"KMK" (space) message & send to 7575

میری طرح آپ بھی اس تھیسس سے اختلاف کر سکتے ہیں

میرا یہ دوست خاصا پڑھا لکھا تو ہے ہی لیکن صرف پڑھا لکھا ہونا اچھا تجزیہ کرنے کے لیے کافی نہیں ہوتا۔ اس کے لیے اوپر والی منزل میں کچھ ہونا بہت ضروری ہے اور ہمارے اس دوست کی اوپر والی منزل خاصی بھری ہوئی ہے۔ عالمی سیاسی معاملات سے لے کر اسلام آباد تک کے معاملات پر اس کی گہری نظر ہے۔ عالمی معاملات پر لکھی گئی کتابوں کے مطالعے کا نہ صرف شوقین ہے بلکہ ان کے تجزیے سے مغرب اور امریکہ کی مستقبل کی پلاننگ کے ڈانڈے ڈھونڈتا ہے اور پاکستان کے موجودہ حالات کے تناظر میں انہیں علاقائی حالات پر منطبق کر کے مختلف نتائج اخذ کرنے میں لگا رہتا ہے۔ اس کی باتیں درست نہ سہی مگر قابل غور ضرور ہوتی ہیں؛ تاہم اس کے ساتھ دو مسئلے ہیں۔ پہلا یہ کہ وہ تھوڑا سا قنوطی ہے۔ یعنی اس کا جھکائو ہر بات کے تاریک پہلو کی طرف زیادہ ہوتا ہے اور روشن پہلو کی طرف کم۔ دوسرا یہ کہ وہ سیاسی حوالوں سے تھوڑا متعصب ہے اس لیے کسی کو غیرضروری چھوٹ دے دیتا ہے اور کسی کو غیر ضروری مطعون کرتا رہتا ہے۔ باقی اس کی باتوں میں خاصا وزن ہوتا ہے اور اختلاف کے باوجود اس کی باتوں سے یکسر انکار نہیں کیا جا سکتا۔ یہ بتانا تو قطعاً ضروری نہیں کہ وہ کیا کرتا ہے؛ تاہم وہ پیشہ ورانہ اعتبار سے بھی چلتی پھرتی معلومات کے درمیان دن گزار رہا ہے۔ 
میں نے پوچھا‘ یہ چودہ اگست کا کیا سین ہے؟ کہنے لگا‘ معاملات اتنے سادہ نہیں جتنے بظاہر نظر آتے ہیں۔ عمران خان کی چھوٹی موٹی حماقتیں اپنی جگہ‘ مگر وہ اتنا بڑا قدم بلکہ اتنی بڑی حماقت کسی آسرے کے بغیر نہیں کر سکتا۔ اس کے پاس کوئی نہ کوئی ترپ کا پتہ ہوگا۔ یہ پتہ کسی نہ کسی قسم کی یقین دہانی ہو سکتی ہے۔ طاہرالقادری کا معاملہ مختلف ہے۔ وہ میاں صاحبان سے بالکل ذاتی قسم کی پرخاش رکھتے ہیں۔ ا ن کا معاملہ سو فیصد ذاتی دشمنی اور عناد کا ہے۔ وہ اس کے لیے کسی حد تک 
جا سکتے ہیں۔ اپنا بہت کچھ برباد کر سکتے ہیں۔ ان کے پاس نہ سیاسی میراث ہے اور نہ ہی کوئی واضح سیاسی مستقبل۔ مگر عمران خان کے پاس دونوں چیزیں ہیں۔ سیاسی طاقت بھی اور روشن سیاسی مستقبل بھی۔ وہ یہ سب کچھ نہ دائو پر لگا سکتا ہے اور نہ برباد کر سکتا ہے۔ اتنے بڑے قدم کے پیچھے کوئی نہ کوئی یقین دہانی ہوگی، کوئی ضمانت ہوگی۔ اگر نہیں ہے تو یہ اس کے لیے مکمل بربادی کا سامان ہے مگر اس کا امکان صفر کے نزدیک ہے۔ ضامن تگڑے ہوئے تو اس شو سے کافی کچھ برآمد ہو سکتا ہے۔ تباہ کن اقدام ہے۔ ابھی یہ کہنا مشکل ہے کہ کس کے لیے؟ عمران خان کے لیے یا میاں صاحبان کے لیے! مگر اس ''سونامی‘‘ سے کچھ نہ کچھ برآمد ضرور ہوگا۔ اب تو اس معاملے میں دو ہفتے سے بھی کم وقت رہ گیا ہے۔ 
وہ کہنے لگا‘ تمہیں تو معلوم ہی ہے کہ میں کبھی بھی سیاست میں وردی کے عمل دخل کا قائل نہیں رہا۔ میں فوج کے سیاست میں دخیل ہونے کا ہمیشہ سے ناقد ہوں مگر ایک بات ضرور جانتا ہوں کہ پاکستان اور فوج لازم و ملزوم ہیں۔ خاص طور پر اس وقت۔ موجودہ صورتحال بڑی سنگین ہے۔ پاکستان کی سلامتی دائو پر لگی ہوئی ہے۔ اگر اس موقع پر فوج کا امیج متاثر ہوتا ہے تو پاکستان مزید کمزور ہو جائے گا۔ پاکستان کی سلامتی فوج کی مضبوطی اور بقا سے جڑی ہوئی ہے۔ امریکہ نے پاکستانی فوج کو کمزور کرنے کا منصوبہ بنا رکھا ہے اور موجودہ حکمران ارادی یا غیر ارادی طور پر اس منصوبے کی تکمیل میں مددگار و معاون ثابت ہو رہے ہیں۔ میرے خیال میں آرٹیکل 245 کے تحت فوج کو اسلام آباد طلب کرنا اسی منصوبے کی تکمیل کا پہلا حصہ ہے۔ حکمران پاکستانی فوج کو پولیس بنانا چاہتے ہیں۔ اسے اس کے 
اصل منصب سے نیچے لانا چاہتے ہیں۔ اپنے پہلے دور میں وہ فوج کو تعلیمی اداروں کی انسپکشن‘ محکمہ صحت کے مراکز کی تحقیق و تفتیش اور واپڈا میں میٹر چیک کرنے پر لگا چکے ہیں۔ یہ فوج کے کام نہیں۔ یہ ان کے پیشہ ورانہ معیار کو برباد کرنے کے مترادف ہے۔ جہاں اس حرکت سے انہوں نے سول اداروں کی ناکامی کا خاموش اعتراف کیا‘ وہیں وہ فوج کے ذہن میں یہ بات بٹھانے میں بھی کامیاب رہے کہ صرف فوج ہی واحد منظم ادارہ ہے جو ہر خرابی کو دور کر سکتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ فوج نے اقتدار ہی سنبھال لیا۔ اب وہ سول انتظامی معاملات میں فوج کو الجھا کر جہاں فوج کا کردار غلط طور پر متعین کر رہے ہیں وہیں وہ اپنی حکومت کے لیے پھر اسی سوچ کو پروان چڑھا رہے ہیں کہ جمہوری اور سیاسی حکومتیں معاملات کو سنبھالنے کی اہلیت نہیں رکھتیں اور یہ ایک خوفناک سوچ کا آغاز ہے۔ 
وہ کہنے لگا‘ اب میاں صاحب فوج کے دانت نکالنا چاہتے ہیں۔ وہ ابھی تک بارہ اکتوبر کو فراموش نہیں کر پا رہے۔ وہ اٹک قلعہ نہیں بھول رہے۔ وہ ہتھکڑی لگا کر جہاز میں بٹھانے پر کسی کو معاف کرنے پر تیار نہیں۔ مجموعی طور پر فوج میں یہ سوچ راسخ ہو چکی ہے کہ انہوں نے سیاست میں دخل نہیں دینا اور اقتدار پر تو بالکل ہی قبضہ نہیں کرنا لیکن اگر حالات اس نہج پر پہنچ جائیں کہ اس ادارے کی بقا اور سلامتی ہی دائو پر لگ جائے تو کیا ہوگا؟ اس ادارے کی بقا ملکی سلامتی کی ضمانت ہے۔ اگر کوئی اس ضمانت کو ہی ختم کرنے پر آ جائے تو پھر؟ امریکہ اپنا ایجنڈا خاموشی سے پورا ہوتے دیکھ رہا ہے۔ سب کچھ امریکی منشا کے مطابق ہوتا نظر آ رہا ہے۔ معاملات تب زیادہ واضح ہوں گے جب فوج میں اہم تقرریوں کا معاملہ سامنے آئے گا۔ پروفیشنل یعنی پیشہ ورانہ معاملات کو سیاسی انداز میں چلانے کی کوشش کی گئی تو کیا ہوگا؟ کے پی کے کی حکومت سے آپ سو اختلاف کریں۔ عمران خان کی آپ جو چاہیں خرابی بیان کریں مگر یہ بات طے ہے کہ انہوں نے خیبر پختونخوا کے آئی جی پولیس کو بالکل فری ہینڈ دیا ہوا ہے۔ کوئی سیاسی مداخلت نہیں۔ یہی گڈگورننس کا پہلا قدم ہے۔ باقی سب اس کے ثمرات ہوں گے۔ تم نے انتظار حسین کا افسانہ ''کایا کلپ‘‘ پڑھا ہوگا کہ کس طرح شہزادہ آزاد بخت شہزادی کو جن کی قید سے چھڑوانے کے لیے اس کے قلعے میں داخل ہو جاتا ہے۔ جہاں اسے شہزادی جن سے بچانے کی غرض سے رات کو مکھی بنا دیتی ہے۔ شہزادہ اس پر احتجاج کرتا ہے مگر شہزادی کے آنسو اسے موم کر دیتے ہیں۔ ہر روز یہی ہوتا ہے کہ شہزادی اپنے جادو کے زور پر جن کے آنے سے پہلے ہر رات اسے مکھی بنا دیتی ہے اور صبح اسے آدم زاد کے روپ میں لے آتی ہے۔ آہستہ آہستہ شہزادہ آزاد بخت اپنی انسانی خصوصیات کھونا شروع کر دیتا ہے اور بالآخر ایک دن وہ مکھی سے دوبارہ انسان نہیں بن پاتا۔ فوج کو بار بار پولیس بنانے سے بالآخر یہی ہوگا۔ اس عمل کو انگریزی میں Metamorphosis اور اردو میں کایا کلپ یا قلب ہیئت کہتے ہیں۔ اور آج اگر سول انتظامی معاملات کو سنبھالنے کے لیے فوج بلائی جا رہی ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اب پولیس ایسے معاملات سے نپٹنے کی صلاحیتوں سے مکمل عاری ہے اور اس تنزلی‘ انحطاط اور ابتری کی وجہ یہ ہے کہ میاں صاحب نے 1983ء میں جس طرح سیاسی بنیادوں پر بھرتی اور ترقیاں کیں تھیں‘ اس کے ثمرات اب سامنے آ رہے ہیں۔ آج بھی آئی جی پنجاب اور حکومت پنجاب کے درمیان میرٹ اور خواہش کی رسہ کشی جاری ہے۔ 
میں نے کہا کہ موجودہ سیٹ اپ چلنا چاہیے۔ خواہ یہ جیسا بھی ہے۔ پھر میں نے اس سے سوال کیا کہ اس کے ذہن میں اس صورتحال کا کوئی آئینی یا قانونی متبادل حل ہے؟ وہ کہنے لگا‘ آئینی جادوگر اس کا حل تو نکال لیں گے مگر یہ بات طے ہے کہ اب کوئی وردی والا کچھ Deliver کیے بغیر چار دن بھی نہیں گزار سکتا۔ دس سال تک بیٹھے رہنا اب ناممکنات کی بات ہے مگر شارٹ ٹرم میں بھی کچھ نہ کچھ کیا جا سکتا ہے۔ میں نے پوچھا‘ مثلاً؟ وہ کہنے لگا‘ صوبوں کی تعداد بڑھائی جا سکتی ہے‘ نیا آئین مرتب کرنے کے لیے مختصر مدت کے لیے اسمبلی تشکیل دی جا سکتی ہے‘ تمہارے دو چار ماہ پہلے والے کالم کے مطابق صدارتی نظام کے حوالے سے نیا آئین بنایا جا سکتا ہے‘ صدارتی نظام نافذ کیا جا سکتا ہے اور اسمبلی کی مدت چار سال کی جا سکتی ہے۔ میں نے کہا‘ یہ تمہاری خواہش تو ہو سکتی ہے مگر حقیقت کا اس ساری صورتحال سے رتی برابر بھی واسطہ نہیں ہے جو تم بیان کر رہے ہو۔ جواباً وہ ہنسنے لگا اور پھر اٹھتے ہوئے بولا کہ اختلاف رائے تمہارا حق ہے مگر میری باتوں پر غور ضرور کرنا۔ میں گزشتہ دو دن سے اس کی باتوں پر غور کرتا رہا ہوں مگر مجھے اس کے تجزیے سے اتفاق نہیں ہے۔ لیکن یہ ضرور ہے کہ اب سیاستدانوں اور حکمرانوں کو خود ہی کوئی حل نکالنا ہوگا۔ حالات تادیر اس طرح نہیں چل سکتے۔ پارلیمانی نظام حکومت مکمل طور پر ناکام ہو چکا ہے مگر یہ بھی میں بتا چکا ہوں کہ مجھے اس دوست کی باتوں سے اکثر اوقات اختلاف ہی رہتا ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں