"KMK" (space) message & send to 7575

میاں یہ پاکستان ہے

رسول اللہؐ کے فرمان کا مفہوم یہ ہے: ''کوئی شخص دنیا سے ایسے نہ جائے گا کہ اس کے معاملات آشکار نہ کر دیے جائیں‘‘۔ سو بزدل اور بہادر آشکار ہو رہے ہیں۔ برادر بزرگ کا کہنا ہے کہ بہادر زبان سے نہیں، عمل سے اپنی بہادری اور دلیری کا ثبوت دیا کرتے ہیں۔ بہادر اپنی زبان سے بلند بانگ دعوے نہیں کیا کرتے۔ بہادروں کی بہادری کے گن زمانہ گاتا ہے۔ بزدل اور ڈرپوک کتنے ہی بلند بانگ دعوے کیوں نہ کریں‘ ان کی بزدلی ایک دن آشکار ہو کر رہتی ہے ۔۔۔اور ایسا ہی ہوا ہے۔ کراچی میں قتل عام کے بعد رات کو ''حالت بہادری‘‘ میں مکے دکھانے والے کو جب پتا چلا کہ معاملات ویسے نہیں جیسے وہ گمان کر رہا تھا تو طبیعت صاف ہوگئی۔ 
اب تک یہ بات کسی کی سمجھ میں نہیں آئی کہ جنرل (ر) پرویز مشرف کو دھکا کس نے دیا تھا؟ واپس آنے کی وجوہ کیا تھیں اور وہ کس زعم میں واپس آیا تھا؟ اس کی سیاسی پارٹی کو عوام میں پذیرائی حاصل تھی‘ نہ اس کے سیاسی مقلدوں کو عوامی حمایت؛ وردی تھی نہ اس کے زور پر آئین کی الٹ پلٹ کا غیر آئینی اختیار۔ تو پھر وہ کس بل بوتے پر واپس آیا؟ اسے یہ مشورہ کس نے دیا؟ گمان ہے کہ وہ ماضی کی خوش فہمیوں اور مال اینٹھنے والے دو چار مقامی لیڈروں کے دکھائے گئے سبز باغ کا شکار ہوگیا۔ شاید وہ اپنے اندرکی بزدلی کو ظاہری بہادری سے چھپانے کی کوششںکر رہا تھا۔ 
ماہرین نفسیات اور تحلیل نفسی والے ایسے ہی فارمولے پر عمل کرتے ہیں۔ جس شخص کو نیند نہ آتی ہو اسے کہا جاتا ہے کہ وہ خاموشی سے لیٹ جائے‘ آنکھیں بند کر لے اور دل ہی دل میں مسلسل یہ دہراتا رہے کہ میں سو رہا ہوں، میں سو رہا ہوں، میں سو رہا ہوں... یہی بات شاید جنرل (ر) پرویز مشرف کے دماغ میں بیٹھ گئی تھی کہ بہادر بننے کے لیے ضروری ہے کہ وہ بار بار اس کا اعادہ کرتا رہے؛ چنانچہ جنرل صاحب موقع ہو یا نہ ہو، یہ بات دہرانا نہ بھولتے کہ ''میںکسی سے نہیں ڈرتا‘‘ عوامی جلسے میں بلٹ پروف جیکٹ پہن کر‘ بلٹ پروف سٹیج پر کھڑے ہوکر‘ سینکڑوں کمانڈوزکے حصار میں‘ شربت بہادری پی کر، مکے لہرا کر بہادری کے دعوے کرنے سے اگر انسان واقعتاً بہادر ہو سکتا ہے تو اپنے جنرل صاحب بڑے بہادر تھے۔ 
صدام حسین سے ہزار اختلاف سہی مگر اس کی آخری وڈیو دیکھ کر کم از کم یہ عاجز تو اس کی بہادری کا قائل ہو گیا تھا۔ پھانسی دینے والوں کے ہجوم میں ایک وہی شخص تھا جو پورے قد سے کھڑا تھا اور بے خوفی اس کے چہرے سے عیاں تھی۔ دوسری طرف ہمارے لیڈروں کا عالم یہ ہے کہ میاں نواز شریف طیارہ کیس میں (خواہ وہ جھوٹا ہی تھا) سزا سننے کے بعد ہاتھ پائوں پھلا بیٹھے اور افراتفری میں سو صندوق اور صدیق مالشیے کو ہمراہ لے کر اس پھرتی سے جدے روانہ ہو گئے کہ ان کی پارٹی کے سرکردہ لوگوں کو بھی ٹی وی دیکھ کر پتا چلا کہ ان کا لیڈر انہیں بے آسرا چھوڑکر سعودی عرب جا رہا ہے۔ شہادتوں کی داستانیں سنانے والی پیپلز پارٹی کے قائد بلکہ قائد عوام اور فخر ایشیا کو سٹریچر پر لٹا کر پھانسی گھاٹ پر لے جایا گیا۔ اب کوئی لاکھ بہادری کے گن گائے‘ قصے بیان کرے اور تاریخ کو الٹانے پلٹانے کی کوشش کرے سچائی بالآخر لوگوں تک پہنچ جاتی ہے۔ 
کوئی ربع صدی قبل میں نے سب رنگ ڈائجسٹ میں ایک کہانی پڑھی تھی۔ کہانی کا پلاٹ اور مجموعی تاثر ابھی تک ذہن میں ہے۔ کسی بدنام زمانہ جرائم پیشہ فیملی کا بیٹا بزدل اور ڈرپوک ہوتا ہے۔ فیملی جو اپنی بے خوفی اور بہادری کی شہرت رکھتی ہے، اپنے بیٹے کو جرائم کی دنیا سے بالکل الگ تھلگ رکھتی ہے اور اسے اپنے کسی معاملے میں شریک نہیں کرتی۔ انہیں علم ہوتا ہے کہ اس لڑکے میں جرائم سے متعلق معاملات کو چلانے کی ہمت ہے نہ صلاحیت۔ شومئی قسمت کہ اس سے ایک قتل ہو جاتا ہے، لڑکا ڈر جاتا ہے۔ موقع کے گواہ موجود ہوتے ہیں اور اس کا بچ نکلنا ممکن نہیں ہوتا۔ فیملی کو اس لڑکے کے ساتھ ساتھ اپنی ''عزت‘‘ کا بڑا خیال ہوتا ہے، انہیں اس کی پھانسی یا عمر قید سے زیادہ فکر یہ ہوتی ہے کہ جیل‘ حوالات اور عدالت میں اس لڑکے کی بزدلی اورکم ہمتی سے خاندان کا سارا امیج تباہ ہو جائے گا۔ ان کا خاندانی وکیل اس مسئلے کو حل کرنے کا بیڑا اٹھا لیتا ہے۔ 
وہ جیل میں جا کر نوجوان سے ملتا ہے اور اسے بتاتا ہے کہ اس کی رہائی کا بندوبست کر لیا گیا ہے۔ کہانی لمبی ہے، مختصراً یہ کہ نوجوان پہلے اپنے وکیل کی باتوں کا یقین نہیں کرتا مگر وہ کسی نہ کسی طرح اسے یقین دہانی کروا دیتا ہے کہ جیل والوں کے ساتھ معاملہ طے ہو گیا ہے، وہ عدالت میں اقبال جرم کر لے۔ لڑکا ہر قدم پرگھبراتا ہے، بری طرح کانپتا ہے مگر وکیل اسے بالآخر قائل کر لیتا ہے کہ اسے سزائے موت ہونے کی صورت میں ہی اس کا مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔ عمر قید کی صورت میں اس کا بچنا ناممکن ہے، اسے پچیس سال جیل میں گزارنے پڑیں گے۔ وکیل کہتا ہے، جب اسے پھانسی گھاٹ پہنچایا جائے گا تو وہاں سے اصل معاملات شروع ہوں گے۔ اس کے گلے میں رسی ڈالی جائے گی (لڑکا اس مقام پر تقریباً بے ہوش ہو جاتا ہے) پھر اس کے پائوں تلے سے تختہ کھینچ لیا جائے گا (لڑکے کی چیخ نکل جاتی ہے) لیکن رسی کی لمبائی معمول سے زیادہ ہو گی، ہوا میں معلق ہونے کے بجائے اس کے پائوں زمین پر ٹک جائیں گے۔ تھوڑی دیر بعد اس کے گلے سے رسی کھول کر لٹا دیا جائے گا۔ ڈاکٹر اس کی موت کی تصدیق کر دے گا، سپرنٹنڈنٹ اس کے موت کے سرٹیفکیٹ پر دستخط کر دیں گے اور اسے گھر لے آیا جائے گا۔ اس کی جگہ کسی اور شخص کی تدفین کر دی جائے گی اور اسے کسی دور دراز کے خوبصورت جزیرے پر بھجوا دیا جائے گا جہاں وہ باقی عمر آرام سے بسر کرے گا۔ 
وہ لڑکا عدالت میں بڑی بہادری سے اقرار جرم کرتا ہے۔ جیل میں بڑے حوصلے سے وقت گزارتا ہے اور پھانسی گھاٹ تک بڑے مزے سے ہنستا کھیلتا اپنے پائوں پر چل کر جاتا ہے۔ جیل کا سارا عملہ اس کی بہادری اور حوصلے پر حیران ہوتا ہے، وہ خود جلاد کی مدد کرتے ہوئے اپنے گلے میں رسی اور چہرے پر نقاب ڈالتا ہے۔ جب تختہ اس کے پائوں تلے سے کھینچا جاتا ہے تو اس کے پائوں زمین پر نہیں لگتے اور وہ ہوا میں معلق ہو جاتا ہے۔ اسے تب پتا چلتا ہے کہ اس کے ساتھ کیا ہوا لیکن تب تک دیر ہو چکی ہوتی ہے۔ صبح کے اخبارات میں خبر لگتی ہے کہ اس نے کس بہادری اور جرأت سے سزائے موت کا سامنا کیا۔ 
ہمارے کئی لیڈروں کو بھی اسی قسم کی غلط فہمیوں اور ہوائی یقین دہانیوں نے بہادر بنائے رکھا مگر ان کی بدقسمتی یہ تھی کہ انہیں پھانسی گھاٹ پر پہنچنے سے پہلے ہی پتا چل گیا کہ ان کی رسی اتنی لمبی نہیں جتنی بتائی جا رہی ہے، ان کی ساری بہادری ہوا ہو جاتی ہے۔ کوئی سٹریچر پر پھانسی گھاٹ جاتا ہے‘ کوئی سو صندوق لے کر جدے نکل جاتا ہے اور کوئی عدالت جاتے جاتے ہسپتال چلا جاتا ہے۔ 
اللہ جانے کیا سچ ہے اور کیا جھوٹ۔ ایک باخبر آدمی کا کہنا ہے کہ راول ڈیم سے اے ایف آئی سی راولپنڈی کی جانب ''اچانک‘‘ گاڑیاں موڑنے سے آدھ گھنٹہ قبل ہی صہبا مشرف ہسپتال پہنچ چکی تھیں۔ مگر ایک اور باخبر کا کہنا ہے کہ یہ بیماری بالآخر پرویز مشرف کو جہاز پر چڑھانے میں کامیاب ہو جائے گی کہ اس کی بچت اب صرف جہاز پر چڑھنے میں ہی ہے کیونکہ آرٹیکل 6 کی صرف دو سزائیں ہیں۔۔۔ سزائے موت یا پچیس سال قید، تیسرا راستہ کوئی نہیں۔ بریت کے معاملے پر (غیرجانبدار) وکلاء جو بتاتے ہیں وہ خاصا حوصلہ شکن ہے۔ تمام ثبوت واضح ہیں۔ ایمرجنسی کی آئین میں گنجائش نہیں تھی جس کا لگایا جانا ثابت ہے۔ یہی کافی ہے۔ 
ایک واقف حال کا کہنا ہے کہ چک شہزاد سے ملنے والے دھماکہ خیز مواد کا معاملہ جنرل صاحب کو مارنے والوں سے نہیں بچانے والوں سے ہے۔ اللہ ہی جانتا ہے کہ کیا ہونے والا ہے مگر شنید ہے کہ جنرل پرویز مشرف اپنا سارا ' فیوچر پلان‘ اچانک آنے والے جہاز سے وابستہ کیے بیٹھے ہیں۔ کیا یہ ممکن ہے؟ جواب ملا خود جہاز پر چڑھ کر بھاگنے والے کسی دوسرے کو جہاز پر چڑھنے سے کیسے روک سکتے ہیں؟ ریمنڈ ڈیوس جیسے قاتل اور جاسوس کوجہاز پر چڑھایا جا سکتا ہے، پرویز مشرف تو ریٹائرڈ جنرل ہے۔ میاں، یہاں کچھ بھی ناممکن نہیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں