"KMK" (space) message & send to 7575

تختی کا جھگڑا

کالم کسی اور موضوع پر لکھنا تھا مگر ہم کیا اور ہمارے ارادے کیا۔ جناب علی کرم اللہ وجہہ نے کہا کہ میں نے اپنے ارادوں کے ٹوٹنے سے اللہ کی ذات کو پہچانا۔ ہم اور ہمارے ارادوں کی بھلا کیا اوقات ہو سکتی ہے؟ سوچا تھا عمران خان کی شادی پر لکھوں گا‘ میرا کے زاروقطار رونے پر قلم کے ذریعے چار حرف تسلی دوں گا۔ عائلہ ملک کے ٹویٹ کے پیچھے چھپے ہوئے دل کے دکھڑے پر روشنی ڈالوں گا۔ انور مسعود کا ایک قطعہ ہے ؎ 
لوگ تو رہتے ہیں ہر لمحہ ٹوہ میں ایسی باتوں کے 
پیار محبت کے ہیں دشمن دل کے ایسے کالے ہیں 
دیکھیے کچھ محتاط ہی رہیے اس جاسوس زمانے سے 
میں بھی بچوں والی ہوں اور آپ بھی بچوں والے ہیں 
اس قطعے کی نئی جہتوں پر روشنی ڈالوں گا مگر پھر سوچا کہ پردہ نشینوں پر پردہ ہی پڑا رہنا بہتر ہے لہٰذا معاملہ کہیں درمیان میں ہی رہ گیا۔ پھر سوچا کہ مولانا فضل الرحمن نے اکیسویں ترمیم میں جو موقف اپنایا ہے اس کی ستائش کروں مگر ایک دوست نے اس سلسلے میں ایک بات بتا کر مجھے مشکوک کردیا اور میں مولانا کے موقف سے کسی حد تک متفق ہونے کے باوجود کالم لکھنے سے دستبردار ہو گیا۔ میں ذاتی طور پر مذہبی دہشت گردی کا قائل ہی نہیں کہ دہشت گردوں کا اپنا کوئی مذہب ہی نہیں ہوتا۔ دہشت گردی کو مذہب کے ساتھ جوڑنا بالکل ایسی سوچ کی عکاسی ہے جو پورے مغرب کی فی الوقت اسلام کے بارے میں ہے۔ اگر دہشت گردی کا مذہب سے کوئی تعلق ہو سکتا ہے تو وہ صرف یہ کہ دہشت گردی بذات خود ایک بالکل علیحدہ مذہب ہے جس کا روایتی مذاہب سے دور کا بھی کوئی تعلق نہیں۔ مگر شوکت علی انجم نے مولانا کے بارے میں ایسی بات کہی کہ میں ذاتی طور پر ان کے موجودہ موقف سے اتفاق رکھنے کے باوجود ان کی ذات کے بارے میں پھر مشکوک ہو گیا لہٰذا کالم کا ارادہ ترک کردیا۔ 
پھر سوچا کہ کیوں نہ اس فزیبیلٹی پر کچھ لکھوں جس کی طرف گزشتہ کالم میں اشارہ کیا تھا۔ اس ارادے کو تقویت ان چار چھ ای میلز نے پہنچائی جو کچھ محبت کرنے والوں نے بھیجیں اور اس مسترد کردہ فزیبیلٹی کے بارے میں کچھ دریافت کیا تھا۔ 
سسٹرا (Systra) فرانس کی عالمی شہرت یافتہ کنسلٹنسی فرم ہے جو ماس ٹرانسپورٹ کے حوالے سے پلاننگ‘ انجینئرنگ‘ ڈیزائن‘ پروگرام مینجمنٹ اور کنسٹرکشن کے میدان میں اپنا ثانی نہیں رکھتی۔ اس فرم کو 2005ء میں (چودھری پرویزالٰہی کے دور میں) پنجاب حکومت نے لاہور میں ماس ٹرانزٹ کو ریڈورز کے بارے میں فزیبیلٹی بنانے کی ذمہ داری سونپی۔ پنجاب میں پہلی بار 1990ء میں فیروزپور روڈ اور مال روڈ پر چھوٹے پیمانے پر میٹرو کا نظام قائم کرنے کے بارے میں منصوبہ بندی کا آغاز ہوا مگر حسب معمول دیگر کئی منصوبوں کی مانند یہ منصوبہ بھی کاغذوں میں دفن ہو گیا۔ بعدازاں اس پر 2005ء میں کام شروع ہوا کہ لاہور کی آبادی میں بے پناہ اضافے نے یہ ضرورت دوچند کردی اور ایک بڑے منصوبے پر کام شروع کردیا گیا۔ ابتدائی طور پر لاہور میں دو لائنوں پر کام شروع ہوا ''گرین لائن‘‘ اور ''اورنج لائن‘‘۔ گرین لائن پہلی ترجیح تھی اور اورنج لائن دوسری ترجیح۔ اس کے علاوہ دیگر تین لائنز پر بھی ابتدائی کام ہونا تھا۔ یعنی کل پانچ روٹ تھے جن پر ماس ٹرانزٹ کے اس منصوبے پر کام شروع ہوا۔ 
گرین لائن پر فزیبیلٹی اگست 2006ء میں مکمل ہو گئی۔ گرین لائن ستائیس کلو میٹر طویل تھی جو فیروزپور روڈ پر حمزہ ٹائون سے شروع ہو کر فاطمہ جناح روڈ‘ مال روڈ‘ لوئر مال روڈ اور راوی روڈ سے ہوتی ہوئی شاہدرہ پر جا کر ختم ہوتی تھی۔ اس منصوبے کے مطابق یہاں ٹرین چلنی تھی۔ فیروزپور روڈ سیکشن سارے کا سارے ایلی ویٹڈ تھا اور یہ سیکشن ساڑھے دس کلو میٹر پر مشتمل تھا۔ اس سیکشن پر سات سٹیشن اور ایک مرکزی ڈپو تھا جو شاداب کالونی سٹیشن کے قریب تھا۔ درمیانی حصہ جو ساڑھے گیارہ کلو میٹر تھا دو سرنگوں پر مشتمل تھا۔ یہ سرنگیں شہر کے نیچے سے گزرنی تھیں اور یہاں بارہ زیر زمین سٹیشن بننے تھے۔ روٹ کا شمالی آخری حصہ جو پانچ کلو میٹر طویل تھا ایلی ویٹڈ تھا۔ یعنی ستائیس کلو میٹر کا ٹریک ساڑھے گیارہ کلو میٹر زیر زمین اور ساڑھے پندرہ کلو میٹر ایلی ویٹڈ تھا۔ اس سارے روٹ پر بائیس سٹیشن بننے تھے۔ گرین لائن پر مستقبل میں تکمیل پانے والی دیگر لائنز نے پانچ جگہ سے متصل ہونا تھا۔ کلمہ چوک‘ قرطبہ چوک‘ سنٹرل سٹیشن‘ جناح ہال اور داتا دربار وہ پانچ مقامات تھے جہاں ان تمام لائنز کا آپس میں کنکشن جڑنا تھا۔ 
گرین لائن کا ستائیس کلو میٹر فاصلہ پینتالیس منٹ میں طے ہونا تھا۔ چھ بوگیوں پر مشتمل ٹرین نے یہ فاصلہ تینتیس کلو میٹر فی گھنٹہ کی اوسط رفتار سے طے کرنا تھا جس میں زیادہ سے زیادہ رفتار اسی کلو میٹر فی گھنٹہ تھی۔ اس منصوبے کی تکمیل پر صرف اس ایک سیکشن پر روزانہ تین لاکھ اسی ہزار افراد نے سفر کرنا تھا۔ یہ منصوبہ 2015ء میں یعنی موجودہ سال میں مکمل ہونا تھا۔ 2025ء تک مستفید ہونے والے مسافروں کی تعداد چھ لاکھ ساٹھ ہزار ہو جانی تھی۔ اورنج لائن دوسری ترجیح تھی۔ یہ بھی ستائیس کلو میٹر طویل لائن تھی جو لاہور کے جنوب مغرب میں علی ٹائون سے شروع ہو کر رائے ونڈ روڈ‘ ٹھوکر نیاز بیگ‘ ملتان روڈ‘ لیک روڈ‘ میکلوڈ روڈ اور جی ٹی روڈ سے ہوتی ہوئی لاہور رنگ روڈ اور جی ٹی روڈ کے مقام اتصال پر ختم ہوتی تھی۔ اس روٹ کے پہلے بارہ کلو میٹر ایلی ویٹڈ تھے۔ اگلے سات کلو میٹر جو چوبرجی سے سلطان پورہ تک تھے‘ انڈر گرائونڈ یعنی زیر زمین دو سرنگوں پر مشتمل تھے اور آخری آٹھ کلو میٹر پھر ایلی ویٹڈ تھے۔ اورنج لائن نے دیگر لائنوں کے ساتھ تین مقامات پر اتصال کرنا تھا۔ 
ابتدائی طور پر میٹرو منصوبہ چھبیس ٹرینوں پر مشتمل تھا جو بڑھ کر تریپن ہو جانی تھیں۔ ہر ٹرین چھ بوگیوں پر مشتمل تھی اور ہر ٹرین میں ایک وقت میں ایک ہزار چالیس مسافروں کی گنجائش تھی۔ آٹومیٹک نظام پر قائم یہ ٹرینیں ہر دو منٹ بعد چلنی تھیں اور ایک گھنٹے میں تیس ہزار سے زیادہ مسافروں کو ایک گھنٹے میں ایک سمت لے جانے کی استعداد کی حامل تھیں۔ یہ ایک شاندار منصوبہ تھا۔ 2007ء میں حکومت پنجاب نے سسٹرا فرانس کو اس منصوبے کی ریفرنس انجینئرنگ ڈیزائن اور ٹینڈر کے کاغذات مکمل کرنے کا کہا۔ جون 2008ء میں گرین لائن کا تفصیلی ڈیزائن مکمل ہونا تھا۔ گرین لائن کی تکمیل 2015ء میں جبکہ اورنج لائن کی تکمیل 2018ء میں ہونا تھی مگر چودھری پرویزالٰہی کی حکومت نومبر 2007ء میں ختم ہو گئی۔ میاں شہبازشریف نے جون 2008ء میں پنجاب کی عنان حکومت سنبھال لی اور سارا منصوبہ اٹھا کر ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا۔ اس سارے منصوبے میں واحد خرابی یہ تھی کہ یہ چودھری پرویزالٰہی نے شروع کیا تھا اور اسے مکمل کرنے کی صورت میں سارا کریڈٹ میاں شہبازشریف کو نہیں جاتا تھا۔ 
سسٹرا جیسی کمپنی کی فزیبیلٹی کے باعث اس منصوبے کی اہمیت اور زیست پذیری اتنی زیادہ تھی کہ عالمی مالیاتی ادارے اس سارے منصوبے کے لیے قرضہ دینے کے لیے تیار تھے مگر میاں شہبازشریف صاحب کو اس سارے منصوبے سے ذرا بھی دلچسپی نہیں تھی لہٰذا یہ منصوبہ دیگر بہت سے منصوبوں کی مانند فائلوں کے قبرستان میں دفن ہو گیا۔ یہ منصوبہ چار سال تک مکمل مدفون رہا تاوقتیکہ اگلے الیکشن نزدیک آ گئے۔ الیکشن سے ایک سال قبل اچانک میاں شہبازشریف کو خیال آیا کہ لاہوریوں سے ووٹ لینے کے لیے میٹرو بس چلائی جائے۔ سسٹرا کے منصوبے کو توڑا مروڑا گیا۔ روٹ تقریباً وہی تھا جو گرین لائن کا تھا مگر ٹرین کی جگہ بسیں کردی گئیں‘ انڈر گرائونڈ اور ایلی ویٹڈ کو کہیں ایلی ویٹڈ کردیا اور کہیں جنگلا لگا دیا۔ شہر دو حصوں میں تقسیم ہو گیا۔ اس منصوبے کو ہنگامی بنیادوں پر مکمل کروایا گیا اور الیکشن سے تین ماہ قبل مکمل کر کے نمبر بنا لیے۔ 
سسٹرا کی فزیبیلٹی پنجاب حکومت نے بنوائی تھی‘ چودھری پرویزالٰہی نے نہیں۔ یہ منصوبہ پنجاب حکومت کا تھا اور لاہور کے عوام کے لیے تھا مگر اس کے ساتھ کسی دشمن کے منصوبے جیسا سلوک کیا گیا۔ ہمارے ہاں دیگر بہت سی خرابیوں میں ایک خرابی یہ ہے کہ آنے والے جانے والوں کی ہر چیز خواہ وہ کتنی ہی فائدہ مند اور منفعت بخش ہی کیوں نہ ہو‘ مسترد کر دیتے ہیں اور نئے سرے سے کام شروع کر دیتے ہیں خواہ وہ مقابلتاً کتنا ہی کمتر کیوں نہ ہو۔ ملتان میں پرویزالٰہی کارڈیالوجی انسٹیٹیوٹ کی توسیع بھی ''پرویزالٰہی فوبیا‘‘ کا شکار ہے۔ اور کئی پروجیکٹ اس لیے تاخیر کا شکار ہیں کہ ان پر چودھری پرویزالٰہی کے نام کی تختی لگی ہوئی ہے۔ کاش حکمران یہ سمجھ جائیں کہ یہ منصوبے ان کے سیاسی مخالفین کے نہیں بلکہ حکومت وقت کے ہیں اور صرف عوام کے لیے ہیں۔ یہ بات کہنا بڑا آسان ہے مگر اسے ہضم کرنا بہت مشکل ہے خاص طور پر آنے والوں کے لیے۔ اصل میں سارا جھگڑا تختی کا ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں