"KMK" (space) message & send to 7575

گرینڈ ریپڈز کی سردی‘ ہماری حکومت اور صحارا کی ریت

ملتان والوں کے بارے میں گرمی کے حوالے سے ایک لطیفہ مشہور ہے کہ دوزخ میں ایک شخص موٹا گرم کمبل اوڑھے لیٹا ہوا تھا جبکہ باقی لوگ آگ کی تپش سے بے حال تھے۔ گرمی کی شدت سے سب کی زبانیں باہر لٹک رہی تھیں اور اس مرد قلندر کو گرمی تو کیا لگنا تھی الٹا اسے اس حدت میں بھی سردی محسوس ہو رہی تھی۔ کسی نے فرشتے سے اس شخص کے بارے میں پوچھا کہ یہ کون ہے اور کہاں سے ہے؟ فرشتے نے کہا کہ اسے یہ تو معلوم نہیں کہ یہ کون ہے مگر اتنا پتہ ہے کہ اس کا تعلق شہر ملتان سے ہے۔ ایک دو مہینے کے استثنا کے ساتھ ملتان کے دو موسم ہیں۔ گرم اور بہت گرم۔ لیکن یہاں گرینڈ ریپڈز میں معاملہ الٹ ہے۔ یہاں بھی ایک آدھ مہینہ چھوڑ کر دو موسم ہیں۔ ٹھنڈا اور بہت ہی ٹھنڈا۔ تین روز قبل یہاں درجہ حرارت منفی تیئس ڈگری سینٹی گریڈ تھا۔ نقطہ انجماد سے تیئس درجے کم۔
ہر طرف برف کی سفید چادر بچھی ہوئی ہے۔ اپارٹمنٹ کے پچھواڑے‘ سامنے والے برآمدے میں‘ پچھواڑے کی بالکنی پر‘ اپارٹمنٹ کی باہر والی پگڈنڈی پر‘ سڑک پر‘ گیراج کی چھت پر‘ پیچھے میدان میں‘ سامنے گھروں کی چھتوں پر‘ درختوں پر‘ باہر کھڑی گاڑیوں پر حتیٰ کہ ہوا کے رخ پر برآمدوں اور کھلے گیراجوں کے اندر تک۔ تین دن پہلے ساری رات برفباری ہوتی رہی۔ سعدیہ وغیرہ کی گاڑی باہر کھلے میں کھڑی تھی۔ صبح اس پر قریب ایک فٹ برف پڑی ہوئی تھی۔ چھت‘ بونٹ‘ آگے پیچھے اور سائڈوں کے شیشے‘ ہر طرف سفید برف تھی۔ دوپہر کو نکلنا تھا تو گاڑی کی ڈکی میں سے ایک لمبا برش نکالا۔ اس برش کی دوسری طرف پلاسٹک کا کھرچنے والا بلیڈ سا لگا ہوا تھا۔ سخت سے اس بلیڈ سے سامنے والے شیشے کی برف کھرچی گئی۔ قریب آدھا گھنٹہ لگا تب جا کر سامنے والا شیشہ بمشکل اس قابل ہوا کہ ڈرائیونگ کی جا سکے۔ برش مار کر برف کی کرچیاں صاف کیں۔ جونہی گاڑی چلی ونڈسکرین پر بچی کھچی برف دوبارہ جم گئی اور سارا منظر دھندلا پڑ گیا۔ وائپر کام
نہیں کر رہے تھے۔ رک کر دوبارہ برف کھرچی تب جا کر بات بنی۔ سڑکوں سے برف ہٹائی جا چکی تھی۔ برف صاف کرنے والی گاڑیوں نے سڑک والی برف ہٹا کر کناروں پر ڈھیر کر دی تھی۔ سڑک کے کنارے اونچے ہو کر بالکل ایسے بن گئے تھے جیسے ہم کسی خشک نہر کی اندر گاڑی چلا رہے ہوں۔ سٹور کی پارکنگ کی برف بھی ہٹائی جا چکی تھی اور ایک طرف بصورت کسی پہاڑی کے ڈھیر ہوئی پڑی تھی۔ تمام شاپنگ سنٹرز میں‘ پلازوں اور اپارٹمنٹس کی بلڈنگز میں یہی اہتمام تھا۔ اتنی زیادہ برفباری کے باوجود کہیں بھی کام نہیں رکا تھا۔ سڑک کے کناروں والی ہر فٹ پاتھ صاف تھی۔ یہ فٹ پاتھ یا واک وے سرکار نے نہیں بلکہ گھروں کے رہائشیوں نے خود صاف کیے تھے۔ سامنے والا واک وے صاف کرنا ہر گھر والے کی ذمہ داری ہے اور اس میں اس کے پاس اپنی مرضی کرنے کا رتی برابر اختیار نہیں ہے۔ اسے یہ کام کرنا ہے اور ہر حال میں کرنا ہے۔ صبح صبح کرنا ہے یعنی لوگوں کی آمدورفت شروع ہونے سے پہلے۔ انتیس جنوری کو امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ یعنی وزیر خارجہ جان کیری کو اپنے گھر کے سامنے سے برف صاف نہ کرنے پر پچاس ڈالر جرمانہ ہو گیا تھا۔ وزیر خارجہ کے گھر کے سامنے سے برف صاف کرنا کسی سرکاری گاڑی کے ذمے نہیں۔ یہ برف جان کیری کو خود صاف کرنا تھی اور وہ اس میں ناکام رہا۔ ہمارے ہاں ای ڈی او کے گھر کارپوریشن کے چار مالی اور خاکروب ڈیوٹی دیتے ہیں۔ ڈی پی او کے گھر میں پندرہ نوکر بشمول باورچی‘ دھوبی‘ خاکروب‘ مالی‘ چوکیدار وغیرہ چوبیس گھنٹے حاضر رہتے ہیں۔ یہی حال دیگر سرکاری افسروں کا ہے۔ افسر صرف منہ ہلا کر روٹی خود کھاتا ہے۔ اگر یہ کام افسر نوکروں سے کروا سکتے تو اس کے لیے بھی دو چار نوکروں کی ڈیوٹی لگا دی جاتی
مگر مجبوری ہے اس لیے افسر اپنا منہ خود چلاتے ہیں۔
ملتان سے چلتے ہوئے میں نے ہر ممکن حد تک سردی سے بچائو کا بندوبست کر لیا تھا۔ موٹی اونی ٹوپی‘ دستانے‘ تھرمل‘ ہڈوالی ایک موٹی جیکٹ‘ اپنا اوورکوٹ‘ فل شوز جو کبھی شکار میں استعمال ہوتے تھے اور گزشتہ کئی برسوں سے الماری کے نچلے خانے میں بیکار پڑے تھے۔ یہ سارا سامان یک طرفہ سفر کے لیے تھا۔ ارادہ کیا تھا کہ واپسی پر وہیں چھوڑ آئوں گا کہ ملتان میں تو ان کے استعمال کی کبھی نوبت ہی نہیں آئی اور نہ ہی مستقبل میں ایسی کوئی امید تھی۔ بوٹ ملتان سے ہی پہن لیے تھے کہ بیگ میں جگہ کم تھی اوورکوٹ کو بازو پر دوہرا کر کے لٹکا لیا تھا‘ جہاز میں یہ کوٹ سٹیورڈ کے حوالے کر دیا اور شکاگو ایئرپورٹ پر اترتے ہی پہن لیا تھا۔ شکاگو ایئرپورٹ پر اترنے کے بعد ایک گھنٹہ سامان کا انتظار کیا۔ ہمیں بتایا گیا کہ جہاز کا کارگو گیٹ برف کی وجہ سے جام ہو گیا ہے اور کم از کم آدھے گھنٹے بعد کھلے گا۔ ایئرپورٹ پر عہد آفرین ہمارا منتظر تھا۔ شکاگو سے گرینڈ ریپڈز کا سفر اڑھائی تین گھنٹے کا ہے مگر اس روز ساڑھے چار گھنٹے لگے۔ برف کی وجہ سے گاڑی کی رفتار تھوڑی کم تھی اور راستے میں دو ایکسیڈنٹ ہوئے تھے جس کی وجہ سے ٹریفک جام ملا اور تقریباً ایک گھنٹہ ضائع ہوا۔
تین دن پہلے خانیوال سے ملک احسان کا فون آیا۔ سردی سے تنگ و پریشان احسان نے چھوٹتے ہی پوچھا کہ درجہ حرارت کیا ہے؟ میں نے کہا منفی تیئس ڈگری سینٹی گریڈ۔ پوچھے لگا گزارا کیسے ہوتا ہے؟ میں نے کہا: گرم ٹوپی ہے‘ دستانے ہیں‘ تھرمل ہے‘ لانگ شوز ہیں اور ایک عدد نہایت موٹی اور گرم جیکٹ ہے۔ اس سارے اہتمام کے بعد سردی کی کیا مجال ہے کہ قریب بھی آئے۔ پھر احسان نے پوچھا گھر کے اندر کیا حالات ہیں؟ میں نے کہا: حسب معمول ہیں۔ اس نے پوچھا: کیا مطلب ہے کہ حسب معمول ہیں؟ میں نے کہا: میں نے پاجامہ ٹی شرٹ پہنی ہوئی ہے حسب معمول‘ ملتان کی طرح۔ کہنے لگا: کیا مطلب؟ اتنی سردی میں بھی؟ کیا مرنے کا ارادہ ہے؟ میں نے کہا: گھر کے اندر درجہ حرارت سینٹی گریڈ کے حساب سے چوبیس درجے اور فارن ہائٹ کے حساب سے پچھتر درجے ہے‘ یعنی آج کے ملتان کے درجہ حرارت سے دو ڈگری زیادہ۔ ملک کو ایک دم تائو آ گیا‘ کہنے لگا: اوئے لعنتی پہلے بتانا تھا‘ خوامخواہ میں تیرے لیے اتنا فکر مند ہو رہا تھا کہ پتہ نہیں کس طرح گزارا کر رہا ہوگا؟ کتنی سردی ہے‘ گھر میں کیسے رہ رہا ہوگا‘ منفی تیئس کا سن کر میرے پائوں تلے سے ویسے ہی زمین نکلی ہوئی تھی‘ اوپر سے تمہاری لاپروائی کا پتہ تھا‘ مجھے مسلسل ایک ہی پریشانی تھی کہ پتہ نہیں گھر میں گرم کپڑے پہنتا ہوگا یا نہیں؟ ادھر معاملہ یہ ہے کہ گھر کے اندر باقاعدہ گرم ماحول ہے۔ ہم تمہارے بارے میں فکر مند اس لیے بھی تھے کہ ہمیں سردی کی شدت کا کئی سال سے بڑا تلخ تجربہ ہے۔ صبح سات بجے سے رات نو بجے تک گیس نہیں ہوتی۔ چولہا نہیں جلتا۔ ہیٹر نہیں جلتا۔ ہر گھنٹے بعد بجلی چلی جاتی ہے۔ کمرے یخ ٹھنڈے ہیں۔ ہاتھ پائوں پورے دو مہینے برف کی طرح ٹھنڈے رہے ہیں۔ ایسے میں شکر یہ ہے کہ درجہ حرارت منفی میں نہیں گیا۔ ادھر جب تمہاری طرف منفی تیئس کا سنا تو فوری طور پر سردی کی شدت کا اندازہ ہوا کہ وہاں کیا حال ہوگا۔ یہ خیال ہی نہیں رہا کہ تم پاکستان میں نہیں بلکہ امریکہ میں ہو‘ جہاں بجلی نہیں جاتی‘ گیس کی لوڈشیڈنگ نہیں ہے۔ گھر اندر سے سینٹرلی ہیٹڈ ہیں۔ تم پاجامہ چھوڑ نیکر پہن سکتے ہو اور ٹی شرٹ کی جگہ بنیان پہن لو تو بھی کوئی حرج نہیں۔ میرا خیال سوئی گیس والوں کے اشتہار پر چلا گیا تھا۔ سوئی گیس والے ہر سال سردیوں کے شروع میں اشتہار جاری کرتے ہیں کہ سردیوں میں گیزر کو صبح استعمال سے ایک گھنٹہ پہلے آن کریں۔ ادھر حال یہ ہے کہ جب آن کرنے سردی میں باہر جاتے ہیں تو پتہ چلتا ہے گیس ہی نہیں آ رہی۔ یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ ہیٹر جلانا صحت کے لیے اچھا نہیں۔ ہیٹر نہ جلائیں اور گھر کے اندر موٹے کپڑے پہنیں۔ میرا خیال تھا کہ تم گھر کے اندر موٹے کپڑے پہنے پھر رہے ہو گے۔ میں نے کہا: ملک احسان! اللہ کا شکر ہے کہ یہاں ہیٹر جلانے کے بارے میں ایسا کوئی اشتہار نہیں آتا اور نہ ہی لوگوں کو گھروں میں موٹے کپڑے پہننے کی ہدایت کی جاتی ہے‘ وگرنہ گھروں کے اندر اتنی ٹھنڈ ہوتی کہ بندہ رضائی میں بھی جم جاتا۔ تم خانیوال میں محض موٹے کپڑوں میں کتنی سردی برداشت کر سکتے ہو؟
چند سال پہلے ہم بجلی بھارت کو بیچنے جا رہے تھے اب خریدنے کے لیے تیار بیٹھے ہیں۔ کبھی سنتے تھے کہ ہمارے پاس گیس کے دنیا کے چند بڑے ذخائر میں سے ایک ذخیرہ ہے‘ اب صورتحال یہ ہے کہ سارا سارا دن گیس نہیں آتی۔ سی این جی سٹیشن پہلے ہفتہ وار چلتے تھے اب چار مہینے کے لیے بند ہیں۔
میجر جیفری ڈی لینگلینڈز (Geoffrey D. Lanlands) نے فیس بک پر ایک پوسٹ 29نومبر 2014ء کو بھیجی تھی۔ پوسٹ میں اس نے لکھا ہے ''اگر آپ پاکستان کی وفاقی حکومت کو صحارا ڈیزرٹ کا انچارج بنا دیں تو وہاں بھی پانچ سال کے اندر اندر ریت کی کمی ہو جائے گی‘‘۔ یہ میجر جیفری ڈی لینگ لینڈز کون ہے؟ اس پر پھر کبھی سہی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں