"KMK" (space) message & send to 7575

باقی معاملات کا کچھ حصہ

قصہ مختصر‘ لاہور میں بہائوالدین زکریا یونیورسٹی کا سب کیمپس اس طرح کھلا کہ پہلے جناب وائس چانسلر نے اپنے حواری ممبران کی مدد سے تمام پرائیویٹ اور خود مختار ممبران کی شدید مخالفت کے باوجود منظوری دیدی۔ جب ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ‘ وزیر تعلیم اور وزیر اعلیٰ کی طرف سے تحفظات سامنے آئے تو اسی سنڈیکیٹ نے بھاری اکثریت سے یہ منظوری نامنظور کر دی۔ تاہم یونیورسٹی انتظامیہ کی ملی بھگت سے فروخت درفروخت کردہ لاہور سب کیمپس کے مالکان نے سول کورٹ سے حکم امتناعی لے کرکام چلانا شروع کر دیا۔ یعنی یونیورسٹی راضی نہیں اور پرائیویٹ مالک زبردستی سب کیمپس چلائے جا رہا ہے۔ اسی دوران عدالت نے جامعہ زکریا کے سنڈیکیٹ کا کوئی اجلاس لاہورسب کیمپس کے معاملے پر بلانے پر بھی حکم امتناعی جاری کر دیا۔ مزید برآں ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ حکومت پنجاب نے بھی ایک خط نمبری(9) SO (univ) 6-6/03مورخہ 30-6-2014کے ذریعے جامعہ زکریا کی انتظامیہ کو بذریعہ رجسٹرار لاہور سب کیمپس کے معاملے پر کوئی اجلاس منعقد کرنے سے منع کر دیا۔ جامعہ زکریا کی انتظامیہ نے ایچ ای ڈی کو ایسا کوئی اجلاس نہ بلانے کی یقین دہانی کروا دی۔ اب فراڈ در فراڈ کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔
مورخہ پندرہ ستمبر2014ء کو سنڈیکیٹ کا اجلاس بلا لیا گیا۔ یہ اجلاس سنگل پوائنٹ ایجنڈے پر تھا اور یہ سنگل پوائنٹ لاہور سب کیمپس کا معاملہ تھا۔ عدالتی حکم موجود ہے‘ ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کی ہدایت موجود ہے مگر جناب وائس چانسلر عدالتی اور حکومتی ہدایت کے باوجود سنڈیکیٹ کا اجلاس بلانے پربضد ہیں۔ ظاہر ہے اس کی وجوہ نہایت ذاتی ہوں گی اور رازدان بتاتے ہیں کہ یہ معاملہ ''وجوہ‘‘ پر مبنی نہیں ہے بلکہ سنگل پوائنٹ ایجنڈا والا معاملہ ہے اور یہ سنگل پوائنٹ کافی بھاری رقم پر مشتمل ہے۔ مجھے راز داروں کی اس بات پر حالانکہ شبہ ہے کہ ایسی کوئی بات ہو گی کیونکہ بہائوالدین زکریا یونیورسٹی کے وائس چانسلر خواجہ محمد علقمہ میرے بڑے پرانے دوست ہیں اور ان سے کبھی بڑی گپ شپ رہتی تھی۔ اپنی گفتگو سے وہ نہایت ایماندار‘ انقلابی‘ کچھ کر گزرنے والے اور عالم فاضل آدمی لگتے تھے۔ اوپر سے خواجہ منیر الدین جیسے بڑے آدمی کے فرزند ہیں لہٰذا میرا دل نہیں مانتا مگر واقفان حال ایسی ایسی بات سناتے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے اور برسوں سے قائم تصورات چکنا چور ہو جاتے ہیں۔ یونیورسٹی میں مشہور ہے کہ جتنے گریڈ کا معاملہ ہے‘ اتنے لاکھ میں طے ہو سکتا ہے ۔ یعنی گریڈ سترہ کا معاملہ سترہ لاکھ میں اور گریڈ بیس کا معاملہ بیس لاکھ میں۔ یہ عاجز کیونکہ آج کل یونیورسٹی سے تقریباً لاتعلق ہے اس لیے ذاتی تجربہ تو نہیں تاہم راوی کافی معتبر ہیں۔
خیر بات ہو رہی تھی پندرہ ستمبر 2014ء والے اجلاس کی۔ جب اجلاس شروع ہوا تو قانون سے آگاہی رکھنے والے چار ممبران نے اس اجلاس کی قانونی حیثیت پر اعتراض اٹھایا ۔ وائس چانسلر اور اس کے پانچ حواری بضد تھے کہ میٹنگ جاری رکھی جائے مگر چار ممبران یعنی جسٹس (ر) محمد ظفر یٰسین‘ سابق وائس چانسلر جامعہ زکریا ڈاکٹر محمد عاشق خان درانی‘ پروفیسر(ر) فرخندہ ممتاز (Eminent scholar) اور پروفیسر ڈاکٹر محمد جمیل انوروائس چانسلر لاہور گیریژن یونیورسٹی‘ اجلاس سے اٹھ کر چلے گئے۔ کل دس ارکان میں سے چار اٹھ کر باہر چلے گئے ۔ کورم کی کم از کم لازمی تعداد نو ارکان تھی مگر وہاں چھ ارکان بچ گئے تھے۔ اس طرح کورم ٹوٹ گیا۔ مزید برآں یہ ہوا کہ فنانس ڈیپارٹمنٹ ملتان کا نامزد کردہ ممبر ایگزیکٹو ڈسٹرکٹ آفیسر بھی اس اجلاس سے واک آئوٹ کر گیا۔ وائس چانسلر اجلاس سے اٹھ کر واک آئوٹ کرنے والے چاروں ممبران کے پیچھے آئے اور انہیں گھیر گھار کر اپنے دفتر میں لے گئے کہ اجلاس تو ختم سمجھیں مگر آپ میرے دفتر میں تو بیٹھیں۔ وہاں انہوں نے چاروں ممبران کو چائے پلائی اور اجلاس کورم ٹوٹنے کے باعث ختم ہو گیا۔ اب ایک فراڈ کیا گیا۔ اس میٹنگ کے منٹس یعنی کارروائی جاری کی گئی جس میں کہا گیا کہ دس ارکان اجلاس میں شریک ہوئے اور چار نے مخالفت کی جبکہ چھ ممبران نے لاہور سب کیمپس کی منظوری دیدی۔ ان منظوری دینے والے چھ ارکان میں ایک ایسا رکن بھی شامل کر دیا گیا جو بعدازاں واک آئوٹ کر گیا تھا۔اس غیر حاضر ممبر کا نام منظوری پر دستخط کرنے والوں میں ڈال دیا گیا۔ اس ممبر نے اس فراڈ پر یونیورسٹی کے رجسٹرار کو اپنے سرکاری لیٹر پیڈ پر خط نمبرEDO(F&P)-MISC/2014/231-مورخہ پندرہ نومبر بھجوایا اور اپنی غیر حاضری کو دستخطوں میں تبدیل کرنے پر اعتراض کیا اور کارروائی کو درست کرنے کی ہدایت کی۔
اسی طرح دیگر چاروں ممبران نے اس سلسلے میں مورخہ اٹھارہ ستمبر کو یعنی اس غیر قانونی اور ناکام اجلاس کے چار دن بعد ہی گورنر پنجاب‘ جو بلحاظ عہدہ جامعہ زکریا کے چانسلر ہیں کو ایک تفصیلی خط لکھا جس میں اس اجلاس کے لیے انگریزی کے الفاظ میں لکھا کہ:
Vice chancellor gave an unlawful approval and under his unlawful orders, Registrar issued an unlawful notification M 16th. September, 2014, which comes under definition of fraud and fabrication of documents and rules.
میں نے انگریزی کا ترجمہ صرف اس لیے نہیں کیا کہ کہیں اس کو اردو میں ڈھالتے ہوئے اردو میں دستیاب کئی متبادل الفاظ میں سے کوئی ایسا ناپسندیدہ لفظ استعمال نہ کر جائوں جو میرے عزیز دوست ڈاکٹر خواجہ علقمہ کو ناگوار گزرے۔ وائس چانسلر نے ایک ایسے اجلاس کی کارروائی کو جعلی طور پر قانونی شکل دینے کی کوشش کی جو کورم ٹوٹ جانے کے باعث ہوا ہی نہیں تھا۔
پندرہ ستمبر 2014ء کی جعلی میٹنگ اور جاری کردہ خود ساختہ کارروائی (Minutes)پر فاضل ممبران کے بھر پور احتجاج پر مورخہ 13مارچ کو ایک میٹنگ ہوئی جس میں تحریری طور پر پندرہ ستمبر والی میٹنگ کی ساری کارروائی اور اس کارروائی کی منظوری والے 16ستمبر 2014ء اور اس سے قبل جاری ہونے والے 13جولائی 2013ء والے نوٹیفکیشن کے بارے میں لکھا گیا کہ یہ کبھی منظور ہی نہیں ہوئے تھے اور 15ستمبر والی میٹنگ کو ''نام نہاد (So Called) تسلیم کیا گیا۔ اسی میٹنگ میں فیصلہ ہوا کہ مورخہ 21مارچ 2015ء کو لاہور سب کیمپس کے یک نکاتی ایجنڈے پر ایک میٹنگ بلائی جائے۔ 21مارچ2015ء والی میٹنگ میں لاہور سب کیمپس بارے چند اصولی فیصلے لیے گئے ۔ ان فیصلوں کی منظوری دیتے ہوئے یہ بات مدنظر رکھی گئی کہ لاہور سب کیمپس میں پڑھنے والے طلبہ کا نہ تو مالی نقصان ہو اور نہ ہی ان کا تعلیمی حرج ہو۔ اس غرض سے معاملے کو ریگولرائز کرنے کے لیے اہم انتظامی تجاویز دی گئیں کہ ان کو پورا کیا جائے۔ ان تجاویز اورفیصلوں کے حوالے سے لاہور سب کیمپس کے موجودہ خریدار کو یہ سب کچھ منظور نہیں تھا۔ واقفان حال کا کہنا ہے کہ باہمی مفادات کے تحفظ کے تحت ہونے والی سابقہ پارٹنرشپ ڈیڈ کے تحت حاصل ہونے والا نفع اور کھل کھیلنے کے مواقع پر پابندی اس خریدار کو منظور نہ تھی اور اس نے اس سلسلے میں سہولت کاروںکو جو ادائیگیاں کی تھیں ان کا حق خدمت اسی طرح طلب کیا جیسا طے تھا‘ لہٰذا یونیورسٹی انتظامیہ نے مورخہ 21مارچ2015ء کی میٹنگ میں ہونے والے متفقہ فیصلوں میں ایک بار پھر ہیر پھیر کرنے کا نیا طریقہ نکالا اور آبزرویشن کے نام سے خود وائس چانسلر نے اور دیگرممبران نے جن کی اکثریت یونیورسٹی ملازمین کی تھی‘ دوبارہ پخ ڈال دی کہ فلاں بات ہوئی تھی اور فلاں نہیں ہوئی تھی۔ اس آبزرویشن کی بنیاد پر غیر قانونی طورپر منٹس آف دی میٹنگ کو ایک بار پھر اوپر نیچے کر دیا گیا۔ حالانکہ قانون اور قاعدے کی رو سے منٹس میں تبدیلی صرف اور صرف باقاعدہ میٹنگ میں ہی ممکن ہے۔ اس کا طریقہ کار یہ ہے کہ میٹنگ سے قبل سابقہ میٹنگ کے منٹس آئندہ میٹنگ کے ایجنڈے کے ہمراہ ہر ممبر کو بھجوا دیئے جاتے ہیں اور اگر اسے کسی چیز سے اختلاف ہو تو وہ تحریری طورپر سیکرٹری کو میٹنگ سے قبل یا زبانی طور پر میٹنگ کے آغاز میں جب سابقہ میٹنگ کے منٹس کی منظوری مانگی جائے‘ مطلع کر دیتا ہے۔ سارے ممبران یہ اعتراض یا اختلاف سنتے ہیں‘ اسے منظور یا مسترد کرتے ہیں۔ منظور ہونے کی صورت میں وہ منٹس کا حصہ بن جاتا ہے مگر وائس چانسلر موصوف اتنی پھرتیوں میں ہیں کہ تمام طے شدہ قاعدے اور ضابطے لتاڑتے جا رہے ہیں۔
ایک اہم ترین بات یہ ہے کہ جب بہائوالدین زکریا یونیورسٹی کا قیام عمل میں آیا تو یہ شاید واحد یونیورسٹی تھی جس کے قیام کا مقصد تعلیم کا علاقائی سطح پر پھیلانا تھا‘ یعنی ملتان اور اس سے ملحقہ پسماندہ علاقے نہ کہ نہر کے کنارے لاہور میں سب کیمپس کا قیام۔
ایک طرف حکومتی پھرتیوںیہ عالم ہے کہ نامعلوم لوگوں کو جاری کی گئی ایگزیکٹ کی ڈگریوں کو بہانہ بنا کر بول ٹی وی کی ٹیسٹ نشریات بند کروانے کے لیے خط لکھ رہی ہے جس کا براہ راست کسی ایسے جرم سے تعلق نہیں جو ایگزیکٹ سے وابستہ کیے جا رہے ہیں اور دوسری طرف یہ عالم ہے کہ خادم اعلیٰ کا چہیتا گزشتہ پونے چار سال سے بہائوالدین زکریا یونیورسٹی کے تشخص ‘ نیک نامی‘تعلیمی معیار‘ مالی شفافیت اور اخلاقی اقدارکو برباد کئے جا رہا ہے اور میرٹ کے علمبردار میاں شہباز شریف مسلسل آنکھیں بند کیے بیٹھے ہیں۔ یہ مسئلے کا حل نہیں مگر سچ یہ کہ خادم اعلیٰ کو لاہور کے علاوہ اور کسی علاقے کا مسئلہ حل کرنے سے نہ تو دلچسپی ہے اور نہ ہی ان کے پاس وقت ہے۔ یہ باقی معاملات کا کچھ حصہ ہے۔ ابھی کافی کچھ باقی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں