"KMK" (space) message & send to 7575

شہروں کی طرف آبادی کا بہائو

پشاور شہرکینٹ کے بعد ختم ہو جاتا تھا۔ یونیورسٹی اور اسلامیہ کالج تک کا راستہ تقریباً بے آباد ہوتا تھا۔اب یونیورسٹی روڈ شاید پشاورکی سب سے معروف‘ پررونق اور مہنگی سڑک ہے۔ پشاوراب جی ٹی روڈ سے شروع ہوتا ہے اور حیات آباد تک مسلسل آبادی ہے۔ میرے بیٹے نے جی ٹی روڈ سے پشاورکو دیکھنا شروع کیا اور قلعہ بالا حصار تک پہنچتے پہنچتے اس کا پشاورکے بارے میں نقطۂ نظر تبدیل ہو چکا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ پشاور کوئی درمیانے سائز اور آبادی کا شہر ہوگا۔ صدر سے گزرتے ہوئے کہنے لگا، یہ تو ملتان سے بھی شاید بڑا ہے۔ میں نے اسے بتایا کہ تین عشرے پہلے یہ اتنا بڑا شہرنہیں تھا، اس کا نقشہ ہمارے سامنے تبدیل ہوا ہے۔ پروفیسر صاحب پشاور کے پرانے باسی ہیں،ان سے گزشتہ تیئس برسوں میں ہونے والی تبدیلیوں پر بات ہوئی۔ 
پروفیسر صاحب ہندکوبولتے ہیں۔کہنے لگے یہ ہندکو بولنے والوں کا شہر تھا، پھر پاکستان کے ہر شہر کی طرح یہ بھی پھیلنا شروع ہوگیا۔ اردگرد کے قصبوں اور قبائلی علاقوں سے لوگوںکی آمد شروع ہوگئی جو سب پشتون تھے۔ پہلے افغانوں نے اس شہر کی ہیئت (Demography) تبدیل کی، بعد میں پشتونوں نے۔ پشتون اس شہر میں دو وجوہ سے آئے۔۔۔ کاروباراور مزدوری کے لیے۔ جن کے پاس پیسہ تھا وہ کاروبار میں آ گئے، باقی اس شہر میں محنت مزدوری کرنے لگے ۔ رہی سہی کسر امن و امان کی صورت حال نے نکال دی، نتیجہ یہ نکلا کہ پشاور میں آبادی کا دبائو بہت زیادہ ہوگیا۔ قبائلی علاقوں سے آنے والے پشتونوں کے پاس بے شمار پیسہ تھا۔۔۔ سمگلنگ کا پیسہ! انہوں نے شہر میں جائیدادیں خریدیں اور کاروبار شروع کردیا۔ پیسے کی ریل پیل نے انہیں پشاور کا تقریباً مالک بنا دیا ہے۔ ہم لوگ یعنی ہندکو بولنے والے پڑھنے لکھنے میں دلچسپی رکھتے تھے ، نوکری پیشہ ، ان کے پاس زیادہ پیسہ نہیں تھا۔ پشتونوں کے پاس پیسہ تھا،انہوں نے جائیدادیں خریدیں، کاروبار پھیلا ئے اور اچھی اچھی جگہوں پرگھر خرید لیے۔ شہر میں اتنے پشتون آ گئے کہ ہندکو اقلیت بن گئے۔ یہ ہے سارا قصہ شہرکی آبادی کے بڑھنے کا اور ہندکو سے پشتون شہر میں تبدیل ہونے کا۔کئی دوسرے شہروں میں بھی ایسا ہی ہوا۔
یہ باتیں شاید میرے بیٹے کے لیے دلچسپی سے خالی تھیں، وہ تھوڑی سی بوریت محسوس کر رہا تھا، کہنے لگا، ہندکوکیا ہوتی ہے، پشتوکا تو مجھے پتہ ہے۔ پروفیسر صاحب بتانے لگے کہ ہندکو پنجابی سے ملتی جلتی زبان ہے لیکن اس کا اپنا لہجہ اور اپنی گرائمر ہے۔ میرے بیٹے کے لیے شاید اتنی معلومات کافی تھیں،اس نے اور کوئی سوال نہ کیا۔ 
حیات آباد گئے تو ایک دکان میں سکھ کپڑا بیچ رہا تھا۔میرا بیٹا سکھ کو دیکھ کر حیران ہوا اورکہنے لگا، بابا یہاں سکھ بھی ہوتے ہیں؟ میں نے اسے بتایا کہ میں نے بھی پاکستان میں یاتریوں کے علاوہ پہلی بار پاکستانی سکھ پشاور میں دیکھے تھے۔ میں چھوٹا سا تھا جب میں نے پہلی بار سکھوں کو راجہ رنجیت سنگھ کی''مڑھی‘ پردیکھا تھا۔بعدازاں لاہور میںکئی بار واہگہ سے آنے والے یاتریوں کو دیکھا۔ ننکانہ صاحب اور حسن ابدال میں یاتری نظر آئے مگر پاکستانی سکھ پشاور میں دیکھے۔ پشاور میں ایک علاقہ ہے ڈبگری‘ عین شہر میں، اس میں ایک محلہ ہے جوگن شاہ ، میں نے اپنے دوست لیاقت کے پاس وہاں جانا تھا ، لیاقت تب خیبر میڈیکل کالج میں پڑھتا تھا۔ وہاں اس کے پاس ایک چھوٹا سا تہہ خانہ نما 
کمرہ تھا،گرمیوں میں بھی ٹھنڈا ٹھار،اس میں بس ایک چارپائی کی جگہ تھی۔ جب میں وہاں جاتا تو لیاقت اپنی چارپائی مجھے دے کرکہیں چلا جاتا تھا۔کہاں جاتا تھا؟ یہ نہ میں نے اس سے کبھی پوچھا اور نہ ہی اس نے بتایا؛تاہم مجھے گمان ہے کہ وہ اپنے مالک مکان سے اپنے سونے کے لیے کوئی جگہ لے لیتا تھا۔ اب لیاقت پشاور میں ہی ڈاکٹر ہے اور ڈبگری ہی میں رہائش پذیر ہے۔ 
میں جب پہلی بار لیاقت کے پاس محلہ جوگن شاہ میں گیا تو نہانے کے لیے اس کے ساتھ صبح تہہ خانے سے نکلا اور اس کے پیچھے چل دیا۔ دو گلیوں کے بعد وہ مجھے ایک قطار میں بنے ہوئے چار پانچ حماموں میں سے ایک کی طرف اشارہ کر کے کہنے لگا: یہاں نہانا ہے۔نہاکر باہر نکلا تو سامنے دو تین چھوٹے چھوٹے سکھ بچے سروں پر جُوڑے باندھے نہانے کے منتظر کھڑے تھے۔ میں نے لیاقت سے ان کی طرف اشارہ کر کے پوچھا یہ یہاں کیسے؟ لیاقت کہنے لگا یہ گوردوارے کے حمام ہیں۔ وہ مجھے ساتھ والی گلی میں لے گیا، وہاں گوردوارے کا دروازہ تھا۔ کئی سکھ آ جا رہے تھے، اندرگرنتھ صاحب کا پاٹھ ہو رہا تھا، آواز باہر تک آ رہی تھی، یہ بڑا پرانا گوردوارہ تھا۔ بعد میں اس محلے میں سکھوں کی کئی دکانیں دیکھیں۔ سکھ حکیم بھی پہلی بار محلہ جوگن شاہ میں دیکھے۔ سکھ وہاں بڑے امن و سکون سے رہ رہے تھے اورکسی قسم کاخوف یا خطرہ محسوس نہیں کرتے تھے۔ وہ وہاں کسی مذہبی روک ٹوک یا مذہبی امتیازکے بغیر اپنی عام زندگی اور مذہبی فرائض انجام دیتے تھے۔ 
جس دن میں پشاور میں تھا وہاں سکھ‘ عیسائی اور دیگر اقلیتوں کے نمائندے سوات میں ایک سکھ حکیم کے قتل کے خلاف پرامن احتجاج کر رہے تھے۔ اب وہ معاملہ نہیں ہے۔ سکھ وہاں رہ تو رہے ہیں مگر اب ویسا سکون اور امن کہیں نظر نہیں آتا۔ مذہبی تنگ نظری نے پورے معاشرے ، خیبر پختونخوا کو خصوصی طور پر متاثرکیا ہے۔ سندھ سے ہندوئوں کی بڑی تعداد واپس ہندوستان جا چکی ہے اورکئی خاندان جانے کے لیے تیار ہیں۔ سوات وغیرہ میں سکھوں کو مذہبی منافرت کا سامنا ہے۔ ان کی جان و مال اورشناخت کو شدید خطرہ لاحق ہے۔ یہ اس ملک میں ہو رہا ہے جو اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا اور اسلام کی اصل روح جو رواداری تھی ہم اس سے یکسر محروم ہوگئے۔ 
آج کالم لکھنے بیٹھا تو پچھلے کالم کے حوالے سے موصول ہونے والی کئی ای میلز میں ایک ای میل ایسی تھی جس نے میرے ایک جملے پر اعتراض کیا تھا۔ یہ جملہ تھا کہ ''نوکریاں میرٹ پر مل رہی ہیں‘‘۔ خیبرپختونخوا سے ایک نوجوان اسد اللہ یوسف زئی نے ای میل بھیجی ہے کہ کچھ بھی میرٹ پر نہیں ہو رہا۔ اس نے ایک نوکری کے لیے اپلائی کیا، سینکڑوں لوگوں نے درخواستیں دیں ، آخر میں چار لوگ شارٹ لسٹ ہوئے۔ ایک گریجوایٹ‘ دو ایم اے اور ایک ایم ایس فنانس و ایم بی اے تھا۔ یہ فنانس ڈیپارٹمنٹ کے انرجی مانیٹرنگ سیل میں گریڈ سولہ کی اسامی تھی۔انٹرویوکے اگلے دن اسد نے فون کر کے متعلقہ شخص سے انٹرویوکا نتیجہ پوچھا، پتا چلا کہ اس اسامی پر نہ صرف یہ کہ سلیکشن ہو چکی ہے بلکہ امیدوار نے نوکری پر حاضری بھی دے دی ہے۔ منتخب ہونے والا امیدوار ان چاروں شارٹ لسٹ کیے گئے امیدواروں میں سب سے کم تعلیم یافتہ یعنی محض گریجوایٹ تھا۔ دیگر مسترد ہونے والے تینوں امیدوار ماسٹر ڈگری ہولڈر تھے۔ یہ میرٹ ہے۔ اسد اللہ نے درخواستیں دیں مگرکوئی شنوائی نہیں ہوئی۔ عدالتی کارروائی کا سوچا مگر وکیل نے فیس ہی اتنی مانگی کہ ''انصاف‘‘ کی ہوا نکل گئی۔ 
میں نے جو جملہ لکھا تھا وہ اپنے گائڈ اور ہمراہی عتیق کے حوالے سے لکھا تھا۔ وہ تحریک انصاف کا نہ تو ووٹر تھا اور نہ سپورٹر۔ ممکن ہے عتیق بھی درست ہو اور اسد بھی۔ دونوں کا اپنا اپنا تجربہ ہے اور درست ہو سکتا ہے۔ خیبرپختونخوا میں بہتری نظر آ رہی ہے اور امید ہے اس میں مزید بہتری ہوگی ، لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ شہر بے تحاشا پھیل رہا ہے۔ صرف پشاور ہی نہیں کراچی‘ لاہور‘ راولپنڈی‘ گوجرانوالہ‘ فیصل آباد اور ملتان ،یہ سارے شہر کسی منصوبہ بندی کے بغیر پھیل رہے ہیں۔ دیہات سے شہروں کی طرف مراجعت کا عمل تیزی سے جاری ہے اور اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ شہروں کے علاوہ عوام کے لیے روزگار‘ تعلیم‘ کاروبار اور نوکری کی سہولتیں کہیں میسر نہیں ہیں۔ جب تک دیہی علاقوں میں زراعت کے علاوہ روزگار اور تعلیم کے متبادل اور معیاری ذرائع فراہم نہیں کیے جاتے‘ دیہات سے شہروں کی طرف آبادی کا بہائو جاری رہے گا اور آنے والے دنوں میں شہروں میں آبادی کا یہ دبائو ایسے مسائل لائے گا جو ہمارے کنٹرول سے باہر ہوگا۔کراچی کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں