"KMK" (space) message & send to 7575

اسلام آباد میں ایک دن

اسلام آباد تک تھکا دینے والی ڈرائیونگ کے بعد جب موٹروے سے اتر کر گولڑہ موڑ والے چوک سے شاہراہ کشمیر پر چڑھا تو اطمینان کا سانس لیا۔ اس وقت بالکل اندازہ نہیں تھا کہ محض چند منٹوں کے بعد یہ ''اطمینانی سانس‘‘ واپس کرنا پڑے گا۔ پشاور موڑ کے چوک پر ایک بورڈ لگا ہوا تھا کہ چوک پر کام ہو رہا ہے آگے راستہ بند ہے۔ آپ متبادل راستہ اختیار کریں۔ چوک پار کرتے ہی دائیں طرف مڑنے کا بورڈ لگا ہوا تھا۔ دائیں مڑ گئے۔ تھوڑی دیر سیدھا جانے کے بعد بائیں مڑنے کا اشارہ تھا۔ سو بائیں مڑ گئے۔ پھر ایک دھول بھرے کچے سے راستے کے ذریعے جونہی بائیں ہوئے تو پھر دوبارہ بائیں مڑنے کا بورڈ لگا ہوا تھا۔ تھوڑی دیر بعد دائیں مڑنے کا اشارہ تھا۔ پھر ایک لمبی سڑک تھی جو علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے سامنے سے گزرتی ہوئی آگے جا کر دو حصوں میں منقسم ہو گئی تھی۔ مری‘ بھارہ کہو اور مظفر آباد جانے والوں کے لیے پھر بائیں مڑنے کا بورڈ لگا ہوا تھا۔ میں اللہ توکل پر ادھر مڑ گیا۔ آگے جا کر پھر بائیں مڑنے کا بورڈ تھا۔ میں اب دوبارہ شاہراہ کشمیر پر تھا۔ لیکن گاڑی کا رخ دوبارہ پشاور موڑ کی طرف تھا۔ یہاں سے آگے جا کر یوٹرن لیا اور واپس زیرو پوائنٹ کی طرف چل پڑا۔ 
شاہراہ فیصل سے آگے جا کر جناح ایونیو یعنی بلیو ایریا والی سڑک پر چڑھنا چاہا تو سڑک بند تھی۔ آگے جا کر یوٹرن لیا اور ناظم الدین روڈ پر چڑھ گیا۔ وہاں سے دوبارہ جناح ایونیو پر جانے کی ساری کوششیں خام ثابت ہوئیں۔ بالآخر اتاترک ایونیو سے آغا خان روڈ پر چڑھا اور وہاں سے رات گئے بمشکل اپنی رہائش والی جگہ پر پہنچا۔ صبح اٹھ کر واپسی کا قصد کیا۔ ایف فائیو کی مغربی سروس روڈ سے دوبارہ جناح ایونیو جانے کی کوشش کی تو آگے راستہ بند تھا۔ واپس پلٹ کر آغا خان روڈ سے شہید ملت روڈ پر چڑھا اور انڈر پاس سے گزر کر میلوڈی اور وہاں سے جی سیون پہنچا۔ واپسی پر پھر حماقت کی اور راجہ الطاف کو ملنے کی غرض سے ناظم الدین روڈ پر جانے کے لیے انڈرپاس کے بجائے چائنہ چوک سے جناح ایونیو کراس کرنے کی کوشش کی۔ آگے راستہ بند تھا۔ سائیڈ والی سروس روڈ پر جا کر کوشش کی۔ تقریباً آدھا گھنٹہ ٹریفک جام میں برباد ہو گیا۔ واپس پلٹ کر فضل حق روڈ پر آیا اور جنگ کی بلڈنگ کے ساتھ بائیں مڑ گیا۔ آگے راستہ بند تھا۔ بائیں مڑ کر سروس روڈ سے کام چلانے کی کوشش کی مگر دس منٹ بعد چائنا چوک سے واپس پلٹنا پڑا۔ سارے راستے بند تھے۔ واپس فضل حق روڈ پر وہیں آیا اور اب کی بار بائیں کے بجائے دائیں مڑ گیا۔ میں اب دوبارہ اتاترک ایونیو پر تھا۔ وہاں سے آگے جا کر بائیں مڑا اور ایف فائیو کی سروس روڈ کو کراس کرتا ہوا نادرا ہیڈ کوارٹر کے سامنے سے گزر کر ایک عدد چیک پوائنٹ سے گزر کر شاہراہ دستور پر چڑھا۔ اس ساری جدوجہد میں تقریباً ایک گھنٹہ لگ گیا۔ یہ کل چھ سات منٹ کا معاملہ تھا جس پر گھنٹہ صرف ہو گیا۔ بارہ بجے میری ایک میٹنگ تھی۔ بارہ بجنے میں اب دس منٹ باقی تھے۔ راجہ الطاف کو ملنے کا ارادہ ملتوی کیا اور شاہراہ دستور سے ناظم الدین روڈ پر جانے کے لیے ٹامک ٹوئیاں مارنے کے بجائے میٹنگ پر چلا گیا۔ شکر ہے راستہ صاف تھا۔ میں وقت پر میٹنگ میں تو پہنچ گیا مگر راجہ الطاف سے ملاقات نہ ہونے کا قلق اب تک ہے۔ راجہ الطاف میرا ایم بی اے کا کلاس فیلو اور دوست ہے۔ اتنی لمبی تمہید اسے دوبارہ سنانے کا نہ تو حوصلہ ہے اور نہ ہی سکت۔ اس سے گزارش ہے کہ وہ اس کالم کے ذریعے میری محبت کا اندازہ لگائے جو میں اس سے کرتا ہوں اور اسے ملنے کے لیے جو جدوجہد میں نے کی تھی اس پر کسی داد کا طالب تو نہیں البتہ راجہ الطاف سے نہ ملنے پر معذرت خواہ ضرور ہوں۔ اور ہاں! اس ساری تمہید اور تفصیل کے لیے معذرت مگر اس کے بغیر صورتحال آپ کو سمجھائی ہی نہیں جا سکتی تھی۔ 
ایک نہایت ہی سنجیدہ قسم کے دوست سے ملاقات ہوئی تو اسے بتایا کہ اسلام آباد میں تو حشر ہوا پڑا ہے۔ ہر طرف توڑ پھوڑ ہے۔ کہنے لگا‘ ہاں یہاں ہمیشہ اسی قسم کی سازشیں ہوتی رہتی ہیں۔ میں نے کہا میرا مطلب ہے بڑی اکھاڑ پچھاڑ ہو رہی ہے۔ کہنے لگا‘ شریر لوگوں کا ارادہ تو زیادہ اکھاڑ پچھاڑ کا ہے اور ابھی مستقبل قریب میں اس کے امکانات خاصے روشن نظر آ رہے ہیں۔ میں نے کہا تم میرا مطلب نہیں سمجھ رہے‘ میں ان موجودہ کھدائیوں کی بات کر رہا ہوں۔ وہ کہنے لگا‘ ان کھدائیوں کا کیا کہتے ہو۔ یہ قوم ایک عرصے سے صرف گڑے مردے اکھاڑنے میں مصروف ہے۔ ماضی کو کریدنے اور کھودنے کے علاوہ ہمارا اور کام ہی کیا ہے؟ میں نے کہا یار تم بات کا بتنگڑ بنا رہے ہو۔ ادھر مجھے راستہ نہیں مل رہا تھا اور تم ہو کہ ہر بات کا باطنی مفہوم نکال رہے ہو۔ 
ہنس کر کہنے لگا‘ تمہیں آج دن راستہ نہیں مل رہا تھا تو تم پریشان ہو رہے ہو۔ ادھر یہاں دیکھو۔ ایک عرصے سے راستہ نہیں مل رہا مگر کسی کو رتی برابر فکر ہے اور نہ پریشانی۔ ہر کوئی موج میلہ کر رہا ہے۔ ایک کے بعد ایک ایشو اور ہر ایشو نان ایشو۔ تازہ ترین معاملہ جنرل پرویز مشرف کے بارے میں ڈیل کا شوشہ۔ گیلانی‘ فرحت اللہ بابر‘ قمر زمان کائرہ اور دیگر لوگ۔ حتیٰ کہ برصغیر پاک و ہند کا سب سے دروغ گو تمہارا مظفر گڑھی ایم این اے۔ ہر بندہ جھوٹ بول رہا ہے اور غلط وقت پر بول رہا ہے۔ ادھر کسی کو نہ راستہ مل رہا ہے اور نہ منزل۔ مگر سب کا کام چل رہا ہے۔ کوئی اس پر نہ شور کرتا ہے اور نہ حل ڈھونڈتا ہے۔ سب کی دیہاڑی لگی ہوئی ہے۔ تمہیں ایک دن راستہ نہیں ملا اور تم رولا ڈال رہے ہو۔ مجھے اندازہ نہیں تھا کہ میرا یہ دوست اس حد تک شرپسند ہو چکا ہے۔ 
میں نے کہا اب باقی باتیں چھوڑو۔ ایمانداری سے یہ بتائو کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے؟ اتنی ساری توڑ پھوڑ۔ آدھا اسلام آباد اکھاڑ کر رکھ دیا ہے۔ معاملہ کیا ہے؟ کہنے لگا‘ اسلام آباد میں کبھی کسی کو کسی معاملے کی پہلے کوئی خبر تھی جو اب ہوگی؟ اہل اسلام آباد‘ میرا مطلب ہے حکمران ایک عرصے سے آ جا رہے ہیں مگر ان کو یہ تک پتہ نہیں کہ وہ کیسے آتے ہیں اور کیسے چلے جاتے ہیں۔ ان کے ساتھ کیا ہوتا ہے اور کون کرتا ہے؟ وہ اقتدار میں آتے ہی سب کچھ بھول کیسے جاتے ہیں؟ انہیں آگے کون لگاتا ہے اور دھکا کون دیتا ہے؟ کسی کو کچھ نہیں پتہ۔ بھلا میں عاجز کیا کہہ سکتا ہوں کہ کیا ہو رہا ہے اور کیا معاملہ ہے۔ یہاں سب لوگ 
آنکھوں والے اندھے ہیں۔ سوائے اپنے ذاتی مفاد کے ان کو کچھ نظر نہیں آتا۔ قوم کی حالت کو درست کرنے کا راستہ سب کو معلوم تو ہے مگر کوئی اس پر چلنے کے لیے تیار نہیں۔ یہ راستہ ان کے ذاتی مفادات کے راستے سے متصادم ہے۔ قومی مفادات کا راستہ ایسا ہے کہ ہر جگہ قربانی‘ ایثار‘ نیک نیتی اور خلوص کی کھدائی ہوئی پڑی ہے۔ حکمران ان مشکلات سے گزرنے یا انہیں دور کرنے کے بجائے ذاتی مفادات کے فلائی اوور اور وقتی فوائد کے انڈر پاس استعمال کر رہے ہیں۔ میں نے اندازہ لگا لیا کہ آج اس سے کسی سیدھی بات کی توقع فضول ہے۔ 
لاہور روانگی سے قبل ارشد سے افطاری پر ملاقات ہوئی۔ کھدائی کا معاملہ پوچھا تو کہنے لگا۔ بہانہ تو میٹرو کا لگتا ہے مگر میرا خیال ہے یہ روز روز اسلام آباد کے لیے لانگ مارچ اور دھرنے دینے والوں کے سدباب کے لیے پکا بندوبست کیا جا رہا ہے۔ تمہیں اسلام آباد کا بخوبی اندازہ ہے اور تم یہاں خوار و خستہ ہو کر رہ گئے ہو‘ اِدھر اُدھر سے آئے ہوئے مخلص ورکروں کو راستوں کا بھلا کیا پتہ؟ انہیں ذلیل و رسوا کرنے کے لیے یہ سارا انتظام کیا گیا ہے۔ میں نے تنگ آ کر کہا کہ یہاں کوئی بندہ سنجیدگی سے بھی بات کرتا ہے یا اسی طرح الٹی سیدھی ہانکتا رہتا ہے۔ ارشد ہنسنے لگ گیا۔ پھر کہنے لگا۔ یہ اس شہر کا مزاج ہے۔ یہاں آ کر کوئی سیدھی بات نہیں کرتا۔ آپ کے مسائل نہیں سمجھتا۔ آپ کی بات کا سیدھا مطلب نہیں لیتا حتیٰ کہ آپ کی بات نہ تو سمجھتا ہے اور نہ سمجھنا چاہتا ہے۔ میں کچھ سال سے یہاں ہوں‘ یہ خرابی مجھ میں آ چکی ہے مگر ایک بات بتائوں! یہ خرابی اوپر سے نیچے آئی ہے۔ یہاں ماحول ہی ایسا ہے‘ میرا کوئی قصور نہیں۔ جو بھی یہاں آتا ہے ایسا ہی ہو جاتا ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں