"KMK" (space) message & send to 7575

کینیڈین شہریت اور ٹوپی ڈرامہ

''میں کینیڈا سے اپنا سارا سامان لے آیا ہوں‘ طاہرالقادری‘‘۔ چودھری بھکن نے ٹی وی پر چلنے والے ''ٹِکر‘‘ کو باآواز بلند پڑھا۔ چودھری بھکن کی یہ بہت بری عادت ہے کہ وہ نہ موقع دیکھتا ہے نہ محل‘ اور اپنی فضول عادات کے حساب سے محفل میں کوئی نہ کوئی خرابی کی صورت پیدا کیے رکھتا ہے۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ہم سب دوست بیٹھے کسی موضوع پر بات کر رہے ہوتے ہیں۔ ٹی وی حسب معمول چلتا رہتا ہے‘ آواز بند کردی جاتی ہے کہ گفتگو کا تسلسل خراب نہ ہو مگر چودھری بھکن یہ سارا نظام تلپٹ کر دیتا ہے۔ نیوز چینل کی آواز بند کردی جاتی ہے مگر چودھری بھکن تھوڑے تھوڑے وقفے کے ساتھ سکرین کے نچلے حصے پر چلنے والے ''نیوز ٹکر‘‘ با آواز بلند پڑھنا شروع کردے گا۔ چلیں اس حد تک معاملہ قابل برداشت ہے مگر پھر نہ صرف یہ کہ وہ ان خاموشی سے چلنے والی خبروں کو اونچی آواز میں دہرائے گا بلکہ ان پر اپنا تبصرہ بھی فرمائے گا اور آپ سے زبردستی رائے بھی طلب کرے گا۔ کل بھی یہی معاملہ درپیش تھا۔ 
چودھری بھکن نے ایک بار پھر یہی خبر باآواز بلند پڑھی کہ ''میں کینیڈا سے اپنا سارا سامان لے آیا ہوں‘‘۔ دوبارہ یہ خبر پڑھ کر وہ کھی کھی کر کے ہنسنے لگ گیا۔ ہمیں اندازہ ہو چکا تھا کہ وہ اب بات بڑھانا چاہتا ہے۔ تبصرہ کرنے کے موڈ میں ہے اور ہمیں اس میں خوا مخواہ ملوث کرنے کا عزم کر چکا ہے۔ کسی نے اس کو لفٹ نہ کروائی۔ شاہ جی نے کوئی جواب دینا چاہا مگر مولوی نے آنکھ کے اشارے سے اسے روک دیا۔ مگر چودھری پر اس وقت پورا موڈ طاری تھا۔ اس نے میرے کندھے کو زور سے جھنجھوڑا اور کہنے لگا۔ ابے او اخبار نویس۔ سن رہے ہو‘ حضرت مولانا ڈاکٹر طاہر القادری کا دعویٰ۔ وہ اپنا سامان کینیڈا سے اپنے ساتھ لے آئے ہیں۔ پھر مجھے دوبارہ جھنجھوڑ کر پوچھنے لگا۔ کیا ان کے اس سامان میں ان کی کینیڈین شہریت بھی ہے یا وہ اسے کینیڈا ہی چھوڑ آئے ہیں؟ میں نے پوچھا تمہارا کیا مطلب ہے؟ کہنے لگا مطلب نہایت صاف اور واضح ہے۔ میں تم سے یہ پوچھ رہا ہوں کہ وہ پاکستان آتے ہوئے اپنی کینیڈین شہریت بھی ساتھ لائے ہیں یا آتے ہوئے وہیں چھوڑ آئے ہیں۔ پھر خود ہی کہنے لگا۔ مولانا بڑے سمجھدار ہیں۔ اپنا سامان پاکستان لاتے ہوئے اپنی کینیڈین شہریت بھی سنبھال کر اپنے ساتھ لائے ہوں گے۔ بھلا وہیں چھوڑ کر آنے کا کیا تُک تھا۔ 
میں نے چودھری کو کہا کہ وہ زیادہ فضول گفتگو نہ کیا کرے۔ شاہ جی نے پوچھا کہ یہ ''زیادہ فضول گفتگو‘‘ سے تمہاری کیا مراد ہے؟ میں نے کہا‘ چودھری دو قسم کی گفتگو کرتا ہے ایک فضول اور دوسری زیادہ فضول۔ تیسری قسم کی گفتگو نہ اس نے کبھی کی ہے اور نہ ہی اسے آتی ہے۔ اس لیے ہم اس سے دوسری قسم کی گفتگو سے پرہیز کی درخواست ہی کر سکتے ہیں سو ہم وہ کر رہے ہیں۔ میں نے چودھری کو کہا کہ اسے خواجہ عبداللہ کی شہرہ آفاق کوٹیشن سے استفادہ کرنا چاہیے۔ ڈاکٹر پھجا پوچھنے لگا کہ یہ خواجہ عبداللہ والی کون سی کوٹیشن ہے؟ میں نے کہا کہ خواجہ عبداللہ کی یہ کوٹیشن میں برسوں پہلے بھی ایک کالم میں لکھ چکا ہوں مگر آج برسوں بعد بھی خواجہ عبداللہ کی کوٹیشن پوری آب و تاب کے ساتھ پوری سچائی سمیت موجود ہے۔ خواجہ عبداللہ ہمارا دوست ہے اور ملتان کے بڑے پرانے کاروباری اور معزز خاندان خواجگان سے تعلق رکھتا ہے۔ لیدر اور ٹیکسٹائل کی صنعت سے منسلک ہے۔ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری ملتان کا صدر بھی رہا ہے اور نہایت ٹھنڈے مزاج کا منکسرالمزاج شخص ہے۔ دھیما‘ ملنسار اور خوش اخلاق۔ انکسار کا یہ عالم ہے کہ باقاعدہ جاپانیوں کی طرح جھک کر ملتا ہے۔ آپ کو ملنے پر آگے بڑھ کر دو ہاتھوں سے مصافحہ کرے گا۔ مصافحے کے بعد اپنے دونوں ہاتھ سینے پر لگائے گا۔ سر کو تھوڑا سا خم کر کے آپ کا حال چال پوچھے گا۔ پچھلے کچھ عرصے میں نہ ملنے کا گلہ کرے گا۔ محبت بھری گفتگو کرے گا۔ حالات کی خرابی پر شاکی ہوگا اور پھر اللہ تعالیٰ کی رحمت کا دعاگو ہوگا۔ لڑائی‘ جھگڑا‘ غیبت‘ چغلی اور فساد وغیرہ سے دور بھاگتا ہے حتیٰ کہ صلح جوئی اور امن پسندی کا یہ عالم ہے کہ آپ سے اختلاف رائے کرتے ہوئے بھی کئی بار سوچے گا اور پھر اختلاف رائے کا ارادہ ترک کردے گا۔ ایک دن ہمارے دوست طارق قریشی کو ملا اور کہنے لگا۔ قریشی صاحب! آپ لوگوں سے نہ جھگڑا کریں (یہ ساری گفتگو سرائیکی میں تھی اور اس گفتگو کا اصل مزہ سرائیکی میں ہی تھا‘ ترجمہ اس کا نعم البدل تو نہیں ہو سکتا مگر مجبوری ہے) میں مانتا ہوں کہ آپ درست ہیں مگر یہاں سچائی کی کوئی قدرو قیمت نہیں۔ آپ کسی سے بھی نہ لڑا کریں۔ یہ پاکستان ہے۔ یہاں ہر چیز ممکن ہے۔ یہاں کوئی بندہ‘ کسی وقت‘ کچھ بھی بن سکتا ہے۔ کیا پتہ آج آپ جس سے لڑ رہے ہیں کل کیا بن جائے؟ پھر میں نے چودھری کو کہا۔ چودھری! محتاط ہو جا۔ کوئی پتہ نہیں یہ تیرے شیخ الاسلام کل کلاں کیا بن جائیں۔ یہ پاکستان ہے اور یہاں کچھ بھی ممکن ہے۔ 
چودھری پر جب جلالی موڈ ہو وہ کچھ بھی کر سکتا ہے۔ اس وقت چودھری پر جلالی موڈ طاری تھا۔ کہنے لگا‘ آپ پچاس ہزار لوگوں کے ساتھ پورا ملک یرغمال نہیں بنا سکتے۔ آپ کینیڈین شہریت کے ساتھ پاکستان میں انقلاب نہیں لا سکتے۔ قوم کو جس وقت آپریشن ضرب عضب کے موقع پر یکجہتی درکار تھی آپ انتشار نہیں پھیلا سکتے۔ جب ملک خود حالت جنگ میں ہے‘ آپ ایک اور جنگ کا آغاز نہیں کر سکتے۔ آپ شہادت کے لیے تیار ہیں تو پھر گورنر کی گاڑی میں سوار ہو کر شہادت کا سفر شروع نہیں کرتے۔ اگر آپ کی جنگ نظام کے خلاف ہے تو پھر بھائیوں کی جوڑی کا نام لے کر للکارے نہیں مارتے اور فوج کی آمد کے بغیر جہاز سے نہ نکلنے کے مطالبے کے بعد آپ چودھری سرور کے ساتھ جو فوج میں کبھی لانس نائک بھی نہیں رہے‘ کے ساتھ روانہ نہ ہو جاتے۔ آپ لوگ خدا جانے کس مٹی کے بنے ہوئے ہیں۔ پچھلی بار بھی آپ کے ساتھ ہاتھ ہوا۔ تین دن مولانا خود تو بم پروف کنٹینر میں جو سنٹرلی ٹمپریچر کنٹرولڈ تھا‘ بیٹھے رہے۔ عوام باہر سخت سردی اور بارش میں پڑے رہے۔ دعویٰ تھا کہ انقلاب کی تکمیل تک اور حکومت کے خاتمے تک دھرنا جاری رہے گا‘ پھر اچانک حکومتی وفد سے مذاکرات ہوئے۔ اسی حکومتی وفد سے جو ''یزیدی‘‘ طاقتوں کا نمائندہ تھا۔ پھر ''فاتح انقلاب‘‘ واپس کینیڈا روانہ ہو گئے۔ سال ڈیڑھ مزے سے گزارا اور اب پھر انقلاب وہیں سے شروع کرنے آ گئے ہیں جہاں سے چھوڑ کر بھاگے تھے۔ 
پہلے پیپلز پارٹی یزیدی لشکر تھا‘ اب میاں صاحبان یزیدی لشکر ہیں۔ مجھے اس سے کچھ غرض نہیں کہ کون یزیدی ہے اور کون حسینی۔ بلکہ میں تو آج کسی کو حسینیت کا لفظ استعمال کرنے کا اہل ہی نہیں سمجھتا۔ کہاں حسینیت اور کہاں ہم دنیادار۔ بلٹ پروف گاڑیاں‘ بم پروف کنٹینر اور چارٹرڈ ہوائی جہاز۔ بندہ کئی گھنٹے تک جہاز سے باہر نہ نکلے کہ اس کے پیروکار ایئرپورٹ تک پہنچ جائیں۔ دوسری طرف بہتر ساتھی جن میں خواتین اور بچے شامل ہیں‘ ہر شخص سر ہتھیلی پر رکھ کر نکلا ہے اور نہ کوئی سہولتوں کا مطالبہ اور نہ کسی رعایت کی درخواست۔ ایک وہ کہ چھ ماہ کا لخت جگر بھی قربان گاہ میں ہمراہ ہے اور ایک یہ کہ پچھلی بار ایک اخبار نویس نے پوچھا کہ کیا آپ کینیڈین شہریت ترک کردیں گے؟ جواب دیا‘ میں اتنا بھی احمق نہیں۔ اب جبکہ مولانا خود بار بار کہہ رہے ہیں کہ وہ یا انقلاب لائیں گے یا شہید ہو جائیں گے۔ ہر دو صورت میں ان کو کینیڈین شہریت کی کیا ضرورت ہے؟ اگر انقلاب کامیاب ہو گیا تو وہ کینیڈا واپس جا کر کیا کریں گے؟ اور اگر شہید ہو گئے تو میرا خیال ہے کہ جنت الفردوس میں ان کے مقام کا تعین ان کا پاسپورٹ دیکھ کر نہیں‘ اعمال دیکھ کر کیا جائے گا۔ اگر مولانا اس بار اخلاص سے آئے ہیں تو اس کا پہلا ثبوت صرف اور صرف ان کی کینیڈین شہریت سے دستبرداری ہے۔ مگر سب کچھ حسب معمول والا ڈرامہ ہے بلکہ ٹوپی ڈرامہ۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں