"KMK" (space) message & send to 7575

اُمید اور دمادم کے درمیان

میٹنگ بڑے خوشگوار طریقے سے شروع ہوئی اورگفتگو صحت سے متعلق سہولیات اور درپیش مسائل سے ہوتی ہوئی جنوبی پنجاب میں اس شعبے سے متعلق محرومیوں،کوتاہیوں اورنظر اندازیوں پر آن پہنچی۔ایک سرکاری افسر فرمانے لگے کہ میں لاہورکے فلاں نواحی ضلع میں ڈی سی او تھا ، وہاں چھیالیس بنیادی مراکز صحت تھے اورکسی ایک میں بھی بچوں کا سپیشلسٹ نہیں تھا، کسی مرکز میں گائنی کی ڈاکٹر نہیں تھی اورکہیںکوئی سرجن نہیں تھا۔ میں نے کہا آپ کی بات درست ہوگی مگر ہم یہاں خرابیوں اورخامیوں کا مقابلہ کرنے نہیں آئے، ہمیں تو یہ دیکھنا ہے کہ ہمارے خطے کی کیا محرومیاں ہیںاورانہیں کیسے ٹھیک کیاجاسکتا ہے۔ وہ صاحب کہنے لگے ، میرے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ جنوبی پنجاب کے علاوہ دیگر علاقوں میں بھی صورت حال آپ جیسی ہی ہے،کوئی زیادہ فرق نہیں ۔ میں نے عرض کی کہ یہاں آپ ڈنڈی ماررہے ہیں، رُورل ہیلتھ سنٹرز، بنیادی مراکز صحت اور ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتالوں کا حال تو سب جگہ ایک سا ہے لیکن جن معاملات میں ہمارے ساتھ ناانصافی ہوئی، ہمیں نظر اندازکیاگیا ہے اور ہمارے ساتھ زیادتی کی گئی‘ ان پر بات کی جائے تو صورت حال واضح ہوجائے گی۔ ہماری طرف سے پسماندہ رکھنے کے دعوے کو ثابت کرنے کے لیے تقابلی جائزہ بہت ضروری ہے جس پر تھوڑی روشنی ڈالنا چاہتا ہوں۔
اس تقابلی جائزے کے لیے میں صرف ایک مثال دینا چاہوں گا‘ جو ملتان کی ہے۔اس سے ایک تو وسیب سے ہونے والی ناانصافیوں پر روشنی ڈالنے میں مدد ملے گی‘ دوسرے اس سے جنوبی پنجاب کے سب سے بڑے شہرکے ساتھ ہونے والے سلوک کی نشاندہی بھی ہوجائے گی، باقی شہروں کا آپ خود اندازہ لگالیجیے گا۔ 1953ء میں ملتان کی آبادی ڈیڑھ اور دولاکھ کے درمیان تھی۔ تب ملتان میں ایک ہزار بستروں پر مشتمل نشتر ہسپتال بنایا گیا۔ 
اس وقت لاہور میں میوہسپتال ، گنگا رام ہسپتال، گلاب دیوی ہسپتال اور جانکی دیوی ہسپتال تھے۔آج ملتان کی آبادی پچیس لاکھ کے لگ بھگ ہے جس کے لیے وہی اکلوتا نشتر ہسپتال ہے۔ اِدھر لاہور میں اس دوران سروسز ہسپتال بنا‘ جنرل ہسپتال بنا‘ شیخ زید ہسپتال بنا اور جناح ہسپتال بنا۔ اس کے علاوہ خیراتی حوالوں سے چلنے والے کئی پرائیویٹ ہسپتال بنے، تئیس کے لگ بھگ پرائیویٹ میڈیکل کالجوں کے ٹیچنگ ہسپتال بنے مگر ملتان کے نصیب میں وہی اکلوتا ہسپتال رہا۔ ایک افسر کہنے لگا، وہاں اب میاں شہبازشریف جنرل ہسپتال بن رہا ہے۔ میں نے کہا، میں چالو ہسپتالوں کی بات کررہا ہوں زیر تعمیرکی بات نہیں کررہا۔ وہی صاحب کہنے لگے ، ملتان میں کارڈیالوجی ہسپتال بھی تو بنا ہے، آپ نے اس کا ذکر نہیں کیا۔ میں نے کہا ، شاید آپ نے میری بات غور سے نہیں سنی۔ تقابلی جائزے میں‘ میں نے بھی لاہور میں بننے والے پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی کا ذکر نہیں کیا۔
اب جب بات تقابل کی ہورہی ہے تو ایک اور جائزہ بھی ملاحظہ فرمائیں۔ لاہورکا جنرل ہسپتال اس دوران کئی گنا پھیل گیااوراس میں اورکئی منزلیں تعمیر ہوچکی ہیں جبکہ نشتر ہسپتال کا یہ حال ہے کہ نہ صرف یہ کہ پورے خطے کا سب سے بڑا اورقدیم ہسپتال تھا، آج اکسٹھ سال کے بعد بھی محض اتنی تبدیلی آئی ہے کہ ایک ہزار بستروں سے بڑھ کرگیارہ سو بستروں کا ہسپتال بن چکا ہے۔ یہ ایک سو بستروں کا اضافہ اکسٹھ سال کا کارنامہ ہے۔ اس دوران ملتان شہرکی آبادی کم ازکم بارہ سو فیصد بڑھ چکی ہے اور بستروں میں اضافہ دس فیصد ہوا ہے،گویا صحت کی سہولیات حقیقی معنوں میں کم ہوئی ہیں۔ دوسری زیادتی یہ ہوئی کہ ہسپتال کی استعدادگیارہ سو بستروں کی ہے مگر یہاں سترہ سو بسترے لگادیئے گئے ہیں،گنجائش سے چھ سو زائد بستر،مگرباقی سارے عوامل اور عناصر وہی گیارہ سو والے ہیں۔منظور شدہ میڈیکل اور پیرامیڈیکل سٹاف کی تعداد بھی گیارہ سو بستروں کے حساب سے ہے، فنڈزبھی گیارہ سو بستروں کے حساب سے ہیں۔صحت اور صفائی کی سہولیتیں بھی گیارہ سو مریضوں کے حساب سے ہیں، چھ سو سے زائد مریض اللہ توکل پڑے ہوئے ہیں، ان کے لیے نہ ڈاکٹر ہیں‘ نہ نرسیں ، فنڈ ہیں نہ دوائیاں ۔ آخری بات یہ کہ پچھلے تین سال سے Repair & Maintenence(مرمت وغیرہ) اوردوائیوں کی خریدکے علاوہ نئے آلات وغیرہ کی خرید کے لیے ایک پیسہ نہیں ملا،لہٰذا اس عرصے کے دوران جدید مشینری یا آلات نہیں آسکے ۔ یہ صرف نشتر ہسپتال کا حال ہے جو ایک مثال اوراستعارہ ہے، باقی سب کا حال بھی نشتر جیسا سمجھیں۔ 
ڈیرہ غازی خان ایک نہایت پسماندہ اور دور افتادہ علاقوں پر مشتمل ڈویژن ہے۔ غربت ، وسائل ، ذرائع آمدورفت اور سہولتوں کے اعتبار سے شدید نظر انداز شدہ علاقہ۔ پورے ڈویژن میں ایک بھی مناسب ہسپتال نہیں، لوگ ایمرجنسی کی صورت میں ملتان آتے ہیں اور آدھے مریض راستے سے ہی واپس لوٹ جاتے ہیں کہ وہ اس دوران علاج سے بے نیاز ہوجاتے ہیں۔ میاں چنوں میں ایکسیڈنٹ ہوجائے تو مریضوں کو ملتان لانا پڑتا ہے،ریلوے پھاٹک پر بچوں کی ویگن کا ٹرین سے ایکسیڈنٹ ہوجائے تو دوگھنٹے کی مسافت پر ملتان جاناپڑتا ہے۔ روجھان میں ہارٹ اٹیک ہوجائے تو مریض کو ملتان لانے میں چھ گھنٹے لگ جاتے ہیں۔جنوبی پنجاب تین ڈویژن اورگیارہ اضلاع پر مشتمل ہے مگر صحت کی سہولتوں کے حوالے سے بلوچستان کے ایک بڑے علاقے کے مریض بھی ملتان آتے ہیں۔ یہ سب کچھ دنوں میں نہ تو ٹھیک ہوسکتا ہے اور نہ تعمیر ہوسکتا ہے؛ تاہم آج آغازکیاجاسکتا ہے جو فوری طورپرکیا جانا چاہیے۔
ڈیرہ غازی خان میڈیکل کالج و ہسپتال کے بعد بہاولنگر میں میڈیکل کالج و ہسپتال بننا چاہیے ۔ ہرمیڈیکل کالج کے ساتھ ٹیچنگ ہسپتال کے علاوہ کڈنی سنٹر بننا چاہیے ۔ جنوبی پنجاب میں نشتر ہسپتال میں بننے والے کینسر وارڈ کے علاوہ ایک مکمل کینسر ہسپتال بننا چاہیے۔ نشتر میں بننے والے کینسر سنٹر میں PET CTسکین لگنا چاہیے۔ کراچی اور لاہور کے درمیان کسی ہسپتال میں یہ سہولت میسر نہیں اورکینسر کی تشخیص اور بعد از علاج دیکھ بھال اس جدید مشینری کے علاوہ ممکن نہیں۔ ملتان میں تین یاچارسو بیڈ والے کم از کم تین نئے ہسپتالوںکی فوری ضرورت ہے جو ایمرجنسی بنیادوں پر شروع کیے جائیں۔ کارڈیالوجی انسٹی ٹیوٹ کے فنڈز بے تحاشاکم کردیے گئے ہیں،انہیں بحال کیاجائے۔
ملتان میں کوئی معیاری سپورٹس کلب نہیں ہے، جم خانہ وغیرہ ابھی مستقبل کی باتیں ہیں۔ ایک دو چھوٹے چھوٹے کلب تھے جن میں سے ایک شیش محل کلب ہوتاتھا، چار سال ہوئے‘ اسے گرادیاگیا۔کہاگیا کہ وہاں کارڈیالوجی انسٹی ٹیوٹ کی توسیع کی جائے گی مگرتوسیع ہوئی نہ کلب باقی رہا۔کلب کی جگہ پراب دھول اڑاتاخالی گرائونڈ ہے جہاںگاڑیاں پارک ہوتی ہیں۔ایمرجنسی میں کارڈیالوجی انسٹی ٹیوٹ کی توسیع کا منصوبہ بنا، عمارت بن گئی مگر چالو نہیں ہوسکی، کہا گیا کہ مشینری کے پیسے نہیں ہیں، فنڈزمیں کٹوتی ہوگئی ہے۔ یہ صرف ہیلتھ کا حال ہے ، باقی معاملات بھی اسی طرح بلکہ اس سے بھی بڑھ کر دگرگوں ہیں۔اصل مسئلہ فنڈز کا ہے، فنڈزحصے سے کہیں کم ملتے ہیں اور اس میں سے بھی کٹوتیاں ہوتی ہیں اورکبھی واپس منگوا لیے جاتے ہیں۔آبادی کا حصہ اکتیس فیصد ہے اور رقبے کا حصہ اڑتالیس فیصد بنتا ہے۔ جب تک علیحدہ صوبہ نہیں بنتا‘ کم ازکم ہمیں فنڈزتو این ایف سی ایوارڈکی طرز پر دیے جائیں۔
شاہ جی پوچھنے لگے،کیا تمہیں یقین ہے کہ لاہور والے ہمیں واقعتاًکچھ دے دیں گے؟ میں نے کہا میں خوش گمان اور رجائی شخص ہوں، مجھے یقین ہے کہ اب معاملہ باتوں سے کچھ آگے کا ہے۔ شاہ جی نے پھر پوچھا،کیا لگتا ہے،کب تک کچھ عملی صورت سامنے آئے گی؟ میں نے کہا، مجھے گمان ہے کہ جلد ہی چیزیں بہتر ہونا شروع ہوجائیں گی۔ شاہ جی نے پھر پوچھا، اس کے آثارکب تک ہیں؟ میں نے کہا، اس کا سب سے بڑا چیک یہ ہے کہ فنڈزکا کیا بنتا ہے؟ اگر فنڈز رقبے کے حساب سے ملتے ہیں تو معاملہ ٹھیک اور نیت نیک سمجھو اوراگر آبادی کے حساب سے ملتے ہیں تو سمجھو محض گولی دی جارہی ہے ،اخلاص اور دھوکہ دہی کے درمیان فیصلہ فنڈزکریں گے۔ اب تک ہمارے ساتھ ساری ڈنڈی فنڈز اور اختیارات کی ماری گئی ہے۔ فنڈز کے بغیراختیارات کی کوئی حیثیت نہیں، یہاں کی عشروں پر محیط پسماندگی اختیارات سے نہیں‘ فنڈز سے دور ہوگی۔ یہ ایک امتحان ہے اوراس کے نتیجے سے یہ پتہ چل جائے گا کہ '' تخت لاہور‘‘ جنوبی پنجاب کے بارے میں کتنا مخلص ہے۔ میں ذاتی طور پر پرامید ہوں ورنہ ''دمادم‘‘ میں کتنی دیر لگتی ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں