"KMK" (space) message & send to 7575

استعفے‘بیانات‘ڈھٹائی اور بے حسی

قوم کو یہ بات نہایت فخرومسرت کے ساتھ بتائی جاتی ہے کہ جناب شاہد خاقان عباسی نے تیل کے حالیہ بحران کی ذمہ داری قبول کر لی ہے اور یہ ذمہ داری قبول کر کے وہ اپنی اخلاقی ذمہ داری سے فارغ ہو گئے ہیں۔ یہ ذمہ داری قبول کرنے کے بعد انہوں نے سردار بلدیو سنگھ آف تلونڈی سابو کے ملازم بلونت سنگھ کی یاد تازہ کر دی۔ 
سردار بلدیو سنگھ نے سرکاری سٹڈ فارم سے بولی دے کر ایک نہایت اعلیٰ تھاروبریڈ(Thoroughbred)گھوڑا خریدا۔جب سردار بلدیو سنگھ گھوڑا لے کر تلونڈی پہنچا تو اسے خدشہ ہوا کہ اس کے رقیب اور مخالف (شریک) یہ گھوڑا چوری کرا لیں گے۔سستے زمانے میں ڈیڑھ لاکھ کا گھوڑا کوئی معمولی چیز نہ تھا۔بلدیو سنگھ کو حالانکہ گھوڑوں کا کوئی خاص شوق بھی نہیں تھا مگر اس نے وہ گھوڑا محض اس لیے بولی میں بڑھ چڑھ کر خرید کیا کہ مقابلے میں بولی دینے والے اس کے چچیرے بھائی تھے جن سے جائیداد کے تنازعے پر سردار بلدیو سنگھ کی برسوں سے مقدمے بازی چل رہی تھی اور فریقین ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کا کوئی موقع ضائع نہیں جانے دیتے تھے۔سردار بلدیو سنگھ کو اپنے شریکوں (مخالف چچیرے بھائیوں) کی طرف سے خطرہ تھا کہ وہ اسے چوری کرانے کی کوشش کریں گے۔اس کا یہ خوف بلا جواز نہیں تھا۔اس سے قبل بھی اس کے یہ کزن (شریک) اس قسم کی حرکتیں کر چکے تھے۔ سردار بلدیو سنگھ نے اس خطرے کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے وفادار نوکر بلونت سنگھ کو بلایا اور کہا کہ وہ اپنے ذمہ دیگر تمام کام چھوڑ دے اور صرف اس گھوڑے کی پہرے داری میں ایک لمحے کی کوتاہی نہ کرے۔ یہ صرف گھوڑے کی قیمت کا نہیں بلکہ عزت کا سوال 
ہے۔سردار بلدیو سنگھ کی ناک کا مسئلہ ہے اور ناک نہیں کٹنی چاہیے۔ بلونت سنگھ نے ساری گفتگو بڑے غور سے سنی۔ بات ختم ہونے کے بعد اس نے سردار بلدیو سنگھ کے ہاتھ سے گھوڑے کی باگ لی اور نہایت ہی اعتماد سے اپنے سینے پر ہاتھ مار کر اپنے مالک کو یقین دہانی کرائی کہ سردار جی! بالکل بے فکر ہو جائیں اور پخت ہو کر سو جائیں۔ آپ کے شریکوں کی ایسی تیسی اور چور کی تو ...اس نے چور کی شان میں غائبانہ دو چار موٹی موٹی گالیاں دے کر اپنا اور سردار بلدیو سنگھ کا کلیجہ ٹھنڈا کیا۔ پھر جاتے جاتے کہنے لگا ۔ سردار جی !آپ گھوڑے کی طرف سے بھورا فکر مند نہ ہوں۔ میں اس کی حفاظت کے لیے موجود ہوں۔اگر گھوڑا چوری ہو جائے تو آپ مجھے فٹے منہ کہنا۔سردار بلدیو سنگھ اتنی یقین دہانیوں کے بعد بے فکر ہو کر اندر چلا گیا اور سو گیا۔ابھی سورج نہیں نکلا تھا اور آسمان پر تارے چمک رہے تھے کہ گھر کا دروازہ زور زور سے بجا۔ سردار بلدیو سنگھ گھبرا کر اٹھا اور زور سے کہنے لگا۔ واہے گرو دا خالصہ اور واہے گرو دی جے۔ رب خیر کرے۔اس ویلے کون ہے جو دروازہ کھڑکا رہا ہے۔ سردار بلدیو سنگھ نے دروازہ کھولا۔ سامنے بلونت سنگھ کھڑا تھا۔بلدیو سنگھ نے بلونت سے پوچھا اوے بلونتا!خیر تو ہے۔ اس ویلے؟ بلونت سنگھ نے نہایت تسلی سے کہا: سردار بلدیو سنگھ صاحب ! آپ مجھے فٹے منہ کہہ لیں۔
حکومت کی ساری سمجھداری عیاں ہو گئی۔ منصوبہ سازوں کی کارکردگی نمایاں ہو گئی۔وزیروں کی صلاحیتیں سب کے سامنے آگئیں۔ اداروں کی قلعی کھل گئی۔مسافر رسوا ہو گئے اور عوام ذلیل و خوار۔ وزیر محترم نے فرمایا کہ میں اس بحران کی ذمہ داری قبول کرتا ہوں اور بات ختم ہو گئی۔ لوگ ذمہ داری قبول کرتے ہیں تو اس کا مداوا کرتے ہیں۔ خود احتسابی کرتے ہیں استعفے دیتے ہیں ۔ قوم سے معافی مانگتے ہیں۔ ہمارے ہاں استعفیٰ دینا تو کجا ذمہ دارانِ قوم سے معافی تک مانگنے کو توہین سمجھتے ہیں۔ وزیروں کی گفتگو سنیں تو حیرانی ہوتی ہے۔ لگتا ہے کہ وزیران کرام صرف اور صرف موج میلے کو ہی ''ذمہ داری‘‘ سمجھتے ہیں کیونکہ یہی وہ واحد کام ہے جسے وہ نہایت محنت‘ خوش اسلوبی اور دلی لگن کے ساتھ سرانجام دیتے ہیں۔ اس ایک کام کے علاوہ ان کے نزدیک ان کی اور کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔ ریلوے حادثہ ہوا تو کسی ستم ظریف نے اس وقت کے ریلوے کے وزیر باتدبیر اور فی الوقت اخلاقی اقدار پر بلاتکان لیکچر دینے پر مامور جناب شیخ رشید پنڈی وال سے مستعفی ہونے کے بارے پوچھا تو شیخ صاحب نے جواب دیا کہ میں کیوں استعفیٰ دوں؟ میں اس حادثہ کا شکار ہونے والی ٹرین کا ڈرائیور نہیں ہوں کہ اس ایکسیڈنٹ پر استعفیٰ دوں ۔ آج شیخ صاحب ہر دوسرے نااہل اور نالائق سے استعفے مانگنے کی ڈیوٹی پر لگے ہوئے ہیں۔
جناب شاہد خاقان عباسی نے ذمہ دار ی قبول کرنے کے بعد یہ تصور کر لیا ہے کہ انہوں نے یہ ذمہ داری قبول کر کے قوم پر جو احسان عظیم کیا ہے وہی کافی سے زیادہ ہے۔ لیکن اس میں ان کا بھی کوئی قصور نہیں ہے۔یہاں فی الوقت مارکیٹ میں یہی کچھ ہو رہا ہے۔ عدل و انصاف کی صورتحال ناگفتہ ہے۔عدلیہ اسے تسلیم کرتی ہے اور بس۔ امن و امان مفقود ہے۔ وزارت داخلہ یہ بات مانتی ہے ۔ وزیر موصوف سے پوچھیں تو جواباً ناراض ہو جاتے ہیں اور جواب دہی کریں تو گھر بیٹھ جاتے ہیں مگر سکیورٹی کی بدترین صورتحال پر استعفیٰ نہیں دیتے۔ بجلی کے زور پر گزشتہ حکومت کو مسلسل ذلیل و خوار کرنے والے موجودہ حکمران بجلی کی مزید بری صورتحال پر استعفیٰ دینا تو ایک طرف شرمندہ تک نہیں ہوتے۔ موجودہ تیل بحران میں پی ایس او کی سب سے بڑی نادہندہ وزارت پانی و بجلی کے وفاقی وزیر خواجہ آصف نے اقرار کیا ہے کہ اس بحران کے ایک ذمہ دار ہم بھی ہیں۔ پی ایس او کو مالی طور پر تباہ و برباد کرنے میں ہم سب حصہ دار ہیں۔ صرف ان کی وزارت نے ایک سو ستر ارب روپے سے زیادہ دینے ہیں مگر وہ اس ''اقرار‘‘ کرنے کو ہی اپنا اخلاقی فریضہ سرانجام دے کر مزے سے وزارت فرما رہے ہیں۔ شیخ رشید کے ڈرائیور والے بیان کو موجودہ حکمرانوں نے اپنے لیے رول ماڈل بنا لیا ہے۔شیخ رشید نے تو صرف بات کی تھی موجودہ حکمرانوں نے اس کی بات کو باقاعدہ عملی شکل دیدی ہے اور چار چھ افسروں کو قربانی کا بکرا بنا کر اپنی گڈ گورننس کو قلبی تسکین اور تقویت پہنچائی ہے۔
باقی باتیں تو خیر اپنی جگہ پر رہیں اس سارے دھول اڑاتی پروگرام میں پانی و بجلی کے وزیر مملکت عابد شیر علی نے بے موقع پر بے محل گفتگو کرنے کے اپنے سابقہ ریکارڈ کو مزید بہتر کیا ہے اور خواجہ آصف کے اس بیان کے بعد بھی کہ وزارت پانی و بجلی بھی تیل کے موجودہ بحران کی ایک بڑی ذمہ دار ہے فرمایا ہے کہ تیل کا معاملہ چند روز میں ٹھیک کر دیا جائے گا۔خیبر پی کے میں صحت‘ تعلیم اور امن و امان کی صورتحال تشویشناک ہے۔ اسے کہتے ہیں ''ماروں گھٹنا پھوٹے آنکھ‘‘ ساری قوم حکمرانوں کو ''بیڈ گورنس‘‘ پر صلواتیں سنا رہی ہے۔ لوگ موٹر سائیکلیں گھسیٹ رہے ہیں۔ بچے رکشوں کو دھکا لگا رہے ہیں۔ خواتین سڑکوں پر خوار ہو رہی ہیں۔ دنیا ہمارا تماشا دیکھ رہی ہے ۔ تیل لانے والا جہاز عُمان کی بندرگاہ پر لنگر انداز ہونے کا منتظر ہے ۔ وزیر قوم سے جھوٹ بول رہے ہیں کہ تیل کا جہاز چوبیس جنوری تک کراچی پہنچنے والا ہے۔ ابھی فرنس آئل کے بحران کا اندیشہ نوشتہ دیوار نظر آ رہا ہے اور بجلی کے بدترین بحران کا بادل سر پر منڈلا رہا ہے ایسے میں اپنی کارکردگی پر نظر ڈالنے اور اپنے معاملات کو ٹھیک کرنے کے بجائے عابد شیر علی کو‘ کے پی کے حکومت کی کارکردگی کی سوجھ رہی ہے چند دن پہلے ایک وفاقی وزیر سے وزیر مملکت برائے پانی و بجلی کے عہدے پر عابد شیر علی کو تعینات کرنے کی وجہ پوچھی گئی تو انہوں نے فرمایا کہ انہیں مخالفین کو رگیدنے اور ذلیل کرنے کے لیے بیانات دینے پر مامور کیا گیا اور وہ یہ فریضہ بطریق احسن انجام دے رہے ہیں۔ انا للہ و انا الیہ راجعون! 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں