"KMK" (space) message & send to 7575

ایک فضول شہر اور واہیات ٹرین

لندن میں اگر ندیم سعید ، احسان شاہد ،فیضان عارف، اسد مشتاق اور سعید ظفر جیسے دوست نہ ہوں تو لندن ٹکے کا شہر نہیں ہے ، بلکہ اگر سچ پوچھیں تو ان دوستوں کی موجودگی میں بھی وہ ٹکے کا شہر نہیں ہے۔ شروع شروع میں لندن دیکھنا اچھا لگتا تھا۔ دو چار بار میں لندن کی وہ تمام جگہیں دیکھ لیں جن کے بارے میں پڑھا ہوا تھا ، دوبارہ اس لیے دیکھیں کہ اپنے ہمراہ آنے والی دونوں بیٹیوں کو لندن دکھانا پڑا۔ نیچرل ہسٹری میوزیم، برٹش میوزیم، وکٹوریہ اینڈ البرٹ میوزیم، لندن ٹرانسپورٹ میوزیم، امپیریل وار میوزیم، نیشنل گیلری آف آرٹس ، نیشنل گیلری آف سٹون ہینج ، بگ بین ، بکنگھم پیلس، ٹاور کیسل، ٹاور برج ، سینٹ پال ،ہائیڈ پارک ، ماربل آرچ ، مادام تسائو، کنگسٹن پیلس اور ٹیمز میں بجرے کی سواری۔۔۔ اس کے علاوہ لندن وقت کا ضیاع ہے۔
دو تین بار لندن دیکھنے کی اپنی سی کوشش کے بعد ایک پرانے دوست سے جو کافی عرصے سے لندن میں رہائش پذیر تھا ، پوچھا کہ لندن کتنے دنوں میں دیکھا جاسکتا ہے۔ اس نے کہا کہ وہ گزشتہ بیس سال سے لندن میں ہے اور اس نے چوتھائی لندن بھی نہیں دیکھا۔ اس کی یہ بات سن کر بڑی مایوسی ہوئی کیونکہ وہ لندن میں ٹیکسی چلاتا تھا۔میں نے اس دن لندن کو دل سے اتار دیا۔
ہیتھرو سے اتر کر ایسٹ لندن جانا ہوتو دو اڑھائی گھنٹے لگ جاتے ہیں۔ اتنی دیر میں بندہ ملتان سے ساہیوال پہنچ جاتا ہے۔ اگر لندن میں زیر زمین ریلوے نظام نہ ہو تو ہمارے جیسے سفید پوش پہلے دیوالیہ ہوں پھر راستے میں ہی فوت ہوجائیں۔ ٹیوب کا نقشہ جیب میں ہو۔ اسے استعمال کرنے کا طریقہ آتا ہو۔ جہاں جہاں جانا ہے وہاں کے انڈر گرائونڈ سٹیشن کا نام آتا ہو تو زندگی آسان ہے وگرنہ زندگی عذاب ہے۔ لندن چلے بھی جائیں تو دوستوں سے ملاقات باقاعدہ مہم جوئی کے مترادف ہے۔ بعض اوقات انڈر گرائونڈ ٹرین یعنی ٹیوب پر بھی ڈیڑھ دو گھنٹے لگ جاتے ہیں۔ ٹیکسی یا گاڑی پر جانا تو ایک امر محال ہے۔ بھلا ایسے شہر سے کس طرح محبت کی جاسکتی ہے جس میں دوستوں سے ملنا اتنا مشکل ہوکہ دس بار سوچنا پڑے اور ایک دن میں دو دوستوں سے بھی ملنا ممکن نہ ہو۔ لندن ایسا ہی شہر ہے۔ لندن شہر کے گرد ایک موٹروے M-25ہے،یہ لندن آربیٹل کہلاتی ہے ۔ اس کی لمبائی ایک سو اٹھاسی کلومیٹر ہے۔ آپ اسے لندن کی رنگ روڈ کہہ سکتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ سڑک لندن کا بیرونی دائرہ نہیں ہے ۔لندن اس سڑک کے پار بھی آباد ہے۔
احسان شاہد مغربی لندن میں رہتا ہے جبکہ میں مشرقی لندن کے ایک ہوٹل میں تھا۔ مشاعروں کی بھاگ دوڑ میں اس سے مغربی لندن کے علاقے ہنسلو میں ہونے والے مشاعرے میں ملاقات ہوئی اور ڈھنگ سے گپ شپ بھی نہ ہوسکی۔ میں وہاں گلاسگو سے آیا تھا اوریہ مشاعرہ پڑھ کر اگلے روز مانچسٹر روانہ ہونا تھا لہٰذا لمبی چوڑی ملاقات ممکن نہ تھی۔ دو دن بعد پھر دوبارہ لندن آنا تھا اور مشرقی لندن کے علاقے بارکنگ میں مشاعرہ پڑھنا تھا۔ یہ پاکستان میں تعلیم کے فروغ کے لیے کوشاں غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ اور یو کے اسلامک مشن کے تعاون سے فنڈ ریزنگ کے سلسلے کا آخری مشاعرہ تھا اور اس کے بعد راوی چین لکھتا تھا۔ احسان شاہد سے طے پایا کہ اس مشاعرے کے بعد ایک دن صرف دوستوں کے لیے ہوگا۔ احسان شاہد کہنے لگا ،دوستوں سے مراد فی الحال صرف میں اکیلا ہوں۔ میں نے راہِ فرار نہ پاتے ہوئے اس کی بات سے فوراً اتفاق کرلیا۔
مشرقی لندن کے مشاعرے میں ندیم سعید اپنی اہلیہ اور دونوں بیٹوں کے ہمراہ آیا ہوا تھا اور اسد مشتاق بھی موجود تھا۔ ملتان سے آئے ہوئے ہمدم دیرینہ برادرم محسن شاہین سے بھی گزشتہ کئی دنوں سے فون پر رابطہ تھا مگر ملاقات وہیں مشاعرے میں ہوئی۔ انجینئر فرخ صدیقی آکسفورڈ سے آیا تھا جہاں وہ پی ایچ ڈی کررہا ہے۔ جامعہ زکریا میں شعبہ مکینیکل انجینئرنگ میں لیکچرار فرخ صدیقی یہاں سکالر شپ پر آیا ہے۔ ملتان کے نہایت معروف استاد پروفیسر حمید رضا صدیقی کا فرزند میرا عزیز ہے۔ میں نے فرخ کا اسد مشتاق اور ندیم سعید سے تعارف کرواتے ہوئے بتایا کہ فرخ صدیقی میرا رشتے دار ہے اور پھر رشتے کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ یہ میرے سالے کے سالے کا سالا ہے۔ یعنی یہ میرا سالا در سالا در سالا ہے۔ سب دوست ہنس پڑے۔ جواباً فرخ صدیقی نے کہا کہ خالد مسعود صاحب میرے بہنوئی کے بہنوئی کے بہنوئی ہیں۔ میں نے دوستوں کو بتایا کہ یہ رشتہ تو ایک خوشگوار اتفاق ہے وگرنہ ہمارا تعلق اس رشتے کے وقوع پذیر ہونے سے کہیں پہلے کا ہے۔
صبح احسان شاہد مجھے لینے آگیا۔ میاں چنوں سے تعلق رکھنے والا احسان شاہد میرا زمانہ طالب علمی کا دوست ہے۔ ہماری پہلی ملاقات گورنمنٹ کالج میاں چنوں کی کل پاکستان بین الکلیاتی تقریبات کے پنجابی مباحثے میں ہوئی تھی جہاں میں ایمر سن کالج کی طرف سے آیا تھا اور احسان شاہد میزبان کالج کی نمائندگی کررہا تھا۔ پھر ہماری ملاقات مختلف کالجوں میں ہونے والے مباحثوں میں ہوتی رہی۔ اب یہاں انگلینڈ میں ہوئی ہے۔ پرانے قصے ، پرانی باتیں اور مشترکہ دوستوں کی یادیں۔ ہم دونوں لندن میں بیٹھ کرگزرے ہوئے دنوں میں چلے جاتے ہیں۔ گورنمنٹ ڈگری کالج میاں چنوں جو تب انٹر کالج ہوتا تھا، وہاں رات کو پنجابی مباحثے میں شہر بھر سے عام لوگ آتے تھے۔ دودھ ، دہی والے ۔ پرچون فروش، کوچوان اور مستری۔ یہی حال مشاعرے کا ہوتا تھا۔ تعلیم سے کوسوں دور مگر صاحب ذوق سامعین ، میاں چنوں کی کل پاکستان بین الکلیاتی تقریبات سے زیادہ صاحب دل مجمع کہیں اور نظر نہ آیا۔ کالج کی تقریبات صرف کالج کے طلبہ تک محدود نہ تھیں۔ شہر بھر سے ہر مکتب فکر کے لوگ آتے تھے۔ وسیع و عریض گرائونڈ اور اس پر کیے گئے سامعین کے لیے انتظامات کم پڑ جاتے تھے۔ اب سب باتیں خواب و خیال لگتی ہیں۔ ہم نصابی سرگرمیوں کا باب بند ہوا۔ لیکن ہم یادوں کے دریچوں سے ہوتے ہوئے تیس پینتیس سال پیچھے چلے گئے۔
اگلے روز روانگی تھی۔ میری ٹرین کی مانچسٹر روانگی کا وقت گیارہ بجے تھا اور ساڑھے نو بجے ہوٹل سے بوسٹن سٹیشن روانگی طے پائی۔ صبح پونے نو بجے احسان شاہد کا فون آیا کہ ایمرجنسی میں تیار ہوجائو۔ انڈر گرائونڈ ریلوے کی ہڑتال ہوگئی ہے۔ سڑکوں پر رش بے تحاشا ہے اور سٹیشن پر جانے میں دو گھنٹے لگ سکتے ہیں۔ جب میں سٹیشن پر پہنچا تو ٹرین روانہ ہوئے تین منٹ ہوچکے تھے۔ میں گیارہ بج کر تین منٹ پر پہنچا تھا۔ اگر بلور صاحب یہاں وزیر ہوتے تو میں بڑی آسانی سے اس ٹرین پر سوار ہوسکتا تھا۔ باہر جاکر ٹرین والوں سے بات کی کہ ٹریفک جام کی وجہ سے میری ٹرین نکل گئی ہے۔ بڑی بی نے مسکرا کر بات سنی۔ ٹکٹ پر کچھ لکھ کر مہر لگائی اور مجھے ٹکٹ تھما کر کہنے لگی۔ پلیٹ فارم نمبر تین سے ایک ایکسپریس ٹرین بارہ تیرہ منٹ بعد روانہ ہونے والی ہے۔ اس پر چلے جائو۔ میں نے پوچھا کوئی '' جرمانہ ‘‘ ؟ ہنس کر کہنے لگی ۔ کوئی نہیں۔ ہمیں آپ کی مجبوری کا اندازہ ہے۔ آج ٹیوب کی ہڑتال ہے۔ آپ جلدی سے پلیٹ فارم پر جائیں کہیں یہ ٹرین بھی نہ نکل جائے۔
بارہ تیرہ پلیٹ فارم تھے۔ سب مصروف تھے۔ کہیں ٹرین آرہی تھی اور کہیں سے روانہ ہورہی تھی۔ اوپر روشن ہوتے اطلاعی چوکٹھے میں آنے والی اور جانے والی ٹرین کا وقت جگمگا رہا تھا۔ میری ٹرین وقت مقررہ سے تین سیکنڈ لیٹ روانہ ہوئی اور وقت مقررہ سے دو منٹ پہلے مانچسٹر پہنچ گئی۔ پاکستان واپس جانے والے مجھ جیسے مسافروں کو اس قسم کی واہیات ٹرینوں پر ہرگز نہیں بیٹھنا چاہیے۔ اس سے اچھی بھلی دیرینہ عادتوں کا ستیاناس ہوجاتا ہے اور بندہ خواہ مخواہ ایسی توقعات وابستہ کر بیٹھتا ہے جن کی تکمیل ناممکنات میں سے ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں