"KMK" (space) message & send to 7575

ایک حق گو سیاسی غلام زادے سے گفتگو

ہمارے ملک میں دنیا کے سب سے عجیب سیاسی کارکن پائے جاتے ہیں۔اول تو اپنے لیڈر کی کسی خرابی کو تسلیم نہیں کرتے ، اسے دشمنوں کی سازش‘مخالفین کا پراپیگنڈہ اور عالمی استعمار کی مہم قرار دیتے ہیں، ملکی صورتحال میں ہرطرح کی ناکامی‘نالائقی اور خرابی کا قصوروارگزشتہ حکومت کوقرار دیتے ہیں اور اپنے لیڈراور پارٹی کو سو فیصد بری کر دیتے ہیں۔محض دوچار فیصد ایسے ورکر ہوتے ہیں جوکسی نہ کسی طرح اپنے لیڈر کی یا اپنی پارٹی کی کسی ناکامی‘نالائقی اور نا اہلی کو بادل نخواستہ تسلیم توکر لیتے ہیں مگر پارٹی چھوڑنے یا لیڈر بدلنے سے پھر بھی انکار کر دیتے ہیں۔ بمشکل تسلیم کر لینے کے بعد کہ ان کی پارٹی اور لیڈر کے دورحکومت میں خرابیاں ہوئیں‘منشور میں کیے گئے وعدے پورے نہیں ہوئے؛ بدعنوانی‘مہنگائی‘ بے روزگاری بڑھی اورامن و امان کی صورت حال مزید خراب ہوئی؛یہ سب تسلیم کر لینے کے بعد فرمائیں گے کہ آپ کی باتیں کسی حد تک درست ہیں لیکن ہماری کارکردگی دوسروں سے (پیپلز پارٹی اورمسلم لیگ ن والے اپنا موزانہ ایک دوسرے سے کرتے ہیں)بہتر ہے۔گویا مقابلہ مثبت نہیں، منفی معاملات پر ہے؛ کون زیادہ بہترہے،اس پرکوئی مقابلہ نہیں۔کون کم خراب ہے پر مقابلہ ہوتا ہے۔
پارٹیاں بدلنے والے خواہ لیڈراورنمائندے ہوں یا عام کارکن، ننانوے اعشاریہ ننانوے فیصد پارٹی بدلنے اور چھوڑنے والوں کا معاملہ بالکل ذاتی ہوتا ہے۔کبھی یوں کہ کسی کا مخالف پارٹی میں شامل ہوکراس سے آگے نکل گیا،اس کی ٹکٹ کسی اورکو دے دی گئی، کوئی بالکل ذاتی نوعیت کا کام نہ ہو سکا، اس کے کسی مخالف کو اس پرترجیح دے دی گئی یا اسی قسم کی کوئی ذاتی مخاصمت یا مخالفت۔ یہ اوربات ہے کہ پارٹی چھوڑنے والااپنے بیان کی حد تک پارٹی چھوڑنے کی وجوہ میں قومی مفادات‘ملکی سلامتی اور قومی عزت و وقار جیسی اعلیٰ اقدارکا ڈھنڈورا پیٹتا ہے لیکن یہ سوفیصد جھوٹ ہوتا ہے۔ ہم صرف اورصرف ذاتی معاملات پراپنے سیاسی قائدین سے راہیں جداکرتے ہیں، قوم و ملک کے ساتھ جو بھی بیت جائے ہمیں اس کی کبھی رتی برابر پروا نہیں ہوتی۔ ہاں البتہ یہ ہوتا ہے کہ پارٹی کے اندرونی اختلافات کے باعث بعض جیالے اور متوالے کبھی کبھار پھٹ پڑتے ہیں ، اندر کے کچے چٹھے کھولتے ہیں ، ٹاپ لیڈرکوچھوڑکر نیچے کی سطح کے لیڈروں کو ننگا کرتے ہیں ، لیکن وہ بھی اس جدوجہداوربہادری کے بعد بڑے فخر سے اعلان کرتے ہیں کہ اس ساری ناانصافی ‘دھاندلی‘نالائقی اورنااہلی کے باوجود نہ تو اپنی پارٹی چھوڑیں گے اور نہ ہی ٹاپ لیڈر کے بارے میں کوئی بات برداشت کریں گے۔
دوسرے درجے کی لیڈر شپ کا کچا چٹھا کھولنے میں جیالوں کا اپنا ایک مقام ہے۔ ٹاپ لیڈرکوچھوڑکرجیالے جس دھواں دھار جمہوری طرزعمل کا مظاہرہ کرتے ہیں دوسری پارٹیوں میں کم ہی نظرآتا ہے۔ تقریباً ہراجلاس میں مارکٹائی ہوتی ہے اور پارٹی کی بربادی کے الزام میں کئی لیڈروں کی طبیعت صاف کی جاتی ہے۔ پیپلز پارٹی کی بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ عوامی سطح پر ہونے والی جوت پیزارکے بعدکارکنوں کے شدید ردعمل پرپارٹی کی دوسرے درجے کی لیڈر شپ کو تبدیل توکر دیتی ہے مگر یہ صرف فارغ کیے جانے والے لیڈرکی حد تک ہوتا ہے، نئے لیڈرکو مسلط کرتے وقت ٹاپ لیڈر شپ پھر اپنا فیصلہ سناتی ہے اور جیالے اس فیصلے کو پھر تہ دل سے تسلیم کر لیتے ہیں۔ اس کی تازہ مثال پیپلز پارٹی پنجاب کے صدرمیاں منظور وٹواورمرکزی جنرل سیکرٹری لطیف کھوسہ ہیں۔ہردو شخصیات ورکرزکو پہلے دن سے ناپسند ہیں مگر لیڈر شپ کا فیصلہ تھا،سب نے ٹھنڈے پیٹوں برداشت کیا۔
مسلم لیگ ن کا معاملہ مختلف ہے۔اکثریت چوری کھانے والے مجنوئوں کی ہے۔ لیڈر شپ سے لے کر کارکن تک ‘سچ بولنے‘ قربانی دینے اور مشکلات کا سامنا کرنے والوں کی شرح بہت کم ہے۔یہ پیشہ ورکاروباریوں کی پارٹی ہے، معاملات میں نفع نقصان کا حساب کرنے کے بعد ہی کوئی قدم اٹھانے کی ہمت کرتے ہیں۔اوپرسے نیچے تک تقریباً یہی حال ہے۔ قربانی دینے والوں کی شرح تمام سیاسی پارٹیوں میں شایدکمترین سطح پر ہے؛البتہ مفاد پرستی کی شرح شاید سب سے بلند ہے۔
گزشتہ روز ایک جیالے سے ملاقات ہوئی،ڈیرہ غازی خان کا حال سنا رہا تھا۔کہنے لگا ،تھوڑا عرصہ پہلے جنوبی پنجاب کی ایگزیکٹو کونسل کااجلاس تھا۔ملک عامرڈوگر نے جو پیپلز پارٹی جنوبی پنجاب کا جنرل سیکرٹری ہے، ملتان میں سیکرٹریٹ بنایا ہے، وہیں اجلاس تھا۔مخدوم شہاب الدین اور یوسف رضا گیلانی بھی اجلاس میں آئے ہوئے تھے۔ اجلاس میں بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے منصوبہ بندی پر بات ہو رہی تھی، ڈیرہ غازی خان کے ضلعی صدر شبلی شب خیزغوری سے پوچھاگیا کہ ڈیرہ غازیخان میں کیا ہو رہا ہے اورکیا توقعات ہیں؟شبلی ذرامختلف قسم کا جیالا ہے،کہابراحال ہے، پارٹی برباد ہو چکی ہے،کارکن کا مورال گر چکا ہے اور یہ سب ہماری اپنی وجہ سے ہے،ہمارے ڈیرہ غازی خان سے تعلق رکھنے والوں کے باعث ہے۔لطیف کھوسہ کوکہیں کہ وہ ڈیرہ غازی خاں آئے اور بلدیاتی الیکشن کی مہم چلائے،الیکشن کمپین کی قیادت کرے۔ مشیر رہا ہے‘اٹارنی جنرل رہا ہے‘ گورنر رہا ہے اور''مرے پر سو درے‘‘ کے مصداق اب پارٹی کا سیکرٹری جنرل ہے، ڈیرہ غازیخان سے ہے، یہاں اپنے تمام رشتہ داروں‘ عزیزوں اور قریبی دوستوںکونوکریاں دلوانے ‘ ترقیاں دلوانے اورفائدے پہنچانے میں مصروف رہا ہے۔اسے بلائیں اور یہ مہم اس کے سپردکریں،ہم تو یہ مہم چلانے سے قاصر ہیں۔ حاضرین مجلس نے ان جملوں کا لطف لیااورقہقہے لگائے۔ مخبروں نے یہ بات لطیف کھوسہ تک پہنچا دی۔ شنید ہے کہ لطیف کھوسہ نے حاضرین مجلس کے قہقہے لگانے کا برامنایا،مستعفی ہونے کی دھمکی دی اورڈیرہ غازی خان کے ضلعی صدرکے خلاف تادیبی کارروائی کا مطالبہ کردیا۔
جنوبی پنجاب کے جنرل سیکرٹری ملک عامر ڈوگر نے شبلی شب خیزغوری کواظہار وجوہ کا نوٹس بھجوا دیا کہ آپ نے جنرل سیکرٹری پر بے بنیاد الزامات لگائے ہیں۔ شبلی نے جواب بھجوایا کہ میں نے توکوئی الزام نہیں لگایا،میں نے توصرف حقائق بیان کیے ہیں کہ وہ وزیراعظم کے ایڈوائزر، اٹارنی جنرل اور گورنر رہے ہیں اور یہ حقیقت ہے۔ اب جنرل سیکرٹری ہیں، یہ بھی حقیقت ہے۔ میں نے تو صرف یہ کہا کہ ڈیرہ غازیخان آئیں اور بلدیاتی انتخابات کی مہم چلائیں۔بھلااس میں الزامات کہاں ہیں؟وہ جیالاکہنے لگا الزامات کے ثبوت تو نہیں ہوتے مگر زبان زد عام تو ہوجاتے ہیں۔ لطیف کھوسہ کے بارے میں بڑی مصدقہ اطلاعات ہیںکہ انہوں نے ایک ناموراورایلیٹ کلاس کے تعلیمی ادارے میں بحیثیت گورنر لوگوں کے بچے داخل کروانے کے لیے اپنے ٹائوٹوں کے ذریعے اوربراہ راست بڑی رقوم وصول کیں۔ لیکن کیونکہ ایسی باتیں ثابت نہیں ہو سکتیںاورایسی ادائیگیوں کی رسیدیں نہیں ہوتیں لہٰذایہ بات اعلیٰ لیڈر شپ تک نہیں پہنچائی گئی۔
وہ جیالا کہنے لگا:لطیف کھوسہ کی گورنری کے دوران کوئی بات ہوئی تووہ کہنے لگا مجھے گورنری مفت یاخیرات میں نہیں ملی، میں نے بی بی اور زرداری کے کیس مفت لڑے ہیں۔ یہ بات کسی نے فریال تالپور سے کہہ دی، ساتھ یہ بھی کہا کہ بی بی اب اس دنیا میں نہیں ہے،ان کے مقدمات کی فیس ہم ورکرز اکٹھی کرکے لطیف کھوسہ کو دے دیں گے۔ زرداری صاحب زندہ ہیں،انہیں کہیں کہ وہ لطیف کھوسہ کو اپنے مقدمات کی فیس ادا کر دیں کیونکہ وہ ان مقدمات کی فیس نہ لینے کو اپنی گورنری کے عہدے کی ادائیگی قرار دے رہا ہے۔ جیالے نے بتایاکہ اگلے دن لطیف کھوسہ کی وہ طبیعت صاف ہوئی کہ خدا کی پناہ۔
وہ جیالا کہنے لگا: لطیف کھوسہ نے اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں میں نوکریاں بانٹیں،کام کروائے اور فوائد پہنچائے، کسی عام ورکرکا کام نہ کیا، نتیجہ یہ نکلا کہ ڈیرہ غازی خان بارکونسل کے الیکشن میں اس کا بھائی نسیم کھوسہ ایک عام سے وکیل سے بری طرح ہارگیا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اس نے جن جن رشتہ داروںکونوکریاں دلوائیں وہ آج پیپلز پارٹی کے مخالفین کے ساتھ کھڑے ہیں، مخالف امیدواروں کی حمایت کر رہے ہیں۔اس جیالے نے لطیف کھوسہ کے بارے میں ایسی ایسی ہوشربا باتیں کہیں کہ لکھنے سے قاصر ہوں۔ پیسے اینٹھنے سے لے کران موضوعات تک جن کا اشاراتاً بھی ذکرنہیں ہوسکتا۔ اٹھتے اٹھتے کہنے لگا،آپ کو ایک مزیدار بات بتائوں؛ لطیف کھوسہ کو جب زرداری صاحب گورنری سے فارغ کرنے لگے تواس نے زرداری صاحب سے درخواست کی کہ اسے گورنر بنے تیئس ماہ اورکچھ دن ہوئے ہیں،اگر اسے صرف بائیس تیئس دن مزید گورنر رہنے دیا جائے تو دو سال پورے ہو جائیں گے اور وہ بحیثیت سابق گورنرکئی سہولتوں کا حقدار ہو جائے گا،مگر زرداری صاحب نے سنی ان سنی کر دی۔
میں نے اس سے پوچھا،کیا آپ نے پیپلز پارٹی چھوڑ دی ہے؟ وہ ایک دم تائوکھا گیا اورکہنے لگا کہ کسی کے باپ کی پارٹی نہیں کہ میں یا کوئی اور جیالا کسی لطیف کھوسے جیسے شخص کی خاطر چھوڑ دے۔ یہ بھٹو شہیدکی پارٹی ہے، محترمہ بے نظیر شہید کی پارٹی ہے، زرداری صاحب کی پارٹی ہے، یہ پارٹی ہمارے جسم کا حصہ ہے، ہمارے خون میں دوڑتی ہے۔ میں نے کہا آپ ایک بار پھرکہیں کہ یہ زرداری صاحب کی پارٹی ہے۔ وہ کہنے لگا ہاں!یہ زرداری کی پارٹی ہے بلکہ بلاول بھٹو زرداری کی پارٹی ہے، آصفہ کی پارٹی ہے۔
میں نے کہا،اگر میں خلق خدا کی سنائی کہانیوں کا محض دس فیصد بھی سچ مان لوں تو آصف زرداری کا مقام لطیف کھوسہ سے بلند ہو سکتا ہے۔ جیالا ہتھے سے اکھڑگیااورکہنے لگا، میں آپ کا احترام کرتا ہوں مگر میں آپ کو یہ اجازت نہیں دوںگا کہ آپ میری لیڈر شپ کے بارے میں جھوٹے الزامات پر یقین کریں اور اس حوالے سے مجھے قائل کرنے کی کوشش کریں۔ میں نے کہا،جس پارٹی میں آپ جیسے حق گو سیاسی غلام زادے ہوں وہاں کچھ کہنا اور بہتری کی امید رکھنا عبث ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں