"KMK" (space) message & send to 7575

اتفاقات

چند روز پہلے بہائوالدین زکریا یونیورسٹی ملتان میں وائس چانسلر یعنی رئیس جامعہ کی تقرری کے دوران ہونے والی غلط بخشی اور میرٹ کی ایسی تیسی پھرنے کا سارا واقعہ تفصیل سے لکھا تھا۔ میرٹ کی دھجیاں اڑانے والی اس تقرری کے بعد جامعہ زکریا کا جو حال ہوا ہے اس پر کالم لکھنا چاہتا تھا لیکن مشکل یہ آن پڑی کہ جامعہ کی تباہی اور بربادی کا قصہ ایک کالم میں سمونا ممکن نہیں۔سوچا کہ بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ نہ ہی ڈالا جائے؛ تاہم پھر اس خیال کو جھٹک دیا کہ اگر قابل فخر ماضی کے حامل اس تعلیمی ادارے کی بربادی پر خاموش رہا تو یہ ناقابل معافی جرم ہو گا۔ ملک کی تمام تر ممکنہ بہتری کا دارومدار جن چند عوامل سے جڑا ہوا ہے تعلیم ان میں پہلے نمبر پر ہے۔ لہٰذا جو ہو گا‘ دیکھا جائے گا۔فی الحال صرف ایک معاملے پر تھوڑی سی روشنی ڈالنا مقصود ہے باقی معاملات پر ایک دو اقساط آئندہ سہی۔آج بہائوالدین زکریا یونیورسٹی کے لاہور کیمپس والے معاملے کا تھوڑا سا ذکر ہو جائے تو بہتر۔ اس سارے قصے میں بظاہر تمام چیزیں قانون‘قاعدے اور ضابطے کے مطابق نظر آتی ہیں؛ تاہم یہ محض حسن اتفاق ہے کہ بہائوالدین زکریا یونیورسٹی لاہور کیمپس کا معاملہ ''اتفاقات‘‘ سے بھر پور ہے۔یہ سارے اتفاقات درمیان میں قسط در قسط آتے رہیں گے۔کسی فلم یا افسانے کے آخر میں لکھا ہوتا ہے کہ کہانی کے کرداروں کی کسی سے مماثلت محض اتفاقیہ ہو گی تاہم اس قصے کے تمام اتفاقات محض اتفاقیہ ہیں۔
19جنوری 2013ء کو ڈبلیو سی جی نے بہائوالدین زکریا یونیورسٹی کو خط کے ذریعے تعلیمی میدان میں شانہ بہ شانہ چلنے کا عزم ظاہر کرتے ہوئے لاہور میں جامعہ کا سب کیمپس کھولنے کا منصوبہ پیش کیا۔اس کے لیے جائزہ کمیٹی بنائی گئی۔ وائس چانسلر نے جامعہ کی طرف سے جو کمیٹی بنائی اتفاق سے اس کے ممبران‘ وائس چانسلر کے پسندیدہ گروپ سے تعلق رکھتے تھے لہٰذا اتفاق 
سے یہ تجویز فوراً ہی منظور کر لی گئی۔ اب معاملہ سنڈیکیٹ پر آن پڑا۔تاہم اس سے پہلے 19فروری کو جامعہ زکریا اور ڈبلیو سی جی کے درمیان ایک ایم او یو طے پایا اور اس پر دستخط ہو گئے۔ بعدازاں وائس چانسلر نے ''پارٹنر شپ ڈیڈ‘‘یعنی شراکت نامے پر دستخط کر دیے۔یہ بھی محض اتفاق تھا کہ وائس چانسلر نے اس معاہدے پر دستخط کرنے سے قبل طے شدہ طریقہ کار اختیار کرنے کے بجائے یونیورسٹی ایکٹ 1975ء کے تحت کسی ایمرجنسی میں لگائے جانے والے اختیارات کے تحت اس معاملے پر سیکشن (3)16کا استعمال کیا اور سنڈیکیٹ کی طاقت کو محض اس سیکشن کی آڑ میں ازخود استعمال کرتے ہوئے معاملہ نمٹا دیا۔
19 فروری کو یہ معاملہ وزیر تعلیم کو بھجوا دیا۔جنہوں نے ساتھ لگے ہوئے کاغذات کی بنیاد پر معاملہ منظور کر کے اوپر بھجوا دیا۔تیرہ مارچ 2013ء کو وزیر اعلیٰ کی منظوری کا لیٹر جاری ہوا؛ تاہم اس معاملے کو وزیر اعلیٰ نے یونیورسٹی ایکٹ 1975ء کے سیکشن (1)5اور (3)5کے تحت منظور کرتے ہوئے یہ معاملہ جامعہ زکریا کی سنڈیکیٹ کی منظوری اور ہائر ایجوکیشن کمیشن کی جانب سے این او سی سے مشروط کر دیا۔اتنے اہم معاملے پر سنڈیکیٹ کے اجلاس کا انتظار نہ کیا گیا اور افراتفری میں حکومت پنجاب کی مشروط منظوری کے دوسرے ہی دن پروویژنل منظوری کا خط ڈبلیو سی جی کو بھجوا دیا۔ اسی دوران یہ ہوا کہ اس پراجیکٹ کی منظوری کے ساتھ ہی یعنی سونے کی اس کان کا لائسنس ملتے ہی اس گروپ کی انتظامیہ تبدیل ہوگئی۔ مطلب یہ کہ جامعہ زکریا لاہور کیمپس آگے فروخت ہو گیا۔ 
یہ فروخت سولہ مئی کو وقوع پذیر ہوئی تاہم فروخت کا معاملہ یہی نہیں رکا بلکہ ایک بار پھر سونے کا انڈا دینے والی یہ مرغی آگے فروخت کر دی گئی۔19 ستمبر 2013ء کو یہ کیمپس دوسری بار فروخت ہوا اور ملکیت منیر احمد بھٹی کے نام منتقل ہو گئی۔
تاہم اس دوران مزید کئی اتفاقات نے جنم لیا۔کیونکہ سنڈیکیٹ کی میٹنگ کا انعقاد حسب خواہش جلد ممکن نہ تھا لہٰذا رجسٹرار نے ایک خط جاری کیا کہ یہ معاملہ ایسا نہیں کہ اس پر کوئی ایمرجنسی میٹنگ طلب کی جائے۔ لہٰذا لاہور کیمپس کا معاملہ ممبران کے پاس بذریعہ ڈاک بھجوا دیا گیا ۔اور کہا گیا کہ وہ اس پر اپنی رائے 27جون سے قبل بھجوا دیں۔ایک پورا نیا سب کیمپس بنایا جا رہا ہے اور یونیورسٹی انتظامیہ کے نزدیک یہ اتنا اہم معاملہ نہیں ہے کہ باقاعدہ میٹنگ بلائی جائے اور نہ ہی باقاعدہ میٹنگ کا انتظار کیا گیا۔حالانکہ یہ اتنا اہم معاملہ تھا کہ ایمرجنسی میٹنگ طلب کی جاتی یا باقاعدہ میٹنگ کا انتظار کیا جاتا تاکہ اس مسئلے پر باقاعدہ بحث ہوتی۔مختلف پہلوئوں پر روشنی ڈالی جاتی اور طریقے سے اس معاملے کو طے کیا جاتا لیکن یونیورسٹی انتظامیہ نے اپنی مرضی کے نتائج لینے کے لیے اسے بذریعہ ڈاک یعنی Resolution By Circulationکے ذریعے منظوری کے لیے ارکان سنڈیکیٹ کے لیے بھجوا دیا۔سنڈیکیٹ کے کل ممبران کی تعداد بارہ تھی۔بارہ میں سے پانچ ارکان نے اس ریزو لیوشن کو نامنظور کر دیا۔ایک ممبر کا جواب وقت پر موصول نہ ہوا۔چھ ارکان نے اس ریزولیوشن کو منظور کر دیا۔اس طرح بارہ میں چھ ووٹ کی ''بھاری اکثریت‘‘کے ساتھ یہ معاملہ طے پا گیا۔ حمایت میں ووٹ ڈالنے والے چھ میں سے پانچ ممبران یونیورسٹی کے فیکلٹی ممبر تھے۔ایک ممبر بذات خود وائس چانسلر تھے اور بقیہ چار ممبران ان کے ماتحت پروفیسر تھے۔یہ محض اتفاق تھا کہ کسی غیر جانبدار اور آزاد ممبر نے یہ ریزولیوشن منظور نہ کیا۔اسے مسترد کرنے والوں میں ایک حاضر سروس جج‘ایک ریٹائرڈ جج‘ایک ریٹائرڈ وائس چانسلر‘حکومت پنجاب کی ایڈیشنل سیکرٹری اور ایک خاتون ممبر جو Eminent Scholar (ممتاز علمی شخصیت) کی سیٹ پر ممبر تھیں‘ شامل تھے۔یہ سب محض اتفاق تھا۔یہ بھی اتفاق ہے کہ صرف ایک ممبر سنڈیکیٹ ایسا تھا جو یونیورسٹی کا فیکلٹی ممبر نہ تھا مگر اس نے ریزولیوشن کے حق میں ووٹ دیا۔یہ ممبر ایک ایسی یونیورسٹی کا وائس چانسلر تھا جو خود بھی اسی قسم کا کیمپس کھولنے کی اجازت دے چکی تھی اور زکریا یونیورسٹی اپنا سب کیمپس کھولتے وقت اسی وائس چانسلر کی یونیورسٹی کو بطور مثال پیش کر چکی تھی۔یعنی یہ ممبر سنڈیکیٹ اس سب کیمپس والے معاملے کے موجد تھے لہٰذا انہوں نے اس کو منظور کرنا ہی تھا۔
اب لاہور میں بہائوالدین زکریا یونیورسٹی کا سب کیمپس کھل گیا۔فیسیں وصول کر لی گئیں وہاں ایسے ایسے شعبوں کی منظوری دی گئی جنہیں ابھی بہائوالدین زکریا یونیورسٹی ملتان میں بھی مکمل منظوری نہیں ملی اور انجینئرنگ کے شعبوں میں ہر سال پاکستان انجینئرنگ کونسل والے عارضی طور پر ایک ایک سال کی Accreditationمنظور کر رہے ہیں۔اسی دوران کسی نے وزیر تعلیم کو اس سب کیمپس میں ہونے والی بدانتظامیوں اور خرابیوں سے آگاہ کیا۔معاملے کی چھان بین کی گئی تو بے شمار انتظامی خرابیاں سامنے آئیں۔ وزیر تعلیم نے جامعہ زکریا کو خط لکھ کر اس سب کیمپس کو‘ معاملات کی خرابی کے سبب فوری طور پر بند کرنے کا کہا۔ اب یہ محض اتفاق ہے کہ پہلے بھاری اکثریت سے لاہور کیمپس منظور کرنے والی ''آزاد‘‘ سنڈیکیٹ نے فوری طور پر لاہور کیمپس کو بند کرنے کاریزولیوشن اپنی 2/2013کی میٹنگ مورخہ پانچ و چھ ستمبر میں پاس کر دیا۔ اسی اثناء میں ہائر ایجوکیشن کمیشن نے 5 اکتوبر 2013ء کو ایک اشتہار کے ذریعے مطلع کیا کہ زکریا یونیورسٹی کے لاہور کیمپس کو کام کرنے سے روک دیا گیا ہے؛ تاہم لاہور کیمپس والوں نے سول جج سے حکم امتناعی حاصل کر لیا۔اسی دوران اس حکم امتناعی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے لاہور کیمپس کے مالکان نے بنک سے طلبہ کی فیسوں کے دو کروڑ روپے سے زائد رقم نکلوا لی۔ اب معاملہ یہ ہے کہ لاہور کیمپس نے ایچ ای سی سے منظوری بھی نہیں لی اور اسے اصولاً بند بھی کر دیا گیا ہے مگر وہ عملی طور پر چل رہا ہے۔یہ محض اتفاق ہے کہ وائس چانسلر بہائوالدین زکریا یونیورسٹی ملتان جناب سید خواجہ علقمہ کا داماد ڈبلیو سی جی کے مالک یعنی لاہور کیمپس کے مالک منیر احمد بھٹی کی کمپنی میں معقول مشاہرے پر ملازم ہے۔ اتفاقات کا تو اختتام ہوا لیکن تاحال اس عاجز کو یہ پتہ نہیں چل سکا کہ حکم امتناعی پر چلنے والے لاہور کیمپس کے طلبا و طالبات کا مستقبل کیا ہے؟
یہ سارا معاملہ دو تین لوگوں کی ملی بھگت سے ہوا ہے اور شنید ہے کہ اس معاملے پر اتنے پیسے ادھر ادھر ہوئے ہیں کہ اس عاجز کے حلق کے علاوہ اس کے مبلغ بیس روپے مالیت والے پاکستانی ساختہ سستے سے پین کی سیاہی بھی خشک ہو گئی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں