"KMK" (space) message & send to 7575

ایک زندہ مشاعرے میں پہلی قطار کی خاموشی

کامسیٹ لاہور کا مشاعرہ گنتی کے مشاعروں میں سے ایک ہے جس میں شرکت سے انکار کرنا میرے لئے کسی صورت ممکن نہیں۔ ہاں! صرف ایک صورت ہے کہ میں پاکستان میں ہی نہ ہوں۔ اس مجبوری کی وجہ کامسیٹ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر محمود احمد بودلہ ہیں ۔ بودلہ صاحب میرے استاد ہیں۔ میں جب زکریا یونیورسٹی میں ایم بی اے میں داخل ہوا تو مانگے کی عمارت میں قائم اس شعبے کے ہیڈ محمود بودلہ صاحب تھے۔ تب بودلہ صاحب خود بھی دوچار سال قبل ہی پنجاب یونیورسٹی سے ایم بی اے کر کے فارغ ہوئے تھے اور بڑے سمارٹ نوجوان تھے۔ سمارٹ تو وہ اب بھی ہیں مگر نوجوان نہیں رہے۔ میں نے دو سمسٹر ان سے مینجمنٹ اور مارکیٹنگ پڑھی۔ وہ ہمارے استاد بھی تھے اور ادب آداب کے دائرے میں رہتے ہوئے ہمارے دوست بھی تھے۔ تب بودلہ صاحب نے ڈاکٹریٹ نہیں کی تھی۔وہ کرائے کی کوٹھیوں میں بنائے گئے ہاسٹلز میں سے ایک ہوسٹل کے سپرنٹنڈنٹ تھے ۔ اس حوالے سے بڑی حسین یادیں ان کی ذات کے ساتھ وابستہ ہیں۔ ان یادداشتوں کے لئے کتاب درکار ہے۔ لیکن فی الوقت صرف ایک واقعہ۔ بودلہ صاحب عثمان آباد میں کرائے کی کوٹھی میں قائم ہاسٹل کے سپرنٹنڈنٹ تھے۔ ہم لوگ ملتان کے رہائشی تھے لہٰذا ہاسٹل میں رہائش پذیر تو نہ تھے مگر کبھی سمسٹر کے امتحانات کی تیاری کے سلسلے میں اور کبھی دوستوں کے ساتھ گپ شپ کے سلسلے میں ان ہاسٹلز میں آنا جانا لگا رہتا تھا اور بعض اوقات کئی کئی دن یہاں پڑے رہتے تھے۔ یہ تقریباً نو دس ہاسٹلز تھے اور نمبروں سے پہچانے جاتے تھے۔ بودلہ صاحب والا ہاسٹل، ہاسٹل نمبر چار کے نام سے جانا جاتا تھا۔ یہاں ہمارا دوست ملک اشفاق مرحوم رہتا تھا۔ اس کے ساتھ میری دوستی منیر چودھری کے توسط سے ہوئی تھی۔ وہ منیر چودھری کا کلاس فیلو اور دوست تھا۔ منیر اور ملک اشفاق پولیٹیکل سائنس کے طالب علم تھے۔ میں گو کہ بزنس ایڈمنسٹریشن کا طالب علم تھا مگر منیر چودھری میرا لنگوٹیا یار تھا۔ سارا دن کلاس کے علاوہ اسی کے ساتھ گزرتا تھا۔ یونیورسٹی سے فارغ ہوتے تو بعض اوقات ملک اشفاق کے پاس آ جاتے۔ کسی کسی دن ایسا ہوتا کہ رات گئے تک وہیں گپیں مارتے رہتے۔ اس دوران کبھی ایسا ہوتا کہ کوئی دوست ڈھونڈتا ہوا ہمارے پاس آ جاتا۔ ہمار ی جیب اس بات کی اجازت نہیں دیتی تھی کہ ہم ہاسٹل سے تھوڑی دور واقع تحصیل چوک سے چائے منگواتے لہٰذا ہمارا آخری سہارا بودلہ صاحب کی ذات ہوتی تھی۔ پہلی بار یوں ہوا کہ میں مسمسی سی صورت بنا کر بودلہ صاحب کے پاس گیا اور تھوڑی سی چائے کی پتی مانگی۔ بودلہ صاحب نے کہا کہ وہ الماری میں پڑی ہے اٹھا لو۔ میں چائے کی پتی لے کر چلا گیا۔ کچن میں پڑے ہوئے پین میں پانی ڈال کر ابالا اور پتی ڈال دی۔ اب دوبارہ بودلہ صاحب کے پاس گیا اور اسی طرح نہایت معصوم صورت بنا کر تھوڑا سا دودھ مانگا۔ وہ پائوڈر والے دودھ کی صورت میں مل گیا۔ اب مرحلہ چینی کا آن پہنچا۔ اسی طرح تیسرا چکر لگا کر تھوڑی سی چینی مانگی گئی اور ہماری چائے مکمل ہو گئی۔ اب آخری مرحلہ برتنوں کا تھا جو ظاہر ہے ہمارے پاس نہیں تھے ۔ پھر آخری بار بودلہ صاحب کے پاس گئے اور چار مگ مانگے۔ بودلہ صاحب ہنس کر کہنے لگے۔ پانچ مگ لے جائو اور ایک کپ چائے مجھے بھی دو۔ کم از کم اپنے سامان سے بنائی گئی چائے کے ایک مگ پر تو میرا حق ہے۔ پھر یوں ہوا کہ یہ سارا عمل ایک دو بار مزید بھی دوہرایا گیا۔ جب چوتھی بار یہی بالا قساط ڈرامہ کرنے کی کوشش کی تو بودلہ صاحب نے چائے کی پتی مانگنے پر کہا۔ مجھے پتہ ہے تمہارے پاس کوئی چیز نہیں ہے۔ نہ پتی، نہ دودھ ، نہ چینی اور نہ ہی مگ۔ تم چار بار خود بھی چکر لگائو گے اور مجھے بھی تنگ کرو گے۔ ساری چیزیں ایک ہی بار لے جائو اور ہاں! میرا ایک کپ بنانا نہ بھولنا۔ پھر یوں ہوا کہ مجھے لڑائی جھگڑے کے ایک معاملے میں یونیورسٹی سے خارج کر دیا گیا۔ بودلہ صاحب کچھ عرصہ بعد پی ایچ ڈی کرنے کے لئے امریکہ چلے گئے۔ ڈاکٹریٹ کی ڈگری لے کر واپس جامعہ زکریا آ گئے مگر مجبوراً انہیں زکریا یونیورسٹی چھوڑنی پڑی۔ یہ ایک علیحدہ قصہ ہے اور کبھی اس پر علیحدہ کالم لکھوں گا۔ بودلہ صاحب پہلے ایک اور پرائیویٹ ادارے میں چلے گئے اور پھر کامسیٹ میں آ گئے۔ کامسیٹ میں جب وہ ساہیوال کیمپس کے ڈائریکٹر تھے تو انہوں نے میرے ساتھ طلبہ کی ایک شام کا اہتمام کیا۔ میں اپنے بیٹے اسد کو اپنے ساتھ لے کر ساہیوال گیا ۔ فنکشن کے بعد رات گئے تک بودلہ صاحب کے ساتھ بیٹھا رہا۔ پرانی یادیں اور باتیں۔ میرے بیٹے نے بہت سی نئی باتیں سنیں۔ اپنے باپ کے بارے میں اسے اس روز پتہ چلا کہ وہ بہت شریر طالب علم تھا۔ رات اڑھائی بجے جب ہم باپ بیٹا وہاں سے اٹھے تو دونوں بے انتہا خوش تھے۔ میرا بیٹا اس رات والی محفل کو دیر تک انجوائے کرتا رہا۔ گزشتہ دنوں کامسیٹ لاہور میں مشاعرہ تھا۔ حسب معمول مجھے یاسر صدیقی کا فون آیا۔ بودلہ صاحب کا پیغام ملا اور میں نے ہاں کر دی۔ میں نہ کر ہی نہیں سکتا تھا۔ میں عموماً طلباء کے اداروں میں ہونے والے مشاعروں میں ویسے بھی ترجیحاً جاتا ہوں کہ نوجوانوں کی صحت مند سرگرمیوں کو جاری و ساری رکھنے میں اپنا حصہ ڈال سکوں۔ کامسیٹ اس لحاظ سے غنیمت ہے کہ وہاں بزنس اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کی تعلیم کے ساتھ ساتھ زبان ،روایات اور تہذیب سے جڑے رہنے کے لئے ہم نصابی سرگرمیاں ہوتی رہتی ہیں۔ مشاعرہ انہی سرگرمیوں کا ایک باقاعدہ حصہ ہے۔ پنجاب بھر میں اس سلسلے میں اب سرکاری اداروں کے بجائے پرائیویٹ ادارے زیادہ متحرک اور فعال ہیں۔ پنجاب گروپ آف کالجز، کامسیٹ ،نسٹ اور اسی طرح کے دیگر ادارے ہر سال اپنے مختلف کیمپسز میں اس طرح کی تقریبات کا اہتمام کرتے رہتے ہیں۔ لاہور کامسیٹ کے مشاعرے میں امجد اسلام امجد، عباس تابش ،شہر یار زیدی، زاہد فخری ، اسرار زیدی، رحمان فارس، افشاں، ڈاکٹر صغریٰ صدف اور میں شامل تھے۔امجد اسلام امجد کو اگلے روز صبح دوحہ روانہ ہونا تھا وہ مشاعرے کے آغاز میں ہی پڑھ کر چلے گئے۔ اب صدارت کا بوجھ اس عاجز پر آن پڑا ۔ عباس تابش نے غزل شروع کرنے سے پہلے ’’صاحب صدر‘‘ سے یعنی مجھ سے اجازت طلب کی اور پھر ساتھ ہی کہا کہ اجازت لینا بہت ضروری ہے۔ خالد مسعود ایک با اختیار صدر ہے کوئی ممنون حسین نہیں ہے۔ آخر میں جب میری باری آئی تو میں نے کہا کہ صدر آخر صدر ہوتا ہے خواہ وہ ممنون حسین ہو یا فضل الٰہی چودھری۔ صدر اسحاق مناسب سائز کا کاٹھا اخروٹ نہیں توڑ سکتے تھے مگر اسمبلی دوبار توڑی۔ دوسری طرف مشاعروں کی چار سو سالہ روایات میں کبھی کسی صدر نے اٹھاون ٹو بی کا استعمال کر کے مشاعرہ منسوخ یا معطل نہیں کیا۔ حتیٰ کہ کسی شاعر کو اپنے صوابدیدی اختیار کے تحت مشاعرہ پڑھنے سے نہیں روکا میں کس باغ کی مولی ہوں۔ پھر میں نے ایک واقعہ سنایا کہ جب میں کامسیٹ ساہیوال میں طلبہ کے سوالات کا جواب دے رہا تھا ایک لڑکے نے پوچھا کہ میں اتنا سفر کرتا ہوں، گھر سے باہر رہتا ہوں، کیا میری اہلیہ مجھے اس سے روکتی نہیں؟ میں نے کہا میں گھر سے روانہ ہوتے ہوئے اس سے اجازت لیتا ہوں اور وہ مجھے ویسے بھی اجازت دے دیتی ہے۔ جس طرح مشاعروں میں صدر سے شعر پڑھنے کی اجازت مانگی جاتی ہے اوروہ بلا توقف، بلا سوچے سمجھے یہ اجازت دے دیتا ہے۔تمام طلبہ یہ سُن کر بڑے محظوظ ہوئے۔ اسی ہفتے ایک مشاعرہ خانیوال میں تھا جو ڈی پی او ایاز سلیم نے منعقد کروایا تھا۔ یہ امن مشاعرہ بڑا بھر پور تھا۔ انتظامی طور پر اس کا سارا اہتمام طاہر نسیم نے کیا تھا۔ مشاعرے میں انور مسعود۔ عطاء الحق قاسمی۔ قمر رضا شہزاد، حسن عباسی اور دیگر شعراء کے علاوہ میں بھی تھا۔ عطاء الحق قاسمی نے اپنی شگفتہ نثر سے اور انور مسعود نے شاعری سے مشاعرہ گرمائے رکھا ۔ طاہر نسیم نے شعر تو چار سنائے مگر اپنی خوبصورت کمپیئرنگ سے مشاعرہ مزید خوبصورت بنا دیا۔ سامعین کی پہلی صف ارکان قومی و صوبائی اسمبلی اور سرکاری افسران سے بھری ہوئی تھی۔ مجمع صاحب ذوق بھی تھا اور زندہ دل بھی۔ اس عاجز نے شاعری کے دوران جب لوٹوں پر نظم سنائی تو سارا مجمع بے قابو ہو گیا اور بار بار مکرر مکرر کی فرمائش کرنے لگا۔ پہلی قطار پر سکوت طاری تھا۔ لیکن دس بارہ افراد کی خاموشی پر چھ سات سو سامعین کا شور۔ صرف سٹیج سے نظر آ رہا تھا کہ پہلی قطار کا کیا حال ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں