"KMK" (space) message & send to 7575

اپنی بنائی ہوئی بند گلی کے اسیر

سچی بات ہے،کچھ سمجھ نہیں آ رہا کہ کیا ہو رہا ہے اور کیا ہونے جا رہا ہے۔ حد چارپانچ بجے سہ پہر تک کالم لکھ کر دینا ہوتا ہے اور ساری گڑ بڑکا آغاز اس کے بعد ہوتا ہے۔ کیا لکھیں اورکس بات کی پیش گوئی کریں؟حالات بتدریج خرابی کی طرف بلکہ تباہی کی طرف جا رہے ہیں۔ ناعاقبت اندیش حکمران اور مہم جوئی پر آمادہ عمران خان اور سب سے بڑھ کر عالمی تخریبی ایجنڈے پر عمل پیرا ڈاکٹر طاہر القادری۔
میں ایک دن انقلاب کا منتظر رہا اور پھر حسب توقع انقلاب کی اگلی ڈیڈ لائن ملنے پر واپس آ گیا۔ جھوٹے وعدوں اور دلاسوں پرکتنے روز انتظارکیا جا سکتا ہے۔ ویسے بھی انقلاب مارچ اب آزادی مارچ کا دم چھلا بن چکا ہے، لہٰذا دم چھلے کے بجائے اصل کی طرف دیکھنا چاہیے۔گزشتہ سے پیوستہ روز برادر بزرگ نے پوچھا، انقلاب مارچ والے کیا کریں گے؟میں نے کہا، عمران خان نے ریڈ زون جانے کا اعلان کیا ہے، عوامی پارلیمنٹ بھی یہی کرے گی۔ پھر برادر بزرگ نے پوچھا،کیا تم عوامی پارلیمنٹ کا منظر دیکھو گے؟میں نے کہا، آپ کا کیاخیال ہے، یہ عوامی پارلیمنٹ ہماری سنے گی؟ اگر میں نے اس میں وہ کچھ کہہ دیا جو عوام چاہتے ہیں تو وہ مار مار کرمیرا فالودہ بنا دیں گے۔ایسی عوامی پارلیمنٹ میں جانے کا کیا فائدہ جہاں مولانا نے عوام کی نہیں سننی،اپنی سنانی ہے۔
معاملات یہاں تک کیسے پہنچے؟بنیادی وجہ یہ ہے کہ حکمران، بر وقت فیصلہ کرنے کی صلاحیت سے مکمل طور پر عاری ہیں۔ میاں صاحبان عمومی طور پر کسی کی نہیں سنتے۔ ان کے وزراء مہم جو اور بات کو مناسب انداز میں لینے سے فارغ ہیں۔ مشورے دینے کے لیے آٹھ کشمیریوں‘ سات رشتے داروںاور چار منہ پھٹ لوگوں کا ایک ''عقلمند‘‘ گروہ ہے جس نے سارے معاملے کو خراب کرنے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے اوراب ہر دو فریق بندگلی میں کھڑے ہیں۔ ملک شوکت کل سے چار بار فون کر کے کہہ چکا ہے کہ شرط لگا لو، حکومت جا رہی ہے۔ چودھری کا رابطہ ''نقاب پوشوں‘‘ سے ہے۔ وہ کھل کر توکچھ نہیں کہتا مگر اشارتاً کہہ چکا ہے کہ معاملات حکومت کے خاتمے کی طرف جا رہے ہیں۔گجر بادشاہ اس حد تک پر یقین ہے کہ مبلغ ایک لاکھ روپے کی شرط لگانے پر نہ صرف تیار ہے بلکہ اصرار کر رہا ہے کہ میاں صاحبان جا رہے ہیں۔ میرا صرف ایک موقف ہے کہ آخر یہ سب کچھ کس آئینی اور اخلاقی بنیادوں پر ہوگا؟ میاں صاحب کے آگے استعفیٰ رکھ کر دستخط کروانے والے کن آئینی اور اخلاقی بنیادوں پرکام کریں گے؟ رہ گئی بات زور زبردستی کی توکم ازکم یہ عاجز تو اس دھونس دھاندلی کی حمایت کرنے کے لیے کسی طور تیار نہیں۔ خائن دانشوروںکا گروہ ہمہ وقت جمہوریت کا درس دیتا ہے مگر ایسے معاملات میں استثنائی صورت حال کی باتیں کرتا ہے۔ آئین اور جمہوریت پرکسی صورت سمجھوتہ نہیں ہوسکتا۔
میرا ماموں زاد آٹو موبیل انجینئر ہے اور دو تین عشرے پہلے اپنی جاپانی کمپنی کی طرف سے ایک سال کے لیے جاپان گیا۔ ابھی اسے گئے چند ماہ ہوئے تھے کہ ایک روزاس نے دیکھا، فیکٹری کے ورکرز نے بازو پر سیاہ پٹیاں باندھی ہوئی ہیں اورکام کر رہے ہیں۔ اس نے سینئر منیجر سے پوچھاتو پتاچلا کہ ورکرز کی یونین نے انتظامیہ کوکچھ مطالبات پیش کئے تھے جن پرکوئی فیصلہ نہیں ہوا، لہٰذا مزدوروں نے احتجاج کے طور پر بازوئوں پر سیاہ پٹیاں باندھ لی ہیں۔ میرے کزن نے اسی افسر سے پوچھا کہ اگر یہ ورکر احتجاج پر ہیں توکام کیوں بند نہیں کرتے؟جواب ملا ابھی اس کا موقع نہیں، ابھی یہ صرف کالی پٹیاں باندھیں گے مگر کام کی رفتار میں کوئی فرق نہیں آئے گا، اگر ان کی بات نہ سنی گئی اور مسائل حل نہ کیے تو یہ کچھ روز بعد Go Slowکر دیں گے، ایکسپورٹ کی ڈیمانڈ کے برابر پروڈکشن کرتے رہیں گے۔ اگر پھر بھی ان کی نہ سنی گئی تو پھر یہ گھنٹے بھر کی علامتی ہڑتال پر جائیں گے اور پھر اسے بتدریج بڑھاتے رہیں گے۔ میرا کزن کو یقین تھا کہ معاملات کم از کم Go Slow تک تو ضرور جائیں گے۔ وہ پاکستان میں کئی ملٹی نیشنل اور نیشنل انڈسٹریل یونٹس میں کام کرچکا تھا اور ہڑتال کا مقامی مفہوم اچھی طرح جانتا تھا۔ اس نے بتایا کہ وہ اب منتظر تھا کہ باقاعدہ ہڑتال یعنی پاکستانی اندازکی ہڑتال شروع ہو گی تو ان ورکرزکے مطالبات پرکچھ غور وخوض شروع ہوگا مگر وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ کمپنی میں باقاعدہ ہنگامی حالات جیسا ماحول بن گیا۔ پلانٹ کے انچارج نے کمپنی کے بڑوں کو اطلاع کی، فوری طور پر انتظامیہ سر جوڑکر بیٹھ گئی، چیف ایگزیکٹوایک کانفرنس میں شرکت کے لیے بحرالکاہل کے کسی جزیرے میں تھا،اسے اطلاع کی گئی تو کانفرنس چھوڑکر چارٹر جہاز میں امریکہ گیا اور پہلی فلائٹ پکڑکر جاپان آگیا۔ اگلے روز ٹریڈ یونین سے مذاکرات ہوئے، مطالبات پرکچھ لین دین ہوا اور معاملہ حل ہوگیا۔ اگلے روزاسی طرح کام ہو رہا تھا، صرف کالی پٹیاں اتر چکی تھیں۔
ہم ملک کو ایک جاپانی کمپنی کی طرح بھی نہیں چلا رہے۔ جب عمران خان نے بازو پر کالی پٹیاں باندھیں تو ہم بے فکر رہے۔ جب وہ Go Slow پر گیا تو ہم اس کی بات سننے کے بجائے اس کاٹھٹھہ اڑاتے رہے۔ جب وہ ایک گھنٹے کی ہڑتال پر تھا تب بھی ہم اس کا مذاق اڑاتے رہے اور وزراء اس پر توہین آمیز جگتیں مارتے رہے۔ جب وہ صرف نعرے لگا رہا تھا حکومتی ٹیم اسے باقاعدہ چڑا رہی تھی کہ وہ کچھ نہیں کر سکتا۔ اگر اس میں کچھ کرنے کی ہمت ہے تو کر کے دکھائے۔ جب وہ استعفوں کی بات کرتا تھا تو اشتعال دلانے کے لیے کہا جاتاکہ آپ استعفے دینے والے بنیں، ہم ضمنی انتخابات کروا لیں گے۔ جب اس نے لانگ مارچ کا اعلان کیا تو وزیر اعلیٰ سے لے کر وزیر اطلاعات تک نے اس کا مذاق اڑایا۔ وزیر اعلیٰ نے کہا کہ لانگ مارچ لاہور میں ناکام ہوگیا ہے، پرویز رشید نے فرمایا کہ لانگ مارچ آب پارہ پر پارہ پارہ ہو جائے گا اور اسلام آباد میں بخارات بن جائے گا۔ کسی نے معاملات کو سنجیدگی سے ہی نہ لیا۔ پہلے بھاری مینڈیٹ نے برباد کیا اب طنز‘ طعنے‘ غیر ذمہ داری‘ تو ہین آمیز رویے اور اشتعال انگیز زبان کام دکھا رہی ہے۔اوپر سے وزیراعلیٰ ہر دوسرے دن آرمی چیف سے میٹنگ میں محض یہ اطمینان حاصل کرتے ہیں کہ فوج مداخلت نہیں کرے گی۔ فوج اب واقعتاً مداخلت نہیں کر رہی مگر اس کی مداخلت کے بغیر حالات کو تاہ نظر حکمرانوں سے حل نہیں ہو پارہے۔کل تک عمران خان بندگلی میں تھا اب حکمران بھی اسی صورت حال کا شکار ہیں۔
حکومت کی ساری غلطیاں ‘کمزوریاں اور کوتاہیاں اپنی جگہ مگر پچاس ساٹھ ہزار لوگوں کے ساتھ دارالحکومت پر قبضہ بہرحال کسی طور قابل قبول نہیں۔ اگر یہ روایت چل نکلی تو اس کا انجام عراق‘ شام اور لیبیا جیسا نکلے گا۔ پاکستان کے دشمن اسی انتظار میں ہیں کہ ملک میں خانہ جنگی ہو، وہ ہمارا ایٹمی پروگرام لپٹوا دیں اور جوہری اثاثے اٹھا کر لے جائیں۔ خدا نہ کرے کبھی ایسا ہو مگر سب کچھ اسی حساب سے ڈیزائن کیا جا رہا ہے۔ میاں صاحب کی غلطیاں اپنی جگہ مگر پاکستان سے بڑھ کر نہ تو کسی کی انا ہے اور نہ ہی سیاسی مستقبل ۔ مولانا عالمی ایجنڈے پر گامزن ہیں اور عمران خان حماقتوں کے گھوڑے پر سوار۔ میاں صاحبان نے بھی اس سارے عرصے میں نہ تو تجربوں سے کچھ حاصل کیا نہ اپنی جعلی انا اور ضد سے چھٹکارا حاصل کر پائے۔ دونوں اپنی اپنی بندگلی کے اسیر ہیں اور یہ گلیاں انہوں نے بڑی محنت سے خود بند کی ہیں۔کوئی ہے جوانا کے مارے ان دونوں فریقوں کو حکمت کے ساتھ بند گلیوں سے باہر لائے؟ میاں صاحب جوپیشکش آج کر رہے ہیں کل تک ان کے مشیران مطالبات کا مذاق اڑاتے تھے ۔ بزرگ کہتے تھے کہ جو مکا جنگ کے بعد یاد آئے اسے اپنے منہ پر مارنا چاہیے۔ٹی وی پر نظر آنے والے کئی چہرے دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نے یہ مکے اپنے منہ پر مار لیے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں