودھری اعتزاز احسن ڈھکے چھپے لفظوں میں نہیں بلکہ کھلے لفظوں میں کہہ رہے تھے کہ حالیہ انتخابی نتائج ہرگز شفاف نہیں اور باقاعدہ گٹھ جوڑ کا نتیجہ ہیں۔ اعتزاز احسن کے نزدیک اس وقت ملک کا سب سے بڑا مسئلہ طالبان ہیں اور پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ ان سے نپٹنا ہے لیکن اس کے لیے جس یکسوئی اور فیصلہ کرنے کی صلاحیت کا تعلق ہے اس کا موجودہ حکمرانوں میں فقدان ہے کیونکہ وہ کسی نہ کسی صورت میں طالبان سے ہمدردی رکھتے ہیں۔ انہوں نے اپنی حکومت کے پانچ سالوں میں اس مسئلے پر ناکامی پر کوئی بات نہ کی۔ ایک سوال کے جواب میں وہ کہنے لگے کہ چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ کے سلسلے میں دائر درخواستوں کی روشنی میں اُن کی مدت ملازمت میں کوئی توسیع نہیں ہوگی۔ جہاں تک ان کی بائیس ماہ کی اس مدت کا تعلق ہے جس کے دوران وہ غیر فعال یا معطل رہے وہ اس بائیس ماہ کی مدت کے برابر اپنی ملازمت میں توسیع اس لیے نہیں لے سکیں گے کہ وہ بذات خود ایک کیس میں اس قسم کی مدت معطلی کے خلاف فیصلہ دے چکے ہیں۔ اعتزاز احسن نے بتایا کہ ڈاکٹر شعیب سڈل کو جب مرتضیٰ بھٹو کیس کے بعد معطل کیا گیا تو انہوں نے بحالی کے بعد اپنی معطلی کے عرصہ کو ریٹائرمنٹ کے وقت عدالت عظمیٰ میں چیلنج کردیا۔ اس اپیل پر اس وقت کے چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر نے ڈاکٹر شعیب سڈل کو ان کے عرصۂ معطلی کے برابر ریٹائرمنٹ کی عمر میں توسیع دے دی۔ چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر کی ریٹائرمنٹ کے بعد جب افتخار محمد چودھری نے چیف جسٹس کا منصب سنبھالا تو انہوں نے ڈاکٹر شعیب سڈل کی ریٹائرمنٹ کی عمر میں اس توسیع کے حکم کو معطل کردیا۔ اب بھلا وہ خود ا س عرصہ معطلی کو کس طرح اپنی مدت ملازمت میں شامل کر کے ریٹائرمنٹ کی عمر میں توسیع لے سکتے ہیں جس کے بارے میں وہ خود حکم جاری کر چکے ہیں کہ ریٹائرمنٹ کی عمر میں کسی قسم کی توسیع نہیں ہو سکتی کیونکہ یہ واضح طور پر عمر کے ساتھ منسلک ہے۔ ویسے بھی سپریم کورٹ کے ججز کی ریٹائرمنٹ کی عمر پینسٹھ سال ہے اور یہ عمر آئین میں درج ہے اور اس میں تبدیلی ممکن ہی نہیں۔ رہ گئی دوسری درخواست جس میں ضیاء الحق کے دور حکومت میں سپریم کورٹ کے ججوں کی ریٹائرمنٹ کی عمر اڑسٹھ سال کرنے کی جس تجویز کو بنیاد بنایا گیا ہے وہ بھی ناقابل عمل ہے کہ اس سے صرف اور صرف افتخار محمد چودھری ہی کو فائدہ ہوگا اور اس کے نتیجے میں دوسرے کئی جج ان سے پہلے ریٹائر ہو جائیں گے۔ بھلا بقیہ جج اس بات پر کیسے راضی ہوں گے؟ وہ ایسا فیصلہ کیوں کریں گے جس میں فائدہ صرف ایک جج کو ہو؟ بقیہ اگلے کالم میں!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں