"KMK" (space) message & send to 7575

حکم امتناعی عرف سٹے آرڈر

گفتگو شروع ہوئی تو موضوع پنجاب میں زمین کی کمپیوٹرائزیشن تھی۔ ایک دو دوستوں کو اس سارے طریقہ کار کا پتہ ہی نہیں تھا۔ ہم شہروں میں رہنے والی زندگی میں بمشکل ایک رجسٹری کرواتے ہیں اور وہ رہائشی مکان کی ہوتی ہے ۔ عموماً یہ مرلوں پر مشتمل ایک پلاٹ ہوتا ہے اور پٹوار کلچر سے مکمل ناواقف لوگ ڈھونڈ ڈھونڈ کر پٹوار خانے جاتے ہیں اور ایک عدد فرد ملکیت بعوض دوچار سو روپے پٹواری سے لیتے ہیں۔ عرضی نویس کے پاس جاتے ہیں۔ رجسٹری کے کاغذات مکمل کرواتے ہیں۔ سب رجسٹرار کے دفتر حاضری دیتے ہیں۔ اہلکار اپنا معاوضہ بزور بازو اور سب رجسٹرار عموماً بذریعہ اسی وثیقہ نویس وصول کرلیتا ہے جو تکمیل رجسٹری کے لیے آپ کے ہمراہ ہوتا ہے اور آپ زمین کے مالک بن جاتے ہیں۔ پھر عموماً شہر کے رہائشی ہم جیسے سفید پوش دوبارہ کبھی پٹوار خانہ، پٹواری ، وثیقہ نویس اور سب رجسٹرار بمعہ نمبردار کی شکل نہیں دیکھتے۔
ہائوسنگ سکیموں وغیرہ نے یہ سارا مرحلہ مزید آسان کردیا ہے اور اب پٹوارخانے ، پٹواری اور اس قبیل کی دوسری مصیبتوں کا سامنا کرنا نہایت آسان ہوگیا ہے لیکن ہر چوتھے دن ساتھ والا رقبہ خریدنے کے شوقین حضرات ، بکھری ہوئی زمین کی اشتمال کروانے والے اور دیہات میں زرعی اراضی کی خریدو فروخت کرنے والوں کی ساری عمر اسی چکر میں گزر جاتی ہے اور انہیں اس نظام سے صحیح پالا پڑتا ہے۔ زمین کی خرید و فروخت میں صدیوں سے رائج ٹو ڈرمل کے نظام کو بالآخر لپیٹنے کے دن قریب آگئے ہیں اور پنجاب کی اراضی کا نظام بتدریج پٹواری کے بستے سے نکل کر کمپیوٹر میں آرہا ہے ۔امید ہے جلد ہی یہ کمپیوٹرائزیشن مکمل ہوجائے گی اور عام آدمی جلد ہی پٹواری کے پنجہ استبداد سے رہائی پانے میں کامیاب ہوجائے گا۔
میں بذات خود اس نظام کے طریقہ کار کو دیکھ چکا تھا،لہٰذا تفصیل
سے مرحلہ وار اس دفتر کے کام کے بارے میں دوستوں کو سمجھانے کی کوشش کررہا تھا۔ اچانک اطہر خان پوچھنے لگا کہ اس میں مشترکہ کھیوٹ والی زمین کی قباحت کا کوئی حل ہے؟ مجھے شاید کچھ عرصہ پہلے مشترکہ کھیوٹ والے معاملے کے بارے میں پوچھا جاتا تو میں ہونقوں کی طرح اطہر خان کی جانب دیکھنا شروع کردیتا مگر مجھے خود زندگی میں پہلی بار زندگی کی پچاس بہاریں گزارنے کے بعد اس ''مشترکہ کھیوٹ‘‘ نامی مسئلے سے پالا پڑا تھا، تاہم اب مجھے پورا پتہ چل چکا ہے کہ مشترکہ کھیوٹ کیا ہوتا ہے۔ کمپیوٹرائزیشن میں موضع ، کھیوٹ اور کھتونی وغیرہ والا نظام تو برقرار ہے ،فقط فرد ملکیت کا حصول ، معاہدہ بیع اور انتقال وغیرہ سہل ،سستا اور تیز رفتار کردیاگیا ہے لیکن اطہر خاکوانی کے سوال کا میرے پاس کوئی جواب نہ تھا۔ کھیوٹ دراصل زمین کے حساب میں آپ کی زمین کی جگہ کے تعین کا پیمانہ ہے۔ ایک موضع ہزاروں ایکڑ سے لے کر چند ایکڑ تک ہوسکتا ہے۔ ہر موضع میں کھیوٹ ہوتے میں جو پھر مربعوں سے لے کر کنالوں تک پر مشتمل ہوتے ہیں۔ اب مثال کے طور پر آپ نے ایک کھیوٹ میں زمین خریدی ہے۔ وہ کھیوٹ ایک سو دس کنال پر مشتمل ہے۔ آپ نے اس ایک سو دس کنال میں سے دو کنال زمین خریدی ہے۔ بقیہ ایک سو آٹھ کنال کے مالکان آپ کے کھیوٹ دار ہیں۔ مالک زمین نے آپ کو زمین دکھائی، بیچی، رقم وصول کی ، رجسٹری کی اور معاملہ ختم ہوگیا۔ کچھ عرصہ بعد آپ اپنی زمین پر گئے تو پتہ چلا کہ وہاں کسی نے گھر تعمیر کروانا شروع کردیا ہے۔ آپ نے پتہ کیا تو پتہ یہ چلا کہ اس نے بھی کچھ کنال زمین اسی کھیوٹ میں خریدی ہے یا پہلے سے ہی اس
کے پاس موجود تھی۔ اب اس مشترکہ کھیوٹ میں جو یعنی ایک سو دس کنال زمین میں جو جہاں قبضہ کرلے وہ زمین اسی کی ہے۔ آپ نے اس سے بات کی تو اس نے آپ کو سٹے آرڈر دکھا دیا۔ اب آپ کچھ نہیں کرسکتے۔ اسی دوران مکان مکمل ہوگیا۔ مالک مکان رہائش پذیر ہوگیا۔ سٹے آرڈر چل رہا ہے۔ مشترکہ کھیوٹ میں جو زور آور جہاں بیٹھ جائے قانوناً وہ زمین اس کی ہے۔ اب قبضہ چھڑوانے کے دو طریقے ہیں۔ پہلا آسان اور فوری ہے، مگر غیرقانونی ہے۔ آپ دو چار ڈنڈا بردار لیں ،تھانے کو ساتھ ملائیں ،مستری مزدور بلوائیں، زمین پر ہلہ بولیں ،قبضہ کریں اورتعمیرات کروائیں۔ واپڈا سے اپنے نام پر میٹر لگوائیں،اللہ اللہ خیرسلا۔ دوسرا طریقہ قانونی ہے۔ یہ طریقہ کار لمبا، مشکل اور تقریباً بے فائدہ ہے۔ عدالت جائیں ، دعویٰ استقرار حق کریں اور سول کورٹ ، سیشن کورٹ، ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ تک کیس لڑیں اور وقت نزع اپنے بچوں کو وصیت کریں کہ وہ یہ کیس خاندانی ناک کی خاطر لڑتے رہیں یا یہ کہ انہیں وصیت کریں کہ کبھی اس سلسلے میں آپ کی طرح عدالت جانے کی غلطی نہ کریں اور چار گھنٹوں میں ڈنڈے سوٹے سے قبضہ لے لیں۔ یہ طریقہ آسان، فوری اور کارگر تو ہے ہی ، سستا بھی ہے کہ کرائے کے بد معاش وکیلوں سے بہرحال سستے پڑتے ہیں۔ قبضے کے فوراً بعد آپ حکم امتناعی یعنی سٹے آرڈر لے لیں۔ والد صاحب نے پانچ مرلے زمین خریدی، چھوٹی سی چار دیواری کروائی اور بے فکر ہوگئے۔ ایک دن پتہ چلا کہ وہاں مکان بن رہا ہے۔ ایک صاحب نے پانچ کنال زمین خریدی، کھیوٹ مشترکہ تھا۔ یعنی جس کا جہاں دائو لگے قبضہ کرنے کی قانونی سہولت سے بہرہ مند ہوسکتا تھا۔ والد صاحب کے پانچ مرلے اس پانچ کنال میں کہیں گم ہوگئے۔ وکیل کے پاس گئے۔ اس نے مشورہ دیا کہ رات کو دھاوا بول کر قبضہ کرلیں۔ چار دیواری گرادیں، اپنے پانچ مرلے کے بجائے دس مرلے پر قبضہ کرلیں اور سٹے آرڈر لے لیں۔ اللہ اللہ خیر سلا۔ پانچ کنال والے صاحب آپ کی منت بھی کریں گے اور شاید خرچہ بھی ادا کردیں۔ والد صاحب بات نہ مانے ۔اب گزشتہ ایک سال سے اپنے پانچ مرلے تلاش کررہے ہیں۔ اسی دوران قابض نے سٹے آرڈر لے لیاہے اور مزے سے تعمیرات مکمل کروا چکا ہے۔ والد صاحب کو ابھی تک یہ سمجھ نہیں آسکی کہ ان کی پانچ مرلے زمین کہاں گئی ہے ،تاہم اس ساری واردات کا یہ فائدہ ہوا ہے کہ مجھے مشترکہ کھیوٹ کی پوری سمجھ آگئی ہے۔
اطہر خاکوانی بتانے لگا کہ مترو میں ایک بیوہ خاتون کی زرعی زمین تھی۔ اس سے کسی نے پٹے پر یعنی لیز پر یہ زمین لے لی۔ کچھ عرصے بعد علاقے میں فی ایکڑ لیز کی رقم بڑھ گئی مگر پٹے دار نے رقم نہ بڑھائی۔ اسی طرح کئی سال گزر گئے۔ کچھ عرصہ قبل اس بیوہ نے پٹے دار کو کہا کہ وہ اس کی زمین چھوڑ دے ، تاکہ وہ کسی اور کو لیز پر دے کر مارکیٹ میں رائج الوقت لیز کے مطابق رقم وصول کرے۔ پٹے دار نے عدالت میں تکمیل معاہدہ کا کیس دائر کردیا اور کہا کہ خاتون نے زمین اس کو فروخت کردی تھی۔ اس نے گزشتہ کئی سال کے دوران مستاجری کی جو رقم بینک میں جمع کروائی تھی ،کا ثبوت عدالت میں پیش کردیا اور کہا کہیہ وہ رقم ہے جو وہ اس خاتون کو زمین کی خرید کے سلسلے میں ادا کرچکا ہے ۔ اب خاتون زمین اس کے نام منتقل نہیں کررہی،لہٰذا دعویٰ تکمیل معاہدہ پر عمل کروایا جائے اور رجسٹری اس کے نام کروائی جائے۔ چیک یہ نہیں بتاتا کہ یہ رقم مستاجری کی تھی یا خرید زمین کی۔ مزید برآں اس نے عدالت سے اپنی ممکنہ بے دخلی کے خلاف حکم امتناعی یعنی سٹے آرڈر لے لیا ہے۔ اگلے کئی سال بیوہ خاتون عدالتوں میں ذلیل ہوگی۔ وکیلوں کو ، منشیوں کو ، پیش کاروں کو ، ریڈروں کو ، اہلمدوں کو اور... کو ہر پیشی پر خوش کرنے کے لیے نوٹ خرچ کرے گی۔ قابض اسی کی زمین کی آمدنی سے اس سے زیادہ کھلے دل کے ساتھ خرچہ کرے گا۔ کیس سول کورٹ سے سیشن کورٹ ،وہاں سے ہائیکورٹ اور پھر سپریم کورٹ جائے گا۔ اس دوران وہ خاتون لیز کی رقم سے بھی محروم رہے گی اور ممکن ہے وہ قابض کو اونے پونے زمین فروخت کرکے سکھ کا سانس لے۔ فی الحال تو سٹے آرڈر چل رہا ہے۔
ملتان جناح چوک پر ماڈل بازار بننا تھا۔ سٹے آرڈر ہوچکاہے۔ ولایت حسین اسلامیہ کالج کی زمین بمشکل نسیم صادق ڈی سی او نے خالی کروائی تھی۔ اس پر دو وکیلوں نے سٹے آرڈر لے لیا ہے۔ مظفر آباد ملتان میں کالج بن رہا تھا ،اس پر ریلوے نے سٹے آرڈر لے لیا ہے۔ غرض جس رکے ہوئے کام کے بارے میں پتہ کرتا ہوں ، پتہ چلتا ہے کہ سٹے آرڈر ہوگیا ہے۔ وجوہ کا مجھے بھی پتہ ہے مگر لکھ نہیں سکتا۔ وجہ صرف یہ ہے کہ مجھے ڈر ہے کہ پھر سے کالم لکھنے پر سٹے آرڈر نہ آجائے ۔ میرا تو اور کوئی ذریعہ آمدنی بھی نہیں ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں