"KMK" (space) message & send to 7575

\"Blessing In Disguise\"

میں نے گزشتہ کالم میں لکھا تھا کہ ہم کس طرح سانحے سے بھی مال کمانے کا طریقہ نکال لیتے ہیں۔ مجبوریوں سے فائدہ اٹھانا ہم پر ختم ہے۔ انگریزی محاورہ "Blessing In Disguise" اپنی تمام تر حشرسامانیوں کے ساتھ ہمارے ہاں اپنا بالکل نیا مفہوم پیدا کرتا ہے۔ اس محاورے کے لفظی معنی تو ہیں کہ بری صورتحال میں سے اچھا پہلو نکل آنا مگر جس طرح ہم بری صورتحال سے اچھا پہلو نکالتے ہیں یہ باقاعدہ جرم نما عمل ہوتا ہے۔ انگریزی کا یہ محاورہ دراصل ایک نہایت مثبت ردعمل یا کیفیت کی عکاسی کرتا ہے مگر ہمارے ہاں بالکل ایسا ہی ہوتا ہے جیسے کوئی بس ایکسیڈنٹ میں زخمی ہو کر بیہوش پڑا ہو اور کوئی شخص اس بیہوش آدمی کی گھڑی اتار کر لے جائے یا اس کا بٹوہ پار کر لے۔ رمضان کا مہینہ اس کی ایک مثال ہے۔ 
رمضان کے آغاز سے چند دن قبل تک چیزیں ایک حد میں ہوں گی۔ پھل‘ دہی بھلے‘ پکوڑے‘ سبزیاں‘ گھی وغیرہ معمول کی گرانی کے ساتھ فروخت ہو رہے ہوں گے۔ معمول کی گرانی سے مراد مناسب لوٹ مار ہے۔ لیکن رمضان سے دو دن پہلے ''رمضانی گرانی‘‘ کا آغاز ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے رمضان میں شیطان کو بند کرنے کا وعدہ کیا ہے مگر شیطان نما انسانوں کو آزمائش کے لیے کھلا چھوڑ رکھا ہے۔ محض ایک دن میں اشیائے ضرورت کی قیمتیں دگنی ہو جاتی ہیں۔ بالکل اسی طرح جیسے ملتان میں حقیقی اور احکاماتی سروے کے اعدادو شمار محض پندرہ دن میں سو فیصد تبدیل ہو جاتے ہیں۔ 
چودھری بھکن اس سلسلے میں ذاتی خیالات رکھتا ہے۔ اس کا خیال ہے کہ ہم رونے پیٹنے کے عادی ہو چکے ہیں اور ہر بات پر‘ خواہ وہ مجموعی طور پر فائدہ مند ہی کیوں نہ ہو‘ شور مچاتے رہتے ہیں۔ بڑے فائدے کے مقابلے میں چھوٹے چھوٹے نقصانات پر غور کرتے ہیں۔ چودھری بھکن کا خیال ہے کہ ہم لوگ بجلی کی لوڈشیڈنگ پر شور مچاتے ہیں۔ کاروبار کی بربادی پر شور و غوغا کرتے ہیں اور صرف اس ایک وجہ سے کہ بجلی ایک گھنٹہ آ رہی ہے ایک گھنٹہ جا رہی‘ خوامخواہ نفسیاتی مریض بن رہے ہیں‘ حالانکہ ہم اس صورتحال سے مثبت پہلو تلاش کر سکتے ہیں مگر ہم ایسا نہیں کرتے۔ جب ہر گھنٹے بعد بجلی آتی ہے تو ہر گھر میں خوشی کی ایک لہر سی دوڑ جاتی ہے‘ خصوصاً ان گھروں میں جہاں نہ جنریٹر ہیں اور نہ یو پی ایس۔ ایسے گھروں میں جب گھنٹے بعد بجلی آتی ہے تو بچوں کی جان میں جان آ جاتی ہے۔ بڑے بوڑھے خوش ہو جاتے ہیں۔ جوانوں کو سکون نصیب ہو جاتا ہے۔ جب بجلی آتی ہے تو بچے ایک نعرہ مستانہ مارتے ہیں ''آگئی‘‘۔ اس ''آ گئی‘‘ کے ساتھ ہی تمام کام دوبارہ سے اسی جوش و جذبے سے شروع ہو جاتے ہیں جس طرح ایک گھنٹہ پہلے بند ہوئے تھے۔ اس گھنٹہ وار لوڈشیڈنگ سے قوم میں وقت جانچنے اور ماپنے کا پیمانہ نئے سرے سے اجاگر ہوا ہے۔ پہلے انگریز ہر شہر کے وسط میں گھنٹہ گھر بنا کر اس پر گھڑیال لگاتا تھا اور لوگ آتے جاتے اس گھڑیال پر نظر ڈال کر وقت کے گزرنے کا اندازہ لگاتے تھے اور اس کے مطابق اپنا اگلا لائحہ عمل بھی طے کرتے تھے۔ اب لوگوں کو گھڑیال پر نظر ڈالنے کی ضرورت ہی نہیں رہی۔ لوڈشیڈنگ کا شیڈول زبانی یاد ہے اور ہر گھنٹے بعد بجلی آ جا کر لوگوں کو وقت سے آگاہ کرتی رہتی ہے۔ اب غافل کے لیے بھی یہ شعر بے معنی ہو کر رہ گیا ہے کہ ؎ 
غافل تجھے گھڑیال یہ دیتا ہے منادی 
گردوں نے گھڑی عمر کی اِک اور گھٹا دی 
ہمارے ہاں مصائب ومسائل زیادہ ہیں اور خوشیاں کم‘ لہٰذا بجلی جب جاتی ہے تب اتنا صدمہ نہیں ہوتا کہ ہم صدمات کے عادی ہیں مگر جب بجلی آتی ہے تب ہماری خوشی دیدنی ہوتی ہے۔ سرکار نے ہر گھنٹے بعد خوشی سے چلانے کا‘ نعرے لگانے کا اور لطف اندوز ہونے کا ایک مسلسل ذریعہ فراہم کردیا ہے اور وہ بھی بالکل مفت۔ یہ تو ایک فائدہ تھا۔ دوسرا فائدہ ایسا ہے جس پر کبھی کسی نے زیادہ غور ہی نہیں کیا۔ بجلی مہنگی ہو گئی ہے۔ اٹھارہ روپے فی یونٹ تو سرکار کو گھر میں پڑ رہی ہے۔ اب بھلا غریب آدمی یہ والی مہنگی بجلی چوبیس گھنٹے استعمال کر سکتا ہے؟ ہرگز نہیں۔ لیکن آپ لوگوں کو پتہ ہے کہ ہمارا غریب آدمی آمدنی اور اخراجات کے بارے میں بڑا غیر متوازن ہے۔ ابھی آمدنی کا صرف آسرا پیدا ہوتا ہے اور وہ ادھار لے کر خرچ کر دیتا ہے۔ کمیٹی نکلنے سے کئی ماہ پہلے ہی کمیٹی خرچ کر دیتا ہے۔ بونس ملنے سے قبل ہی بونس سے ڈیڑھ گنا زیادہ رقم کو صرف کرنے کا پلان بنا لیتا ہے۔ اگر یہ لوڈشیڈنگ نہ ہوتی تو بھلا دس بارہ گھنٹے کی رضاکارانہ بجلی کون بند کرتا؟ خدا کا شکر ہے کہ لوڈشیڈنگ ہے اور حکومت زبردستی بجلی بند کر کے غریب غربا کی غیبی مدد کر رہی ہے وگرنہ اس ملک میں بجلی کا بل ادا نہ کر سکنے کے باعث خودکشیوں کی تعداد میں ناقابل بیان اضافہ ہو جاتا۔ 
پھر کہنے لگا یہ بات درست ہے کہ اس سے کاروبار مندا پڑا ہے۔ ملیں بند ہوئی ہیں۔ پیداواری لاگت میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے مگر دوسری طرف یہ دیکھیں کہ جنریٹر بیچنے والوں کا کاروبار چل نکلا ہے۔ یو پی ایس دھڑا دھڑ بک رہے ہیں۔ لوگ گھروں میں یو پی ایس بنا رہے ہیں۔ گاڑیوں کے بیکار انجنوں سے جنریٹر بن رہے ہیں۔ ایک پوری نئی انڈسٹری وجود میں آئی ہے۔ کیا ہوا جو ان جنریٹروں اور یو پی ایسوں پر کھربوں روپے خرچ ہو گئے ہیں‘ لوگوں کو آسانیاں تو ملی ہیں۔ بلبل بغدادی کہنے لگا مگر چودھری! اتنے پیسوں میں تو چھوٹا موٹا ڈیم بن سکتا تھا۔ آدھا کالا باغ ڈیم بن جاتا۔ چھتیس سو میگاواٹ کا یہ ڈیم ہمارے بجلی 
کے کئی مسائل حل کر دیتا۔ سال کے سات آٹھ ماہ تقریباً ساڑھے تین ہزار میگاواٹ کا شارٹ فال رہتا ہے‘ وہ اس سے پورا ہوجاتا۔ جنریٹروں اور یو پی ایس کی ضرورت ہی نہ پڑتی۔ ویسے بھی تمہیں شاید علم نہ ہو کہ ملک بھر کے صرف یو پی ایس چارجنگ کے دوران سات سو سے آٹھ سو میگاواٹ بجلی کھا جاتے ہیں اور جواباً اس سے تیسرا حصہ بجلی فراہم کرتے ہیں یعنی چار پانچ سو میگاواٹ کھوہ کھاتے چلی جاتی ہے۔ چودھری کہنے لگا آپ لوگوں کو صرف خرابی نظر آتی ہے۔ مثبت پہلو دیکھنا تو گویا آپ لوگوں پر حرام ہے۔ اب دیکھیں گیس نہیں آ رہی۔ ایل پی جی بلیک ہو رہی ہے۔ سلنڈر دھڑا دھڑ بک رہے ہیں۔ وکلا تحریک میں نام کمانے والے سفید پوشوں کا کام بن رہا ہے۔ کنٹرول ریٹ سو روپے فی کلوگرام ہے مگر یہ سفید پوش لوگ دو سو روپے فی کلو بیچ کر اگر تھوڑا بہت نفع کما رہے ہیں تو یہ گیس کی بندش کے طفیل ہے۔ سلنڈر بک رہے ہیں۔ ایل پی جی کے ہیٹروں کا کام زوروں پر ہے۔ ایک متبادل روزگار کی صورتحال پیدا ہوئی ہے۔ کسی گیس کی مصنوعات بیچنے والے کی دکان میں جائو تو پتہ چلتا ہے کہ ملک میں گیس باافراط موجود ہے‘ کوئی کمی نہیں بلکہ زیادتی ہے۔ دکاندار سے گاہک نہیں بھگتائے جاتے چار چار سیلز مین تھوڑے پڑ رہے ہوتے ہیں۔ تم گیس کا رونا رو رہے ہو۔ ہم لوگ ہر کام میں سے نفع نکال لیتے ہیں۔ ہر خرابی میں سے ایک نیا کاروبار پیدا کر لیتے ہیں۔ ہر کمی میں سے کثرت برآمد کر لیتے ہیں۔ ہر بربادی میں سے مال کما لیتے ہیں۔ زلزلے کے امدادی سامان سے بزنس کر لیتے ہیں۔ سیلاب میں آئی غیر ملکی امداد بازار میں فروخت کر کے جیب بھر لیتے ہیں۔ 
اب دیکھو پشاور میں دل دہلا دینے والا سانحہ ہوا ہے۔ ہر صاحبِ اولاد غمزدہ ہے مگر اس صدمے اور سانحے سے بھی یار لوگوں نے منافع کمانے کا ذریعہ نکال لیا ہے۔ سرکار نے دہشت گردی کا کیا خاتمہ کرنا ہے اور لوگوں کو کیا تحفظ دینا ہے۔ حکمرانوں کے بچے باہر ہیں یا ان کے بچوں کے بچے باہر ہیں۔ یہاں صرف وہی ہیں جو ''مصروف‘‘ ہیں۔ سکولوں کو کہا ہے کہ دیواریں اونچی کروائیں‘ واک تھرو گیٹ لگوائیں‘ خاردار تاریں لگوائیں‘ میٹل ڈیٹیکٹر خریدیں‘ یعنی سب کچھ سکول‘ کالج اور یونیورسٹیاں کروائیں۔ سرکار کو اور بڑی مصروفیات ہیں۔ کوئی بھنگ گھوٹ کر پی رہا ہے اور کوئی موج میلے میں مصروف ہے۔ کسی کو بیرونی دوروں سے فرصت نہیں اور کوئی میٹرو بنانے میں لگا ہوا ہے۔ ملکی معیشت کے لیے میٹرو سے زیادہ امن و امان کی اہمیت اور ضرورت ہوتی ہے مگر ترجیحات کا تعین ہی اچھی اور بری حکمرانی میں بنیادی فرق ہے۔ حکمران حکم دے کر فارغ ہو گئے ہیں کہ فلاں کرو اور فلاں کرو۔ اس حکمنامے کے طفیل اربوں روپے کا نیا کاروبار وجود میں آ گیا ہے۔ تعلیمی اداروں کی سکیورٹی نامی اس منصوبے کا اعلان ہوا ہے اور خاردار تار (بارب وائر) کی قیمت دگنی ہو گئی ہے۔ میٹل ڈیٹیکٹرز کی قیمت کا بھی یہی حال ہے۔ لوٹ مار کا یہ عالم ہے کہ تعمیراتی مٹیریل مہنگا ہو گیا ہے۔ واک تھرو گیٹس کی قیمتیں بڑھ گئی ہیں باقی رہی سہی کسر کمیشن وغیرہ میں نکل جائے گی۔ تین ماہ بعد نہ کوئی واک تھرو گیٹ کام کر رہا ہوگا نہ میٹل ڈیٹیکٹر۔ کمیشن مافیا موج میلا کر کے ایک طرف ہو جائے گا اور غریبوں کے بچے اسی بے سروسامانی میں کلاس میں پڑھ رہے ہوں گے جس طرح وہ سولہ دسمبر سے پہلے پڑھتے تھے۔ 
قوم کو پچاس ساٹھ ارب کا چونا لگے گا اور حاصل وصول کچھ نہیں ہوگا۔ جو افسران جوانوں کے لیے خریدی جانے والی بلٹ پروف جیکٹوں کے معیار پر کمیشن کے طفیل سودے بازی کر لیں ان سے کیا توقع کی جا سکتی ہے؟ تقریباً ایک ماہ بعد سفر وہیں سے شروع ہونے جا رہا ہے جہاں سولہ دسمبر کو رُکا تھا۔ ویسے یہ تحقیق کس سمجھدار نے کی ہے کہ دہشت گرد بارہ فٹ اونچی دیوار پار نہیں کر سکتے۔ کیا پاکستان میں بارہ فٹ اونچی سیڑھی بنانے پر آئینی پابندی ہے؟ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں