"KMK" (space) message & send to 7575

بچے ہوئے پانچ سو بیس ارب روپے کا معاملہ

موٹروے میاں نوازشریف کا امتیازی نشان ہے۔ انہیں موٹروے بنانے کا عشق بلکہ یوں کہہ لیں کہ خبط اور جنون ہے۔ ان کا موٹروے سے عشق دیکھیں اور ان کا موٹرویز پر خرچ کرنے کا جذبہ دیکھیں تو لگتا ہے کہ پاکستان کی حکومت کے پاس وافر پیسہ موجود ہے۔ فالتو دولت خزانے میں اچھل رہی ہے کہ مجھے کہیں خرچ کریں ورنہ میں پڑے پڑے خراب ہو جائوں گی۔ لہٰذا وہ اس فالتو رقم کو اٹھاتے ہیں اور موٹروے بنا دیتے ہیں۔ اب بھی یہی حال ہے۔ ان کے موٹرویز کے حالیہ منصوبوں کو دیکھیں تو لگتا ہے کہ پاکستان میں دولت کی ریل پیل ہے۔ دودھ کے دریا اور شہد کی نہریں بہہ رہی ہیں۔ دولت خزانے میں ابل رہی ہے اور باقی سارے معاملات اور مسائل حل ہو چکے ہیں۔ لہٰذا 'لاہور سے کراچی‘ موٹروے بن رہی ہے۔ شنید ہے کہ اس پروجیکٹ پر سات سو ارب روپے کا خرچہ آئے گا۔ 
ایم ٹو پاکستان کی پہلی موٹروے ہے۔ اس موٹروے کا آغاز میاں نوازشریف کے پہلے دور حکومت یعنی 1992ء میں ہوا۔ تین سو پچھتر کلو میٹر طویل یہ موٹروے میاں نوازشریف کے دوسرے دور میں مکمل ہوئی اور اس کا افتتاح میاں صاحب نے چھبیس نومبر 1997ء میں کیا۔ ایم ٹو اسلام آباد سے لاہور تک تھی۔ ایک سو پچپن کلو میٹر طویل ایم ون کا آغاز میاں نوازشریف کے دوسرے دور میں ہوا۔ ایم ون پشاور سے اسلام آباد تک تھی۔ اس موٹروے کا آغاز تو میاں نوازشریف کے دور میں ہوا مگر اس کا افتتاح صدر پرویز مشرف نے 2006ء میں کیا۔ یعنی دونوں موٹرویز بہرحال میاں نوازشریف صاحب کے منصوبے تھے۔ اب میاں صاحب کا تیسرا دور حکومت چل رہا ہے اور موٹرویز کے منصوبے ہیں‘ پیر محل سے لاہور تک‘ لاہور سے کراچی تک اور اللہ جانے اور کہاں سے کہاں تک۔ 
میں موٹروے کے خلاف ہرگز نہیں‘ بلکہ میں موٹرویز کا پرزور حامی ہوں تاہم جس طرح پاکستان میں موٹروے بنانے کا طریقہ اپنایا جا رہا ہے اس سے متفق نہیں۔ خیر یہ میرا متفق ہونا بھی کوئی معنی نہیں رکھتا کہ میں نہ تو کوئی انجینئر ہوں اور نہ ہی سڑکوں کے علم میں کوئی ڈگری یا تجربے کا حامل ہوں؛ تاہم محض کامن سینس کی بنیاد پر‘ دنیا بھر میں مختلف ممالک میں موٹرویز کو عملی شکل میں دیکھنے کے بعد‘ ان پر سفر کرنے کے بعد اور اس سلسلے میں بے تحاشا صاحبِ علم لوگوں کی باتیں سننے کے بعد جن موٹی موٹی چیزوں کا علم مجھے ہوا ہے ان کی بنیاد پر یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ ہمارے ہاں درست کام غلط طریقے سے ہو رہا ہے۔ ایک مناسب کام کے لیے نامناسب طریقہ اختیار کیا جا رہا ہے۔ 
میں جب ایم ٹو پر سالٹ رینج سے گزرتا ہوں اور وہاں پچاس کلو میٹر سپیڈ لمٹ کے بورڈ دیکھتا ہوں تو مجھے اس روٹ بنانے والے کی عقل پر ماتم کرنے کو دل کرتا ہے۔ دنیا میں کون سی موٹروے ہے جہاں سپیڈ لمٹ پچاس کلو میٹر فی گھنٹہ ہوگی؟ ممکن ہے کسی ایسے ملک میں ہو جہاں کوئی متبادل راستہ نہ ہو۔ جہاں جغرافیائی صورتحال کے باعث گنجائش ہی نہ ہو مگر ہمارے ہاں ایسا معاملہ نہ تھا۔ بہتر روٹ بنایا جا سکتا تھا۔ بے شمار کھلی زمین اور راستے موجود تھے مگر طویل‘ مشکل اور نامناسب روٹ بنایا گیا۔ اگر سچ پوچھیں تو میرے خیال میں یہ ساری موٹروے ہی غلط بنائی گئی تھی۔ میرے حساب سے جی ٹی روڈ کو موٹروے میں تبدیل کیا جا سکتا تھا۔ یہ سارا منصوبہ موٹروے کی لاگت کی چوتھائی رقم میں بن سکتا تھا۔ 
دنیا بھر میں پہلی موٹروے جرمنی کی ''آٹو بان‘‘ تھی۔ 1929ء میں شروع ہونے والی پہلی آٹو بان 1932ء میں مکمل ہوئی۔ یہ جرمن شہر کومون سے بون کے درمیان بنائی گئی تھی۔ اس کے بعد جرمنی میں اس پروجیکٹ پر کام شروع ہوا۔ نئی نئی موٹرویز بنانے کے بجائے موجود ہائی ویز کو موٹروے میں تبدیل کرنے کا عمل شروع ہوا اور آج جرمنی میں تیرہ ہزار کلو میٹر طویل موٹرویز کا جال بچھا ہوا ہے جو چین‘ امریکہ اور سپین کے بعد دنیا کا طویل ترین موٹروے نیٹ ورک ہے۔ ہائی وے کو موٹروے میں تبدیل کرنا کوئی مشکل کام نہیں۔ سڑک کو چوڑا کرنا ہے۔ بھرائی بہتر کرنی ہے‘ درمیان میں دیوار بنانی ہے اور سائڈ پر جنگلا لگانا ہے۔ یہ کام پاکستان میں آسانی ہو سکتا ہے۔ شہروں کے درمیان سے گزرتی ہوئی ہائی وے کو تھوڑا ری ڈیزائن کرنا ہوگا۔ بائی پاس بنانے ہوں گے اور سڑک کو مزید چوڑا کرنا ہوگا۔ کیا یہ کام راکٹ سائنس ہے؟ 
لاہور سے کراچی بنائی جانے والی موٹروے کا نقشہ دیکھیں تو اس حماقت پر ہنسی آتی ہے۔ موجودہ کے ایل پی روڈ یعنی کراچی‘ لاہور‘ پشاور روڈ کے ساتھ ساتھ۔ قریب چالیس پچاس کلو میٹر ہٹ کر تقریباً موجودہ سڑک کے متوازی۔ خرچہ کتنا ہے؟ سات سو ارب روپے۔ بہاولپور سے خیرپور تک میں نے خود اس سڑک پر سفر کیا ہے۔ خود گاڑی چلائی ہے۔ ساری سڑک دو رویہ ہے۔ ہر شہر کا بائی پاس بن چکا ہے۔ سڑک کے دونوں طرف سرکاری زمین موجود ہے۔ یعنی چوڑا کرنے کی مفت گنجائش موجود ہے۔ سڑک کی کوالٹی اس لحاظ سے مناسب ہے کہ اس سڑک سے اب بھی بھاری ٹریلر گزر رہے ہیں اور یہی ٹریفک موٹروے پر سے گزرے گی۔ نئی موٹروے بناتے وقت سب سے بڑا خرچہ زمین کی خرید ہے۔ اس پر ہونے والا خرچہ اور اس میں ہونے والا گھپلا بچ سکتا ہے بشرطیکہ میاں صاحب کو یہ بات منظور ہو کہ اسی پرانی سڑک کو موٹروے میں تبدیل کردیا جائے۔ لیکن اس سے میاں صاحب کے کالر پر نئی موٹروے کا پھندنا نہیں سج سکے گا جو شاید میاں صاحب کو قابل قبول نہیں ہوگا۔ اگر موجودہ کے ایل پی روڈ کو اپ گریڈ کر کے موٹروے میں تبدیل کردیا جائے تو اس پر ایک صاحب علم شخص کے بقول سارے پروجیکٹ کا محض بیس فیصد خرچ ہوگا۔ یعنی سات سو ارب کا کام ایک سو چالیس ارب میں ہو سکتا ہے۔ صرف اس ایک پروجیکٹ میں پانچ سو ساٹھ ارب روپے بچائے جا سکتے ہیں۔ 
دنیا بھر میں اب موٹروے ایک عام سی چیز بن کر رہ گئی ہے۔ ایک ایک شہر کو تین چار موٹرویز سے جوڑ دیا گیا ہے۔ ہائی ویز کو موٹرویز میں تبدیل کردیا گیا ہے۔ گلاسگو شہر کے اندر سے‘ عین درمیان میں سے دو موٹرویز گزرتی ہیں۔ لوگوں کے گھروں کے ساتھ سے اور نیچے گزرتی ہوئی شہر کی سڑکوں کے اوپر سے۔ کہیں یہ موٹروے کہلاتی ہے‘ کہیں آٹو بان اور کہیں فری وے۔ نام جو بھی ہو مگر یہ موٹرویز دنیا بھر میں اب کوئی عجوبہ نہیں رہ گئیں بلکہ ایک ایسی سہولت بن کر رہ گئی ہیں جو ہر جگہ اور ہر شہر کے لیے میسر ہیں۔ مجھے نہیں پتہ کہ میاں صاحب کو اس نئی موٹروے کا پھندنا زیادہ عزیز ہے یا ملک و قوم کے پانچ سو ساٹھ ارب روپے؟ میرا کام تو نشاندہی کرنا تھا۔ 
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ پانچ سو ساٹھ ارب روپے بچ گئے تو ہم اسے کہاں خرچ کریں گے؟ یہ بہرحال ایک نہایت ہی مشکل سوال ہے اور ہر شخص اس کا مختلف جواب دے گا۔ اگر میاں صاحب سے پوچھیں تو وہ کہیں گے کہ اس سے ایک اور موٹروے بنا لیں گے۔ ظفر بٹ کہے گا کہ اس سے ہریسے‘ سری پائے اور کلچوں کی ایک ملک گیر چین کھولی جا سکتی ہے جس کی سات ہزار برانچیں ہوں؛ تاہم اگر مجھ سے پوچھا جائے تو میں عرض کروں گا کہ اس میں سے صرف چالیس ارب روپے ملتان کو مل جائیں تو کئی سال سے نامکمل ناردرن بائی پاس کا بیس کلو میٹر ناموجود حصہ مکمل ہو جائے گا۔ پرانی شجاعباد روڈ جو کئی سال قبل صفحہ ہستی سے غائب ہو گئی تھی اور اب صرف گڑھوں پر مشتمل دھول اڑاتا راستہ ہے مکمل ہو جائے گی۔ کئی سال سے نامکمل Inner رِنگ روڈ مکمل ہو جائے گی۔ چھ نمبر چونگی چوک چھ سال سے ادھڑا پڑا ہے‘ ٹھیک ہو جائے گا۔ اندرون شہر کی سرکلر روڈ کھلی ہو جائے گی۔ گزشتہ کئی برسوں سے نامکمل یہ نصف درجن پراجیکٹ مکمل ہو جائیں اور ان کی تکمیل کے بعد بھی پانچ سو بیس ارب روپے بچ جائیں گے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم ان پانچ سو بیس ارب روپے کا کیا کریں گے؟ میری تو بس اتنی ہی اوقات تھی کہ اپنے شہر کے لیے چالیس ارب کا حساب کتاب بتا سکوں‘ اس سے زیادہ رقم کا تو میں تصور بھی نہیں کر سکتا۔ یہ رقم میں دوبارہ میاں صاحب کی ڈسپوزل پر چھوڑتا ہوں۔ اتنے پیسوں کا مصرف وہی نکال سکتے ہیں‘ اس عاجز کو تو چالیس ارب خرچ کرواتے ہوئے پسینہ آ گیا ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں