"KMK" (space) message & send to 7575

اظہار الحق کا ایک شعر

شکر ہے اس ذات باری تعالیٰ کا جس نے اتنی بڑی تعداد کے دل میں اس عاجز کی محبت ڈالی۔ تعزیت کرنے والے دوست اور احباب اس طرح آئے کہ پانچ دن صبح بلکہ علی الصبح سے لے کر رات دیر تک ایک منٹ کی فرصت محال ہو گئی۔ تھکاوٹ کے باوجود بار بار کے کرم پر دل شکر گزاری سے لبریز رہا کہ میرا غم بٹانے کے لیے اس ناپائیدار دنیا میں اتنے لوگ موجودہیں ۔ میں نے صرف چار ٹیلی فون کئے ۔تین رشتہ داروں کو ایک دوست کو۔ باقی کام انہی لوگوں نے کیا۔ اباجی اتوار کی صبح اپنے خالق حقیقی سے جاملے اور عصر کے بعد انہیں مٹی کے سپرد کر دیا گیا ۔ نہ کسی اخبار میں خبر آئی اور نہ سوشل میڈیا پر ۔بے شمار دوستوں کو بعد میں پتہ چلا۔ ان کا گلہ اپنی جگہ مگر اس کے باوجود ان گنت دوست جنازے پر پہنچ گئے۔ چھٹے روز میں سعودی عرب چلا گیا۔
سعودی عرب کا مختصر سا سفر انتظامی خرابی کے باعث طویل تر ہو گیا۔ رات گئے پونے تین بجے اسلام آباد پہنچا۔ راستے میں بارش رہی۔ علی الصبح پانچ بجے کے لگ بھگ دوحہ ایئر پورٹ پر اترا۔ دوحہ سے جدہ کی کنیکٹنگ فلائٹ پونے آٹھ گھنٹے بعد تھی اور آگے پھر پونے تین گھنٹے کا سفر درپیش تھا۔ یعنی کل سفر تقریباً ستائیس گھنٹوں پر پہنچ گیا تھا۔ ملتان سے جدہ کی ڈائریکٹ فلائٹ ہو تو یہ سفر صرف پانچ گھنٹوں کا ہے۔ ملتان سے جدہ کے لیے ہفتہ میں ایک براہ راست پرواز ہے۔ ملتان سے جدہ براستہ کراچی جائیں تو کراچی میں چھ گھنٹے رکنے کے باوجود بارہ گھنٹوں میں جدہ پہنچ جاتے ہیں مگر مسلسل سفر کا عادی یہ مسافر گھر سے چلنے کے تیس گھنٹے بعد جدہ کے ہوٹل میں پہنچا تو تقریباً تازہ دم ہی تھا۔
جدہ ایئر پورٹ سعودی عرب کی واحد جگہ ہے کہ جب بھی
جائیں، پہلے جیسی ملتی ہے۔ امیگریشن ڈیسکوں پر بیٹھے ہوئے نوجوان افسروں سے لے کر قطاریں بنوانے اور تڑوانے والے سپاہیوں تک ،کسی چیز میں رتی برابر تبدیلی محسوس نہیں ہوتی۔ ہر بار یہی لگتا ہے کہ ہم ایک عرصے سے یہیں کھڑے ہیں اور بار بار اسی عمل سے گزر رہے ہیں۔ ایک انگلی سے کمپیوٹر پر بڑی تسلی سے کام کرتے ہوئے سعودی نوجوان ٹائپ کرتے کرتے اپنے خیالات میں کھو جاتے ہیں۔ درمیان سے اٹھ کر کسی نامعلوم کام کو سرانجام دینے چلے جاتے ہیں۔ نہایت ہی آہستہ آہستہ چلتی ہوئی قطار میں جب آپ کی باری آنے لگتی ہے تو اچانک ایک باوردی سپاہی آتا ہے اور قطار تڑوا کر اس قطار کے لوگوں کو کسی دوسری قطار میں لگا دیتا ہے۔ آپ دوسری قطار کو حیرت سے دیکھتے ہیں مگر جلد ہی آپ کی حسرت مسرت میں تبدیل ہو جاتی ہے ۔ آپ کے ساتھ والی قطار جو ٹھیک ٹھاک چل رہی ہوتی ہے، اس کو تڑواکر اس قطار میں شامل کروا دیتا ہے جہاں سے آپ کو ہٹا کر نئی قطار میں کھڑا کیا تھا۔ دل خوش ہو جاتا ہے کہ سب کے ساتھ یکساں سلوک ہو رہا ہے اور کوئی شخص بھی ان قطاروں کی توڑ پھوڑ سے محفوظ نہیں رہا۔
جب میں امیگریشن افسر کے بالکل قریب پہنچ گیا اور میرے اور اس کے درمیان محض ایک مسافر رہ گیا ،تودور سے ایک سپاہی بڑی پھرتی سے ادھر آتا نظر آیا۔ گمان ہوا کہ اب یہ ہماری قطار تڑوا دے گا، تاہم میرا اندازہ غلط نکلا اس کی پھرتیوں کی کوئی اور وجہ ہو گی ۔ وہ ہمارے قریب سے گزر کر ''دورات میاہ الرجال‘‘ میں چلا گیا۔ میں نے شکر ادا کیا اور اطمینان کا سانس لیا۔ ایک عرصے کے بعد ایسا ہوا کہ میری امیگریشن اسی قطار میں اختتام پذیر ہوئی جس قطار میں شروع میں کھڑا ہوا تھا۔ تاہم میری امیدیں مکمل طور پر مایوسی میں تبدیل ہونے سے بال بال بچ گئیں۔ جونہی میں نے اپنے پاسپورٹ پر ٹھپہ لگوایا،باوردی سپاہی بہت حد تک ریلیکس ہو چکا تھا۔ اس نے آتے ہی قطار تڑوائی اور اسے دوسری قطار میں ضم کروادیا۔ جی خوش ہوا کہ مکمل مایوسی سے بچ گئے، تاہم شکرادا کیا کہ اس بار یہ عمل تب پایہ تکمیل تک پہنچا جب میں فارغ ہو چکا تھا۔
جدے میں قیام ایک دن سے بھی کم تھا۔ ہوٹل پہنچ کر عصر کی نماز پڑھی۔ ایک گھنٹے بعد کا الارم لگایا اور سو گیا۔ مغرب کے بعد تیار ہوگیا۔ پہلے عشائیہ تھااور پھر مشاعرہ۔ پاکستان قونصلیٹ جدہ کے زیراہتمام ہونے والا مشاعرہ پاکستان سکول جدہ کے بے نظیر بھٹو آڈیٹوریم میں تھا۔ سرکاری سرپرستی میں ہونے والے مشاعروں کے برعکس ہال بھرا ہوا تھا اور عمومی سعودی روایات سے ہٹ کر ہال میں موجود سامعین کی تعداد کا تقریباً چالیس فیصد خواتین پر مشتمل تھا۔ یہ ایک بھرپور مشاعرہ تھا۔ پاکستان سے میرے علاوہ افتخار عارف، انورمسعود، رسا چغتائی، نصیر ترابی، عباس تابش، فاطمہ حسن، رخشندہ نوید، بیرم خان اور شاہد زمان شریک مشاعرہ تھے۔ چھ سات مقامی شعراء تھے۔ مشاعرہ رات گئے تک چلا اور سامعین کی غالب تعداد مشاعرے کے اختتام تک ہال میں موجود رہی۔ یہ ہر حوالے سے ایک کامیاب مشاعرہ تھا جس میں پاکستان کے تمام صوبوں کی نمائندگی تھی۔ خیبر پختونخوا سے شاہد زمان اور بلوچستان سے بیرم خان۔ سرکاری میزبان تو وہاں تھے ہی کہ ان کی ڈیوٹی تھی، تاہم جدہ میں ملتان کا نوجوان شاعر مختار علی ملتان کی پوری روایتی مہمان نوازی کے ساتھ ہر جگہ موجود تھا۔ خط رعنا کے موجد نامور خطاط ابن کلیم کا صاحبزادہ بہت اچھا شاعر ہے اور تین کتابوں کا خالق۔ جدہ میں ہم دونوں نے مل کر چھوٹا سا ملتان بنایا اور موج میلہ کیا۔
میں اگلے روز مکہ روانہ ہوگیا۔راستے میں سے گزرتے ہوئے ایک دوست نے بائیں طرف اشارہ کرکے بتایا کہ وہ بائیں طرف امریکن قونصلیٹ ہے۔ پھر ہنس کر کہنے لگا ''کیا عجب لطیفہ ہے ۔یہ سڑک شاہراہ فلسطین ہے اور امریکی قونصلیٹ شاہراہ فلسطین پر ہے‘‘۔ پھر وہ دوست کہنے لگا ''وہ دائیں طرف ایک برائون رنگ کی مسجد کا مینار ہے۔ یہ میاں نواز شریف کے گھر سے متصل مسجد ہے۔ گھر زیادہ بڑا نہیں۔ آٹھ دس کنال کا ہے۔ یہاں سعودی امرا رہتے ہیں اور ان کے گھر زیادہ بڑے ہیں‘‘۔ عصر کے بعد میں حرم شریف میں تھا اور عشاء کی نماز کے بعد باب فہد کے سامنے ہوٹل دارالتوحید کے باہر فرش پر بیٹھ کر اپنی ممانی کے پائوں دبا رہا تھا۔ میرا ماموں زاد خالد محمود صدیقی اپنی اہلیہ اور والد کے ہمراہ مجھے ملنے کیلئے جدہ سے آیا تھا۔ جدہ میں ہمارا رابطہ نہ ہوسکا کیونکہ میں جلدی میں تھا۔ وہ لوگ مجھے ملنے مکہ پہنچ گئے۔ تھوڑی دیر ان کے ساتھ رہا اور پھر مدینہ روانہ ہوگیا۔ رات دو بجے میں مدینہ طیبہ میں تھا۔
میں نے اپنا فون جدہ سے نکلتے ہی آف کرکے بیگ میں بند کردیا تھا۔ ان دو شہروں میں فون وغیرہ کا کیا کام؟ ہم کیا اور ہمارے حرفوں کی اوقات کیا؟ اول تو کیفیت قلب بیان کرنا ہی ناممکن ہے اوراگر کوئی لکھنے والادل کا حال لکھنے پر قادر ہو بھی جائے تو اس حال کا کیا لکھنا؟ گناہوں، لغزشوں، غلطیوں اور خطائوں کا معاملہ قادر مطلق کے روبرو تو ویسے ہی کھلی کتاب ہے ، اب سب پر کیا منکشف کرنا۔ ہم کیا اور ہماری اوقات کیا ہے۔ کیسے کیسے انجان مہربانوں کے طفیل کہاں کہاں حاضری ہوئی؟ اللہ ان مہربانوں پر اپنا کرم کرے اور اس گنہگار کی حاضری قبول کرے۔ حاضری سے حضوری تک کا لمبا سفر مقدر والے لمحوں میں طے کرلیتے ہیں مگر اس گنہگار کے ایسے نصیب کہاں۔ جناب امام مالک ؒیاد آئے۔ مدینہ کی گلیوں میں ساری عمر جوتے کے بغیر گزاری۔ حوصلہ نہ ہوا کہ اس شہر میں جوتے کے ساتھ پھرتے، جہاں آقائے دوجہاں کے قدم مبارک پڑتے تھے۔ سردیاں گرمیاں اسی حالت میں گزار دیں۔ ساڑھے آٹھ عشرے ننگے پائوں مدینے میں گزار کر جنت البقیع میں جا سوئے۔ یہ عاجز امام مالکؒ کی نقل تو کرتا ہے مگر لغزشوں ، خطائوں اور گناہوں کا بوجھ اتنا ہے کہ ندامت کے علاوہ حاصل وصول ہی کچھ نہیں۔ مدینے کی گلیوں میں محمد اظہا الحق بڑے یاد آئے۔ ان کا ایک شعر ؎
کئی موسم گزر گئے مجھ پر احرام کے ان دو کپڑوں میں
کبھی پتھر چوم نہیں سکتا، کبھی اذن طواف نہیں ہوتا

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں