"KMK" (space) message & send to 7575

یہاں ہرکام متنازع ہے

پاکستان دنیا کا عجیب و غریب ملک ہے، یہاں دنیا کی ہر چیز متنازع ہے یا ہو جاتی ہے۔ جو چیز ہمارے خلاف ہے وہ تو خیر سے متنازع ہوتی ہی ہے، یہ اور بات کہ وہ چیز وقوع پذیر ہو جاتی ہے اور وہ کام بھی جو ہمارے ملکی اور قومی مفاد کے خلاف ہے کسی نہ کسی طرح ہو جاتا ہے؛ تاہم زیادہ افسوس کی یہ بات ہے کہ جو بات ہمارے ملکی اور قومی مفاد میں ہوتی ہے وہ بھی متنازع ہو جاتی ہے۔ ہمارے دشمن اور مخالف ہماری صفوں میں سے ایسے لوگ تلاش کر لیتے ہیں جو کسی نہ کسی حساب سے ہر اس چیز کا دھڑن تختہ کر دیتے ہیں جس سے ہمیں کسی قسم کا فائدہ ہونے کی توقع ہوتی ہے۔ کالا باغ اس کی سب سے روشن مثال ہے۔
دنیا بھر میں سب سے سستی بجلی ہائیڈل یعنی پانی سے پیدا کی جاتی ہے۔ دنیا بھر میں بجلی کی پیداوار کی پہلی ترجیح پانی سے بجلی پیدا کرنا ہے لیکن یہ ہر جگہ اور ہر مقام سے پیدا نہیں کی جا سکتی۔ قدرتی طور پر موزوں مقامات پر ہی ڈیم بن سکتے ہیں البتہ کہیں زیادہ لاگت آتی ہے اور کہیں کم۔ یہ اس بات پر منحصر ہے کہ وہاں پانی کو روکنے کے لیے کی جانے والی تعمیرات کس قدر ہیں اور کیسی ہیں۔ تربیلا ڈیم دنیا کے ان چند ڈیموں میں سے ایک ہے جس پر ہونے والی تعمیرات بہت زیادہ تھیں۔ یہ اس وقت دنیا کا سب سے بڑا مٹی بھر کر بنایا گیا ڈیم تھا۔ کالا باغ کے مقام پر بہت کم لاگت اور تعمیرات سے ڈیم مکمل ہو سکتا ہے، یہ ایک لحاظ سے بنا بنایا قدرتی ڈیم ہے جس کی صرف ایک سمت پانی روکنے کے لیے چند سو گزکا پشتہ اور سپل وے بنانا ہے اور بس، لیکن یہ متنازع ہو گیا۔
یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں کہ بھارت نہیں چاہتا تھا کہ یہ ڈیم بنے۔ اس کے لیے بھارت نے پیسہ لگایا، این جی اوز نے باقاعدہ مہم چلائی، دوسرے صوبوں کو اس ڈیم سے ڈرایا گیا۔ خیبر پختونخوا کو یوں ڈرایا کہ نوشہرہ ڈوب جائے گا اور سندھ کو یہ خوف دلایا کہ دریائے سندھ کا پانی پنجاب استعمال کر لے گا۔ بلوچستان کو کس چیز سے خطرہ تھا؟ یہ معلوم نہیں ہو سکا؛ تاہم یہ ڈیم اتنا متنازع ہو گیا کہ اب اس کی تعمیر سے پاکستان ٹوٹنے کے خطرے کا اعلان کیا جانے لگا ہے۔ دریائے سندھ پر خیبر پختونخوا میں جتنے بھی ڈیم بن جائیں سندھ کو کوئی اعتراض نہیں، بس کالا باغ ڈیم نہیں بننا چاہیے حالانکہ باقی تمام ڈیم جو دریائے سندھ کے اوپر والے حصے پر ہیں بہرحال دریائے سندھ کا پانی ذخیرہ کریں گے، لیکن سندھ کو محض کالا باغ کی تعمیر منظور نہیں۔
پاکستان میں ہائیڈل پاور کے بڑے ذریعے یعنی ڈیمز کو باقاعدہ منصوبہ بندی سے متنازع کیا گیا۔ جہاں جہاں ڈیمز بننے کے مقامات اور امکانات تھے وہاں وہاں این جی اوز نے مقامی آبادی کو خوف دلایا، ان کے بزرگوں کی قبروں کو ڈوبتے دکھایا گیا، ان کے آبائی گھروں اور زمینوں کو پانی کی نذر ہوتے دکھا کر ان کے جذبات کو ابھارا گیا اور انہیں ڈیم کے خلاف اکسایا گیا۔ یہ سب کچھ باقاعدہ منصوبے کے تحت کیا گیا اور سارے ڈیم متنازع بنا دیے گئے۔ یہ بھارت کا منصوبہ تھا اور وہ اس میں کامیاب رہا۔ ہمارے سارے متوقع ڈیم متنازع بنا کر ان کی تعمیر میں روڑے اٹکا دیے گئے اور خود بھارت نے اس دوران بے تحاشا ڈیم بنا لیے۔ ہمارے سب دریائوں کا پانی روکنے کی منصوبہ بندی کی گئی۔ جہاں پاکستان کو آنے والے دنوں میں بنجر اور ہماری زراعت کو برباد کرنے کی سازش کی گئی وہاں بجلی کے بحران میں بھی مبتلا کر دیا گیا۔ پاکستان کی ساری ترقی کا پہیہ روک دیا گیا، یہ اغیار کی سازش تھی لیکن ہم خود اس میں شامل تھے۔
اب معاملہ کوئلے کے بجلی گھروں پر آن پڑا ہے۔ جونہی کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کا اعلان ہوا اور اس پر کسی حد تک عملی کام شروع ہوا ہے، ماحولیات کے نام نہاد نام پر اس مسئلے کو بھی متنازع بنایا جا رہا ہے۔ امریکہ بہادر پاکستان میں کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں کو ماحولیات کے خلاف قرار دے رہا ہے اور حسب سابق بعض این جی اوز بھی میدان میں کود پڑی ہیں۔ یہ سب کچھ صرف اس لیے ہو رہا ہے کہ پاکستان میں بجلی کا مسئلہ حل نہ ہو سکے حالانکہ کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کے معاملے کو دیکھیں تو بڑے ہوشربا حقائق سامنے آتے ہیں۔ خود امریکہ میں اس وقت اس کی کل بجلی کا ساٹھ فیصد کوئلے سے پیدا ہوتا ہے۔ امریکہ دنیا میں بجلی پیدا کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔ روایتی ایندھن یعنی گیس، کوئلہ اور تیل سے پیدا ہونے والی کل بجلی 13675Twh ہے اور اس میں سے 8263Twh صرف کوئلے سے پیدا ہوتی ہے۔ گیس اور تیل سے کل پیدا ہونے والی بجلی کی مقدار 4412 TWh ہے۔ یہ امریکہ کا حال ہے اور وہ ہمیں بتا رہا ہے کہ کوئلے سے بجلی پیدا کرنا ماحولیات کے خلاف ہے اور دنیا کو اس سے باز رہنا چاہیے حالانکہ صورتحال یہ ہے کہ دنیا بھر میں 41 فیصد بجلی کوئلے سے پیدا ہوتی ہے۔
میں ڈیٹرائٹ ایئرپورٹ سے شہر کی جانب جا رہا تھا کہ میری نظر سڑک کے کنارے لگے ہوئے ایک بہت بڑے بل بورڈ پر پڑی، لکھا تھا۔۔۔''Coal provides you affordable energy‘‘ یعنی کوئلہ آپ کو مالی اعتبار سے قابل برداشت بجلی فراہم کرنے کا ذریعہ ہے۔ خود میاں فضیحت اور دوسروں کو نصیحت، اسی کو کہتے ہیں۔ ڈیم بنانا ایک دقت طلب کام ہے۔ ہمارے پاس وقت نہیں ہے، بجلی کا بحران متقاضی ہے کہ فوراً کچھ کیا جائے اور یہ صرف کوئلے سے ہی ممکن ہے۔ تیل سے بننے والی بجلی نے ہمیں سرکلر ڈیٹ کا جو تحفہ دیا ہے وہ ختم ہونے میں نہیں آ رہا اور بحران کم ہونے کے بجائے ہماری پوری معیشت کو تباہ کیے جا رہا ہے۔ تیل سے پیدا ہونے والی بجلی کی لاگت چودہ روپے سے بائیس روپے فی یونٹ تک ہے جبکہ بجلی کا یہی یونٹ ہائیڈل ذرائع سے ڈیڑھ روپے میں اورکوئلے سے بارہ روپے میں پیدا کیا جا سکتا ہے۔ ڈیم بننے تک بجلی کی پیداوارکا واحد ذریعہ کوئلہ ہی ہو سکتا ہے مگر چند کرائے کے سیاسی اور ناعاقبت اندیش قسم کے ''عقلمند‘‘ اب لٹھ اٹھا کر کوئلے 
کے پیچھے پڑ گئے ہیں تاکہ پاکستان بجلی میں خودکفیل نہ ہو جائے۔ اس کے لیے عجیب و غریب بہانے گھڑے جا رہے ہیں اور محیرالعقول دلائل دیے جا رہے ہیں۔
یہ بات درست ہے کہ کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کے منفی اثرات بھی ہیں مگر ساری دنیا یہ اثرات برداشت کر رہی ہے۔ اس کا حل یہ نکالا جاتا ہے کہ بجلی گھروں کو پابند کیا جائے کہ وہ اپنی پیداواری استعداد کی شرح کے حساب سے دس ایکڑ فی میگاواٹ تک درخت لگائیں تاکہ ماحول کو آلودہ بلکہ یہ کہیں کہ مزید آلودہ ہونے سے بچایا جا سکے۔ ہر چیزکا کوئی نہ کوئی حل ہوتا ہے، ہم حل نکالنے کے بجائے اصل معاملہ ختم کرنے کے قائل ہیں۔ پاکستان میں کوئلے کے وسیع ذخائر ہیں اور ایک اندازے کے مطابق پاکستان دنیا بھر میں کوئلے کے ذخائر کے اعتبار سے ساتواں بڑا ملک ہے جہاں ایک تخمینے کے مطابق پونے دو سو ارب ٹن سے زائد کوئلہ موجود ہے جو اگلے کئی سو سال تک ہماری کل ملکی ضروریات پوری کرنے کے لیے کافی ہے۔ لیکن معاملہ پھر وہاں پر ہی آ جاتا ہے کہ یہ ایک ایسا ملک ہے جہاں کالا باغ سے لے کر کول پلانٹ تک ہر چیز متنازع ہے اور تنازع پیدا کرنے والوں کے پاس بذات خود نہ تو کوئی حل موجود ہے اور نہ ہی وہ کوئی مسئلہ حل ہونے دیں گے۔ ہمیں دشمن کی سازشوں سے آگاہ ہونے کی ضرورت ہے لیکن ہماری ترجیحات میں شاید یہ کام کہیں بہت پیچھے ہے جبکہ دشمنوں کی ترجیحات میں یہ کام بہت اوپر ہے۔ معاملہ صرف اور صرف ترجیحات کا ہے۔ ایک اسی پر کیا موقوف، ہماری تمام تر ترجیحات الٹ ہیں اور ہمارے پاس انہیں سیدھا کرنے کا نہ تو وقت ہے اور نہ ہی نیت۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں