"KMK" (space) message & send to 7575

ایک کڑا امتحان اور صدرِ پاکستان کی مصروفیت

''جب انسان بچشم خود لغو سے لغو حرکت اور کرتوت دیکھ کرنہ توآزردہ ہو‘نہ طیش میں آئے اور نہ ماحول پر لاحول پڑھے تو اس کی دو وجہیں ہو سکتی ہیں۔ پہلے ہم دوسری وجہ بیان کریں گے اور وہ یہ کہ اب وہ جہاں دیدہ‘بردبار اور درگزر کرنے والا ہو گیا ہے اورپہلی وجہ یہ کہ وہ حرکت اس کی اپنی ہے‘‘۔یہ خوبصورت جملہ بلکہ انکشاف میرا نہیں،اردو مزاح کے ماتھے کے جھومر مشتاق احمد یوسفی کا ہے۔ آج کل ملک عزیز میں یہی کچھ ہو رہا ہے۔
خود دس سال تک ملک میں واپس نہ آنے اور سیاست میں حصہ نہ لینے کا معاہدہ کر کے سعودی عرب بھاگ جانے والے اور سات آٹھ سال تک ایسے کسی معاہدے سے یکسر انکار کرنے والے میاں نواز شریف اور ان کے حواری اب ڈیل کے منتظر اور سعودی عرب کی جانب سے کسی ویسے ہی معاہدے کے منتظر جنرل (ر) پرویز مشرف کو ''بہادر بن بہادر‘‘کا درس پڑھانے میں مصروف ہیں۔ انہیں اپنے معاہدے ‘بزدلی‘ بھگوڑا پن اور جھوٹ نہ تو یاد ہیں اور نہ وہ اس پر رتی برابر شرمندہ ہی ہیں۔ الٹا وہ اپنے اس بزدلانہ فعل کو اسی طرح دلفریب(Glamourised)بنا رہے ہیں جس طرح ہٹلر سے دھلائی کروانے کے بعد جب اتحادی افواج یورپ سے بھاگیں اور برطانیہ جا کر پناہ لی تو انہوں نے اپنے اس میدان چھوڑ کر بھاگنے کی داستان بھی اسی فخرو انبساط اور دل فریب انداز میں اپنی بہادری کے پیرائے میں لکھی کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ میں نے بی اے میں اپنی انگریزی کی کتاب میں اسی موضوع پر ایک بہادرانہ مضمون پڑھا کہ اتحادی افواج نے یورپ سے بھاگتے وقت فرانس کی بندرگاہ ''ڈنکرک‘‘کا راستہ استعمال کیا اور کس عظمت‘بہادری‘ڈسپلن اور جوش و جذبے کے ساتھ بھگوڑے پن کے بزدلانہ فعل کو بہادری اور شجاعت میں بدل کر رکھ دیا۔ مضمون کا نام تھا Evacuation from Dunkrikیعنی ''ڈنکرک سے انخلاء‘‘، حقیقتاً اس مضمون کا نام ''ڈنکرک سے پسپائی‘‘یا ڈنکرک سے فرار ہونا چاہیے تھا۔ جرمنوں نے فرانس اور انگلینڈ کی مشترکہ فوج کی جس کی چار برطانوی افسر Lord Gort, Bertram Ramsay, Harold Alexender اور William Tannantقیادت کر رہے تھے‘ جی بھر کر دھلائی کی اور سرزمین فرانس چھوڑ کر بھاگنے پر مجبور کر دیا۔یہ فرار27 مئی سے 4 جون 1940ء تک یعنی آٹھ دن جاری رہا۔ بعد میں اتحادی فاتح قرار پائے اور یہ پسپائی بھرا فرار فاتحین کا عظیم کارنامہ ٹھہرا۔
اسی طرح ہمارے بعض عقل سے فارغ سیاسی کارکن اور جیالے متوالے اپنے اپنے لیڈروں کی بزدلی‘ڈیل‘ کمزوری اور بھگوڑے پن میں سے جس طرح بہادری‘شجاعت‘ دلیری اور عظمت برآمد کرتے ہیں‘ تقریباً سینتیس برس قبل پڑھا ہوا انگریزی مضمون پھر یاد آ جاتا ہے۔ میاں نواز شریف منت ترلا کر کے ‘سعودی عرب کو درمیان میں ڈال کر‘ معاہدہ لکھ کر‘ضامن ڈال کر اس طرح بگٹٹ بھاگے کہ کئی سال تک تو ان کا سانس ہی پھولا رہا اور وہ سرور پیلس میں بیٹھے اپنا سانس برابر کرتے رہے۔ روٹی پانی کا خرچہ چلانے کے لیے جدے میں اپنی سٹیل مل لگواتے رہے۔ برسوں بعد جب سانس ذرا برابر ہوا تو پہلے لندن یاترا کو نکلے اور پھر لاہور روانہ ہو گئے مگر تب بھی ہمت کا یہ عالم تھا کہ جونہی انہیں واپسی کا راستہ دکھایا گیا وہ کسی قسم کی مزاحمت کیے بغیر واپس روانہ ہو گئے۔
بی بی کی المناک موت ایک طرف۔ میاں صاحب کو ڈیل کے طعنے‘ فرار کی جگتیں اور بزدلی کی ٹوکیں مارنے والے جیالے خود یہ بھول جاتے ہیں کہ بی بی خود بھی قانون سے بھاگی ہوئی تھی اور سزائیں سننے کے بعد ملک سے فرار ہو ئی تھی۔ کسی نے ان کو نہ تو جلا وطن کیا تھا اور نہ ہی ان کے ملک میں آنے پر کوئی قانونی پابندی تھی۔ اس پر بحث ہو سکتی ہے کہ سزائیں درست تھیں یا غلط،مگر یہ بات طے ہے کہ بی بی انہی سزائوں کی وجہ سے ملک سے باہر گئیں اور واپس نہیں آئی تھیں۔ یہی حال اپنے زرداری صاحب کا ہے۔ جیلیں کاٹیں‘ عدالتیں بھگتیں اور سختیاں برداشت کیں ، انہوں نے مجبوری میں ثابت قدمی دکھائی مگر جونہی ضمانت ہوئی موصوف پاکستان سے ایسے بھاگے کہ اپنی اہلیہ کے قتل تک ادھر کا رخ نہ کیا۔ یہ باتیں کوئی طوفان نوح سے پہلے کی نہیں کہ ان پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا جائے ، ہمارے سامنے کی باتیں ہیں، اب کوئی منہ پر سفید جھوٹ بولنا چاہے تو اس کا کوئی علاج نہیں ہے۔
تختہ الٹنے والے آمروں اور ان کے سارے حواریوں کو قانون کے دائرے میں اور آرٹیکل 6کی پکڑ میں لانے کے لیے بہت سے لوگ واویلا کرنے میں مصروف ہیں۔ ان کا مقصد یہ ہے کہ معاملہ اتنا پھیلا دیا جائے کہ کسی کو کچھ سمجھ نہ آئے۔ ایک کنفیوژن سا کھڑا کر دیا جائے، اتنے لوگ ملوث کر دیے جائیں کہ سب جان چھڑانے کے لیے اس معاملے پر مٹی ڈال دینے پر تیار ہو جائیں۔ پاکستان میں یہ کام ممکن ہی نہیں۔ اگر صدر جنرل ایوب خان اور یحییٰ خان کو لپیٹا جائے تو ایوب خان کے منہ بولے بیٹے‘چہیتے وزیر خارجہ اور پاکستان کے پہلے سول مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر جناب ذوالفقار علی بھٹو پاکستان 
کے پہلے سیاستدان ہوںگے جو اس لپیٹ میں آئیں گے۔ جنرل ضیاء الحق سے شروع کیا جائے تو خود میاں نواز شریف اور چودھری برادران اس لپیٹ میں آتے ہیں۔ جنرل پرویز مشرف کا معاملہ اٹھایا جائے تو ڈیل کرنے میں پہلا نام چودھریوں کا، دوسرا ایم کیو ایم اور تیسرا بے نظیر بھٹو کا آتا ہے۔ این آر او والوں کی فہرست اٹھائیں تو ملزمان و مجرمان کی تعداد سینکڑوں نہیں ہزاروں میں آتی ہے۔ اس رعایتی لوٹ مار سے فائدہ اٹھانے والوں میں سبھی شامل ہیں۔ پہلے نمبر پر ایم کیو ایم ، دوسرے پر پیپلز پارٹی اور پھر بہت سے اور عزت دار ہیں جو اس عام معافی کے طفیل مزید عزت دار قرار پائے ہیں۔
سب باتیں اپنی جگہ پر،سیاستدانوں کی خرابیاں بھی، مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ آمر آئیں‘آئین کو اٹھا کر طاق میں رکھیں، اپنی من مانی کریں،آئین میں مرضی کے مطابق ترمیمیں کریں،اسے عدالتوں اور اسمبلیوں سے منظور کروائیں اور مزے سے اس دور میں لوٹی ہوئی دولت سے پوری دنیا میں عیش کریں اور اس پر خاموشی اختیار کی جائے کہ آمروں کا تعلق ایک اہم ادارے سے ہے، یہ ادارہ مقدس گائے ہے اور فرد واحد کے غیر آئینی اقدام کو ڈرکے مارے درست مان لیا جائے یا کم از کم اس پر خاموشی اختیار کی جائے۔
یہ وقت سب کے لیے بہت کڑے امتحان کا ہے... سب سے زیادہ عدالتوں کے لیے،عدلیہ کو ہر ملکی ادارے سے برتر اور طاقتور کہنے والوں کے لیے، پارلیمینٹ کے بنائے ہوئے قوانین کو منسوخ کر دینے کی طاقت رکھنے والوں کے لیے، وزرائے اعظم کو اپنے سامنے پیش کروانے والوں‘ ان کے فائز افسروں کو ،حتیٰ کہ انہیں خود گھر بھیج دینے والوں کے لیے یہ ایک کڑے امتحان کا وقت ہے۔ قانون کا بول بالاکرنے اور آمروں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے دعویدار‘کسی قسم کا سمجھوتہ نہ کرنے کے داعی میاں نواز شریف کے لیے۔ سیاست میں دخل نہ دینے کا حلف اٹھانے اور اعادہ کرنے والے جنرلوں کے لیے یہ کڑے امتحان کا وقت ہے۔ جمہوریت کی دعویدار تمام سیاسی جماعتوں کے لیے خصوصاً حزب اختلاف کے لیے۔ 
یہ کڑے امتحان کا وقت ہے۔ سب کے لیے۔۔۔ عدلیہ ‘حکمران اور عسکری ادارے کے لیے، حتیٰ کہ خود جنرل پرویز مشرف کے لیے، یہ اس کی نام نہاد بہادری کا امتحان ہے۔ تسلیم کہ سیاستدانوں نے بھی ہمیشہ بزدلی دکھائی‘ سمجھوتے کیے‘ فرار ہوئے اور خود ساختہ جلا وطنی اختیار کی مگر نہ تو وہ آرٹیکل 6کے مجرم تھے اور نہ ہی انہوں نے اوسطاً روزانہ پونے ستاون بار اپنی بہادری کے خود ساختہ ترانے گائے تھے۔ اب اسے چاہیے کہ مہاجر بننے کے بجائے شیر بنے، عدالتوں کا سامنا کرے، کتابیں لکھوا کر چھپوانا اور ان سے نوٹ کمانا ایک مختلف کام ہے اور عدالتوں میں پیش ہو کر اپنے اقدامات کا دفاع کرنا دوسری چیز ہے۔ اٹھارہ رکنی قانونی فوج کے قائد کو عدالت میں اپنی بے گناہی کی جنگ لڑنی چاہیے کہ اس کے پچھلے کئی عشرے اسی تربیت میں گزرے ہیں اور قوم نے اس کی اس تربیت پر بڑی رقم خرچ کی ہے۔ جو سپاہی جنگ کے دنوں میں ہسپتال جا کر پناہ لے لے اس کی یونٹ ساری عمر اس پر بزدلی کے طعنے کستی ہے اور وہ کبھی سر اٹھا کر نہیں چل پاتا ، لیکن یہ معاملہ ان کے ساتھ ہوتا ہے جو اپنی یونٹ میں ہوں ، جنہوں نے دبئی میں موج میلے کے پروگرام بنائے ہوں ان کی بات ہی دوسری ہے۔ اگر معاملہ عدالتوں کے بجائے ہسپتالوں میں ہی طے ہو گیا تو اس سے عدالتوں کی‘ حکمرانوں کی اور خود فوج کی بھداڑے گی ۔ معاملہ عدالت میں طے ہونا چاہئے۔ باقی یہ بات بھی نظر آ رہی ہے کہ پنچھی نے بالآخر اڑ جانا ہے مگر اس کے لیے آخر کار صدر سے کام لینا چاہیے۔ صدر صاحب سے کوئی کام تو کروایا جائے تاکہ خرچہ لاگت پورا کیا جا سکے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں