"KMK" (space) message & send to 7575

مکالمہ …II

تو کیا ہم آئندہ بھی انہی دو پارٹیوں میں‘ جو آپس میں ملی بھگت کر کے باری باری قوم کا استحصال کر رہی ہیں‘ پھنسے رہیں گے؟کیا پاکستان میں تبدیلی کے امکانات معدوم ہو گئے ہیں؟یہ سوال کرتے ہوئے میری بیٹی تقریباً روہانسی ہو گئی۔میں نے کہا: ''بیٹا!یہ مایوسی ہے اور مایوسی کفر ہے۔ ممکن ہے اللہ تعالیٰ کو اس میں بہتری مقصود ہو۔ ممکن ہے اس دھکے سے عمران خان سبق حاصل کر لے۔وہ فائٹر ہے ۔کسی معرکے یعنی Battleمیں ہارنے کا مطلب یہ نہیں کہ جنگ یعنی Warمیں شکست ہو گئی ہے۔اس کے پاس ابھی بڑا وقت ہے۔ اس غلطی سے سبق لینے کا۔ہوائی اندازے لگانے سے احتیاط کرنے کا۔ادھر ادھر کے لکھے ہوئے سکرپٹوں پر مہم جوئی‘ کرنے سے محتاط رہنے کا۔ شیخ رشید اور طاہر القادری جیسے لوگوں سے مستقبل میں بچنے کا۔اپنی پارٹی کو نئے سرے سے منظم کرنے کا۔بوجھ ٹائپ لوگوں سے چھٹکارا حاصل کرنے کا۔اپنی پارٹی میں موجود جلد بازوں سے جان چھڑانے کا۔پیسے کے زور پر پارٹی عہدوں پر قبضہ کرنے والوں سے قبضہ چھڑانے کا اور گھروں میں بیٹھ کر چوری کھانے والوں کو پہچاننے کا‘‘۔ 
اسے عملی سیاست میں پہلی بار یہ پتہ چلا کہ جلسوں میں شرکت کرنے والے اور لانگ مارچ کرنے والے دو بالکل علیحدہ قبیلوں سے متعلق لوگ ہیں۔صرف ملتان کی حد تک بات کروں تو پتہ چلتا ہے کہ شاہ محمود قریشی نے جن دو قومی اسمبلی کے حلقوں سے الیکشن لڑا تھا‘ وہاں اس کے نیچے الیکشن لڑنے والے صوبائی اسمبلی کے 
چار حلقوں میں سے ایک حلقے میں پی ٹی آئی کا امیدوار جاوید انصاری جیتا تھا۔ وہ گزشتہ دس دن سے ملتان میں پھر رہا ہے۔ شنید ہے آج اسلام آباد جائے گا۔ایک امیدوار میمونہ ہاشمی تھی۔ دیگر دو امیدوار پی پی201سے عباس راں اور پی پی196سے رانا عبدالجبار تھے۔یہ دونوں اصحاب ملتان پھر رہے ہیں۔ جاوید ہاشمی کے خلاف پریس کانفرنس کرنے والے ہم خیال گروپ کے رہنما خالد خان خاکوانی‘ ندیم قریشی ‘میجر مجیب اور اعظم خاکوانی وغیرہ اسلام آباد گئے ہی نہیں۔ پی ٹی آئی ملتان کی صدارت کا امیدوار خالد جاوید وڑائچ‘ جو شاہ محمود کا بالکا ہے‘ بھی یہیں پھر رہا ہے۔اب بھلا بتائو دھرنا کیسے کامیاب ہوتا؟ ملین مارچ کس طرح بنتا؟حتیٰ کہ ملتان پی ٹی آئی کا صدر اعجاز جنجوعہ بھی کافی دن سے یہیں دیکھا جا رہا ہے۔
عمران خان نے اپنی ساری گیم خود مشکوک کی ہے۔ ڈاکٹر طاہر القادری سے ہر بات میں یکسانیت بھلا اتفاق ہو سکتی ہے؟ لاہور سے ایک ہی دن روانگی۔ اسلام آباد ایک ہی دن پہنچنا۔ریڈ زون میں ایک ہی دن داخل ہونا۔وزیر اعظم ہائوس اور اسمبلی کی جانب ایک ہی وقت میں مارچ کرنا۔کیا اتنے سارے معاملات اتفاق ہو سکتے ہیں؟پھر ڈاکٹر طاہر القادری جیسے ہائی فائی ٹیکنالوجی 
کے حامل مولانا کا سائونڈ سسٹم خراب ہونا اور دونوں دھرنا بازوں کا باہم گلے ملنا۔یہ سب اتفاقات ہیں تو بڑے فلمی اتفاقات ہیں۔ ڈاکٹر طاہر القادری سے ملاپ اور شیخ رشید سے مشورے۔جمہوری سیاست سے لاتعلق اور آئین سے منکر ڈاکٹر طاہر القادری سے ہتھ جوڑی اور ٹی وی ٹاک شوز کے پاپولر کردار سے مشاورت۔ ان حرکتوں کی عمران سے توقع کی جا سکتی تھی؟
میری بیٹی کے پاس ابھی کافی دلائل باقی تھے۔کہنے لگی‘ جاوید ہاشمی نے الزام لگایا ہے کہ عمران خان ''بیج‘‘ والوں کے اشارے پر چل رہا ہے۔پہلی بات تو یہ ہے کہ عمران کسی کے اشارے پر نہیں چل سکتا‘ اور اگر وہ ان کے اشارے پر چل رہا تھا تو پھر کامیاب کیوں نہیں ہوا؟میں نے کہا: جان پدر! سکرپٹ لکھنے والے بندے تو اکٹھے نہیں کر سکتے۔ اگر کر بھی لیں تو لاکھوں تو نہیں کر سکتے۔ پھر عمران اسلام آباد جا کر بھی پکارتا رہا کہ آجائو مگر کیا ہوا؟رات کو دو چار ہزار لوگ آ جاتے تھے اور دن کو گھروں کو چلے جاتے تھے اور لیڈر فائیو سٹار ہوٹلوں یا پارلیمنٹ لاجز میں چلے جاتے تھے۔ اور ویسے بھی اب پاکستان تبدیل ہو رہا ہے۔ کم ازکم اب اسی اور نوے کی دہائی کی طرح ایجنٹ آسانی سے نہیں ملتے۔ اسمبلی کی اکثریت توڑ لی‘ منظوروٹو کی اقلیت کو اکثریت میں بدل دیا اور لمحہ بھر میں فارورڈ بلاک بنوا لیے۔اب آہستہ آہستہ سول سوسائٹی‘عدلیہ اور ووٹروں نے اس پر تھوڑی بہت مزاحمت شروع کر دی ہے۔ رہ گئی اشارے کی بات کہ عمران اشارے پر نہیں چلتا۔مجھے بھی یہی گمان تھا۔لیکن صرف یہ بتائو یہ عمران کس امپائر کی بات کرتا تھا‘ جس نے ہفتے والے دن انگلی کھڑی کرنی تھی؟ جس نے کل انگلی کھڑی کرنی تھی۔ جس نے پرسوں انگلی کھڑی کر نی تھی؟ میری بیٹی کہنے لگی‘ ممکن ہے اس کی مراد عوام ہو۔میں نے کہا تو کیا عوام کا نام لینا ممنوع تھا؟یہ کون سا امپائر تھا جس کا نام لینا منع تھا؟
میری بیٹی دکھی ہو کر کہنے لگی‘ کیا عمران کا سیاسی مستقبل ختم ہو گیا ہے؟ میں نے کہا: نہیں۔ہرگز نہیں۔ جب تک میاں نواز شریف اپنی اس ٹیم کے ساتھ اقتدار میں ہیں‘ عمران کا مستقبل اتنا ہی روشن ہے جتنا کہ تھا۔وہ باصلاحیت ہے۔پُراعتماد ہے۔ہمت والا ہے اور پلٹ کر لڑناجانتا ہے۔وہ ہارے ہوئے میچ کو جیتنے کی صلاحیت رکھتا ہے مگر اسے اب اس بدترین تجربے سے سیکھنا ہو گا۔ویسے ہی جیسا وہ پہلے کر چکا ہے۔میری بیٹی پوچھنے لگی‘ اس نے پہلے کیا کیا تھا؟میں نے کہا‘ تم نے ایک نجی ٹی وی پر عمران کا ایک پرانا کلپ دیکھا ہے؟وہ کہنے لگی‘ کیسا کلپ؟ میں نے کہا‘ یہ انگلینڈ میں ٹیسٹ میچ کا پرانا کلپ ہے۔ جس میں عمران بیٹنگ کر رہا تھا اور امپائر نے اسے ایل بی ڈبلیو قرار دیتے ہوئے انگلی اٹھائی۔ عمران پہلے پچ پر کھڑا رہا پھر وہ منہ میں بڑبڑاتا رہا۔زمین کو ٹھڈے مارے‘ گلوز اتار کر زمین پر مارے‘ پھر بیٹ زمین پر دے مارا۔ ٹی وی نے دراصل یہ بتانے کی‘ لوگوں کو تاثر دینے کی کوشش کی کہ عمران میں سپورٹسمین سپرٹ نہیں۔آئوٹ ہو جائے تو تسلیم کرنے کے بجائے ''روندیوں‘‘ پر اتر آتا ہے۔لیکن یہ پروپیگنڈا آدھا سچ ہے۔ عمران نے اس کے بعد کرکٹ میں نیوٹرل امپائر کی جنگ لڑی اور فاتح ٹھہرا۔آج کرکٹ میں جو یہ نیوٹرل امپائر ہوتا ہے‘ یہ عمران کا کارنامہ ہے۔ اگر اب عمران نیوٹرل امپائر کا یعنی اصلاح شدہ انتخابی نظام‘ صاف شفاف الیکشن کمشن‘ بائیو میٹرک ووٹنگ سسٹم اور دھاندلی سے پاک انتخابات کا انعقاد یقینی بنانے میں کامیاب ہو گیا تو تاریخ بھی اسے یاد رکھے گی اور حال بھی اس کا کریڈٹ اسی کی جھولی میں ڈالے گا۔وزیر اعظم کا استعفیٰ اس کامیابی کے آگے رتی بھر کی اہمیت نہیں رکھتا۔ یہ پاکستان کی انتخابی سیاست میں ایک ایسا سنگ میل ہو گا جس کے بعدالیکشن چوری کرنا شاید ناممکن ہو جائے گا۔بھلا اس سے بڑھ کر قوم پر کوئی احسان اور کیا ہو سکتا ہے؟ 

میری بیٹی کہنے لگی‘ عمران خان کو یہ باتیں کوئی بتاتا کیوں نہیں؟میں نے کہا‘ بتانے والے آہستہ آہستہ کنارہ کر گئے ہیں۔کپتان اول تو کسی کی سنتا نہیں اور اگر سنتا ہے تو مانتا نہیں۔یہ سیاست ہے ۔وہ ابھی تک گیارہ کھلاڑیوں کی ٹیم اور ایک مقتدر کپتان کے تصور سے باہر نہیں نکل رہا۔ سمجھانے والے فرض کفایہ ادا کر کے رخصت ہو گئے ہیں۔ اب شاہ محمود ہیں۔ جہانگیر ترین ہیں۔ شیخ رشید ہیں اور ڈاکٹر طاہر القادری ہیں۔ میری بیٹی کہنے لگی‘ اب کیا ہونا چاہیے؟میں نے کہا‘ سبق حاصل کرنا چاہیے۔عمران خان کو یہ سبق لینا چاہیے کہ کسی کے اشارے پر نہیں چلنا۔وہ خود کرشماتی لیڈر ہے۔ اسے کسی دائیں بائیں والے کی بیساکھیوں کی ضرورت نہیں۔اسے رگڑا لگایا گیا ہے کہ کوئی جینوئن لیڈر واقعتاً عوامی حمایت سے سسٹم تبدیل کرنے کے لیے نہ آ جائے۔سبق ہے سکرپٹ لکھنے والوں کے لیے کہ سول سوسائٹی نے ان کے لکھے ہوئے سکرپٹ کی شوٹنگ کے رنگ میں بھنگ ڈال کر ثابت کر دیا ہے کہ اب معاملات اس طرح نہیں چلیں گے اور سب سے بڑا سبق تو میاں نواز شریف کے لیے ہے کہ اب دھاندلی‘ انجینئرنگ ‘ عوام کے استحصال اور دو فیصد لوگوں کی طرف سے قوم کو یرغمال بنانے کا دور آخری دموں پر ہے اور اب ان کے پاس مزید غلطی کی گنجائش نہیں ہے، لیکن درستی کی کوئی امید بھی نہیں ۔ ماضی کو سامنے رکھیں تو میرا اندازہ ہے میاں صاحب عادتیں نہیں چھوڑ سکتے۔ جلد ہی وہ مسائل کا شکار ہو جائیں گے۔ اب کی بار پارلیمنٹ بھی ان کے ساتھ اس طرح کھڑی نہیں ہو گی جیسی اس بار کھڑی ہوئی ہے اور الیکشن 2018ء سے بہرحال پہلے ہوں گے۔ میری بیٹی کہنے لگی: میں پھر عمران خان کو ووٹ دوں گی۔ میرا بیٹا کہنے لگا‘ اگر الیکشن جلدی ہوگئے تو میرا ووٹ تب تک بھی نہیں بنے گا ۔ لیکن جب بھی بنا‘ میں ووٹ عمران خان کو دوں گا۔میں نے ہنس کر اپنی بیٹی کی طرف دیکھا اور کہا: یہ عمران خان کا مستقبل ہے۔ وہ بھی خوشی سے ہنس پڑی۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں