"KMK" (space) message & send to 7575

جائیداد کی فروخت‘عزت و آبرو‘سری پائے ‘ہریسہ اور کلچے

بٹ صاحب سے میری پہلی ملاقات 1999ء میں ہوئی ۔ میں اوسلو (ناروے ) میں مشاعرہ پڑھنے کے بعد برطانیہ اپنی خواہر نسبتی کے پاس ریڈنگ آیا تھا۔ یہاں میرا ہم زلف طارق پی ایچ ڈی کر رہا تھا۔ بٹ صاحب‘ طارق کے دوست تھے اور ریڈنگ یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کرنے آئے تھے۔ بٹ صاحب پاکستان میں ایک یونیورسٹی کے شعبہ قانون کے سربراہ تھے اور وظیفے پر ڈاکٹریٹ کرنے انگلینڈ آئے مگر خود ڈاکٹریٹ کرنے کے بجائے لوگوں کو ڈاکٹریٹ کروانے پر کمر باندھ لی تھی۔شنید ہے کہ انہوں نے اپنی ڈاکٹریٹ کا تھیسس بھی لکھنا شروع کر دیا تھا اور پہلے دو تین باب لکھ کر جب گائڈ کو دکھائے تو وہ بھی حیران رہ گیا کہ انہیں اپنے موضوع پر کس قدر دسترس ہے۔ اس کے بعد بٹ صاحب ''غیر نصابی ‘‘سرگرمیوں میں مصروف ہو گئے۔ انگلستان میں غیر نصابی سرگرمیوں کا سنتے ہی دل میں طرح طرح کے وسوسے اور خیال آتے ہیں؛ تاہم آپ لوگوں کا اندازہ بٹ صاحب کی غیر نصابی سرگرمیوں کے بارے میں سوفیصد غلط ہو گا۔ بٹ صاحب کی تمام تر ''غیر نصابی‘‘ سرگرمیوں سے مراد یہ ہے کہ ان کی ساری سرگرمیاں سو فیصد نصابی تھیں مگر غیروں کے لیے تھیں۔ وہ اردگرد کے تمام پاکستانی طلبہ کی تعلیمی معاملات میں اتنی زیادہ مدد کرتے تھے کہ خود ان کی تعلیمی سرگرمیاں سکڑتے سکڑتے غائب ہو گئیں۔
ان کی خدمت خلق اور مہمان نوازی کا یہ عالم تھا کہ اپنے گھر میں ادھر ادھر سے طلبہ پکڑ کر لے آئے اور جو پھیلتے پھیلتے سارے گھر میں پھیل گئے جبکہ بٹ صاحب خود سمٹتے سمٹتے ایک کمرے تک محدود ہو گئے۔ وہ اپنے گھر میں رہنے والے تمام طلبہ کے گرو تھے۔ ان تمام طلبہ کو چھت تو انہوں نے فراہم کی ہی تھی ان کا نان نفقہ بھی تقریباً انہی کے ذمے تھا۔ اخراجات بڑھ گئے اور آمدنی کم رہ گئی۔ میرا مطلب ہے وظیفے کی رقم کم پڑ گئی۔ بٹ صاحب نے آمدنی اور اخراجات میں پیدا ہونے والے عدم توازن کو توازن میں لانے کے لیے پارٹ ٹائم جاب بھی کر دی۔ دراصل یہ پارٹ ٹائم جاب بھی ایک طرح سے خدمت خلق ہی تھی۔ انگریزی ‘اردو اور قانون پر پوری دسترس رکھنے والے بٹ صاحب نے مشکل اور مصائب میں مبتلا ان پاکستانیوں کے مترجم اور ترجمان کے طور پر سٹی کونسل میں پارٹ ٹائم نوکری کر لی جو انگریزی سے نابلد ہونے کے باعث عدالتوں ‘سٹی کونسل میں یا امیگریشن آفس وغیرہ میں اپنا نقطہ نظر یا موقف پیش نہیں کر سکتے تھے۔ بٹ صاحب اس کام میں تن من دھن سے مصروف ہو گئے۔پڑھائی ختم ہو گئی۔ نتیجتاً وظیفہ بند ہو گیا۔ گھر میں درجن بھر طلبہ کو مفت کھلانے پلانے کا بندوبست کوئی آسان کام نہیں تھا لہٰذا مجبوراً ان کو فل ٹائم نوکری کرنی پڑ گئی۔ معاملہ صرف گھر میں مقیم مفت بروں کا ہی نہیں تھا بلکہ ان کے تمام دوست بشمول طارق ایک آدھ وقت کا کھانا بٹ صاحب کے ہاں کھانے آ جاتے تھے۔ اس کی وجہ بڑی معقول تھی۔ بٹ صاحب ایک انتہائی اعلیٰ درجے کے ''شیف‘‘ تھے ۔ انہیں کک یا باورچی کہنا ان کے فن کی توہین ہے۔ میں نے اپنی زندگی میں ان جیسا کھانا پکانے والا نان پروفیشنل شیف نہیں دیکھا۔ بٹ صاحب جتنا خود کھانے کے شوقین تھے اس سے بڑھ کر مہمان نوازی ان کا شیوہ تھا۔ ان کا کچن ہمہ وقت آباد رہتا تھا۔
بٹ صاحب کو اسی دوران دل کا مرض لاحق ہو گیا۔ دو تین شریانیں بند ہو گئیں۔ ہسپتال والوں نے کئی ماہ بعد کا وقت دیا مگر دل کمبخت کسی تاریخ وغیرہ کا نہ تو پابند تھا اور نہ ہی ہسپتال کے اوقات کا غلام۔ چند دن بعد بٹ صاحب کو ہارٹ اٹیک ہو گیا۔ گھر میں مقیم طلبہ کی فوج ظفر موج ان کو ہسپتال لے گئی۔ ہسپتال نے بغیر پوچھے کہ مریض کا برطانیہ میں قیام قانونی ہے یا غیر قانونی‘ بٹ صاحب کو داخل کیا اور جھٹ سے ان کا بائی پاس کر دیا۔ آپریشن کے بعد بٹ صاحب کی زندگی تقریباً بالکل ہی بدل گئی۔ ڈاکٹروں نے مرغن کھانے بالکل بند کر دیے اور مزید کافی ساری احتیاطیں بتائیں۔ کچھ پر بٹ صاحب نے سمجھوتہ کر لیا اور کچھ نے بٹ صاحب سے سمجھوتہ کر لیا۔ بٹ صاحب عام بٹ کی سطح سے اوپر اٹھ کر درجہ عرفان پر فائز ہو گئے۔ کھانے سے رغبت ختم کر لی اور سارا زور دوسروں کو کھلانے پر لگا دیا۔ اب وہ اپنے دوستوں اور ان دوستوں کے مہمانوں تک کو گھسیٹ کر گھر لے آتے تھے اور کھانا پکا کر کھلاتے تھے اور خوش ہوتے تھے۔
مجھ سے تو ان کی باقاعدہ دوستی ہو گئی تھی کہ میں ہر دو چار مہینے بعد ریڈنگ پہنچ جاتا تھا۔ وہ میرے ساتھ پاکستان سے جانے والے شاعروں اور دوستوں کو بھی ریڈنگ آنے پر کھانا کھلائے بغیر نہیں جانے دیتے تھے۔ کشمیری دال‘نرگسی کوفتے‘مٹن حلیم‘ہریسہ اور دیگر انواع و اقسام کے کھانے ۔ان کے ساتھ تلوں والے سنہری گرما گرم کلچے۔ بٹ صاحب ایپرن پہن کر ککنگ کرتے اور اوون سے نکلنے والا ایک ایک نان مہمانوں کے سامنے پیش کرتے۔ طارق ڈاکٹریٹ کر کے پاکستان واپس آ گیا۔ بٹ صاحب وہیں ریڈنگ میں ہی رہ گئے۔ میں زیادہ تر لندن کے شمال میں اوپر والے شہروں میں جاتا رہا۔ بٹ صاحب سے رابطے کا ذریعہ صرف فون رہ گیا۔ اب کافی عرصے سے فون پر بھی بات نہیں ہوئی مگر وہ سدا سے اس عاجز کے دل میں آباد ہیں اور اکثر یاد آتے ہیں۔
بٹ صاحب کی دوسری خوبی یہ تھی کہ وہ گفتگو بڑی دلچسپ کرتے تھے۔ پاکستان میں یونیورسٹی کی ساری سروس اساتذہ کی سیاست میں گزاری۔ رونق ‘مجلس‘ گپ شپ اور پرائے پھڈے میں ٹانگ اڑانا ان کا مشغلہ تھا۔ ایک روز اسی طرح گفتگو کر رہے تھے‘ اسی دوران اپنے ایک عزیز بزرگ کا ذکر کرنے لگ گئے۔ بتانے لگے کہ ان کے ایک بزرگ ہیں بٹ صاحب۔ ان کے لاہور کے ایک بارونق بازار میں سترہ اٹھارہ آبائی مکان تھے۔ ان کے والد صاحب کو جائداد بنانے کا بڑا شوق تھا۔ جب وہ فوت ہوئے تو یہ سارے مکان بٹ صاحب کے حصے میں آ گئے۔ بٹ صاحب بتانے لگے کہ ان کے وہ بزرگ ایک دن انہیں کہنے لگے کہ وہ بڑی عزت و آبرو سے زندگی گزار رہے ہیں۔ کسی بچے کی محتاجی نہیں‘ کسی نوکری کا جھنجھٹ نہیں‘ کہیں حاضری کی ذلالت نہیں‘ کسی کاروبار کی فکر نہیں ہے۔ وہ سات آٹھ سال بعد ایک مکان بیچتے ہیں اور نہایت عزت و آبرو سے ہریسہ‘پائے‘ مغز ‘ کشمیری چائے‘ باقر خانی اور کلچے کھا لیتے ہیں۔ سات آٹھ سال میں وہ مکان کی فروخت سے ملنے والی رقم میں نہایت عزت سے روٹی کھا لیتے ہیں۔ پھر سات آٹھ سال بعد ایک اور مکان بیچ کر اگلے سات آٹھ سال کی باعزت روٹی کا بندوبست کر لیتے ہیں۔ نہ کسی بیٹے کی طرف دیکھنا پڑتا ہے اور نہ کسی 
نوکری یا کاروبار وغیرہ کی بھسوڑی ہے۔ اللہ عزت و آبرو سے روٹی دے رہا ہے۔ یہ قصہ سنا کر بٹ صاحب بتانے لگے کہ ان کے وہ بزرگ اب تک چھ سات مکان سری پائے اور کلچے میں تبدیل کر کے کھا چکے ہیں۔ حاندانی جائداد جو ان کے بزرگوں نے بنائی تھی بیچ باچ کرعزت کما رہے ہیں۔ اور کہتے ہیں کہ بقیہ مکان بھی ان کی زندگی اور عزت و آبرو کے لیے کافی ہیں۔
مجھے پچھلے کئی دنوں سے بٹ صاحب کے بزرگ یاد آ رہے ہیں اور ان کے حوالے سے خود بٹ صاحب یاد آ رہے ہیں۔ بٹ صاحب کے وہ بزرگ خدا جانے زندہ ہیں اور مکانوں کو پائے کلچے میں تبدیل کر کے کھا رہے ہیں یا دو چار مکان اپنے بچوں کے لیے چھوڑ کر وہاں جا چکے ہیں جہاں انہیں لسی‘کلچے‘ سری پائے‘ مغز‘کھد اور ہریسے کی حاجت نہیں ہے۔ لیکن اُن کے احوال ہمیں حکمرانوں کی یاد دلا گئے ہیں۔ ایک وہ لوگ تھے جو پی آئی اے‘پی ایس او‘او جی ڈی سی‘سٹیل ملز‘یو بی ایل‘ ایم سی بی‘ پاور ڈسٹری بیوشن کمپنیز‘پاکستان پٹرولیم‘ماڑی گیس‘ سوئی ناردرن اور سوئی سدرن ‘ نیشنل شپنگ ‘ روز ویلٹ ہوٹل نیو یارک اور دیگر منافع بخش ادارے بنا کر ہمارے لیے چھوڑ گئے اور اب وہ لوگ آ گئے ہیں جو ان کو بیچ کر عزت و آبرو کے ساتھ موج میلا کرنا چاہتے ہیں۔ عیاشی کے کلچے اور فضول خرچی کے سری پائے کھانا چاہتے ہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ ان اداروں کی فروخت سے موجودہ حکمرانوں کے چار دن اچھے گزر جائیں گے اور وہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کے ہاتھوں مزید کچھ عرصہ بے عزت ہونے سے بچ جائیں گے مگر آنے والے کیا کریں گے؟میاں نواز شریف اور اسحاق ڈار اینڈ کمپنی ہمارے دوست بٹ صاحب کے بزرگ کی طرح جائداد بیچ کر خود تو ''عزت و آبرو‘‘ سے گزارہ کر لیں گے۔ مستقبل میں آنے والے حکمران اور ملک کے عوام کہاں جائیں گے؟۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں