"KMK" (space) message & send to 7575

دیوسائی‘ شیوسار اور حیاتِ جنگلی

بچوں کو رات زبردستی جلد سلا دیا گیا۔ صبح ایک لمبا اور خوبصورت سفر درپیش تھا۔ استور سے سکردو براستہ دیوسائی۔ دیوسائی گلگت بلتستان کے ضلع سکردو میں واقع میدانوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے۔ یہ صرف میدان نہیں بلکہ دنیا کے دوسرے بلند ترین میدان ہیں۔ چین کے علاقے تبت میں واقع ’’چانگ تانگ‘‘ کی سطح مرتفع کی دوسری بلند ترین سطح مرتفع۔ دیوسائی کا مطلب ہے ’’دیوئوں کی سرزمین‘‘۔ تین ہزار مربع کلو میٹر سے زائد رقبے پر پھیلے ہوئے میدانوں کا یہ سلسلہ سطح سمندر سے اوسطاً چار ہزار ایک سو چودہ میٹر یعنی تقریباً تیرہ ہزار پانچ سو فٹ بلند ہے اور اپنی وسعت کے اعتبار سے دنیا کے بلند ترین میدان ہیں۔ میلوں تک ایک جیسا منظر ہے۔ پہاڑ اور میدان۔ ایک میدان عبور کریں تو آگے پھر ویسا ہی ایک میدان۔ نیا آدمی اگر سڑک پر نہ ہو تو راستہ بھول جائے کہ ایک جیسا منظر بار بار اپنے آپ کو دہراتا ہے۔ دیومالائی قصوں جیسا علاقہ۔ سبزے سے بھرا ہوا اور سرخ رنگ کے چھوٹے چھوٹے پھولوں سے لدا ہوا۔ یہ سرخ پھول درحقیقت پھول کے بجائے پھول کا نوزائدہ بچہ لگتا ہے۔ محض آدھ انچ سے بھی کہیں چھوٹا۔ مگر کروڑوں کی تعداد میں ہیں تو دور سے سرخ تختے کی طرح بچھے نظر آتے ہیں۔ تاحد نظر سبزے میں سرخ رنگ کے قالین نما پھولوں کے تختے۔ یہ منظر دنیا میں کہیں اور نہیں دیکھا جا سکتا۔ یہ صرف دیوسائی میں ہی ممکن ہے۔ صبح سویرے استور سے روانہ ہوئے تو دریائے استور ہمارے بائیں ہاتھ پر تھا۔ ہم استور سے تری شنگ کی طرف جانے والی سڑک پر تھے۔ گوری کوٹ سے تھوڑا بعد ہم نے دریا کو پل کے ذریعے عبور کیا اور چلم نالے کے ساتھ ساتھ سفر شروع کردیا۔ نیلے رنگ کا یہ پہاڑی نالہ دیوسائی سے آتا ہے۔ یہ دیوسائی کے چشموں کا پانی ہے جس میں مزید چھوٹے چھوٹے کئی چشمے اور نالے شامل ہو جاتے ہیں۔ دریائے استور میں دو بڑے نالے شامل ہوتے ہیں ایک چلم نالہ اور دوسرا رٹو نالہ۔ رٹونالہ اس سے چند کلو میٹر بعد دریائے استور میں شامل ہوتا ہے۔ جہاں رٹو نالہ دریائے استور میں شامل ہوتا ہے وہاں سے نانگا پربت کا منظر بہت خوبصورت نظر آتا ہے۔ یہاں سے تقریباً بارہ کلو میٹر کے فاصلے پر پہاڑوں کے اوپر رٹو گائوں ہے۔ وہاں پر پاکستان آرمی کا \"High Altitude School\" یعنی بلندی پر لڑائی کا تربیتی سکول ہے۔ استور سے رٹو نالے کے پل تک پختہ سڑک جنرل پرویز مشرف نے بنوائی تھی۔ چلم نالے کے ساتھ ساتھ چلتی ہوئی سڑک مناسب حالت میں تھی۔ جگہ جگہ پر لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سے پتھر اور مٹی سڑک پر آئی ہوئی تھی مگر دو جگہ پر بلڈوزر اسے صاف کرتے ہوئے آ رہے تھے۔ یہ سڑک دفاعی اعتبار سے بڑی اہم ہے اس لیے خاصی بہتر صورت میں تھی۔ چلم چوکی پر پہاڑی سفر ختم ہو جاتا ہے۔ یہاں سے بلندی کی طرف سفر تو جاری رہتا ہے مگر یہ چڑھائی میدانوں میں ہے۔ سڑک نامی کوئی چیز نہیں ہے۔ کچا راستہ ہے جو اب پتھر ڈال کر پختہ کیا جا رہا ہے اور یہی سب سے مشکل جگہ ہے۔ بڑے بڑے پتھر ڈالے جا رہے تھے اور ابھی باقی کام ہونا باقی تھا۔ جب یہ مکمل ہو جائے گا تو دیوسائی کا سفر کچھ آسان ہو جائے گا۔ چلم میں دو چیک پوسٹیں ہیں۔ ایک آرمی کی ہے جہاں دیوسائی میں داخل ہونے سے پہلے اندراج کروانا پڑتا ہے اور دوسری چیک پوسٹ دیوسائی نیشنل پارک کی ہے جہاں داخلے کی ٹکٹ لینی پڑتی ہے۔ چار سو روپے کی دس ٹکٹیں لی گئیں اور ہم دیوسائی نیشنل پارک میں داخل ہو گئے۔ سڑک کہیں اونچی چلی جاتی تھی اور کہیں نیچے آ جاتی تھی۔ ہر اونچائی سے ایک نیا میدان سامنے آ جاتا تھا۔ دیوسائی کے میدانوں کو ’’بلتی‘‘ زبان میں (بلتستان کی مقامی زبان) ’’بیاسار‘‘ کہتے ہیں جس کا مطلب ہے ’’گرمیوں کی جگہ‘‘ (Summer Place) ۔ یہ نام اسے اس وجہ سے دیا گیا ہے کہ یہ میدان صدیوں سے مال مویشیوں کی چراگاہ کے طور پر استعمال ہورہے ہیں اور صرف گرمیوں میں ہی آباد ہوتے ہیں۔ سال کے آٹھ ماہ یہ میدان برف سے ڈھکے ہوتے ہیں اور کسی قسم کا کوئی سبزہ یا پھول تو ایک طرف رہے پتہ تک نظر نہیں آیا۔ کشمیر اور پنجاب کے بالائی میدانوں سے اپنے مال مویشیوں کے ساتھ دیوسائی کھلتے ہی چلے آتے ہیں۔ ایک سرے سے دوسرے سرے تک اپنے جانوروں کے ساتھ مسلسل سفر کرتے رہتے ہیں۔ جونہی سردیاں شروع ہوتی ہیں گوجر پنجاب کے بالائی میدانوں یا کشمیر کی طرف واپسی کا سفر شروع کردیتے ہیں۔ جفا کش اور سخت جان گوجروں کی آمدورفت اس علاقے کی موسمیاتی رپورٹ دیتی ہے۔ بقول مقامی لوگوں کے جب ہمیں ان علاقوں میں گوجر دکھائی دیتے ہیں تو ہمیں پتہ چل جاتا ہے کہ دیو سائی کا راستہ کھل گیا ہے اور ان کی واپسی سے پتہ چلتا ہے کہ برفباری شروع ہوگئی ہے۔ میں نے بچوں کو نیچے دور پہاڑی نالے کے کنارے لگے ہوئے سات آٹھ سفید خیموں کی طرف اشارہ کرکے بتایا کہ یہ گوجروں کے خیمے ہیں اور وہ سامنے میدان میں جو سفید اور سیاہ نقطے نظر آرہے ہیں یہ ان کی بکریاں ہیں ہمیں راستے میں کئی جگہ سفر کرتے ہوئے گوجر نظر آئے جن کے ساتھ بکریاں تھیں۔ بعض کے ساتھ گھوڑے اور خچر بھی تھے۔ اسد نے اچانک سامنے سے آنے والے ایک عجیب و غریب دیو ہیکل جانور کی طرف اشارہ کرکے پوچھا کہ یہ کیا ہے؟ یہ ’’یاک‘‘ تھا میں نے اسے بتایا کہ بچپن میں آپ نے \"Y\" کے ساتھ انگریزی میں جو لفظ یاک پڑھا تھا یہ وہی ہے۔ یاک عموماً دیو سائی کی طرف نظر نہیں آیا البتہ خنجراب کی طرف بہت نظرآتے ہیں۔ خدا جانے یہ یاک یہاں کیسے آگیا۔ غالباً اس کے مالک سوست وغیرہ کی طرف سے آئے ہوں یا کوئی مقامی شخص اسے وہاں سے لایا ہوگا۔ واللہ اعلم! میدانوں کے عین درمیان میں جھیل ہے۔ جھیل شائو یاشیوسار (شنا زبان میں اس کا مطلب اندھی جھیل ہے) تقریباً تیرہ ہزار چھ سو فٹ کی بلندی پر واقع یہ جھیل دنیا کی بلند ترین جھیلوں میں سے ایک ہے۔ پاکستان کی سب سے بلند جھیل نگر وادی کی رش جھیل ہے جو تقریباً پندرہ ہزار چار سو فٹ کی بلندی پر ہے مگر شیوسار اس سے کہیں بڑی جھیل ہے جس کی لمبائی دو کلومیٹر سے زیادہ اور چوڑائی دو کلومیٹر سے کچھ کم ہے۔ جھیل کے چاروں طرف دلدل ہے جو نیچے سے گزرتے ہوئے چشموں کے پانی کی وجہ سے ہے۔ ایک طرف سے جھیل تک پتھر رکھ کر گزرنے کا راستہ بنایا گیا ہے مگر پتھروں پر پائوں رکھیں تو پتھر نرم زمین کی وجہ سے ہلتے ہیں۔ یہ جھیل سال میں تقریباً پانچ ماہ بلکہ اس سے بھی کم وقت کے لیے پگھلتی ہے اور باقی وقت اس پر برف جمی رہتی ہے۔ جھیل کے پاس میدان میں سنہری مارموٹ (Golden Marmot) جسے ’’موش خرمائی‘‘ بھی کہتے ہیں‘ پھدک رہے تھے۔ گلہری اور خرگوش کے درمیان یہ جانور پورے دیوسائی میں جگہ جگہ نظر آتا ہے۔ آرام طلب اور سست سا جانور دھوپ کے مزے لے رہا تھا اور میدان میں موجود ہر اس پتھر پر بیٹھا آرام کرتا نظر آیا جو نمایاں معلوم ہوتا تھا۔ یہ جانور‘ جونہی ہم رکتے تھے غائب ہوجاتا تھا۔ سڑک کے پاس ایک مارموٹ ڈھٹائی سے بیٹھا رہا۔ بچوں نے جونہی اس کی تین چار تصاویر اتاریں وہ اپنا فوٹوسیشن مکمل کروا کر ساتھ والے بل میں غائب ہوگیا۔ بھورا ریچھ، مارموٹ، ہمالین آئی بکس، سرخ لومڑی، سلیٹی بھیڑیا اور لداخ ہڑیال دیوسائی نیشنل پارک کے رہائشی جانور ہیں مگر وہاں بھی وہی حال ہے جو پاکستان میں بقیہ حیات جنگلی کا ہے۔ ہڑیال، آئی بکس اور دیگر جانوروں کے بے تحاشا شکار نے ان کی تعداد بہت کم کردی ہے مگر سب سے برا حال بھورے ریچھ کا ہے۔ کبھی سینکڑوں کی تعداد میں نظر آنے والے یہ ریچھ 1993ء میں محض 19 رہ گئے تھے۔ 2005ء میں ان کی تعداد چالیس ہوگئی اور یہ ہمالین وائلڈ لائف پر اجیکٹ کے باعث ممکن ہوسکا لیکن بھورا ریچھ ابھی بھی ان جانوروں میں شامل ہے جس کی نسل بقاکے خطرے سے دوچار ہے۔ پرندوں کی مقامی اور ہجرت کرکے آنے والی اقسام میں عقاب، شکرے، فالکن اور دیگر بے شمار نایاب اقسام ہیں جن کی کل تعداد ایک سو سے زیادہ ہے مگرپاکستان میں حیات جنگلی بدترین صورتحال کا شکار ہے۔ بقول ایک دوست کے ’’یہاں حیات انسانی بدترین صورتحال کا شکار ہے، آپ حیات جنگلی کی بات کرتے ہیں‘‘۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں