"KMK" (space) message & send to 7575

ہیگ کا لاہوری سیفی

چوبیس تاریخ کو میں ملتان سے لاہور پہنچا۔ پچیس اگست کو ہالینڈ کے شہر ایمسٹرڈیم میں تھا۔ چھبیس کو ''دی ہیگ‘‘ میں تھا۔ وہاں مشاعرہ تھا جس کا اہتمام پاک ڈچ فورم نے کیا تھا۔ ستائیس کو بلجیم کے دارالحکومت برسلز میں مشاعرہ تھا۔ اٹھائیس کو واپس دی ہیگ میں تھا اور آج انتیس اگست کو یہ کالم ایمسٹر ڈیم ایئرپورٹ پر بیٹھ کر لکھ رہا ہوں۔ انشاء اللہ کل لاہور ہوں گا۔ چار دن اور چار راتوں میں ہر دن نئے شہر میں اور ہر رات نئے کمرے میں گزار کر جب آج پاکستان روانہ ہونے والا ہوں‘ وہاں کا منظر نامہ نہ صرف یہ کہ بالکل اسی جگہ پر کھڑا ہے جہاں چھوڑ کر روانہ ہوا تھا بلکہ اب تیسرے فریق یعنی آرمی کا پھڈا بھی درمیان میں ''ڈالا‘‘ جا چکا ہے۔ میں نے یہ لفظ ''ڈالا جا چکا ہے‘‘ اس لیے لکھا ہے کہ اب فوج خود کسی پھڈے میں ٹانگ اڑانے کے لیے بالکل تیار نہیں مگر جمہوریت کے نام لیوا سیاست دان اسے زبردستی گھسیٹ گھساٹ کر درمیان میں لے آئے ہیں اور اب معاملہ یہاں آن اٹکا ہے کہ فوج سے گواہی مانگی جا رہی ہے کہ حکومت نے فوج کی منت کی تھی کہ وہ درمیان میں پڑے یا دھرنے بازوں نے اسے درخواست کر کے اپنی مدد کے لیے بلایا ہے۔ یہ عاجز تقریباً تیرہ ہزار کلومیٹر سے زائد سفر کر کے جب پاکستان پہنچے گا تو سیاستدانوں نے ایک انچ کا سفر بھی آگے نہیں کیا ہوگا البتہ سفر معکوس کی کئی منزلیں ضرور طے کر لی ہوں گی۔ 
میں نے چودھری نثار علی خان کی طویل وضاحت نما تقریر‘ سید خورشید شاہ کی اسمبلی میں کی جانے والی جلسہ نما پرجوش تقریر‘ چادر پوش محمود اچکزئی کا جمہوریت کے درد میں لت پت ''دو منٹی‘‘ خطاب اور وزیراعظم میاں نوازشریف کی خورشید شاہ کی مدح سرائی بھری تقریر اعجاز سیفی کے گھر میں سنی۔ وہیں بیٹھے بیٹھے ڈاکٹر طاہرالقادری کا جواب در جواب قسم کا خطاب بھی سنا۔ علم غیب سے قطعی محروم یہ عاجز یہ تو نہیں سمجھ سکا کہ کون سا فریق سچ بول رہا ہے مگر یہ ضرور جانتا ہے کہ کوئی ایک فریق جھوٹ ضرور بول رہا ہے۔ اب اس سچ اور جھوٹ کے نتارے کی ذمہ داری آئی ایس پی آر پر ڈالی جا رہی ہے اور اگر یہ وضاحت آ گئی تو ایک اور فساد ہمارا منتظر ہے۔ یعنی مزید خرابی اور کچھ جگ ہنسائی۔ 
ایمسٹرڈیم ایئرپورٹ کے باہر اعجاز سیفی میرا منتظر تھا۔ پاک ڈچ نیشنل فورم کا جنرل سیکرٹری اعجاز سیفی مفرور جیالا ہے۔ میرا مطلب ہے تائب شدہ جیالا ہے۔ بھٹو کا شیدائی تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے عقل سلیم عطا کی ہوئی تھی لہٰذا جب یہ دیکھا کہ اب پیپلز پارٹی وہ نہیں رہی جیسی کبھی ہوتی تھی اور اب لیڈر اس کے بالکل الٹ ہیں جیسی وہ توقع کرتے تھے تو اس مصیبت کو مزید گلے لگانے کے بجائے یہ وزن اٹھا کر ایک طرف رکھ دیا۔ اب بھی ترقی پسند نظریات کا حامل ہے‘ فیض کا شیدائی ہے لیکن ''ایشیا سرخ ہے اور ایشیا سبز ہے‘‘ جیسی حماقتوں پر ہنستا ہے۔ گزشتہ تین عشروں سے ہالینڈ میں ہے مگر پکا لاہوری ہے۔ سرتاپا لاہوری۔ پاک ڈچ نیشنل فورم سال میں تین تقریبات کرتا ہے۔ تیئس مارچ کے حوالے سے ہالینڈ میں یوم پاکستان مناتے ہیں اور وہاں کے نوجوانوں کی نمایاں تعلیمی کامیابیوں پر انہیں انعامات دیتے ہیں۔ جس میں خالص سونے پر مشتمل میڈل بھی شامل ہیں۔ نومبر میں علامہ اقبال کے حوالے سے اقبال ڈے مناتے ہیں جس میں علامہ اقبال پر تحقیقی اور علمی گفتگو کرنے اور مقالہ پڑھنے کے لیے کسی دانشور اور محقق کو مدعو کرتے ہیں اور مقامی شعراء کے ساتھ ایک بھرپور مشاعرہ کرتے ہیں اور یوم آزادی کے حوالے سے اگست میں کسی ایک شاعر کو پاکستان سے بلا کر اس کے ساتھ شام مناتے ہیں۔ اس بار میں ان کا مہمان تھا۔ اس سے قبل وہ افتخار عارف‘ انور مسعود اور امجد اسلام امجد کے علاوہ دیگر شعراء کو بھی ہالینڈ بلا چکے ہیں۔ 
مشاعرے کے بارے میں صرف یہی کہوں گا کہ مشاعرہ بھرپور اور جاندار تھا۔ البتہ ایک بات تھوڑی سی خلاف معمول تھی اور وہ یہ کہ ہیگ میں پاکستانی ایمبیسی کی شرکت بڑی بھرپور تھی۔ یہ کم از کم میرے لیے تھوڑی حیرانی کی بات تھی۔ عموماً پاکستانی سفارت خانے ایسی تقریبات سے غیر متعلق رہتے ہیں۔ ہاں یہ ضرور ہوتا ہے کہ صرف سفیر محترم یا قونصل جنرل صاحب مہمان خصوصی ہوں تو آ جاتے ہیں مگر سفارت خانہ مجموعی طور پر ایسی تقریبات سے لاتعلق رہتا ہے۔ کبھی کبھی استثنائی صورت پیدا ہو جاتی ہے اور اس کی وجہ صرف یہ ہوتی ہے کہ سفیر یا قونصل جنرل وغیرہ کو خود ادب اور شعر و شاعری سے کوئی شغف ہو اور وہ اپنی اندر کی محبت کے زور پر ایسی تقریبات میں آ جائیں تو اور بات ہے۔ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو عموماً اپنے سفارت کاروں اور سفارت خانے سے شکوے کرتے ہی سنا ہے اور بعض جگہوں پر خود بھی دیکھا ہے کہ پاکستانی سفارت خانے پاکستانیوں کے تقریباً ''ریڈزون‘‘ کی طرح ہوتے ہیں اور سہولتیں فراہم کرنے کے بجائے باعثِ آزار ہوتے ہیں مگر ہیگ میں مقیم پاکستانیوں کو موجودہ سفیر معظم احمد خان اور دیگر سفارتی عملے خصوصاً طارق کریم اور فراز کے بارے میں رطب اللسان پایا مگر سب سے زیادہ حیران کن بات یہ تھی کہ تمام پاکستانیوں کو ہالینڈ میں پاکستان کے سابقہ سفیر اعزاز صاحب کے لیے محبت میں ڈوبا ہوا اور نیک تمنائوں سے لبریز پایا۔ کسی سابق سفارت کار کے بارے میں ایسے جذبات کا تجربہ کم از کم میرے مشاہدے میں تو کبھی نہیں آیا تھا۔ 
ہالینڈ کا دارالحکومت ایمسٹرڈیم ہے مگر سارے سفارت خانے اور دیگر اہم دفاتر ہیگ میں ہیں۔ پاکستانی سفارت خانہ‘ عالمی عدالت انصاف‘ کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے جرائم کی عدالت اور جنگی جرائم کے لیے قائم عدالتیں سب ہیگ میں ہیں۔ ہالینڈ کی پارلیمنٹ بھی ہیگ میں ہی ہے اور دارالحکومت نہ ہوتے ہوئے بھی اہمیت کے اعتبار سے ایمسٹرڈیم سے بڑھ کر ہے۔ ہیگ کو انگریزی میں ''دی ہیگ‘‘ لکھا جاتا ہے اور مقامی ڈچ زبان میں لوگ اسے ''ڈن ہاگ‘‘ کہتے ہیں۔ ہالینڈ کی آبادی تقریباً ایک کروڑ بیس لاکھ کے قریب ہے اور ملک کا بیشتر حصہ سطح سمندر سے نیچے ہے۔ زمین کا بہت سا حصہ ہوائی چکیوں کی مدد سے پانی نکال کر حاصل کیا گیا ہے۔ زمین زرخیز ہے اور مصنوعی گرین ہائوسز میں موسم کنٹرول کر کے سبزیاں‘ پھل اور پھول بڑی مقدار میں حاصل کیے جاتے ہیں۔ صرف پھولوں کی روزانہ برآمد لاکھوں ڈالر میں ہے۔ گوشت اور ڈیری مصنوعات کے حوالے سے ہالینڈ دنیا بھر میں اپنا مقام رکھتا ہے۔ دنیا میں سب سے زیادہ پھول ایکسپورٹ کرنے والا ملک ہے۔ ہیروں کی تراش خراش کے بعد فروخت کی سب سے بڑی مارکیٹ بھی ہالینڈ میں ہے۔ گزشتہ ایک صدی سے اس ملک پر ''ملکہ‘‘ کی حکومت تھی۔ یہ ایک ملکہ نہیں تھی بلکہ تین نسلوں تک بیٹی حکمران بنتی رہی۔ ملکہ بیٹرس‘ اس سے پہلے ملکہ کی والدہ اور اس سے پہلے اس کی نانی ملکہ تھی۔ ملکہ بیٹرس کئی عشروں تک ہالینڈ کی ملکہ رہنے کے بعد کچھ عرصہ قبل اپنے بیٹے کے حق میں دستبردار ہو گئی ہے۔ موجودہ بادشاہ کے بعد پھر اس کی بیٹی ملکہ بن جائے گی۔ 

میں اور سیفی ہیگ میں گھوم رہے تھے۔ سامنے سے سانولے رنگ کا ایک شخص شاپنگ بیگ اٹھائے ہوئے آ رہا تھا۔ دونوں نے سلام دعا کی اور اپنی اپنی راہ پر چل پڑے۔ سیفی نے بتایا یہ مسٹر چندو ہیں۔ پارلیمنٹ کے ممبر۔ پھر بتانے لگا کہ یہ تو صرف ممبر پارلیمنٹ ہیں‘ یہ بھی ممکن ہے کہ چوک میں ہمیں ہالینڈ کا وزیراعظم خریداری کرتا نظر آ جائے یا سامنے والی سڑک پر سائیکل چلاتا دکھائی دے جائے۔ موجودہ وزیراعظم سکول ٹیچر تھے اور اب بھی ہفتے میں ایک آدھ دن کلاس لیتے ہیں۔ اگلے چوک سے گزرے تو ایک عمارت کی طرف اشارہ کر کے بتایا کہ یہ پارلیمنٹ ہائوس ہے۔ نہ کوئی سپاہی تھا‘ نہ رینجرز۔ نہ کوئی ناکہ لگا ہوا تھا اور نہ ہی کوئی رکاوٹ تھی۔ غرض کسی طرح بھی یہ پارلیمنٹ ٹائپ عمارت نہیں لگ رہی تھی۔ مین دروازے کے سامنے ایک کھلا میدان تھا۔ جس کے درمیان ایک چبوترہ تھا اور اردگرد درخت تھے۔ درمیان میں پتھروں کے فرش والا میدان تھا‘ سیفی بتانے لگا کہ یہاں لوگ مظاہرے کرتے ہیں۔ بینر اٹھا کر اپنے مطالبات حکومت تک پہنچاتے ہیں۔ نہ کبھی الیکشن میں دھاندلی کی شکایت ملی ہے اور نہ ہی کسی نے چودہ ماہ تک الیکشن کمیشن اور عدالتوں میں ناک رگڑے ہیں۔ نہ ہی کوئی عوامی شکایات کو ایک سال تک لٹکاتا ہے اور نہ ہی اس میدان میں کسی کو دھرنا دینے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ پھر ملال سے کہنے لگا۔ ہمارا عجیب معاملہ ہے۔ رہتے یہاں ہالینڈ میں ہیں اور فکر پاکستان کی کرتے ہیں۔ یہاں ہمیں سکیورٹی‘ روزگار‘ امن و امان اور انصاف کا کوئی مسئلہ نہیں مگر جب انہی معاملات پر پاکستان پر نظر ڈالتے ہیں تو صورت حال بالکل الٹ نظر آتی ہے۔ یہ چھوٹا سا ملک ہے مگر خوشحال اور پُرامن ہے۔ ترقی کی منزلیں طے کر رہا ہے اور سیاسی استحکام ہے۔ ادھر پاکستان میں نہ امن و امان ہے‘ نہ خوشحالی۔ نہ عدل و انصاف ہے‘ نہ روزگار۔ نہ ترقی ہو رہی ہے اور نہ سیاسی استحکام پیدا ہو رہا ہے۔ یہاں کی ترقی میں غیر ملکیوں کا بشمول پاکستانیوں کے بہت بڑا حصہ ہے۔ ہم یہاں محنت کر سکتے ہیں تو پاکستان میں کیوں نہیں کر سکتے؟ معاملہ صرف اور صرف لیڈر شپ کا ہے‘ قیادت کا ہے‘ خلوص کا ہے اور ترجیحات کا ہے۔ ہاں کیا کچھ نہیں ہے؟ محنتی لوگ ہیں۔ زرخیز زمین ہے۔ معدنی خزانے ہیں۔ مگر حکمران؟ پھر سیفی خاموش ہو گیا۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں