"KMK" (space) message & send to 7575

منصوبہ سازوں کو شاباش دینی چاہیے

سڑک پر کہیں کوئی کھدائی کے آثار نہیں تھے۔ کہیں ''پیچ ورک‘‘ نظر نہیں آ رہا تھا۔ کہیں کوئی ٹوٹ پھوٹ نہیں تھی۔ میں نے بابر سے پوچھا۔ میٹرولنک کی یہ پٹڑی کب مکمل ہوئی تھی۔ بابر کہنے لگا کہ مجھے بالکل درست تاریخ تو یاد نہیں مگر یہ بات حتمی ہے کہ یہ میٹرولنک اکتوبر 2013ء کے شروع میں مکمل ہوئی تھی۔ اس حساب سے اسے مکمل ہوئے تقریباً سات ماہ ہو گئے ہیں۔ میں نے پوچھا ان سات ماہ کے دوران کسی کو یہ یاد نہیں آیا کہ نیچے سیوریج ڈالنا ہے‘ ٹیلی فون کی لائنیں بچھانی ہیں یا واٹر سپلائی کے پائپ ڈالنے ہیں۔ بابر ہنسنے لگ گیا اور کہنے لگا تم مذاق کر رہے ہو یا طنز؟ میں نے کہا کہ مذاق کس بات کا اور طنز کا کیا تُک؟ ہمارے ہاں بھی ساری تعمیرات اور ترقیاتی کاموں کا سارا ڈھانچہ گورا بنا کر آیا ہے۔ ہمارے ہاں تو پہلے سڑک بنتی ہے۔ پھر واسا والے آ جاتے ہیں۔ پھر ٹیلی فون والوں کو یاد آتا ہے اور جب سڑک تین بار بن کر تیار ہو جاتی ہے اس سڑک کے دونوں کناروں پر رہنے والے مکینوں کو یاد آتا ہے کہ انہوں نے اپنے گھر کے نکاسیٔ آب اور سیوریج لائن کو سرکاری سیوریج اور واٹر سپلائی لائن سے نہیں جوڑا لہٰذا وہ اپنے گھر کے سامنے سے دوبارہ سڑک کھدواتے ہیں اور اپنا نامکمل کام مکمل کرواتے ہیں۔ یہاں مجھے تو ایسی کوئی سہولت نظر نہیں آتی کہ انسان اپنی مرضی سے سڑک کھود سکے۔ اپنی صوابدید پر گٹر اکھاڑ سکے اور اپنی سہولت کے مطابق واٹر کنکشن کے لیے اچھی بھلی بنی بنائی سڑک توڑ سکے۔ اس کے باوجود آپ لوگ ہمیں شخصی آزادی اور انسانی حقوق کی پامالی کا طعنہ دیتے ہیں اور خود انسانی حقوق کے چیمپئن بنتے ہیں۔ بابر ہنسنے لگ گیا۔ 
ملتان واپس آیا تو اگلے روز بیٹی کو اسلام آباد جانا تھا۔ اسے چھوڑنے ڈائیوو کے اڈے پر جانے لگا تو ملتان کی سب سے مصروف سڑک خانیوال روڈ بند تھی۔ یہ ملتان شہر میں آنے اور جانے کا سب سے اہم راستہ ہے۔ کمہاراں والا چوک کے قریب سڑک بند تھی۔ پتہ چلا کہ سیوریج ڈالا جا رہا ہے۔ بدنام زمانہ ''وزیراعظم ترقیاتی پیکیج‘‘ یعنی سید یوسف رضا گیلانی کے دور میں ملتان کی تعمیر و ترقی کے لیے جو منصوبے بنے تھے ان میں کمہاراں والا چوک پر ڈبل فلائی اوور بنا تھا۔ اس دوران یہ سڑک عملی طور پر تقریباً ایک سال بند رہی اور اس پر فلائی اوورز کا کام ہوتا رہا۔ دونوں فلائی اوورز دو اڑھائی سال میں کہیں مشکل سے جا کر جونہی مکمل ہوئے تو سیوریج کے لیے سڑک بند کردی گئی۔ خدا جانے پوری سڑک پر کب یہ کام مکمل ہوگا اور کب دوبارہ ٹریفک کے قابل ہوگی۔ سڑک بند تھی‘ پچھلی طرف سے گھوم کر معصوم شاہ روڈ سے ہو کر آنے کی کوشش کی تو چوک پر بیریئر لگے ہوئے تھے اور اس طرف سے بھی سڑک بند تھی۔ بمشکل اسے ایک ایسے بس سٹینڈ پر اتارا جس کا راستہ دونوں سڑکوں پر تھا۔ بیٹی نے یہاں سے پیدل راستہ پار کیا اور بمشکل بس پر سوار ہونے میں کامیاب ہوئی۔ اس طرف نہ گاڑی پارک کرنے کی جگہ تھی اور نہ ہی وہ بس سٹینڈ والا کسی گاڑی کو درمیان سے گزرنے دے رہا تھا۔ جب تک بیٹی کا فون پر پیغام نہیں آیا کہ وہ بس پر چڑھنے میں کامیاب ہو گئی میں پریشانی کے عالم میں گاڑی میں بیٹھا رہا۔ 
یہ کام تب بھی ہو سکتا تھا جب فلائی اوور بن رہے تھے اور سڑک بند تھی۔ اس سڑک پر دو فلائی اوورز بنے ہیں۔ کمہاراں والا چوک پر ا ور رشید آباد چوک پر۔ سڑک سال سے زیادہ عرصہ بند رہی۔ اس دوران سیوریج لائن ڈالی جا سکتی تھی مگر پاکستان بنے سڑسٹھ سال ہو گئے ہیں اور ہمارے انجینئرئوں کو‘ منصوبہ سازوں کو اور ذمہ داروں کو ابھی تک یہ پتہ نہیں چل سکا کہ سڑک پہلے بنانا ہے یا سیوریج‘ واٹر سپلائی اور ٹیلی فون کی تاروں کو پہلے بچھانا ہے۔ 
پاکستان سے باہر جاتا ہوں تو ہر بار خوامخواہ کی امید لگا لیتا ہوں کہ جب واپس پاکستان جائوں گا تو زیادہ نہ سہی تھوڑی سی بہتری آ چکی ہوگی۔ معاملات میں انیس بیس سے مثبت پیش رفت ہو چکی ہوگی۔ کوئی ٹوٹی ہوئی سڑک مکمل ہو چکی ہوگی۔ کسی جگہ عرصے سے ہوئی کھدائی بند ہو چکی ہوگی۔ کہیں پڑا ہوا کچرا اٹھایا جا چکا ہوگا‘ مگر آفرین ہے مجھ پر اور حکمرانوں پر۔ نہ میں امید لگانے سے باز آتا ہوں اور نہ وہ میری امیدوں کا کباڑا کرنے سے باز آتے ہیں۔ بوسن روڈ ایک مثالی ٹیسٹ کیس ہے۔ ساری سڑک بن چکی ہے۔ سید یوسف رضا گیلانی کے دور میں تو مٹی روڑے کا کام ہی ہوتا رہا۔ بعدازاں ساری سڑک مکمل کردی گئی‘ لیکن درمیان میں چھ نمبر چونگی پر کام رک گیا کہ طے نہیں ہو رہا تھا کہ سنگل لائن بے فائدہ اور فضول 
سا فلائی اوور بنایا جائے یا نہ بنایا جائے۔ تاجر اس فلائی اوور کے تو خلاف تھے ہی مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ مجوزہ فلائی اوور انجینئرنگ کے دنیا بھر میں نالائق ترین منصوبوں میں سے ایک تھا جس سے فائدہ کم اور نقصان زیادہ تھا۔ نقصان سے مراد مالی اور ٹریفک کے معاملات دونوں سے تھا۔ میں نے ڈی سی او آفس میں این ایچ اے کے ذمہ داروں سے اس فلائی اوور پر تکنیکی بحث کی اور وہ سب مان گئے کہ یہ ایک بے فائدہ فلائی اوور کا منصوبہ ہے جس سے پیسے بھی ضائع ہوں گے اور ٹریفک کی خرابی بھی مزید بڑھے گی۔ ایک ڈبل لائن سیدھے فلائی اوور کا منصوبہ بنا اور منظوری کے لیے بھجوا دیا گیا۔ کئی ماہ ہو گئے ہیں۔ نہ منصوبہ منظور ہو رہا ہے‘ نہ سڑک بن رہی ہے۔ پہلے سے زیادہ براحال ہے۔ روزانہ گھنٹوں ٹریفک جام رہتی ہے۔ صبح اور دوپہر کو سکولوں‘ کالجوں اور یونیورسٹی میں چھٹی کے اوقات میں وہ برا حال ہوتا ہے کہ رہے نام اللہ کا۔ کسی حکمران کو کچھ فکر نہیں۔ لاہور میں کسی ایسی مصروف ترین سڑک پر ایک ہفتہ یہ حال ہوتا تو خادم اعلیٰ تڑپ اٹھتے۔ مگر یہ ملتان ہے۔ شہر ناپرساں۔ 
خانیوال روڈ شہر میں داخلے کی اہم ترین سڑک ہے اور بوسن روڈ تعلیمی اداروں کے حوالے سے ملتان کی مصروف ترین سڑک۔ کہا جا سکتا ہے کہ علیحدہ علیحدہ منصوبہ بندی کے باعث خرابی کا شکار ہیں مگر اسے کیا کہا جائے کہ ساڑھے چار ارب روپے سے بننے والا ملتان انٹرنیشنل ایئرپورٹ روئے ارض کی بدترین منصوبہ بندی کا شاہکار ہے۔ سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے بیس جون 2010ء کو اس منصوبے کا افتتاح کیا۔ ساڑھے چار ارب روپے کا یہ منصوبہ چھتیس ماہ میں مکمل ہونا تھا۔ یعنی تین سال میں آپریشنل ہو جانا چاہیے تھا۔ آج اس ایئرپورٹ کا کام شروع ہوئے تقریباً چار سال ہو چکے ہیں یعنی ایک سال زائد ہو چکا ہے۔ تعمیر کا بیشتر کام مکمل ہو چکا ہے۔ یہ پاکستان کا تیسرا بڑا ایئر پورٹ ہے۔ کراچی اور لاہور کے بعد پاکستان کا سب سے بڑا ایئرپورٹ۔ لیکن یہ سب چیزیں ا پنی جگہ اور آگے کا قصہ اپنی جگہ۔ ایئرپورٹ کا تعمیراتی کام تقریباً مکمل ہو چکا ہے لیکن!... 
ایئرپورٹ تک پہنچنے کے لیے سڑک عملی طور پر موجود نہیں۔ پرانے ایئرپورٹ والی سڑک کینٹ سے گزرتی ہے اور سکیورٹی کے معاملات کے باعث جمیل آباد کی طرف سے سڑک کو شہر سے ملانے کا منصوبہ تھا لیکن ایئرپورٹ بن جانے کے باوجود اس سڑک کی زمین بھی ابھی تک حاصل نہیں کی گئی۔ یہ زمین ایک زورآور ادارے سے لینی ہے اور ابھی تک معاملہ طے نہیں ہو سکا۔ ایئرپورٹ کا اندرونی سیوریج سسٹم مکمل ہو چکا ہے مگر ابھی تک اس کو مین ڈسپوزل سے نہیں جوڑا جا سکا۔ مسئلہ وہی ہے مین ڈسپوزل سے جوڑنے کے لیے راستہ چاہیے جو ابھی تک نہیں مل سکا۔ اور آخری چھکا یہ کہ ابھی تک بجلی کا کنکشن بھی نہیں لیا جا سکا۔ کنکشن تو بعد کی بات ہے ابھی تک اس کا گرڈ سٹیشن نہیں بن سکا۔ ہاں یاد آیا۔ گرڈ سٹیشن کی تعمیر تو ابھی دور کی بات ہے گرڈ سٹیشن کی زمین تک نہیں خریدی جا سکی۔ 
الحمدللہ! ملتان میں وسیع و عریض جدید ترین ایئرپورٹ مکمل ہو چکا ہے لیکن اس تک پہنچنے کے لیے نہ تو کوئی سڑک ہے‘ نہ سیوریج لائن اور نہ ہی اس کے پاس بجلی کا کنکشن ہے۔ شاباش ہے ایسی اعلیٰ منصوبہ بندی پر!! 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں