"KMK" (space) message & send to 7575

قصہ ایک کمیٹی اور وسیب کے سیاستدانوں کا

حکومت پنجاب نے 5مارچ کوچونسٹھ رکنی کمیٹی بنائی ہے جس کا نام "Commitee For Empowerment of South Punjab" ہے اور جس کے چیئرمین رانا ثناء اللہ اور شریک چیئرمین حمزہ شہباز شریف ہیں۔ باقی باسٹھ ارکان میں جنوبی پنجاب سے مسلم لیگ ن کا اکلوتا سینیٹر‘ بارہ ایم این اے‘ سولہ ایم پی اے بشمول ڈپٹی سپیکر پنجاب اسمبلی کل اکتیس منتخب سیاستدان ہیں۔ دو سابق ایم این اے‘ چودہ صوبائی سیکرٹریز‘ تین کمشنر‘ سیکرٹری پنجاب پبلک سروس کمیشن‘ دو یونیورسٹیوں سے ایک ایک پروفیسر‘ پلاننگ اینڈ ڈیویلپمنٹ کا صوبائی چیئرمین‘ بورڈ آف ریونیو کا سینئر ممبر‘ پانچ ریٹائرڈ بیوروکریٹ‘ جن کا تعلق جنوبی پنجاب سے ہے‘ ایک ریٹائرڈ جج‘ ایک اور سرکاری افسر اور دو عام شہری ہیں ، ان میں سے ایک بہاولپور سے اور دوسرا ملتان سے ہے۔ ملتان سے تعلق رکھنے والا ممبر یہ عاجز ہے۔ 
اس کمیٹی کا نام اخبارات میں آتے ہی لوگوں کو یہ غلط فہمی پیدا ہوگئی کہ شاید یہ کمیٹی کسی جنوبی پنجاب نام کے صوبے کے قیام کی پہلی کڑی ہے‘ حالانکہ بات اس کے بالکل الٹ ہے اور اس کمیٹی کی تخلیق کا مقصد جنوبی پنجاب پر مشتمل کسی متوقع صوبے کے ایشوکو برف میں لگانا ہے۔ صوبائی وزیر جیل خانہ جات عبدالوحیدارائیں نے تو باقاعدہ بیان داغ دیاکہ اس کمیٹی کے قیام کا مقصد صوبہ جنوبی پنجاب کی شروعات ہے، لیکن اس میں صوبائی وزیرکا کوئی قصور نہیں‘ حکومتی پارٹی کا وزیر ہونے کی حیثیت سے یہ ان کا اخلاقی فرض ہے کہ وہ غلط ہوں یا صحیح‘ مگر حکومتی اقدامات کا جواز پیش کرتے رہیں۔ 
اس لمبی چوڑی کمیٹی سے مزید پانچ سب کمیٹیاں منتخب کی گئی ہیں۔ سات رکنی ہیلتھ کمیٹی‘ گیارہ رکنی تعلیمی کمیٹی‘ سولہ رکنی انفراسٹرکچر کمیٹی‘ دس رکنی اکنامک ڈیویلپمنٹ کمیٹی اور چودہ رکنی ایڈمنسٹریٹو ریفارم کمیٹی۔ تین دن پہلے ہیلتھ سب کمیٹی کی پہلی میٹنگ ہوئی جس میں یہ عاجز بھی شریک ہوا۔ لاہور میں سول سیکرٹریٹ میں ہونے والی اس میٹنگ کے آغاز میں ایڈیشنل سیکرٹری ہیلتھ نے سب کمیٹی کے ارکان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو اندازہ ہوگا کہ اس ساری ایکسر سائزکاکیا مقصد ہے۔ میں نے ہنستے ہوئے کہا کہ مجھے یہ تومعلوم نہیں کہ آپ کیا کہنا چاہتے ہیں مگرمیں یہ ضرور جانتا ہوںکہ یہ کمیٹیاں بنانے کا مقصد صرف یہ ہے کہ جنوبی پنجاب کے علاقوں پر مشتمل صوبہ نہ بنانا پڑے۔ 
میں ذاتی طور پر جنوبی پنجاب پر مشتمل ایک نئے صوبے کا پرزور حامی ہوں۔ سرائیکی قوم پرستوں کے بالکل برعکس میں یہ صوبہ صرف اور صرف انتظامی بنیادوں پر مانگتا ہوں۔ دس کروڑکے لگ بھگ آبادی پر مشتمل صوبہ پنجاب اب لاہور سے کنٹرول کرنا ناممکن ہے۔ یہ آبادی دنیا کے دو سو تیس ممالک میں سے دو سو انیس ممالک سے زیادہ ہے۔ صوبہ پنجاب سے زیادہ آبادی والے ممالک کی تعداد صرف گیارہ ہے ، لیکن فی الوقت میرا موضوع اس سے تھوڑا مختلف ہے۔ میں ملتان‘ بہاولپوراورڈیرہ غازی خان ڈویژن پر مشتمل علاقے کو ایک علیحدہ صوبہ بنانے کا حامی بھی ہوں اوراس سلسلے میں لکھتا بھی رہا ہوں۔ اس کی وجوہ انتظامی بھی ہیں اور پسماندگی بھی اس کی ایک بڑی وجہ ہے۔ تین ڈویژنوں پر مشتمل اس علاقے کی آبادی پورے پنجاب کا تقریباً بتیس فیصد ہے اور رقبہ تقریباً اڑتالیس فیصد، مگر وسائل کی تقسیم میں کبھی اس علاقے کو اس کا حق نہیں مل سکا۔ وسائل کی منصفانہ تقسیم کے لیے ضروری ہے کہ اسے علیحدہ صوبے کا درجہ دیا جائے اور دیگر صوبوں کی طرح آبادی اور رقبے کے مشترکہ فارمولے کے تحت اسے ترقیاتی فنڈز بھی دیے جائیں۔ 
میرے ایک دوست نے مجھ سے پوچھا: کیا یہ کمیٹی نئے صوبے کے قیام کے لیے بنیادی ضروریات کے تعین کے لیے قائم کی گئی ہے؟ میں نے کہا یہ صوبے کے ایشوکو ٹیکنیکل ناک آئوٹ کرنے کی غرض سے قائم کی گئی ہے۔کہنے لگا، تم تو علیحدہ صوبے کے حامی ہو،اس کمیٹی میں کیا کروگے؟ میں نے کہا، پہلے بھی علیحدہ صوبے کا حامی تھا، آج بھی ہوں اورکل بھی رہوں گا۔ زندگی مواقع کا نام ہے، آپ کو مرضی سے ہٹ کر بھی آپشنز ملتی ہیں ، دروازے بند نہیں کرنے چاہئیں، حتمی منزل کی جستجو میں راستے میں ملنے والی آسانیاں اور مواقع نہیں چھوڑنے چاہئیں ، ہمارا کام لکھنااور جدوجہد کرنا ہے، دلیل اور جواز کے ساتھ، دھونس اور زبردستی ہمارا کام نہیں۔ ویسے جب سب کچھ جا رہا ہواوراگراس میں سے آدھا بچتا ہو تو اسے بچا لینا چاہیے۔ ایک کالم نگارکے طور پر میں نے یہ سیکھا ہے کہ اگر آپ کا کالم اخبارکی پالیسی کے یکسر الٹ ہے اور آپ کو یہ بھی پتہ ہے کہ یہ کالم موجودہ صورت میں ردی کی ٹوکری کی زینت بنے گا تو آپ کے سامنے تین راستے ہیں۔ پہلا یہ کہ آپ کالم لکھیں اور یہ فکرکیے بغیرکہ اس کا انجام کیاہوگا‘ دوسرا یہ کہ آپ اس موضوع پر لعنت بھیجیں اورکوئی اورکالم لکھ دیں اور تیسری صورت یہ کہ آپ درمیانی راستہ نکالیں اور ذرا مختلف طریقے سے اپنی بات قارئین تک پہنچا دیں۔ میں نے سترہ سالہ صحافتی زندگی میں یہ سیکھا ہے کہ ذاتی انا سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ کسی نہ کسی طرح اپنی بات لوگوں تک پہنچادیں کہ ایک لکھنے والے کی یہی حقیقی ذمہ داری ہے۔ 
اب میرے سامنے بھی تین راستے تھے۔ پہلا یہ کہ کمیٹی میں جائوں اور اپنے موقف پراڑا رہوں، یعنی کھیلیں نہ کھیلنے دیں، نتیجہ یہ کہ جو فی الوقت حاصل کیا جا سکتا ہے اسے بھی گنوا دیا جائے۔دوسرا یہ کہ کمیٹی کے کسی اجلاس میں جایا ہی نہ جائے یعنی لڑے بغیر ہتھیار ڈال دیے جائیں، یہ میری فطرت نہیں۔ آخری راستہ یہ تھا کہ اس کمیٹی کے اجلاسوں میں شرکت کی جائے اور اس وقت جو زیادہ سے زیادہ مل سکتا ہے وہ تو لیا جائے، باقی مقاصدکے حصول کی جدوجہد جاری رکھی جائے۔ میں نے یہی تیسرا راستہ چنا اور ہیلتھ کے لیے بنائی گئی سب کمیٹی کے اجلاس میں شرکت کے لیے لاہور چلا گیا۔کمیٹی کے اجلاس میں شرکت کرنے سے اندازہ ہواکہ میرا فیصلہ درست تھا۔ 
شاہ جی پوچھنے لگے،کیا تم یہ سمجھتے ہوکہ میاں شہبازشریف تین کروڑ سے زائد آبادی کے اس خطے کو واقعتاً کچھ دینا چاہتے ہیں یا محض میٹھی گولی دے رہے ہیں؟ میں نے کہا، میں نجومی ہوں نہ الہام اترنے کا دعویدار ہوں؛ تاہم میں یہ ضرور جانتا ہوں کہ مسلم لیگ ن والے صوبہ تو ہرگز نہیں بنانا چاہیں گے؛ البتہ اب وہ اس خطے کو پہلے کی طرح نظراندازکرنے کا خطرہ بھی مول نہیں لے سکتے۔ آج قوم پرست سرائیکی انتخابی سیاست میں کسی خاص اہمیت کے حامل نہیں ہیں مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے لوگوں کے دلوں میں 
علاقے کی پسماندگی‘ فنڈزکی غیر مساوی تقسیم اور ترقیاتی کاموں میں عدم مساوات پر لاوا پک رہا ہے جو کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے جس سے مسلم لیگ ن کی انتخابی سیاست کو سخت دھچکا لگ سکتا ہے اور وہ جنوبی پنجاب سے فارغ ہو سکتی ہے۔ میرا خیال ہی نہیں‘ یقین ہے کہ پنجاب حکومت اس وسیب کو واقعتاً کچھ دینا چاہتی ہے۔ بے شک یہ ہماری محبت میں نہ ہو،اپنی سیاسی بقا کے لیے ہولیکن یہ بات طے ہے کہ معاملات اب پہلے کی طرح نہیں چل سکتے۔ 
میں نہیں جانتاکہ باقی سب کمیٹیوں کے اجلاسوں میں کیا ہوا مگر ہیلتھ سب کمیٹی کا اجلاس بڑے خوشگوار ماحول میں ہوا اور میزکی دوسری طرف بیٹھے ہوئے سرکاری بابوئوں کا رویہ مثبت تھا،کم ازکم حقائق سننے اور تسلیم کرنے کی حد تک تو اس علاقے کی محرومیوں سے وہ کسی حدتک متفق بھی تھے۔ اس صورت حال میں صوبے کو چھوڑ کر اور بہت کچھ حاصل کیا جا سکتا ہے اور مجھے یقین ہے کہ علیحدہ صوبے کے موقف کے باوجود اس موقع کو ضائع نہیں کرنا چاہیے اور جوکچھ مل سکتا ہے حاصل کر لینا چاہیے۔ صحت‘ تعلیم‘ زرعی ترقی‘ بنیادی اور اساسی ڈھانچے کی بہتری اور انتظامی حوالوں سے نیم خود مختاری ملنے کا مطلب یہ نہیں کہ صوبے کے معاملے پر سودے بازی ہو گئی ہے۔ وہ معاملہ علیحدہ اوراپنی جگہ پر ہے۔ اس وقت ''تخت لاہور‘‘حقائق کو سمجھتے ہوئے حقوق اور وسائل میں اس علاقے کو اس کا غصب شدہ حق واپس کرنے پر تیار ہے،اگر ہم اب بھی اپنا کھویا ہوا حق نہ لے سکے تو یہ ہمارے وسیب کے سیاستدانوں کی نالائقی ہوگی اور تاریخ انہیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔ اس علاقے کی پسماندگی کا باعث پہلے بھی تخت لاہور نہیں‘ ہمارے اپنے نمائندے تھے جنہوں نے کبھی اپنی ذات سے بڑھ کر نہیں سوچا۔خدا نہ کرے کہ اب بھی وہ ماضی کا قصہ دہرائیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں