"KMK" (space) message & send to 7575

سولہ دسمبر کا سبق

آج سولہ دسمبر ہے ۔ سقوطِ مشرقی پاکستان کا دن۔ دنیا کی سب سے بڑی اسلامی سلطنت کے دو لخت ہونے کا دن۔ ہماری بدترین عسکری شکست کا دن اور ہماری ناکام قومی اور سیاسی پالیسیوں کے منطقی نتیجے کا دن ۔ یہ دن جہاں ہمارے لیے ایک صدمے اور افسوس کا باعث ہے وہیں ہمارے لیے ایک سبق کی حیثیت بھی رکھتا ہے جو ہم آج بیالیس سال گزرنے کے باوجود نہ تو سیکھے ہیں اور نہ ہی اس قسم کے کوئی آثار ہیں۔ سولہ دسمبر 1971ء کا دن دراصل اپنے اندر ایک سبق رکھتا ہے ۔ ڈنڈے کے زور پر ایک قومیت بنانے میں ناکامی کا سبق۔ اقلیت کے اکثریت کے جذبات روند کر یکجہتی قائم کرنے میں ناکامی کا سبق۔ محض مذہب کے ذریعے نسلی اور لسانی قومیتوں کو ایک دوسرے سے زبردستی باندھنے میں ناکامی کا سبق‘ معاشی ناہمواری اور وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم سے پیدا ہونے والی خلیج کا سبق اور تاریخ سے سبق سیکھنے کا سبق۔ لیکن صد افسوس کہ ہم نے سولہ دسمبر سے کسی قسم کا کوئی سبق نہیں سیکھا۔ تاریخ کا سب سے بدترین سبق یہ ہے کہ ہم نے تاریخ سے کبھی بھی سبق نہیں سیکھا۔
مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بن جانے میں محض چوبیس سال لگے۔ ایک عظیم تحریک کے نتیجے میں قائم ہونے والی دنیا کی دوسری مملکت جو مذہب کے نام پر وجود میں آئی مگر اس ایک بنیادی وجہ پر قائم نہ رہ سکی۔ صرف کلمے کی بنیاد پر ہم زیادہ دیر تک اکٹھے نہ رہ سکے تو اس کی کچھ وجوہ تھیں۔ جناب علی ؓ کا فرمان ہے کہ حکومت کفر سے تو قائم رہ سکتی ہے مگر عدل و انصاف کے بغیر قائم نہیں رہ سکتی۔ ہمارا معاملہ عدل و انصاف کا بھی تھا اور اغیار کی سازشوں کا بھی۔ فوجی اور سول بیورو کریسی کا بھی عمل دخل تھا اور سیاستدانوں کی خودغرضی کا بھی۔ سیاستدان دونوں طرف کے ۔ صرف مغربی پاکستان کے سیاستدانوں کا یکطرفہ معاملہ نہیں تھا۔ صرف ادھرہم ادھر تم کا نعرہ ہی نہیں تھا‘ دوسری طرف سے بھی معاملہ اسی قسم کا تھا بلکہ دوسری طرف تو یہ معاملہ بہت پہلے ہی سے شروع ہو چکا تھا۔ اے کے فضل الحق سے لے کر بھاشانی اور مجیب الرحمان تک‘ سب علیحدگی پر تلے ہوئے تھے‘ معاملہ بہت پہلے سے خراب ہو چکا تھا اور ہم نے وقت پر نہ تو اس پر توجہ دی اور نہ بہتری کی کوشش کی‘ نہ تو کچھ زبانی مرہم رکھا اور نہ ہی عملی قدم اٹھایا۔ پروپیگنڈہ اپنا زور دکھاتا رہا۔ اسلام آباد کی سڑکوں سے مشرقی پاکستان والوں کو پٹ سن کے ریشے کی خوشبو آتی رہی۔ مشرقی پاکستان کی غربت اور پسماندگی کو وہاں کے سیاستدانوں نے جی کھول کر سیاسی سٹنٹ کے طور پر استعمال کیا اور درمیانی خلیج کو وسیع کیا لیکن جب مشرقی پاکستان میں غربت اور ناانصافی کا راگ الاپا جا رہا تھا تب سندھ کا ہاری‘پنجاب کا مزارع‘ بلوچستان کا چرواہا اور خیبر پختونخوا کا مزدور بھی اسی حالت میں تھا بلکہ شاید اس سے بھی بری حالت میں۔ سرداروں‘ وڈیروں‘ جاگیرداروں اور خوانین کے پنجہ استبداد میں پھنسی ہوئی مخلوقِ خدا یہاں بھی اسی کسمپرسی اور معاشی ناہمواری کا شکار تھی جس سے بنگالی گزر رہے تھے لیکن بنگالی لیڈر شپ نے اس صورتحال کو بھر پور انداز میں استعمال کیا۔ ادھر یہ عالم تھا کہ ایک چھوٹی سی اقلیت نے جس کے قبضے میں وسائل کا بیشتر حصہ تھا اپنی امارت اور رویے سے اس پر جلتی پر تیل ڈالا۔ عوامی جذبات کو اور بگڑے معاملات کو غلطیوں کی درستی سے سنبھالنے کے بجائے ڈنڈے کے زور پر ختم کرنے کی کوشش کی گئی اور اپنے ایک بازو کے ساتھ کسی نو آبادی کی طرح کا سلوک کیا گیا۔ نتیجہ وہی نکلا جو نکلنا چاہیے تھا۔ سولہ دسمبر 1971ء کو یہ نتیجہ آئوٹ ہو گیا۔
لیکن یہ سب کچھ صرف ایک پہلو ہے۔ پاکستانی سیاستدانوں کی نالائقیاں ‘ فوجی اور سول بیورو کریسی کی حماقتیں‘ پنجابی اسٹیبلشمنٹ کی خرابیاں اور سب سے بڑھ کر پورے صوبے میں اٹھنے والے علیحدگی کے جذبات کو بندوق کے زور پر کچلنے کا پاگل پن۔ ان سب باتوں پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ دانشور‘ لکھاری‘ تجزیہ نگار‘ مورخ اور محقق اس پر بہت کچھ لکھ چکے ہیں۔ لبرل دانشور تو اس معاملے پر فوج کو اس حد تک رگید چکے ہیں کہ الامان۔ لیکن معاملات کسی حد تک درست ہونے کے باوجود بہرحال ایسے نہیں کہ صرف اور صرف ایک فریق پر سارا ملبہ ڈال دیا جائے۔ فوجی آپریشن میں ہونے والی خرابیوں‘ زیادتیوں اور ناانصافیوں کی کوئی دلیل نہیں دی جا سکتی مگر فریق ثانی نے جو کچھ کیا وہ محض ایک طرف کی زیادتی سے دھل نہیں جاتا۔ دو طرفہ زیادتیوں کا مطلب دو طرفہ زیادتی ہی ہوتا ہے۔ مکتی باہنی نے جو کچھ کیا اور بھارتی در اندازوں نے مشرقی پاکستان میں شروع ہونے والے فوجی آپریشن سے پہلے جو کچھ کیا وہ بھی ایک نہایت خوفناک اور بدترین صورتحال کی نقشہ کشی کرتا ہے۔ محب وطن بنگالیوں اور اجتماعی طور پر غیر بنگالیوں کا قتل عام‘ اغوا‘ آبروریزی اور گھر جلانے کے بے شمار اوران گنت واقعات‘ بہاریوں کا اجتماعی قتل عام‘ متحدہ پاکستان کے حامیوں کی ٹارگٹ کلنگ‘ لوٹ مار ‘ گھیرائو جلائو اور مکمل لاقانونیت۔ یہ سب کچھ بھارتی ایجنسیوں اور بھارت کے تربیت یافتہ مکتی باہنی کے دہشت گردوں کے کارنامے تھے جن پر ہمارے روشن خیال دانشور بات تک نہیں کرتے اور سارا ملبہ پنجابی فوج پر ڈال کر باقی سب کو مکمل طور پر بری الذمہ قرار دے دیتے ہیں۔ صورتحال غیر معمولی تھی۔ یوں سمجھیں کہ کھلی جنگ تھی اور'' جنگ میں سب کچھ جائز ہوتا ہے‘‘۔ یہ محاورہ میں نے ایک تاریخی حقیقت کے طور پر لکھا ہے نہ کہ کسی زیادتی کو Justifyکرنے کے لیے ۔ پاک فوج کو بھی وہ کچھ نہیں کرنا چاہیے تھا جو ایک بدنامی کے جھومر کی طرح آج ہمارے ماتھے پر سجا ہوا ہے لیکن جنگ میں اگر اعلیٰ اخلاقی قدریں مَسلی جائیں تو یہ حیران کن ہرگز نہیں۔
کم از کم پانچ لاکھ محب وطن بنگالی اور غیر بنگالی مکتی باہنی کے روپ میں بھارتی ایجنٹوں کے ہاتھوں مارے گئے۔ ہزاروں بہاریوں کے گھر جلا دیے گئے اور بیالیس سال قبل کے اعمال پر آج تک فوج کو رگیدنے والے اس بات پر مکمل خاموش ہیں کہ پچھلے بیالیس سال سے یہ غیر بنگالی عرف بہاری بنگلہ دیش میں تعلیم‘ بنیادی سہولتوں ‘ آئینی تحفظ اور انسانی حقوق کے بغیر جھونپڑیوں‘ ٹین کے شیلٹروں اور کھلے میدانوں میں پڑے ہیں‘ مگر کسی انسانی حقوق کے علمبردار کو نہ تو یہ نظر آتے ہیں اور نہ ہی کوئی ان کے لیے آواز اٹھاتا ہے۔ معاشی ناہمواری‘ ناانصافی اور استحصال کے نعرے پر آزادی حاصل کرنے والے بنگلہ دیش کی صورتحال آج کیا ہے۔ ملک میں ابھی تک اسّی فیصد آبادی کو بجلی بھی میسر نہیں۔ لاکھوں بنگالی عورتیں دنیا بھر کے بازاروں میں فروخت ہو رہی ہیں اور دنیا بھر میں غیر قانونی طور پر دوسرے ممالک میں سمگل ہو کر جانے والوں میں بنگالی شاید پہلے نمبر پر ہیں۔ پاکستانی یہاں سے نکل کر یورپ‘ امریکہ‘ کینیڈا‘ آسٹریلیا اور برطانیہ وغیرہ جانا چاہتے ہیں اور بنگالیوں کے لیے پاکستان پہنچ جانا بھی جنت کے برابر ہے۔
مشرقی پاکستان اب قصہ ماضی ہے۔ اب وہ بنگلہ دیش ہے۔ میری نسل کے لوگ جو شاید اس قبیل کی آخری نسل ہے‘ اسے مرتے دم تک مشرقی پاکستان ہی سمجھتے رہیں گے۔ ہم نے اسے علیحدہ ہوتے دیکھا۔ آج بلوچستان میں حالات ویسے ہی ہیں۔ بلوچوں کی محرومی‘ قوم پرستوں کی انتہا پسندی‘ ایجنسیوں کی نااہلی‘ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی غلط پالیسیاں‘ سیاستدانوں کی خود غرضی ‘ حالات کا ادراک کرنے میں تاخیر‘ بروقت تدارک میں ناکامی اور خلوص نیت سے درستی کی طرف کسی قسم کی پیشرفت کا نہ ہونا۔ ہم نے 16دسمبر 1971ء سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا۔ لوگوں کو غائب کرنا‘ مسخ شدہ لاشیں پھینکنا اس کا حل نہیں بلکہ یہ معاملات تو مزید خرابی کی طرف لے جا رہے ہیں۔ لیکن اس کا جواب یہ نہیں کہ غیر بلوچوں کی لاشیں پنجاب‘ سندھ‘ اور خیبر پختونخوا میں بھیجی جائیں۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو سقوط مشرقی پاکستان سے‘ بلوچ علیحدگی پسندوں کو بنگالیوں کی موجودہ صورتحال سے اور سیاستدانوں کو اپنے ماضی سے سبق سیکھنا چاہیے۔ گو کہ یہ ایک مشکل کام ہے خاص طور پر ہمارے لیے لیکن اس کے علاوہ ہمارے پاس اور کوئی قابل عمل حل ہے بھی نہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں