"KMK" (space) message & send to 7575

فوری انصاف کا نظریہ

میری اپنے اس دوست سے تقریباً ستائیس اٹھائیس سال بعد ملاقات ہوئی۔ اس دوران کم و بیش چھبیس سال تو بالکل ہی رابطہ منقطع رہا۔ گزشتہ ایک سال سے فون پر رابطہ تھا۔ میں امریکہ میں تھا جب مجھے ایک فون آیا اور فون کی دوسری طرف موجود مخاطب نے مجھے اپنا نام بتایا۔ایک لمحے میں سب کچھ یاد آ گیا۔زمانہ طالب علمی کی باتیں‘پرانے قصے اور مشترکہ دوست۔ وہ تعلیم مکمل کر کے پولیس میں چلا گیا تھا اور اب امریکہ میں تھا۔ وہاں وہ حکومت کی طرف سے بھیجا گیا تھا اور کارسرکار میں لگا ہوا تھا۔ میرا کالم دیکھا تو پتہ چلا کہ میں امریکہ میں ہوں۔خداجانے اس نے کیسے مجھے تلاش کیا اور میرا نمبر معلوم کیا مگر خوشی میں مجھے اس سے یہ سب کچھ پوچھنا یاد ہی نہ رہا۔زمانے کی دھول میں کھو گئے‘ دوستوں کا حال ایک دوسرے سے پوچھتے رہے اور درمیان میں گزرے سارے عرصے کا حال بانٹتے رہے۔یہ خیال بھی نہ آیا کہ آخر ہم پاکستان میں رہتے ہوئے اڑھائی عشرے تک ایک دوسرے سے لاتعلق کیسے رہے؟لیکن آج یہ خیال آیا ہے کہ ایسا کیوں ہوا ؟۔یہ خیال اس روز بھی نہ آیا جس دن اس سے ایک عرصے بعد ملاقات ہوئی۔ وقت کم تھا اس لیے اسے نہ ملنے کے ملال میں ضائع کرنے سے کہیں بہتر تھا کہ ملنے کی خوشی میں صرف کیا جاتا۔سو ہم نے یہی کیا۔
اسی دوران ایک دو اور دوست آ گئے۔ گفتگو کا موضوع پرانی یادوں اور دوستوں سے چلتا ہوا موجودہ حالات پر آ گیا۔موجودہ حالات پر بات چلی تو اداروں کی بربادی کا ذکر چل نکلا۔قانون نافذ کرنے والے اداروں سے لے کر قانون کی عملداری کے سب ذمہ داروں کی بات چل نکلی۔ مجرموں کی عدالتوں سے بریت کی بات ہوئی توکھلا کہ اس کی ذمہ داری ہم سب پر ہے۔پولیس پر‘عدالتوں پر‘وکیلوں پر‘استغاثہ پر‘ مدعی پر‘ مدعا علیہ پر‘گواہوں پر‘ میڈیا پر اور ہم سب پر۔ اول پولیس کیس ٹھیک نہیں بناتی۔اگر بنانا 
چاہے تو زور آور بنانے نہیں دیتے۔چالان عدالت میں پیش ہونے سے پہلے ہی سیاسی دبائو یا پیسے کے زور پر حقائق کے مطابق نہیں بلکہ مرضی کے مطابق بن چکا ہوتا ہے۔وکیل کو اپنی فیس سے غرض ہے۔ وہ یہ جاننے کے باوجود کہ اس کا موکل ملزم نہیں بلکہ مجرم ہے اور واقعتاً قاتل ہے ‘ کسی نابالغ بچی کی زندگی برباد کرنے کا مجرم ہے‘اغوا برائے تاوان میں ملوث ہے یا بے گناہ لوگوں کی ہلاکت کا ذمہ دا ر ہے‘ وکیل کو کسی اخلاقی ضابطے کی پروا نہیں صرف اپنی فیس سے غرض ہے اور وہ ساری حقیقت جاننے کے باوجود اپنے موکل کو کہتا ہے کہ وہ یہ بھول جائے کہ کیا ہوا ہے بلکہ یہ یاد رکھے کہ اسے جو بیان پڑھایا جا رہا ہے وہ اسے ازبر کر لے اور عدالت میں وہی کچھ بتائے جو اسے ازبر کروایا جا رہا ہے۔
مدعی جھوٹا ہے۔وہ اصل ملزم کے ساتھ اس کے ہر اس عزیز‘ رشتہ دار اور دوست کو نامزد کر دیتا ہے جس سے اسے تھوڑی سی بھی توقع ہو کہ یہ ملزم کی پیروی کرے گا۔مدعا علیہ اور اس کا خاندان ایک نمبر کا جھوٹا ہے۔ وہ ملزم کے بارے میں جانتے ہوئے بھی کہ سوفیصد قصوروار ہے وکیل کرتا ہے‘رشوت دیتا ہے‘تفتیشی افسر کو پیسے لگاتا ہے‘ جھوٹے گواہوں کا بندوبست کرتا ہے اور ہر جائز و ناجائز طریقے سے اسے بری کروانے کی کوشش کرتا ہے۔ملزم سے لے کر مدعی تک‘دونوں تفتیشی افسر سے اپنی اپنی منشاء کے مطابق چالان مرتب کروانا چاہتے ہیں۔ پولیس کو حقائق سے نہیں بلکہ فریقین سے دلچسپی ہے کہ کون زیادہ بہتر آفر لگاتا ہے۔اگر پولیس کو مال لگا دیا گیا ہے تو وہ عدالتوں میں پیروی کرتی ہے وگرنہ معاملات کھوہ کھاتے چلے جاتے ہیں۔عدالتوں کا اپنا میکنزم ہے۔ بس 
آپ اس جملے سے ساری بات سمجھ جائیں۔ ضروری نہیں کہ توہین عدالت کے اسباب بنائے جائیں۔گواہ جھوٹے ہیں۔برسر عدالت جھوٹا قرآن اٹھا لیتے ہیں۔ حلف دے دیتے ہیں اور قسمیں کھا لیتے ہیں۔ کس پر یقین کریں اور کس پر نہ کریں۔
اب دیکھیں ملک میں دہشت گردی کی ''لہر بہر‘‘ ہے ۔اول مجرم پکڑا ہی نہیں جاتا۔ پکڑا جائے تو ثبوت نہیں ملتے۔ ثبوت مل جائیں تو گواہ نہیں ملتے۔گواہ مل جائیں تو عدالت میں جا کر منحرف ہو جاتے ہیں۔ جو منحرف نہ ہوں‘ اگلے جہان بھیج دیے جاتے ہیں ۔عدالتیں کیا کریں؟ کرنا چاہیں بھی‘ تو کچھ کر نہیں پاتیں کہ ان کے پاس مجرم کو سزا دینے کے لیے ہے ہی کچھ نہیں۔ جن کو سزائیں ملتی ہیں وہ جیل میں وی آئی پی قیدی ہیں۔ جن کو سزائے موت ہوئی ہے ان کی سزا پر عملدرآمد نہیں ہو رہا۔ریاست اپنی ذمہ داریاں انجام دینے میں قطعاً ناکام ہو چکی ہے۔زور آور کے لیے سب کچھ جائز ہے اور کمزور کے لیے سارا قانون‘آئین‘عدالتیں‘ ادارے غرض سب کچھ موجود ہے۔ ایک دوست کہنے لگا اس کا کوئی حل ہے؟۔
وہ دوست بولا ''آپ حضرات اس سے اختلاف کریں گے۔ مجھے دل میں گالیاں نہ بھی دیں تو برا بھلا ضرور کہیں گے لیکن میرے خیال میں اس کا صرف ایک ہی حل ہے۔ کم از کم موجودہ حالات میں صرف اور صرف ایک ہی قابل عمل حل ہے اور وہ یہ کہ ''فوری انصاف‘‘کے نظریے پر عمل کیا جائے۔مجرم کو موقع پر سزا دی جائے۔پولیس کو سارا پتہ ہوتا ہے کہ کون مجرم ہے اور کون بے گناہ۔ اب مجھے دیکھیں۔ میرے سامنے میرے علاقے کے ہر مجرم کی فائل ہوتی تھی۔اس کا سارا ماضی میرے سامنے ہوتا تھا۔اس کا مجرمانہ ریکارڈ میرے آگے پڑا ہوتا تھا۔ مجھے پتہ تھا کہ کون رسہ گیر ہے اور کون اس کا سرپرست ہے۔ کون قبضہ گروپ چلاتا ہے اور کون اس کا محافظ ہے۔ کون بھتہ لیتا ہے اور کس کی حفاظتی چھتری تلے پناہ لیتا ہے۔ اب انہیں کون پکڑے؟کون ان کی گرفتاری کا رسک لے؟کون ان کے خلاف گواہ تلاش کرے؟۔ کہاں سے گواہ آئیں؟کون ان کے سرپرستوں کا دبائو برداشت کرے؟ادھر ان کو پکڑ کر تھانے لائیں ادھر اوپر سے فون آ جاتے ہیں۔مجرم تھانے سے واپس جاتے ہوئے جس طنزیہ انداز میں دیکھ کر مسکراتا ہے دل چاہتا ہے کہ پستول نکال کر اس کی دونوں آنکھوں کے عین درمیان سوراخ کر دیا جائے۔ دوبارہ اس مجرم پر ہاتھ ڈالتے ہوئے اپنی گزشتہ بے عزتی یاد آتی ہے تو آدھے راستے سے واپس آنے کو دل کرتا ہے۔مرتب شدہ چالان کے گواہ عدالت جا کرمنحرف ہو جاتے ہیں تو عدالت جس طرح ڈانٹتی پھٹکارتی ہے دل چاہتا ہے کہ زمین پھٹے اور اس میں سما جائیں۔ مجرم آنکھوں کے سامنے بری ہو کر وکٹری کا نشان بناتا ہے تو ڈوب مرنے کو دل کرتا ہے۔ بندہ کیا کرے؟ کہاں جائے؟ ایسے میں انسانی حقوق کے علمبرداروں کی بھاشا سنیں تو ان کا منہ نوچنے کو دل کرتا ہے۔مجرم دندناتے پھریں تو وردی اتار کرکھونٹی پر ٹانکنے کو دل کرتا ہے۔
موجودہ حالات میں معاشرہ جس حد تک بے حس بلکہ بے ضمیر ہو چکا ہے اور عدالتیں قانونی موشگافیوں کے طفیل جس طرح بے بس ہو چکی ہیں مجھے فوری طور پر اس سارے سسٹم کی درستی کا کوئی حل نظر نہیں آ رہا۔پولیس‘ عدالتیں‘وکیل‘مدعی‘ مدعا علیہ‘ استغاثہ اور صفائی کے گواہان‘ ظالم‘ مظلوم‘میڈیا‘ میں‘آپ اور سارا معاشرہ ‘جھوٹ‘ کذب‘بے ایمانی اور بے حسی کا شکار ہے۔ اب صرف دو صورتیں ہیں۔ یا تو مجرموں کو کھلی چھوٹ دے دی جائے یا فوری انصاف کا نظریہ اپنایا جائے۔ میں بطور پولیس افسرمجرم کے سارے تاریخ جغرافیے سے آگاہ ہوں۔ اس کے جرائم کی ساری ماضی سے آگاہ ہوں۔ مجھے کسی کرائے کے‘جھوٹے یا بزدل اور عدالت میں منحرف ہو جانے والے گواہ کی کوئی ضرورت نہیں۔ میں ان جھوٹے اور کاذب گواہوں سے کہیں بہتر‘ معزز اور معتبر گواہ ہوں۔کسی عدالت سے زیادہ تفصیلات سے کیس کو سمجھتا ہوں اور جانتا ہوں ۔ساری تفتیش سے بذات خود آگاہ ہوں۔ جھوٹ اور سچ کے بارے میں ہر کسی سے زیادہ جانتا ہوں۔قانون سے آگاہ ہوں اور اس کا پورا علم رکھتا ہوں۔تعزیرات پاکستان یعنی پاکستان پینل کوڈ سے کماحقہ آگاہ ہوں۔ کریمنل کوڈ یعنی ضابطہ فوجداری مجھے حفظ ہے۔ میں کسی عدالت کے برابر قانون سے آگاہ ہوں اور میں نے یہ قانون باقاعدہ پڑھا بھی ہے ۔میں مجرم کے جرم‘ماضی‘ حال اور حالات سے مکمل آگاہ ہوں۔ قانون کا مکمل علم رکھتا ہوں اور موجودہ حالات میں عام عدالتی مسائل اس صورتحال کا حل پیش کرنے سے قاصر ہیں تو میں اپنی عدالت کیوں نہیں لگا سکتا؟ میں جج بن کر فوری فیصلہ کیوں نہیں کر سکتا؟میں مجرم کو جج بن کر سزا کیوں نہیں دے سکتا؟میں اس سزا کو اپیلوں کے چکر سے بچانے کے لیے اس پر فوری عملدرآمد کیوں نہیںکر سکتا؟انسانی حقوق کے علمبرداروں کو بے گناہ مرنے والے کیوں نظر نہیں آتے؟۔قاتل‘ ڈاکو‘ دہشت گرد‘معصوم بچوں کے ساتھ درندگی کرنے والے۔ کیا ان سب کو کھلا چھوڑا جا سکتا ہے؟ عام حالات میں ایسا شاید نہ ہو مگر موجودہ حالات میں یہ سب جائز ہے‘‘۔ یہ میرے دوست کا خیال ہے۔ میری رائے اس سلسلے میں محفوظ ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں