"KMK" (space) message & send to 7575

اخلاقیات بھی کوئی چیز ہوتی ہے

ملکی سیاست ایک عرصے سے ''نان ایشوز‘‘ کے گرد گھوم رہی ہے اور اسی کے سہارے چل رہی ہے۔ سیاستدانوں کے پاس عام آدمی کے مسائل کا یا تو حل ہی نہیں ہے یا پھر وہ عام آدمی کے لیے کچھ کرنا ہی نہیں چاہتے۔ عوام کی اکثریت کے‘ یعنی عام آدمی کے مسائل کچھ اور ہیں مگر سیاستدانوں کو عموماً اور حکمرانوں کو خصوصاً عشروں سے روز بروز بڑھتے ہوئے ان مسائل سے کچھ غرض نہیں۔ ایک تماشا لگا ہوا ہے۔ ہر چار روز بعد ایک نئی قسط۔ ہر نئی قسط میں نیا ایڈوینچر۔ کبھی میموگیٹ‘ کبھی مولانا کنٹینر کی آمد‘ کبھی دھرنے‘ کبھی لانگ مارچ‘ کبھی آٹھ گھنٹے تک اہم قومی ادارے کے سربراہ کا میڈیا ٹرائل‘ پھر اس حرکت پر کیبل آپریٹرز کے ذریعے ڈرامہ‘ پھر اس ڈرامے پر عوامی ردعمل کا اگلا ڈرامہ‘ پھر دوبارہ مولانا کینیڈا کی آمد کا غلغلہ‘ پھر ماڈل ٹائون میں بیریئر ہٹانے کے دوران ہلاکتوں کا سانحہ‘ پھر دوبارہ بیریئر لگانے کی حماقت‘ ارسلان افتخار کی تعیناتی والا معاملہ‘ پھر مستعفی ہونے کا شوروغوغا‘ چودھری نثار علی خان کی ناراضگی اور صلح اور اب چیف جسٹس زادے اور عمران خان کے درمیان دنگل کے امکانات۔ ان ساری چیزوں کا عوام کے مسائل سے کیا تعلق ہے؟ 
اب اگلا دنگل انصاف اور تحریک انصاف کے درمیان متوقع ہے۔ عجیب ملک ہے کہ جس میں چور‘ فراڈیے‘ لوٹ مار کرنے والے اور ناجائز دولت بنانے والے شرمندہ ہونے اور چھپنے کے بجائے للکارتے ہیں اور چنگھاڑتے ہیں۔ ایشوز اٹھتے ہیں اور دودھ کے ابال کی طرح اٹھتے ہیں اور اسی طرح بیٹھ جاتے ہیں۔ سنتے ہیں کہ لاہور کے سارے سرکاری پلاٹوں کو مبینہ طور پر مونس الٰہی بیچ کر کھا گیا ہے۔ چودھری چلے گئے۔ شریف آ گئے مگر ان پلاٹوں کا دوبارہ 
کہیں تذکرہ نہیں سنا۔ ای او بی آئی کی زمین کی خریداری کا سکینڈل اٹھا۔ عدالتوں میں معاملہ گیا۔ سارے گواہ مُکر گئے۔ مدعی منحرف ہو گئے۔ کرائے کے مجرم غائب ہو گئے اور چودھری مونس الٰہی ''باعزت‘‘ بری ہو گئے۔ اسی طرح خادم پنجاب نے علی بابا چالیس چوروں کے خلاف بڑے دعوے کیے۔ سڑکوں پر لٹکانے کا اعلان کیا۔ ووٹ لیے۔ اب وہ ہیں اور علی بابا ہیں۔ درمیان میں کہیں جمہوری نظام کی بقا آ ٹپکی ہے۔ رہ گئے چالیس چور‘ تو وہ کبھی اس طرف ہیں اور کبھی اس طرف ہیں۔ وہ کہیں ایک جگہ ٹک کر کام کریں تو پکڑے جائیں۔ وزیرستان کے دہشت گرد داڑھیاں منڈواتے ہیں‘ بال چھوٹے کرواتے ہیں اور پگڑیاں بدلتے ہیں۔ دہشت گردوں سے متاثرین میں شامل ہوتے ہیں اور نکل جاتے ہیں۔ ان دہشت گردوں کو تو پھر خاصی محنت کرنی پڑتی ہے۔ شناخت چھپانی پڑتی ہے۔ بعض اوقات برقعے کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ علی بابا والے چالیس چوروں کو صرف پارٹی بدلنی پڑتی ہے اور پھر راوی چین لکھتا ہے۔ آج کل اسی قسم کے چالیس چوروں کا دال دلیا میاں صاحبان کے زیر سایہ چل رہا ہے۔ خادم اعلیٰ کو چین کے دوروں سے فرصت نہیں۔ کہاں گئے چالیس چور اور کہاں گئے ان کو لٹکانے والے۔ 
ارسلان افتخار کا کہنا ہے کہ وہ آرٹیکل باسٹھ تریسٹھ پر عمران خان کا پیچھا کریں گے۔ امریکی عدالتوں سے سیتاوائٹ کیس کے کاغذات نکلوائیں گے۔ یعنی ملک میں ڈیڑھ عشرے پہلے چلا ہوا ڈرامہ پھر چلایا جائے گا۔ قوم کو ایک دائرے میں گھمایا جائے گا۔ لوگوں کو بیوقوف بنایا جائے گا۔ اینکرز کا کاروبار چلے گا۔ پروگرامز کی ریٹنگ میں اتار چڑھائو آئے گا۔ مرچ مسالا لگانے والوں کی چاندی ہوگی۔ چار دن خوب رونق میلا رہے گا اور پھر کوئی نیا معاملہ آ جائے گا اور نیا ڈرامہ پردہ سکرین پر چلنے لگے گا۔ اس دوران لوگ روٹی دس روپے کی خریدیں گے۔ جن کے پاس اس کی استطاعت نہ ہوگی وہ بچوں سمیت نہروں میں کودیں گے۔ سپرے کی دوا پئیں گے۔ پھندے سے لٹکیں گے یا خودکشی کا کوئی نیا طریقہ اختیار کریں گے۔ میڈیا کو بہرحال کچھ نہ کچھ شغل میلا ملتا رہے گا۔ 
یہ بات اپنی جگہ پر درست ہے کہ عمران خان شہرت‘ مقبولیت اور عوامی حمایت کے جس مقام پر ہیں وہ ابھی تک اپنا رویہ اس کے مطابق نہیں کر سکے اور اس سیاسی بلوغت کا مظاہرہ نہیں کر پا رہے جس کی ان سے توقع کی جا رہی تھی۔ سنی سنائی باتوں کو جلسوں میں بیان کرنا غیر ذمہ داری اور بچپنا ہے۔ ملک کی تیسری بڑی پارلیمانی پارٹی کے لیڈر اور دوسرے مقبول ترین عوامی رہنما کو یہ زیب نہیں دیتا کہ دائیں بائیں کھڑے ہوئے کسی بھی شخص سے کوئی بھی بات سنے اور فوراً جلسہ عام میں اسے دہرا دے۔ اتنی غیر ذمہ داری تو ہم دوسرے دن لکھنے والے نہیں کرتے اور ہر سنی سنائی بات کو آگے نہیں چلاتے۔ عمران خان تو قومی سطح کے لیڈر ہیں اور ان کی ہر بات کا پوری دنیا میں تجزیہ کیا جاتا ہے۔ ان کی بات کو اہمیت دی جاتی ہے اور اس کی صحت کو جانچا جاتا ہے۔ ریٹرننگ افسر‘ الیکشن کمیشن‘ عدلیہ اور یو این ڈی پی کے کمپیوٹروں کے بند ہونے کا معاملہ۔ عمران خان معاملات کو بے جا پھیلا رہے ہیں اور معاملات ان سے سمٹ نہیں رہے۔ روز ایک نیا محاذ کھولا جا رہا ہے اور پوری پارٹی میں کوئی شخص یہ نہیں سوچ رہا کہ ان باتوں کا نقصان صرف اور صرف عمران خان اور پارٹی کو ہو رہا ہے۔ اب کچی پکی باتیں کرنے کا وقت گزر چکا ہے۔ ہوا میں تیر چلانے سے الٹا نقصان ہو رہا ہے اور بے سمت لڑائی کا سارا نقصان عمران خان کو ہو رہا ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ عمران خان ایک قومی لیڈر کا سا رویہ اختیار کریں۔ منتشر قسم کے الزامات لگانے اور محاذ کھولنے سے پرہیز کریں۔ سنی سنائی باتوں پر جلسے کرنے کے بجائے خیبر پختونخوا میں اپنی حکومت کی کارکردگی بہتر کریں اور ہر چوتھے دن جلسے اور دھرنے کی کال دے کر اپنے مخلص ورکروں کو بتدریج ان معاملات سے لاتعلق اور بالآخر مایوس کرنے کے بجائے مثبت جمہوری طرزِ عمل کا مظاہرہ کریں اور اسمبلی میں ایک حقیقی اور متحرک اپوزیشن کا فریضہ سرانجام دیں۔ اسمبلی کے فلور کا ہر میدان ان کے لیے بالکل خالی پڑا ہے۔ 
میرا ذاتی خیال ہے کہ اگر سابق چیف جسٹس کے صاحبزادے میں تھوڑی سی اخلاقی جرأت ہے تو وہ آئین کے آرٹیکل باسٹھ تریسٹھ پر عمران خان کے خلاف عدالت جانے سے دس منٹ پہلے اپنے والد گرامی سے ضرور ملیں اور ان سے سوال کریں کہ جب ساری قوم باسٹھ تریسٹھ کے بارے میں چلا رہی تھی وہ تب کیا کر رہے تھے؟ آرٹیکل باسٹھ تریسٹھ پر عمل کا مناسب ترین وقت الیکشن سے پہلے تھا تاکہ اسمبلی کو بدکرداروں‘ بے ایمانوں اور اخلاق باختہ لوگوں سے محفوظ رکھا جا سکے۔ اب جبکہ اسمبلی تشکیل پا چکی ہے صرف ایک شخص کے بارے میں بات کرنا اور اس کا پیچھا کرنے کا اعلان‘ اصول نہیں ذاتیات کا معاملہ ہے۔ اور ملک عزیز کو اسی سوچ نے برباد کیا ہے۔ کسی شخص کو تب تک قومی مفاد پر بات کرنے کی توفیق نہیں ہوتی جب تک معاملہ اس کے اپنے گھر تک نہ پہنچے۔ سارے ملک کی ایسی تیسی ہوتی رہے لیکن اگر وہ خود مزے میں ہے تو سب ٹھیک ہے۔ جونہی بات اپنی ذات تک پہنچے‘ قومی مفاد‘ اصول پسندی‘ قومی غیرت اور اسی قسم کی دیگر اعلیٰ مفہوم کی حامل اصطلاحیں یاد آ جاتی ہیں۔ 
ارسلان افتخار کو گھر جا کر پاکستان کی عدالتی تاریخ کے سب سے طاقتور‘ بہادر‘ نڈر‘ بے خوف اور فالودے کی دکان پر ہونے والے جھگڑے پر سوموٹو لینے کے موجد اپنے والد گرامی سے پوچھنا چاہیے کہ جب پوری قوم آئین کے آرٹیکل باسٹھ تریسٹھ کے لیے شور مچا رہی تھی عدالت عالیہ کیا کر رہی تھی؟ کیا اس وقت اس سے زیادہ اہم کوئی اور معاملہ ہو سکتا تھا؟ کیا پاکستان کے پارلیمانی نظام کو گند سے صاف کرنے کا اس سے بہتر کوئی اور موقع تھا؟ عدالتیں اجتماعی اور قومی معاملات پر اگر خاموش رہیں تو ان کو انفرادی معاملات میں پھرتیاں دکھانے کا کوئی حق نہیں پہنچتا۔ اور جو لوگ قومی معاملات پر آنکھیں بند کر لیں ان کو اپنی ذات کے معاملے میں حق و صداقت اور بہادری و بے باکی کے نعرے لگانے کا آئینی حق تو ضرور ہے مگر اخلاقیات بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں