"KMK" (space) message & send to 7575

ہجر ہے میرے چار سو

آج اکیس اکتوبر ہے۔ اسے آج رخصت ہوئے دو سال پورے ہو گئے ہیں۔ دو سال یعنی سات سو تیس دن۔ سترہ ہزار پانچ سو بیس گھنٹے۔ اسی حساب سے منٹ اور چھ کروڑ تیس لاکھ بہتر ہزار سیکنڈ۔ لیکن یہ سارا حساب سرے سے ہی غلط ہے۔ اس کے جانے سے سارا حساب کتاب ہی غلط ملط ہو گیا ہے۔ مہ و سال کا سارا معاملہ الٹ پلٹ ہو گیا ہے۔ چھبیس سال چھ ماہ اور سترہ دن۔ ایسے لگتا ہے چند دن میں گزر گئے تھے۔ اور اس کے بعد والے دو سال! اس کا تو کچھ بھی ٹھیک نہیں۔ کبھی لگتا ہے ایک لمحہ پہلے ہی میں اس کے سرہانے ہسپتال میں کھڑا تھا اور کبھی لگتا ہے کہ اس بات کو صدیاں نہیں تو عشرے ضرور بیت گئے ہیں۔ کبھی تو یہ ہوتا ہے کہ میں اسے حسب عادت باتھ روم سے تولیے کے لیے آواز دیتا ہوں ،مجھے گمان بھی نہیں ہوتا کہ وہ چلی گئی ہے اور کبھی یوں لگتا ہے کہ وہ شاید اس گھر میں کبھی تھی ہی نہیں۔ میں خواب میں دیکھتا ہوں تو کبھی لگتا ہی نہیں کہ وہ جا چکی ہے اور آنکھ کھلے تو سوچتا ہوں کہ وہ کبھی تھی بھی یا محض خواب کا معاملہ ہے؟ کبھی یوں کہ تصویر آنکھوں میں ہے اور کبھی ایسا کہ سوچ سوچ کر تھک جائوں مگر تصور کا پردہ دل کی طرح خالی رہے۔ 
میں اس وقت لاس اینجلس میں ہوں۔ تنہا اور اکیلا۔ اتنا اکیلا کہ کبھی اس کا تصور بھی نہیں کیا تھا۔ جمعہ‘ ہفتہ اور اتوار تین دن مشاعرے ہوتے ہیں اور سوموار‘ منگل‘ بدھ اور جمعرات فارغ۔ یہ چار دن عذاب کے دن ہوتے ہیں، کاٹے نہیں کٹتے۔ منتظمین نے اعلیٰ ہوٹلوں میں بندوبست کیا ہے۔ میریٹ‘ ریڈیسن‘ ہالیڈے ان اور ہلٹن۔ مگر دل کاہے کو کہیں لگے؟ پندرہ اکتوبر کی صبح نیویارک پہنچا۔ پہلا مشاعرہ سترہ کو تھا۔ دو دن کیسے کٹتے؟ نیویارک سے اسی دن واشنگٹن چلا گیا۔ کوئی کام نہیں تھا۔ بس رانجھا راضی کرنا تھا۔ شیخ عمر کے پاس چلا گیا ۔رات گئے تک باتیں کیں۔ اگلا سارا دن اس کے ساتھ سڑکیں ناپیں۔ سفارت خانے گیا۔ شیخ عمر اور ندیم ہوتیانہ نے دوستوں کی محفل لگا دی۔ دل کا رانجھا دوستوں میں اس طرح بہلایا کہ بمشکل ایئرپورٹ پہنچا۔ فلائٹ نکلنے والی تھی۔ دوڑ بھاگ کر جہاز پر چڑھا اور رات گئے واپس نیویارک آ گیا۔ ایک اور سرد اور لمبی رات وہاں میری منتظر تھی۔ نیویارک‘ ڈیٹرائٹ اور فلاڈلفیا کے مشاعروں کے بعد پھر چار دن۔ فراغت کے چار دن اور چار راتیں۔ مشاعرہ رات بارہ بجے ختم ہوا۔ دو بجے بمشکل نیند آئی۔ صبح چھ بجے اٹھ کر تیاری پکڑی۔ ایئرپورٹ دوڑ لگائی۔ دو فلائٹیں تبدیل کیں اور گیارہ گھنٹے بعد میں لاس اینجلس میں تھا شفیق کے پاس۔ یہ چار دن ہوٹل کی بے جان سرد دیواروں کے درمیان کاٹنا ممکن نہیں تھا۔ 
کبھی سفر میرا شوق تھا مگر اب! مجھے تو خود اب پتہ چلا ہے کہ اب سفر میرا شوق نہیں ہے ۔دل لگانے کا یا بہلانے کا بہانہ ہے۔ میں اب سفر میں خوش نہیں رہتا ۔بس دن گزارتا ہوں۔ دن مسافرت میں بہرحال کسی طور کٹ جاتا ہے وگرنہ دم گھٹ جاتا۔ سچ پوچھیں تو اب یہ سفر نہیں فرار ہے۔ دیکھیں کب تک پھولے ہوئے سانس کے ساتھ یہ سفر جاری رہتا ہے۔ رہے نام اللہ کا۔ 
ڈاکٹر اشفاق ناصر کا شعر ہے ؎ 
تیری صورت سے نہیں ملتی کسی کی صورت 
ہم جہاں میں تیری تصویر لیے پھرتے ہیں 
لیکن میرا معاملہ مختلف ہے۔ نگری نگری پھرتے اس کی صورت سے کسی کی صورت ملانے کی حماقت کا کبھی خیال بھی نہیں آیا۔ اس کی صورت سے کسی کی صورت کا ملنا ممکن ہی نہیں کہ اس کی صورت جب بھی خیال میں لانے کی کوشش کرتا ہوں،اس کی صورت اور آس پاس کا سارا منظر دھندلا پڑ جاتا ہے۔ 
ہماری شادی روایتی سی شادی تھی اور خاموشی سے ہو گئی۔ وہ یونیورسٹی میں مجھ سے جونیئر تھی۔ میرا شعبہ اولڈ کیمپس میں تھا اور اس کا نیوکیمپس میں۔ میری اس سے شادی سے پہلے آپس میں بات چیت کی تو بھلی پوچھیں ،باقاعدہ منگنی کے بعد کل اتنی گفتگو ہوتی تھی کہ اگر اس کے بڑے بھائی کو جو میرا لڑکپن کا دوست تھا کبھی فون کیا اور دوسری طرف سے فون اس نے اٹھا لیا تو میرے السلام وعلیکم کے جواب میں اس نے و علیکم السلام کہا اور دوسرا جملہ یہ کہا کہ میں احسان کو بلاتی ہوں۔ کبھی تیسرے جملے کی نوبت ہی نہ آئی۔ لیکن شادی کے بعد یوں ہوا کہ ایسی دھانسو دوستی ہوئی کہ لو میرج والوں کی بھی کیا ہوتی ہوگی۔ عزیز رشتے دار اور ملنے جلنے والوں کو جب پتہ چلتا کہ ہم ایک ہی یونیورسٹی میں تھے تو فوراً اندازہ لگاتے کہ لو میرج ہوگی۔ پہلے میں نے تردید کرنے کی کوشش کی، پھر مزے لینے شروع کردیے۔ وہ تو ہمیشہ سے ایڈونچر پسند تھی۔ وہ بھی اس مزے سے مسکراتی کہ میری بات پر ادھورا یقین کرنے والے اس کی مسکراہٹ دیکھ کر پورا یقین کر لیتے۔ 
میرے دوستوں کا خیال تھا کہ مجھے محبت کرنے کا نہ تو سلیقہ ہے اور نہ ہی طریقہ۔ بلکہ ان کا خیال تو تھا کہ میرے اندر یہ جذبہ سرے سے ہے ہی نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ میرا مینوفیکچرنگ فالٹ ہے اور ایسے نقص کا کوئی علاج نہیں ہوتا۔ دو سال پہلے تک میں اپنے دوستوں کی بات سے اگر متفق نہیں بھی تھا تو کم از کم اس کی تردید بھی نہیں کرتا تھا مگر اب معاملہ دوسرا ہے۔ میں نے محبت تو کی مگر نہایت بدسلیقہ انداز میں۔ یعنی اس کا کبھی اظہار نہ کیا۔ میں اظہار کے معاملے میں سدا سے ہی ایسا ہوں۔ نہ کبھی وقت پر اظہار کیا اور نہ ہی کسی مناسب موقعہ پر۔ اب بھلا اس کے جانے کے بعد اقرار کرنا کون سی محبت کا اظہار ہے؟ لیکن میں نے کہا ہے ناں کہ میں اس معاملے میں پیدائشی طور پر بدسلیقہ آدمی ہوں۔ اور ایمانداری کی بات تو یہ ہے کہ مجھ سے یہ محبت بھی غلطی سے ہو گئی تھی۔ اگر نہ ہوئی ہوتی تو کتنا اچھا ہوتا۔ مجھے یہ روگ لے کر نگری نگری ایسے تو نہ گھومنا پڑتا۔ لیکن ہونی کو کون روک سکتا ہے۔ 
ان دو سالوں نے میری زندگی کے پانچ عشروں کے سارے تجربے‘ تجزیے‘ خیالات اور عادتیں، سب کچھ بدل کر رکھ دیا ہے۔ میں ناشتے کے بارے میں بڑا حساس تھا۔ اب مجھے اس کی کبھی پروا بھی نہیں ہوتی۔ ناشتے پر کیا کھانا ہے اور کیا نہیں کھانا۔ یہ زندگی موت کا مسئلہ تھا ،اب سرے سے کوئی مسئلہ ہی نہیں۔ ایسی ایسی عادتیں اور چیزیں چھوڑی ہیں جن کے بارے میں مجھے یقین تھا کہ میں انہیں مرتے دم تک نہیں چھوڑ سکتا مگر اب حیران ہوتا ہوں کہ یہ سب چیزیں اتنی آسانی سے چھوٹ گئیں کہ یقین مشکل ہے۔ مگر اس کے لیے میں نے جو قیمت ادا کی ہے میں نے اس کا بھی بھلا کب سوچا تھا؟ 
وہ بھی بجھا بجھا سا ہے، دل بھی بہل نہیں رہا 
لیکن میرا خیال ہے‘ اب کوئی حل نہیں رہا 
میں نے تیرے بغیر بھی جی کے دکھا دیا تجھے 
دیکھ تیرے بغیر بھی کام تو چل نہیں رہا 
یہاں لاس اینجلس میں اپنے تئیں دل لگانے آیا ہوں مگر دل کا معاملہ بھلا کب اختیار میں رہا ہے۔ شفیق سے زیادہ اچھی کمپنی بھلا کسے مل سکتی ہے مگر دل کی ویرانی! دوستوں کی محفل میں بھی ہجر اور تنہائی۔ بعض چیزیں اختیار سے باہر ہوتی ہیں۔ امریکہ میں ہی مقیم شاعر اکرم محمود کا شعر ؎ 
ہجر ہے میرے چار سو، ہجر کے چار سو خلا 
میں بھی نہیں میرے قریب، تیرا تو خیر ذکر کیا 
ہجر کے زخم کا مرہم... ملتان سے لاس اینجلس تک تو کہیں نہیں۔ اس سے آگے تو پھر سمندر آ جاتا ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں