"KMK" (space) message & send to 7575

مراعات یافتہ امرا ہی عوام نہیں ہیں

ہمارے ہاں حکومت کو وہی کچھ کاٹنا پڑتا ہے جو اس نے اپوزیشن میں بویا ہو‘ یا ہوتا ہے۔ یہاں ’’حکومت‘‘ سے میری مراد صرف پیپلزپارٹی اور ن لیگ کی حکومتیں ہیں کہ درمیان میں پرویز مشرف کی آمریت کو چھوڑ کر یہی دو پارٹیاں اقتدار کی میوزیکل چیئر پر حکمرانی کا کھیل کھیلتی رہی ہیں۔ بجلی کا بحران اور اس کی قیمتیں ایسا ہی معاملہ ہے۔ پیپلزپارٹی کے دورِ اقتدار میں اس معاملے میں زرداری اینڈ کمپنی کو جس ہزیمت اور رسوائی کا سامنا تھا آج مسلم لیگ ن بھی عین اسی جگہ کھڑی ہے۔ اپوزیشن اور اقتدار کی سوچ ایک سو اسی ڈگری کے فرق کی حامل ہوتی ہے۔ اقتدار میں آنے کے بعد زمینی حقائق آپ کو وہی کچھ کرنے پر مجبور کر دیتے ہیں جن کے خلاف آج نعرے بازی کرکے سستی سیاسی شہرت حاصل کرتے ہیں اور عوام میں اپنے نمبر ٹانکتے ہیں۔ مسلم لیگ ن کا معاملہ گزشتہ حکومت سے بھی خراب ہے۔ گزشتہ حکومت سے تو خود پیپلزپارٹی کے جیالے بھی مایوس تھے اور عام عوام بھی‘ خود ان کے حمایتی بھی اور غیرجاندار خاموش اکثریت بھی۔ پیپلزپارٹی کی گزشتہ حکومت کے بارے میں اس بات پر اجماعِ امت پایا جاتا تھا کہ وہ عوام کے نہیں اپنے مالی مسائل کو دیرپا بنیادوں پر حل کرنے کے فلسفے پر عمل پیرا ہیں۔ آصف ہاشمی سے لے کر سید یوسف رضا گیلانی اور فرزانہ راجہ سے لے کر راجہ پرویز اشرف تک‘ سب نہایت افراتفری میں مال بنانے میں مصروف رہے۔ ان کا ماٹو عوام کی سمجھ میں آچکا تھا لہٰذا ان سے نہ کوئی امید رہی تھی اور نہ ہی کوئی توقع۔ ہر اندھے کو بھی نظر آرہا تھا کہ یہ لوگ اگلے الیکشن کی نہیں اپنے اور اپنے بچوں اور ان کے آگے بچوں کے لیے مالی آسودگی کا بندوبست اور تیاری کررہے ہیں‘ اس لیے انہیں اپنے علاوہ اور کسی کی فکر نہیں۔ الیکشن میں اس کا نتیجہ سب کے سامنے آگیا۔ وہی ہوا جس کی امید تھی۔ مسلم لیگ نے پیپلزپارٹی کی حکومت کے دوران سوائے نمبر ٹانکنے کے اور کچھ نہیں کیا۔ پیپلزپارٹی کی کرپشن پر حقیقی مزاحمت کے بجائے صرف اخباری مزاحمت کی گئی اور اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ انہیں ملک کی کم اور آئندہ حکمرانی کی زیادہ فکر تھی۔ پانچ سال کے دوران صرف شروع کے چند ماہ چھوڑ کر‘ جب وہ شریک اقتدار تھے‘ مسلم لیگ ن کی قیادت نے بینڈ باجہ بجانے کے علاوہ اور کچھ نہ کیا۔ وہ کچھ اور کرنا بھی نہیں چاہتے تھے۔ مقصد صرف پیپلزپارٹی کی شہرت خراب کرنا تھا۔ معاملات کی درستی کے لیے اپوزیشن کو جو کردار انجام دینا چاہیے تھا‘ مسلم لیگ ن نے وہ کردار انجام نہ دیا۔ مسلم لیگ ن حقیقی معنوں میں ایک فرینڈلی اپوزیشن تھی تاہم وہ اگلے الیکشن میں میدان صاف کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں گنواتی تھی۔ پیپلزپارٹی کے خلاف چارج شیٹ کی جو بنیادی چیزیں تب تھیں آج بھی وہی مسائل بنیادی اہمیت کے حامل ہیں۔ اقتصادی بدحالی، مہنگائی، بے روزگاری، امن و امان کی صورتحال، دہشت گردی اور بجلی کا بحران۔ یہ وہ بنیادی مسائل تھے جنہیں حل کرنے میں پیپلزپارٹی کی حکومت بری طرح ناکام رہی۔ پیپلزپارٹی کی حکومت کے دوران مسلم لیگ ن کے ’’بزعمِ خود‘‘ اقتصادی ماہرین اشیائے صرف میں روز افزوں اضافوں کے چارٹ پیش کیا کرتے تھے۔ ڈالر کی قیمت میں کمی پر شور مچاتے تھے۔ پیپلزپارٹی کو اقتصادی معاملات میں صفر قرار دیتے تھے۔ کوئی مستقل وزیر خزانہ نہ ہونے کے طعنے دیتے تھے۔ تب قبلہ اسحاق ڈار صاحب کی شخصیت ادھار دینے اور بجٹ بنوانے میں مدد فراہم کرنے جیسی پیشکش کیا کرتے تھے۔ پٹرول کی قیمتوں میں اضافے پر اسمبلی کے فلور پر شور مچایا کرتے تھے۔ سپریم کورٹ میں ہونے والی رسوائیوں پر خوشی سے بغلیں بجاتے تھے اور پیپلزپارٹی کی حکومت پر عدلیہ سے ٹکرانے اور عدالتی احکامات کا تمسخر اڑانے کے الزامات لگاتے تھے۔ آج صورتحال یہ ہے کہ کل کی اور گزشتہ کل کی صورت حال میں رتی برابر فرق محسوس نہیں ہوتا لیکن ایک بنیادی فرق یہ ہے کہ مسلم لیگ ن نے عوام کو اس سلسلے میں جو سبز باغ دکھائے تھے اور عوام نے ان سے جو امیدیں وابستہ کر رکھی تھیں ایسی کوئی امید یا توقع انہوں نے پیپلزپارٹی سے وابستہ نہیں کی تھی یا کم از کم انہوں نے اپنی امیدیں اور توقعات ختم ضرور کر دی تھیں۔ اسی سال مئی کے انتخابات میں پیپلزپارٹی کی بدترین شکست کی ذمہ دار تو خود پیپلزپارٹی تھی مگر مسلم لیگ کی غیر متوقع کامیابی کی وجہ بھی مسلم لیگ ن کی کوئی خوبی نہیں تھی بلکہ اس کی وجہ بھی صرف پیپلزپارٹی کی بدترین کارکردگی تھی جس نے عوام کے لیے پیپلزپارٹی کو مسترد کرنے کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں چھوڑا تھا۔ اب ان کے سامنے تحریک انصاف اور مسلم لیگ ن کے درمیان انتخاب کا معاملہ تھا۔ تحریک انصاف کی انتخابی مہم کا مرکزی نقطہ کرپشن سے پاک پاکستان تھا جبکہ مسلم لیگ کا بنیادی نقطہ اقتصادی خوشحالی، امن و امان کی بحالی، مہنگائی اور بے روزگاری کاخاتمہ اور بجلی گیس بحران پر قابو پانا تھا۔ عوام نے کرپشن کے خاتمے کے بجائے اپنی سہولت کو ترجیح دی اور اکثریت نے ووٹ مسلم لیگ کے بکسوں میں ڈال دیا۔ پانچ سال سے مہنگائی، بے روزگاری، دہشت گردی اور لوڈ شیڈنگ کے شکار عوام کو کرپشن سے زیادہ اپنی خوشحالی، سکون، امن اور لوڈشیڈنگ سے محفوظ زندگی عزیز تھی۔ سو مسلم لیگ ن حکومت میں آگئی۔ مسائل کا ایک انبار تھا جو موجودہ حکومت کو ورثے میں ملا۔ سب سے بڑا مسئلہ اقتصادی صورتحال تھی۔ لوڈشیڈنگ، ڈالر کی قدر میں اضافہ، روپے کی ناقدری، مہنگائی اور بے روزگاری۔ ان سب کے پیچھے تباہ شدہ معیشت تھی۔ لوگوں کا خیال ہی نہیں بلکہ انہیں یقین تھا کہ مسلم لیگ ن کے پاس ان تمام مسائل کا حل ہے اور مسلم لیگ ن کا بھی یہی دعویٰ تھا۔ تاجروں کی نمائندہ حکومت سے تاجروں، کاروباری حلقوں، صنعتکاروں اور عام آدمی کو جو توقعات تھیں الحمدللہ وہ ایک سو پچیس دنوں میں ’’پوری‘‘ ہوگئی ہیں۔ نوے پچانوے روپے والا ڈالر ایک سو دس کے ہندسے سے بھی آگے نکل رہا ہے۔ تمام تر سرکلر ڈیٹ کی ادائیگی کے باوجود لوڈشیڈنگ اسی طرح ہر گھنٹے بعد ہورہی ہے۔ گیس کی بندش کا بھی وہی حال ہے، حکومت بجلی نہیں دے رہی اور سوئی گیس کا محکمہ جنریٹر چلانے والے گھروں کے میٹر اتار رہاہے۔ گزشتہ چار ماہ کے دوران پٹرول کی قیمت میں جتنا اضافہ ہوا ہے اتنا اضافہ پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں کسی بھی چار ماہ کے دوران نہیں ہوا اور بجلی کے معاملے کا تو پوچھیں ہی مت۔ جس قدر بجلی کی قیمت میں اضافے کا اعلان اب ہوا ہے اتنا اضافہ تو پاکستان کی تاریخ میں ایک بار نہیں ہوا۔ حکومت اب کہہ رہی ہے کہ اس کے بغیر چارہ نہیں۔ میں خود یہ بات مانتا ہوں کہ مہنگی خرید کر سستی بجلی کی فراہمی تادیر ممکن نہیں لیکن یہ کس نے کہا تھا کہ عوام کو سبز باغ دکھائے جائیں اور انہیں جھوٹی امیدیں لگا کر دھوکہ دیا جائے؟ بجلی کی قیمتوں کے مسئلے پر معاملہ سپریم کورٹ میں ہے لیکن ماہرین اقتصادیات ہونے کے دعویداروں سے سوال ہے کہ کیا انہیں الیکشن سے پہلے یہ چیزیں نظر نہیں آرہی تھیں؟ یہ مجھ جیسے معاشیات سے ناواقف شخص کو بھی معلوم ہے کہ مہنگی خرید کر اشیاء کو سستا بیچنے والے کی دکان آخر کار بند ہوجاتی ہے لیکن یہ بات بھی طے ہے کہ کوئی شخص اپنی استطاعت سے بڑھ کر خریدنے کا متحمل بھی نہیں ہوسکتا اور تادیر تو ہرگز نہیں۔ مہنگائی‘ افراط زر اور بے روزگاری کے مارے ہوئے عوام کی اکثریت پٹرول اور بجلی کی براہ راست خریداری کی متحمل بھی نہیں اور ان دو چیزوں کی قیمتوں میں اضافے کے نتیجے میں پیدا ہونے والی مہنگائی کی تو کسی صورت میں بھی متحمل نہیں ہوسکتی۔ بجلی کے نرخوں میں اضافے میں صرف گندم کی پسائی کی قیمت میں اضافے کا اندازہ تقریباً تیس روپے من ہے۔ باقی چیزوں کے بارے میں آپ خود سوچ لیں۔ لیکن یہ آپ کا اور میرا مسئلہ ہے۔ حکمرانوں کو اور بہت سے مسائل کا سامنا ہے اور ان کے سامنے اس سے کہیں زیادہ ضروری کاموں کی فہرست موجود ہے۔ مارگلہ کی پہاڑیوں میں سرنگ بنانی ہے۔ اسلام آباد جیسا ایک اور نیا شہر بسانا ہے۔ گوادر تک ایک اور نئی موٹروے بنانی ہے۔ حکمرانوں کا خیال ہے کہ عوام بہت خوشحال ہیں اور امیر ہوچکے ہیں۔ اسلام آباد کے سیکٹر۔ڈی اور ای میں ایک کنال پلاٹ کی قیمت اڑھائی کروڑ سے ساڑھے تین کروڑ روپے کے درمیان ہے اور یہ سرکاری قیمت ہے۔ درخواست کے ساتھ پچاس فیصد رقم کا ڈرافٹ لگانا لازمی ہے۔ بھلا ایسے پلاٹ خریدنے والے غریب ہوسکتے ہیں؟ حکمرانوں کو کون بتائے کہ عوام سے مراد وہ پچانوے فیصد پاکستانی ہیں جن کا زندہ رہنا روز بروز مشکل ہوتا جارہا ہے۔ پانچ فیصد مراعات یافتہ طبقے کا نام کچھ بھی رکھ لیں کم از کم وہ عوام نہیں ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں