"KMK" (space) message & send to 7575

معجزہ…(2)

مجھے Glaucoma تھا اور صورتحال بہت زیادہ حوصلہ افزا نہیں تھی۔ ملتان کے آنکھوں والے ایک دو ڈاکٹروں سے تبادلہ خیال کیا تو پتہ چلا کہ Optic Nerves انسانی جسم کی ان معدودے چند چیزوں میں سے ہیں‘ جو نہ تو جوڑی یا ٹھیک کی جا سکتی ہیں اور نہ ہی یہ دوبارہ پیدا ہوتی ہیں۔ سیدھے سادے لفظوں میں یہ ناقابل تلافی نقصان تھا اور اس میں بہتری کا کوئی امکان نہیں تھا۔ میں نے خود کو آنے والی اندھیری زندگی کے لیے تیار کرنا شروع کردیا تھا۔ مجھ سے زیادہ میری اہلیہ کو فکر مندی تھی۔ ایک ڈیڑھ ہفتے کے بعد میں برطانیہ چلا گیا۔ حالت یہ تھی کہ مجھ سے چلا نہیں جاتا تھا مگر مجھے بے بسی سے بیٹھنا بھی منظور نہ تھا۔ روانگی سے قبل میرے سب دوستوں نے مجھے روکنا چاہا مگر میری اہلیہ نے میری بڑی حوصلہ افزائی کی اور ہمت بندھائی۔ میرا اور اس کا خیال تھا کہ مجھے ایسی صورتحال میں نارمل زندگی گزارنے کی‘ اپنی روٹین کی مصروفیات جاری رکھنے اور حالات سے لڑنے کی بھرپور کوشش کرنی چاہیے۔ سو میں اسلام آباد والے ڈاکٹر کی بتائی ہوئی اور برادر بزرگ ہارون الرشید اور اپنی اہلیہ کی بتائی ہوئی دعا کو ساتھ لیے مانچسٹر پہنچ گیا۔ ایئرپورٹ پر بابر اور آغا نثار مجھے لینے آئے ہوئے تھے۔ میں نے برطانیہ میں مشاعرے پڑھنے بھی شروع کردیے اور کثرت سے دعا بھی۔ دعا کیا تھی؟ تین چار دعائیں تھیں۔ آیت کریمہ‘ یا سلام یا مومن یا اللہ ذوالجلال والاکرام اور اللہ نور السمٰوٰت والارض کا وظیفہ۔ عصر کی نماز کے بعد سات مرتبہ سورہ فتح۔ دوا ڈالنے میں کوئی ناغہ کیا اور نہ دعا کرنے میں۔ اسی دوران خورشید صاحب کے کہنے پر لندن میں آنکھوں کے مشہور ہسپتال مورفیلڈ ہسپتال رابطہ کیا۔ جتنے پیسے انہوں نے مانگے وہ میں ساری عمر جمع نہیں کر سکتا تھا۔ مزید برآں انہوں نے دو سال بعد کا وقت دیا۔ پھر خورشید صاحب کے کہنے پر ان کی سوشل سروس کی مد میں اپلائی کیا تو تقریباً ساڑھے تین سال بعد کا وقت ملا۔ میرے پاس تو اتنا وقت ہی نہیں تھا۔ اسی دوران اویس خاکوانی کا ملتان سے فون آیا۔ اس نے کہا کہ میں اس کے کزن سے رابطہ کروں جو وولرہیمپٹن (Wolverhampton) میں آنکھوں کے ہسپتال میں سپیشلسٹ تھا۔ رابطہ کیا تو اس نے مجھے تمام رپورٹس کے ساتھ وولور ہیمپٹن آنے کا کہا۔ مبلغ بیس پائونڈ کی ریٹرن ٹکٹ لے کر میں مانچسٹر سے برمنگھم اور وہاں سے وولور ہیمپٹن چلا گیا۔ کوچ سٹینڈ سے ہسپتال کی بس پکڑی اور وہاں پہنچ گیا۔ ڈاکٹر ترین نے سارا چیک اپ کیا۔ میری سابقہ رپورٹیں دیکھیں۔ ان کی کاپی کی اور کہا کہ وہ میرا کیس اپنے ایک دوست سینئر ڈاکٹر سے ڈسکس کرے گا جو مورفیلڈ آئی ہسپتال میں گلوکوما کا بہت ہی ماہر ڈاکٹر ہے۔ ہفتے بعد اس نے مجھے ایک تفصیلی رپورٹ بمعہ علاج میل کردی۔ ایک دوا وہی تھی جو اسلام آباد والے ڈاکٹر نے لکھی تھی۔ دوسری دوا انہوں نے اور تجویز کی تھی۔ تاہم ڈاکٹر کے مطابق جو ہو چکا وہ تو ہو چکا۔ اب ان آنکھوں کو مزید نقصان سے بچانا مقصود ہے۔ آنکھوں کے ساتھ جو کچھ ہو چکا تھا اس میں بہتری کا بہرحال نہ تو کوئی امکان تھا اور نہ ہی کوئی صورت۔ میں آغا نثار کا ہاتھ پکڑے مشاعرے پڑھ رہا تھا۔ اولڈھم کے مشاعرے میں صباحت واسطی ملا تو مجھے دیکھ کر پریشان ہو گیا۔ کہنے لگا تم میرے پاس آئو۔ میں جس ہسپتال میں کام کرتا ہوں اس کا ایک شعبہ Post Stroke Rehabilitation سے متعلق ہے اور برطانیہ بھر میں چند بہترین علاج گاہوں میں شمار ہوتا ہے۔ میں تین چار روز بعد ڈاکٹر صباحت عاصم واسطی کے پاس شیفیلڈ چلا گیا۔ یہ سارا سفر میں نے اکیلے کیا اور کل خرچ بائیس پائونڈ تھا۔ ریلوے سٹیشن پر صباحت واسطی آیا ہوا تھا۔ صباحت واسطی ڈاکٹر تو ہے ہی مگر کمال کا شاعر ہے۔ بزرگ شاعر شوکت واسطی (مرحوم) کا بیٹا ہے اور خود ایسے شعر کہتا ہے کہ لطف آ جاتا ہے۔ ہسپتال میں ایک گورے ڈاکٹر نے میرا معائنہ کیا‘ مجھے کچھ ورزشیں بتائیں۔ اپنی اسسٹنٹ گوری کے ساتھ مجھے عملی طور پر سب ورزشیں کرواتے ہوئے تصویریں لیں اور ان تصویروں کے ساتھ سارا ہدایت نامہ بنا کر میرے ہاتھ پکڑایا۔ فیس کا پوچھا تو گورا ہنس کر کہنے لگا میں فیس بمعہ جرمانہ ڈاکٹر عاصم واسطی سے وصول کر لوں گا۔ واپسی پر صباحت نے ترک ریسٹورنٹ سے کھانا کھلایا‘ کافی پلوائی اور ٹرین پر چڑھا دیا۔ دو دن بعد مجھے اس گورے ڈاکٹر کی طرف سے بھیجا جانے والا ورزشی تختہ کوریئر کے ذریعے مل گیا اور میں نے ایکسر سائز شروع کردی۔ مجھے دس دن بعد اس گورے ڈاکٹر کے پاس پھر جانا تھا۔ دس دن بعد کی بس پر ایڈوانس بکنگ کروائی تو واپسی سمیت کل کرایہ چار پائونڈ تھا۔ دس دن بعد میں اسی ہسپتال گیا تو ڈاکٹر نے اپنی اسسٹنٹ گوری کو میرے ساتھ بیڈ منٹن کھیلنے کا کہا۔ غیر معمولی طور پر خوبصورت اس گوری کے ساتھ بیڈمنٹن کھیلتے ہوئے کچھ افاقہ تو ویسے ہی ہو گیا باقی ورزش کا کمال تھا۔ میں نے تقریباً دس منٹ تک بیڈمنٹن کھیلی۔ ڈاکٹر نے دس منٹ بعد تالیاں بجا کر مجھے مبارک دی اور کہا کہ میں یہ ورزش دو تین ماہ مزید جاری رکھوں۔ اس سارے علاج پر میرے کل چھبیس پائونڈ خرچ ہوئے۔ جو بذات خود ایک معجزہ تھا۔ پاکستان واپس آنے سے پہلے ڈاکٹر ترین سے بات ہوئی تو وہ کہنے لگا کہ میں ہر چھ ماہ بعد اپنا Visual Field Test کروائوں‘ اپنا IOP یعنی انٹرا اوکیولر پریشر چیک کروائوں۔ آنکھوں کو آپریشن سے بچا کر رکھوں۔ حتیٰ کہ لیزر وغیرہ کا بھی رسک نہ لوں۔ یہ Compromised آنکھیں ہیں۔ میری دعا ہے کہ تمہارے بصری ریشے مزید کسی قسم کی ٹوٹ پھوٹ سے محفوظ رہیں۔ انہی دنوں میری بیٹی کراچی سے جہاں وہ آغا خان یونیورسٹی میں ایم بی بی ایس کر رہی تھی اور ان دنوں وہ اپنا Opthalmology یعنی آنکھوں کی بیماریوں سے متعلق اپنا Module کر رہی تھی‘ واپس آئی تو مجھے بتانے لگی کہ وہ کل سے بہت دکھی ہے۔ پھر بتانے لگی کہ کل ہسپتال میں ایک نو دس سال کا بچہ آیا تھا۔ یہ بچہ گونگا اور بہرہ تھا اور اب اس کی نظر ختم ہو رہی تھی۔ اسے Alport\'s Syndrome نامی بیماری تھی جس کا کوئی علاج نہیں۔ ہم نے اس کے سارے ٹیسٹ کیے تھے‘ ہر طرح سے چیک کیا‘ مگر اس کا ہمارے پاس کوئی علاج نہیں تھا۔ بچہ تقریباً نابینا ہو چکا تھا۔ محض دو تین فیصد نظر باقی بچی ہوئی تھی۔ اسے صرف دھندلا سا ہیولا نظر آتا ہے اور تھوڑے ہی عرصے کے بعد وہ اس معمولی سی بقیہ نعمت سے بھی محروم ہو جائے گا۔ پھر اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ کہنے لگی جب اس کے ماں باپ اسے واپس لے کر جانے لگے تو وہ معائنے والی کرسی سے چمٹ گیا اور رونے لگ گیا۔ وہ نہ بول سکتا تھا اور نہ سن سکتا تھا۔ حتیٰ کہ دیکھ بھی نہیں سکتا تھا مگر وہ بار بار اشاروں سے اپنی آنکھوں کو چھوتا اور روتے ہوئے مزید معائنے کے لیے اصرار کر رہا تھا۔ ہمارے پاس سوائے دعا کے اور کچھ نہیں تھا۔ پھر آنسو صاف کر کے کہنے لگی میرا کل سے دل اتنا اداس اور پریشان ہے کہ میں بتا نہیں سکتی۔ یہ کہتے ہوئے اس کی آنکھوں میں پھر آنسو آ گئے۔ میری اپنی آنکھیں دھندلی ہو گئیں تب میں نے اپنی معمولی بیماری پر خدا کا شکر ادا کیا۔ میں نے دوا ڈالنے اور دعا کرنے میں شاید ہی کبھی ناغہ کیا۔ چھ ماہ بعد Visual Field Test کروایا تو نتائج اتنے حیران کن تھے کہ میں تو کیا ڈاکٹر تک حیران و پریشان تھے۔ بائیں آنکھ جو چالیس فیصد سے زیادہ Damageتھی کافی حد تک ٹھیک ہو چکی تھی اور باقی محض دس فیصد سے بھی کم Damagedرہ گئی تھی۔ تیس فیصد سے زیادہ ریکوری ہو چکی تھی۔ دائیں آنکھ کا بھی یہی حال تھا۔ وہ بھی تقریباً اسی قدر بہتر ہو چکی تھی۔ ڈاکٹر کہنے لگا وہ ہزاروں مریض دیکھ چکا ہے مگر آج پہلی بار اپنی آنکھوں سے کوئی ایسا شخص دیکھا ہے جس کی Optic Nerves دوبارہ جڑی ہیں یا پیدا ہوئی ہیں۔ میڈیکل سائنس میں ہم ایسے شاذو نادر واقعات پڑھتے تھے مگر دیکھا پہلی بار ہے۔ پھر اس نے اس کی توجیہات دینے کی کوشش کی مگر پھر خود ہی کہنے لگا۔ یہ سب میں نہیں میرے اندر کا ڈاکٹر بول رہا ہے جو میڈیکل کی طے شدہ اصطلاحات سے باہر نہیں نکل سکتا مگر یہ واقعتاً معجزہ ہے معجزے کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ میں اب بھی رات کو اپنی آنکھوں میں دوا ڈالتا ہوں تو مجھے کراچی کا وہ بچہ یاد آ جاتا ہے۔ میرے بچے کئی بار میری آنکھوں سے بے تحاشا پانی بہنے کی وجہ دریافت کر چکے ہیں۔ میں انہیں کہتا ہوں کہ ایسا دوا ڈالنے سے ہوتا ہے۔ مگر میں جانتا ہوں کہ ایسا نہیں ہے۔ دعا مانگتے ہوئے میں باقاعدگی سے دعا کرتا ہوں کہ اس بچے کے ساتھ بھی ایسا کوئی معجزہ ہو جائے۔ معجزے اسی دنیا میں ہوتے ہیں۔ آپ بھی اس بچے کے لیے دعا کریں۔ اس کے ہاں معجزے بڑی معمولی چیز ہیں۔ میرے ساتھ جو معجزہ ہوا اسے دوا اور دعا کے حسین امتزاج کا بہانہ میسر تھا۔ معجزے ان بہانوں کے محتاج نہیں ہوتے مگر اس کے لیے محض ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر نہیں بیٹھا جاتا۔ معجزے من جانب اللہ ہیں مگر مقدور بھر کوشش ہم پر لازم ہے۔ جو لوگ اس رنگین دنیا کی قوس قزح کو دیکھ سکتے ہیں انہیں خدا کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرنا چاہیے۔ اس نعمت کا تو پوری طرح شکر ادا کرنا بھی ناممکن ہے۔ (ختم)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں