"KMK" (space) message & send to 7575

فوری انصاف کا نظریہ (2)

میں اپنے دوست کے ''فوری انصاف‘‘ کے نظریے سے ابھی بھی متفق نہیں تھا اور میرا خیال تھا کہ یہ ملک پہلے ہی پولیس سٹیٹ بن چکا ہے۔ ہر شخص یہاں ''تھانیدار‘‘ بننا چاہتا ہے۔ تھانیدار تو خیر سے ہے ہی تھانیدار‘ یہاں پر ایس ایس پی حتیٰ کہ میرا ایک دوست ڈی آئی جی ہے‘ وہ بھی تھانیدار بننا چاہتا ہے۔ ایم پی اے ‘ایم این اے‘وزیر‘ مشیر‘ وزیر اعلیٰ ‘عدالتیں ‘ حتیٰ کہ وزیر اعظم بھی تھانیدار بننا چاہتا ہے۔ تھانیدار بننا ایک ذہنیت کا نام ہے جہاں آپ قانون کو اپنے ہاتھ میں لے کر اپنی طاقت کو بدترین صورت میں استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ آپ خود ہی مدعی‘خود ہی گواہ اور خود ہی منصف بننا چاہتے ہیں۔ یہ صورتحال ناقابل برداشت ہے اور کسی مہذب معاشرے میں اس کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
میرا وہ دوست زور سے ہنسا اور کہنے لگا ''مہذب معاشرہ؟برادرم‘ جہاں قانون شکنی قابلِ شرم نہیں بلکہ قابلِ فخر حرکت ہو‘ ہر طاقتور اپنی طاقت کا اندازہ اس چیز سے لگائے کہ وہ کون سا قانون توڑ کر اس کی گرفت سے بچ سکتا ہے‘ جہاں قانون سازی پر مامورلوگ خود کو بہرحال قانون سے بالاتر سمجھتے ہوں‘ قانون کا اطلاق امیر اور غریب پر علیحدہ علیحدہ ہوتا ہو‘ جہاں طاقتور کمزور کو اپنی لاٹھی سے ہانکتا ہو‘ جہاں زور آور اور لاوارث کے لیے ہر چیز کا پیمانہ مختلف ہو‘ بھلا وہاں انصاف کیسے برابر تقسیم ہو سکتا ہے؟جہاں ہر چیز بشمول عزت و آبرو برائے خرید مارکیٹ میں موجود ہو‘ وہاں غریب‘لاوارث اور بے وسیلہ شخص اپنے لیے عدل و انصاف کہاں سے خرید سکتا ہے؟ جہاں سپریم کورٹ میں ایک طرف کروڑ روپے فیس لینے والا وکیل کھڑا ہو اور دوسری طرف سرکاری وکیل نہایت ہی بے دلی سے محض وقت گزار رہا ہو وہاں غریب مظلوم کو انصاف کہاں مل سکتا ہے؟پولیس بدنام ہے۔ میں اس کی صفائی نہیں دوں گا۔ پورا معاشرہ رشوت‘منفی ہتھکنڈوں اور سفارش وغیرہ کو باقاعدہ خوبی کے طور پر تسلیم کر چکا ہو‘ رشوت دینے والا اچھے بھلے شریف اور ایماندار افسرکو رشوت لینے پر مجبور کرتا ہو اور اسے نظریہ ضرورت کے تحت قبول کرنے پر زور دار دلائل دیتا ہو‘ بھلا وہاں اخلاقیات کی کیا قدرو قیمت لگ سکتی ہے؟پولیس اسی معاشرے کا حصہ ہے۔ اگر رشوت دینے والا نہ ہو تو پولیس رشوت کس سے لے گی؟میں پولیس کو بری نہیں کر رہا‘ بس یہ بتانے کی کوشش کر رہا ہوں کہ تالی دو ہاتھوں سے بجتی ہے۔سارا ملبہ ایک فریق پر نہ ڈالیں۔
پولیس میں بے شمار لوگ ایسے ہیں جو کام کرنا چاہتے ہیں۔ جرم کی بیخ کنی کرنے کے متمنی ہیں۔ مجرموں کو قرار واقعی سزا دینا چاہتے ہیں مگر موجودہ نظام نے‘سیاستدانوں نے‘ عدالتی طریقہ کار نے‘ہر طرف بکھرے ہوئے جھوٹ‘فریب‘ مکاری اور پیسے کی چمک نے سب کچھ تلپٹ کر دیا ہے۔میں مانتا ہوں کہ مہذب معاشرے میں پولیس کو عدالتی اختیارات دینے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا مگر میں پچھلے ایک گھنٹے سے جو مغز ماری کر رہا ہوں‘ آپ کو یہی سمجھانے کی کوشش کر رہا ہوں کہ اب اس معاشرے کو مہذب بنانے کے لیے فرسودہ طریقے نہیں چلیں گے۔ معاف کیجیے گا میں اس نظام کو فرسودہ کہہ رہا ہوں مگر یہ یہاں چلنے کا نہیں ہے‘ اس لیے فرسودہ ہے۔ ہزاروں نہیں تو سینکڑوں پولیس افسران ایمانداری سے کام کر سکتے ہیں لیکن انہیں فری ہینڈ دینا ہو گا۔سیاسی اور زور آور اشرافیہ کے دبائو سے آزاد کرنا ہو گا۔ انہیں کام کرنے کی آزادی دیں اور ان سے نتائج لیں۔میں آپ کو موجودہ قانون کی زبوں حالی اور اپنے فوری انصاف کے نظریے کے بارے دو واقعات سناتا ہوں۔ پہلے قانون کی زبوں حالی کا حال سنو۔
ایک علاقہ ہے جھنگڑ گلوتراں‘یہ دریائے چناب کے دو اطراف پھیلا ہوا ہے۔ طالب والا پتن سے تھوڑا آگے۔ یہ سارا علاقہ رسہ گیروں کا ہے۔ مویشی چوری کرنے میں ماہر اور عادی مجرموں سے بھرا ہوا علاقہ۔ایک ایک ملزم پر چالیس چالیس پرچے ہیں۔ اول تو کوئی پکڑا نہیں جاتا‘ پکڑا جائے تو ضمانت ہو جاتی ہے۔برآمدگی ایک مشکل امر ہے ۔پولیس علاقے میں داخل ہونے سے ڈرتی ہے۔ ایک افسر تب ایڈیشنل ایس پی فیصل آباد تھے۔ آج کل ایک ضلع کے آر پی او ہیں۔ ایک آپریشن کے لیے گئے۔ علاقے والوں نے باقاعدہ پکڑ کر باندھ لیا۔ دریا کے دونوں اطراف میں پھیلے ہوئے یہ رسہ گیر دور دور تک وارداتوں کے لیے مشہور ہیں۔یہ سارا علاقہ ضلع سرگودھا کے تھانہ لکسیاں اور ضلع حافظ آباد کے تھانہ پنڈی بھٹیاں کی حدود میں آتا ہے اور ان فنکاروں کا دائرہ کار حافظ آباد‘ننکانہ‘ منڈی بہائوالدین‘ سرگودھا‘ چنیوٹ اور فیصل آباد تک پھیلا ہوا ہے۔ اگر کوئی پکڑا جائے‘ میرا مطلب ہے بفرضِ محال اگر کوئی ملزم پکڑا بھی جائے تو آٹھ دس دن بعد ضمانت پر رہا ہو جاتا ہے اور ان دس دنوں کی بے روزگاری کے نقصان کو پورا کرنے کے لیے اگلے ہی دن چار جانور کھول کر لے آتا ہے۔ یہ سب کچھ ایک عرصے سے چل رہا ہے اور آئندہ بھی چلتا رہے گا۔قانون بے بس ہے‘ گواہ ملتا نہیں‘ جرم ثابت نہیں ہوتا اور جانور مسلسل چوری ہو رہے ہیں۔ میرے پاس کسی جگہ پوسٹنگ کے دوران اسی طرح کا ایک ملزم آیا۔ پتہ چلا اس پر ڈنگر کھولنے کے تقریباً پچاس کیس ہیں۔ گواہ منحرف ہو جاتے ہیں۔ سیاسی سرپرست تھانے آ جاتے ہیں۔ پولیس کو کارروائی نہیں کرنے دیتے۔دو چار دن بعد ضمانت ہو جاتی ہے۔ کیا کریں؟ایک پرانے پاپی تھانیدار نے کہا سر جی !اس کا سفارشی فلاں ہے اور دو چار گھنٹے میں آ کر اسے لے جائے گا۔ ریکارڈ بتاتا تھا کہ کئی بار رنگے ہاتھوں مسروقہ جانوروں سمیت پکڑا گیا ہے۔ کئی بار برآمدگی ہوئی ہے مگر سب کچھ ہونے کے باوجود کبھی سزا نہیں ہوئی۔ حل پوچھا تو تھانیدار نے کہا کہ اس کا صرف ایک حل ہے کہ اسے چوری کے قابل ہی نہ چھوڑا جائے۔ میرا اللہ مجھے معاف کرے‘ اس کے سرپرست کی آمد سے پہلے پہلے میں نے اس کے الٹے پائوں کی پچھلی نس کاٹ دی۔ میں جب تک اس علاقے میں رہا کوئی ڈنگر چوری نہیں ہوا۔
بہاولنگر میں انتظاری بلوچ تھا۔اشتہاری مجرم‘ قاتل‘ ڈکیت اور راہزن۔ 1990ء میں جیل وین پر حملہ کر کے اپنے تین دشمن بمعہ چار پولیس اہلکار قتل کر دیے۔کل پینتیس قتل اس کے نامہ اعمال میں درج تھے۔ کئی درج نہیں تھے۔ ایم پی اے اور ایم این اے اس سے ڈرتے تھے۔2003ء میں حکم ہوا کہ اس کا کوئی مناسب اور پکا بندوبست کیا جائے۔ علاقے میں نہ کسی کی عزت محفوظ تھی اور نہ جان مال۔ایک پرانے تھانیدار سے مشاورت کی۔ اس نے کہا کہ اسے تلاش کرنا مشکل ہے۔ کسی ایک جگہ ٹک کر نہیں بیٹھتا۔ کبھی بہاولنگر ہوتا ہے اور کبھی اوکاڑہ۔ کبھی دریا کے کنارے کچے میں اور کبھی دیپال پور ۔ حل پوچھا تو وہ تھانیدار کہنے لگا سرجی !خرچہ کرنا پڑے گا۔ اس کا کوئی بندہ توڑنا پڑے گا۔ ایک بندہ قابو کیا۔ اسے ساڑھے تین لاکھ دیا۔ اس نے بتایا کہ فلاں تاریخ کو فلاں جگہ آئے گا۔ سفید کپڑوں میں ضلع بہاول نگر کی پولیس دیپال پور بھجوائی۔ ایک ہوٹل میں اس نے آنا تھا۔ یہ ڈرائیور ہوٹل تھا۔ انتظاری موٹر سائیکل پر آیا۔ چادر لپیٹی ہوئی تھی۔ جونہی وہ رکا اس کو اندازہ ہو گیا کہ کوئی گڑ بڑ ہے۔ اس نے ہوٹل کے ایک طرف کھڑی گاڑی پر فائر کھول دیا۔ بظاہر پولیس کی کوئی نشانی نہیں تھی مگر ایسے لوگوں کی چھٹی حس بڑا کام دکھاتی ہے۔ ہم نے فوراً جوابی کارروائی کی۔ قبل اس کے کہ وہ فرار ہوتا ہم نے اسے مار گرایا۔ دوسرا ضلع‘بغیر اطلاع کارروائی اور سفید کپڑوں میں اہلکار۔ بڑی گڑ بڑ ہوئی مگر بالآخر صورتحال قابو میں آ گئی۔ اب آپ بتائیں اور کیا حل نکالتے؟۔
کسی نے گواہی نہیں دینی تھی۔کوئی ثبوت نہیں ملنا تھا۔ چار چھ ماہ بعد ضمانت ہو جانی تھی۔ہمارے پاس اور کوئی راستہ ہی نہیں تھا۔ انتظاری کی سزا کے لیے پورے نظام کی تبدیلی کا انتظار نہیں کیا جا سکتا تھا۔ اب ایک اور مصیبت پڑ گئی۔ انکوائری سر پر آن پڑی‘‘۔ میں نے پوچھا ''اس کا کیا بنا؟‘‘ کہنے لگا ''چھڈو مٹی پائو‘‘ لکھ روپے تے لعنت بھیجو‘‘۔(چھوڑ و مٹی ڈالو۔ لاکھ روپے پر لعنت بھیجو)۔ میں نے کہا ''یہ لاکھ روپیہ درمیان میں کہاں سے آ گیا‘‘۔ کہنے لگا ''میں کیا بتائوں؟۔ آپ نے لکھنا نہیں اور میں نے بتانا نہیں۔ چیزیں ثابت نہیں کر سکتے۔ ایسے کاموں کی رسیدیں تھوڑی ہوتی ہیں۔ بندہ بعد میں معافیاں مانگتا پھرے۔ غیر ضروری باتیں چھوڑیں۔ بس یہ دیکھیں کہ بعض اوقات فوری انصاف کے نظریے کے علاوہ آپ کے پاس اور کوئی حل بھی نہیں ہوتا‘‘۔
شروع میں‘ میں اپنے دوست کے فوری انصاف کے نظریے کا قائل تو نہیں تھا مگر اب کم از کم شش و پنج میں ضرور مبتلا ہوں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں