"KMK" (space) message & send to 7575

اللّوں تللّوں میں مصروف حکمران

حکومت کسی کی بھی ہو، حکمرانوں نے قومی خزانے کو باوا کا مال سمجھ رکھا ہے۔ پیپلزپارٹی کا طرۂ امتیاز بینظیر بھٹو کی آخری حکومت تک یہ رہا کہ وہ قومی خزانے پر ورکروں کو موج میلا کروانے اور علی الاعلان مل بانٹ کر کھانے پر یقین رکھتے تھے جبکہ مسلم لیگ کا طریقہ واردات ’’وائٹ کالر کرائم‘‘ جیسا رہا ہے۔ نچلی سطح پر کرپشن فری معاشرے کے نعرے اور اوپر والی سطح پر ٹیکنیکل کرپشن۔ ایس آر اوز کے ذریعے ریفنڈ، ڈیوٹیوں میں کمی اور اسی قبیل کی ایسی کرپشن‘ کہ جو جاہل ووٹروں اور حامیوں کی ذرا بھی سمجھ میں نہ آئے اور کام بھی ہوجائے۔ میگا پراجیکٹس میں کمیشن، سودوں میں کک بیک اور بظاہر دامن بے داغ۔ پیپلز پارٹی نے ووٹروں اور ورکرز کو خوش رکھنے کے لیے جو بن پڑا کیا‘ ایسے ایسے اداروں میں جیالے بھرتی کیے جہاں پہلے ہی عملہ زیادہ تھا‘ جو سٹاف کی زیادتی کے باعث بند ہونے کے قریب تھے۔ ریلوے، واپڈا، سٹیٹ لائف انشورنس، پی ٹی ڈی سی، یوٹیلٹی سٹورز، سٹیل ملز، سوئی سدرن اور سوئی ناردرن گیس پائپ لائنز، پاکستان سٹیٹ آئل، او جی ڈی سی، آئی بی، سول ایوی ایشن اتھارٹی اور پی آئی اے اس کی واضح مثال ہیں۔ ہزاروں پارٹی کارکنوں کی جگہ بنانے کے چکر میں اداروں کی بقا دائو پر لگا دی۔ مالی بدحالی اور انتظامی خرابیوں کے باعث ڈوبتے ہوئے اداروں پر غیر ضروری بھرتیوں کا ناقابل برداشت بوجھ ڈال دیا۔ پی آئی اے اس کی سب سے بدترین مثال ہے۔ دنیا بھر میں ہوائی کمپنیاں اپنا مالی بوجھ کم کرنے کے لیے سب سے زیادہ زور اس بات پر دیتی ہیں کہ کم از کم ملازمین سے کام چلایا جائے اور زیادہ کام کمپیوٹر وغیرہ سے لیے جائیں۔ اس غرض سے بکنگ، ریزرویشن ٹکٹنگ اور اسی قبیل کے دوسرے کام ’’آن لائن‘‘ کردیے گئے ہیں۔ حتیٰ کہ آپ اپنا بورڈنگ کارڈ تک گھر بیٹھے نکال لیتے ہیں۔ ائیر لائنز کے لیے فی جہاز ایک سو ملازمین آئیڈیل سمجھے جاتے ہیں؛ تاہم یہ تعداد کسی صورت ایک سو پچاس سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے۔ یہ تناسب جتنا بگڑتا جائے گا نقصان اسی قدر بڑھتا جائے گا۔ اگر حالات سازگار ہوں تو بھی ڈیڑھ سو ملازمین فی جہاز بڑھنے کی صورت میں نفع کے امکانات معدوم ہوجاتے ہیں۔ دنیا بھر میں ائیر لائنز منافع کما رہی ہیں جبکہ پی آئی اے کا 2008ء کا نقصان چونتیس ارب روپے تھا۔ فروری 2012ء میں قومی اسمبلی میں خود چودھری احمد مختار نے تسلیم کیا کہ پی آئی اے کے انجینئرنگ کے شعبے میں عملہ زیادہ ہے۔ انہوں نے جو اعداد و شمار دیئے وہ حیران کن ہیں۔ وزیر دفاع نے بتایا کہ انجینئرنگ میں تین ہزار افراد کی ضرورت ہے مگر وہاں پر سات ہزار لوگ کام کررہے ہیں۔ یعنی دوگنا سے بھی زیادہ! یونائیٹڈ ائیر لائنز میں فی جہاز اکہتر ملازمین ہیں۔ امریکن ائیرلائن میں یہ تعداد چھیاسی ہے۔ کینیا ائیرویز میں ایک سو پانچ‘ قنطاس (آسٹریلیا) میں ایک سو نو، ایتھوپین ائیر لائنز میں ایک سو چوبیس، سائوتھ افریقن ائیرلائنز میں ایک سو پینسٹھ اور ائیر انڈیا میں یہ تعداد دو سو اکیس ہے۔ ائیر انڈیا کے پاس فی الوقت ایک سو بائیس جہاز ہیں اور عملے کی تعداد ستائیس ہزار ہے۔ اگلے چند ماہ میں ائیر انڈیا کے پاس آٹھ مزید جہاز آجائیں گے تو ایک سو تیس جہازوں پر یہ تعداد دو سو سات ملازمین فی جہاز ہوجائے گی۔ پی آئی اے کے پاس فی الوقت چونتیس جہاز ہیں جبکہ ملازمین کی تعداد اٹھارہ ہزار سات سونناوے ہے۔ اس حساب سے پی آئی اے کے فی جہاز ملازمین کی تعداد پانچ سو تریپن بنتی ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ اگر پرواز کے قابل جہازوں کے مقابل یہ تعداد دیکھی جائے تو حالات مزید بدتر دکھائی دیتے ہیں۔ کل چونتیس جہازوں میں سے فی الوقت چوبیس جہاز قابل پرواز حالت میں ہیں۔ اس لحاظ سے سات سو تراسی ملازمین فی جہاز کی ہوشربا تعداد سامنے آتی ہے۔ 1988ء سے 1990ء کے درمیان بینظیر دور میں پی آئی اے میں کی گئی ہزاروں جیالوں کی بھرتیاں‘ میاں نوازشریف کے 1993ء سے 1996ء کے دور حکومت میں کالعدم قرار دے دی گئیں۔ 2007ء میں ان تمام ملازمین کو مع سابقہ تنخواہ اور الائونس دوبارہ پی آئی اے میں بحال کر دیا گیا اور مزید ستم یہ کہ پیپلزپارٹی کے حالیہ پانچ سالہ دور حکومت کے صرف چار سالوں کے دوران دو ہزار ایک سو چھپن افراد بھرتی کیے گئے۔ 2008ء میں چھپن، 2009ء میں چھ سو چوراسی، 2010ء میں ایک ہزار ایک سو اناسی اور 2011ء میں دو سو سینتیس افراد اس ڈوبتے ہوئے ادارے میں مزید بھرتی کیے گئے۔ واقفان حال کا کہنا ہے کہ اس بار ان بھرتیوں کے عوض ووٹ نہیں نوٹ کمائے گئے۔ گنتی کی چند نوکریاں ’’مفت‘‘ تقسیم کی گئیں مگر یہ سوچنا بھی حماقت ہے کہ یہ مفت والی نوکریاں میرٹ پر دی گئی ہوں گی۔ یہ نوکریاں ممبران اسمبلی و سینٹ کے بھائی بھتیجوں میں تقسیم کی گئیں؛ تاہم نوے فیصد سے زیادہ نوکریوں کے عوض لاکھوں روپے فی اسامی لیے گئے۔ دوسری طرف مسلم لیگ ن کا طریقہ واردات زیادہ ٹیکنیکل اور پیشہ ورانہ ہے۔ وہ فوائد کی بارش کی بجائے مخصوص طبقے کو نوازنے کی پالیسی پر عمل کرتی ہے۔ ان کے پاس خسارے میں جاتے ہوئے پبلک سیکٹر کو نفع بخش بنانے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے کہ اسے پرائیویٹائز کر دیا جائے۔ تاہم مزے کی بات یہ ہے کہ وہ کسی خسارے والے ادارے کو پرائیویٹائز کرنے سے پہلے سرکاری خرچے پر گولڈن ہینڈ شیک یا اسی قسم کی دوسری ترغیبات دے کر ملازمین کی چھانٹی کرکے، قرضے ادا کرکے اس ادارے کو مستقبل میں معاشی طور پر زیست پذیری کے قابل کرکے کسی ’’مہربان‘‘ کے حوالے کرنے کے قائل ہیں۔ حالانکہ ان تمام سرکاری اقدامات کے بعد وہ ادارہ ویسے ہی پائوں پر کھڑا ہونے کے قابل ہوجاتا ہے۔ جب میاں صاحب نے اپنے ایک پیارے کو پی آئی اے اور سول ایوی ایشن کا ایڈوائزر لگایا تو یار لوگوں کو اسی وقت اندازہ ہوگیا تھا کہ پی آئی اے کا مستقبل کیا ہوگا۔ اگر پی آئی اے کو منافع بخش ادارہ بنانے کا ارادہ کرلیا جائے تو یہ کام ناممکنات میں سے نہیں ہے مگر اس کے لیے مصمم ارادہ، غیر سیاسی فیصلے، پیاروں کو نوازنے کی پالیسی ترک کرنے اور سرکاری سرپرستی میں چلنے والی مزدور تنظیموں کو لگام ڈالنی ہوگی۔ یہی کام پرائیویٹ سیکٹر کا سیٹھ کرسکتا ہے تو حکومت کیوں نہیں کرسکتی؟ حکمرانوں کی اولادیں اگر پراپرٹی کے کاروبار میں حیرت انگیز منافع کما سکتی ہیں اور پوری مرغبانی کی صنعت کو کنٹرول کر سکتی ہیں تو وہ اپنی یہ صلاحیتیں سرکاری اداروں میں کیوں استعمال نہیں کرتیں؟ وجہ صرف یہ ہے کہ ذاتی اور نجی معاملات ذاتی نفع و نقصان کی بنا پر دیکھے جاتے ہیں مگر قومی اداروں کے معاملات میں ’’مال مفت دل بے رحم‘‘ کے مقولے پر عمل کیا جاتا ہے۔ پی آئی اے کی نجکاری کے مرحلہ وار پروگرام کا پہلا ٹریلر چلا یا جا چکا ہے ابھی مزید کئی ایک سرکاری اداروں کی نجکاری کا منصوبہ ہے۔ بجلی کی تقسیم کار کمپنیاں دوسرا ٹارگٹ ہیں۔ میرے ذاتی علم میں ہے کہ سرمایہ دار پارٹیاں اس سلسلے میں اپنے دانت تیز کررہی ہیں۔ حکومت کے پہلے سو دنوں کی کارکردگی یہ ہے کہ ہر چیز مزید خرابی کی طرف گامزن ہے اور بھکاری حکمران اثاثے بیچ کر اللّے تللّے کرنے کے منصوبوں میں مصروف ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں