"KMK" (space) message & send to 7575

اگر حکمران سنجیدہ ہوں تو…!

بسا اوقات کالم لکھنا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔ معلومات موجود ہیں، ثبوت میسر ہیں، پورے کالم کا نقشہ ذہن میں ہے مگر بعض پابندیوں کے باعث سب کچھ لکھنا ممکن نہیں رہتا۔ کہیں معاملہ ملکی سلامتی کا آجاتا ہے تو کہیں سکیورٹی کا۔ کہیں معاملہ اخباری پالیسی کا آجاتا ہے اور کہیں اخبار کی ان کہی مجبوریوں کا۔ لہٰذا کوشش کی جاتی ہے کہ بات کو کسی نہ کسی سلیقے سے قارئین تک پہنچا دیا جائے لیکن بعض اوقات تو یہ سلیقہ بھی نہیں سوجھتا۔ آج بھی یہی معاملہ ہے؛ تاہم پہلے سلیقے سے لکھنے کا نمونہ ہوجائے! میں چار جولائی کو ملتان سے پی آئی اے کی پرواز پی کے 658- کے ذریعے رات تقریباً ڈیڑھ پونے دو بجے اسلام آباد پہنچا۔ پرواز روایت کے عین مطابق لیٹ تھی اور پی آئی اے والوں نے بھی حسب معمول تاخیر کی اطلاع دینے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ پرواز کی روانگی کا وقت آٹھ بجکر پچاس منٹ تھا۔ میں آٹھ بجے سے پہلے ائیرپورٹ پہنچا تو پتہ چلا کہ پرواز تاخیر سے روانہ ہوگی؛ چنانچہ پرواز تقریباً سوا گیارہ بجے رات چلی۔ میں اور کئی دوسرے مسافر تقریباً ساڑھے تین گھنٹے لائونج میں بیٹھے رہے۔ یہ ساری باتیں قابل تحریر ہیں اور بڑی سہولت سے لکھی جاسکتی ہیں۔ اصل بات آگے ہے جب ہم اسلام آباد کے ہوائی اڈے پر اترے۔ اس پرواز میں ملتان سے ہمارے ہمراہ جاوید ہاشمی تھے۔ لاہور سے شاہ محمود بھی اسی جہاز میں سوار ہوئے۔ ہم اسلام آباد ائیرپورٹ پر اترے تو مسافروں کے لیے بس آگئی۔ وی آئی پیز کو لینے کیلئے وین آئی۔ ابھی جاوید ہاشمی اور شاہ محمود قریشی سٹیٹ لائونج جانے کے لیے اس وین کی طرف بڑھے ہی تھے کہ ایک نوجوان بھی اس وین کی جانب آگے بڑھا۔ ایک ملازم نے اس کا بیگ پکڑا۔ وہ نوجوان وین میں بیٹھا اور وین اس اکیلے نوجوان کو لے کر یہ جا وہ جا ہوئی۔ جاوید ہاشمی اور شاہ محمود وہیں کھڑے کے کھڑے رہ گئے۔ میں نے وہاں موجود پی آئی اے کے عملے کے ایک فرد سے پوچھا کہ یہ نوجوان کون تھا؟ اس نے مجھے اس نوجوان کا حدود اربعہ بتایا۔ یہ نوجوان خود کچھ بھی نہیں تھا۔ بس ایک بہت بڑی شخصیت کا وہ بیٹا تھا جو اس کے لیے محض چند ماہ پہلے باعث شرمندگی و خجالت بنا تھا۔ پروٹوکول کا یہ عالم تھا کہ دو ’’حاضر سروس‘‘ ایم این اے کھڑے رہ گئے اور وہ اکیلا وین میں بیٹھ کر روانہ ہوگیا حالانکہ وین میں دس بارہ لوگوں کی جگہ تھی۔ مگر یہ پاکستان ہے۔ جہاں ایسی باتوں پر انگلی بھی نہیں اٹھائی جاسکتی مگر سلیقے سے بہرحال ڈھکا چھپا کچھ نہ کچھ لکھا جاسکتا ہے مگر جس موضوع پر میں آج لکھنا چاہتا ہوں وہ اتنا پریشان کن اور حساس ہے کہ مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ اس پر کس طرح لکھوں۔ کہاں سے شروع کروں اور کہاں ختم۔ یہ ایک نہایت ہی ہلاکت خیز، جان لیوا اور مہلک زہر کے بارے میں ہے جو نہایت سہولت اور آسانی سے دستیاب ہے اور اس کا کوئی تریاق بھی نہیں ہے۔ میں نہ اس کا عام فہم نام لکھ سکتا ہوں نہ ہی اس کا سائنسی نام۔ ایک ایسے ملک میں جہاں روزانہ بیسیوں لوگ غربت اور بے روزگاری کے باعث خودکشیاں کررہے ہوں ایک سستے، آسانی سے دستیاب اور یقینی موت کا باعث بننے والے اس زہر کے بارے میں کچھ بھی لکھنا سنگین غلطی ہوگی جس کا مداوا ممکن نہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ لوگوں کو اب آہستہ آہستہ اس زہر کے بارے میں جانکاری ہورہی ہے۔ اس زہر سے خودکشی کرنے والوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔ خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ابھی اس زہر کے بارے میں لوگوں کو آگاہی بہت ہی کم ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ ہماری میڈیکل سائنس کو بھی اس زہر کے بارے میں زیادہ آگاہی نہیں؛ البتہ اس زہر کے باعث مرنے والوں کا تناسب بہت زیادہ ہے۔ ناقابل یقین حد تک زیادہ۔ مجھے اس زہر سے آگاہی چند ماہ پیشتر ہوئی جب میں اپنے ایک دوست ڈاکٹر کے پاس گیا۔ ڈاکٹر پریشان بیٹھا تھا۔ میرا یہ دوست ڈاکٹر اپنے جذبات پر غیر معمولی کنٹرول رکھتا ہے اور عموماً ہمیں اس کے چہرے سے اس کی اندرونی کیفیت کا اندازہ نہیں ہوتا مگر اس روز وہ باقاعدہ پریشان تھا۔ وجہ پوچھی تو وجہ پریشانی یہی زہر تھا۔ ڈاکٹر بتانے لگا کہ وہ وارڈ میں گیا تو ایک اچھا بھلا صحت مند نوجوان بیڈ پر بیٹھا ہوا ہے۔ چارٹ دیکھا تو وجہ زہر خورانی تھی۔ ڈاکٹر نے اردگرد پڑے زہر خورانی کے دوسرے مریضوں کی طرف دیکھ کر ساتھ کھڑے جونیئر ڈاکٹر سے پوچھا کہ یہ نوجوان اچھا بھلا ہے یہ یہاں کیوں ہے؟ جونیئر ڈاکٹر نے نہایت آہستگی سے کہا: سر! یہ مرنے والا ہے۔ ڈاکٹر نے حیرانی سے پوچھا‘ یہ اچھا بھلا صحت مند نظر آرہا ہے اور تم کہہ رہے ہو کہ مرنے والا ہے۔ جونیئر ڈاکٹر کہنے لگا: سر! یہ زہر کھانے والا کوئی مریض ہمارے علم میں نہیں کہ زندہ بچا ہو۔ اس نے ’’فلاں‘‘ زہر کھا لیا ہے۔ یہ نام ڈاکٹر کے لیے بالکل نیا تھا۔ اندازہ کریں ایک سینئر پروفیسر اس زہر سے، اس کی ہلاکت خیزی سے اور لاعلاج ہونے سے لاعلم تھا۔ وجہ صرف یہ ہے کہ پاکستان میں اس خاموش زہر پر سرے سے نہ کوئی کام ہوا ہے اور نہ ہی اس کا کوئی تریاق دریافت ہوا ہے؛ تاہم خوش قسمتی سے ابھی لوگوں کی بڑی تعداد کو آسانی سے دستیاب اس سم قاتل کے بارے میں زیادہ علم نہیں۔ ڈاکٹر نے اپنے جونیئر ڈاکٹر سے پوچھا کہ ایسے کیس ان کے پاس کب سے آرہے ہیں۔ جونیئر ڈاکٹر نے وارڈ میں نئے آنے والے اپنے سینئر کو بتایا کہ اس وارڈ میں ایسے کیس پچھلے کئی سال سے آرہے ہیں اور اس طرح اچھے بھلے صحت مند نظر آنے والے نوجوان چوبیس گھنٹوں کے اندر اندر مر جاتے ہیں۔ پوچھا کہ اس کا کوئی علاج یا تریاق ہے۔ جواب ملا ابھی تک دریافت نہیں ہوا۔ ویسے بھی ہمارے ہاں تحقیق کا دروازہ عرصے سے بند ہے اور یہاں پر مرنے والے کیونکہ، عموماً غریب اور عام انسان ہوتے ہیں اس لیے ان کے لیے تحقیق جیسی مشقت کون کرے۔ صرف کمبائنڈ سول اینڈ ملٹری ہسپتال کھاریاں میں اس زہر کے بارے میں ایک سٹڈی ملتی ہے۔ یکم جولائی 2009ء سے تیس دسمبر 2010ء تک باون متاثرہ مریضوں کی سٹڈی کی گئی۔ مریضوں کی اوسط عمر 25سال تھی جس میں سے باون فیصد خواتین تھیں۔ تمام مریض زہر خورانی کے چار گھنٹوں کے اندر اندر ہسپتال پہنچا دیئے گئے تھے۔ باون میں ستائیس خواتین تھیں اور پچیس مرد تھے۔ متاثرہ مریضوں میں سے پینتالیس مریض جاں بحق ہوگئے۔ مرنے کا تناسب چھیاسی اعشاریہ پانچ فیصد تھا۔ زندہ بچ جانے والوں میں پانچ مریض ایسے تھے جنہوں نے محض ایک گولی کھائی تھی اور دو ایسے تھے جنہوں نے دو گولیاں کھائی تھیں۔ ان میں سے ایک بھی ایسا نہیں تھا جس نے دو سے زیادہ گولیاں کھائی ہوں اور وہ زندہ بچ گیا ہو۔ یہ ہلاکت خیز زہر بازار سے بآسانی دستیاب ہے۔ بے شمار گھروں میں موجود ہے نہایت سستا ہے اور اسے حاصل کرنا اتنا ہی آسان ہے جتنا مچھر مار دوا لینا یا کیڑے مکوڑے مارنے کا سپرے خریدنا۔ ویسے تو حکومت کو چاہیے کہ وہ غریبوں اور بے روزگاروں کی بے روزگاری اور غربت دور کردے تاکہ مغرب کی مانند یہاں ان دو عوامل کے باعث ہونے والی خودکشیاں بند ہوجائیں مگر فی الحال یہ امر ناممکن نظر آتا ہے کہ حکمرانوں کی اپنی صدیوں کی بھوک اور غربت ختم ہونے میں نہیں آرہی۔ عام انسان پر کون توجہ دیتا ہے مگر یہ تو ممکن ہے کہ اس دوا نما زہر پر پابندی لگا دی جائے اور اس کی درآمد اور تیاری غیرقانونی قرار دے دی جائے جو اس دوا کا اصل کام ہے اس کے لیے کوئی متبادل بندوبست کیا جائے اور اگر یہ بھی نہ ہو، تب بھی اس پر پابندی لگائی جائے کہ انسانی جان سے بڑھ کر قیمتی شے روئے زمین پر کوئی نہیں۔ اگر ہم ایک جان بھی بچا سکیں تو یہ روز قیامت ہماری شفاعت کا باعث ہوگی۔ سورہ مائدہ کی آیت نمبر بتیس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’’جس نے ایک انسان کی زندگی بچائی گویا اس نے ساری انسانیت کی جان بچائی۔‘‘ صاحب اولاد حکمران اگر جینے کے وسائل نہیں دے سکتے تو کم از کم مرنے کی سہولتیں تو کم کرسکتے ہیں۔ اگر حکمران اس بارے میں سنجیدہ ہیں تو انہیں اس زہر کے بارے میں مکمل آگاہی اور معلومات دی جاسکتی ہیں۔ بشرطیکہ وہ سنجیدہ ہوں!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں