"KMK" (space) message & send to 7575

Total Collapse

حکومت کی رٹ کی کیا بات کریں؟ یہ سودا اب تقریباً عنقا ہو چکا ہے۔ معاشرہ عجب نہج پر چل رہا ہے۔ رشوت‘ کرپشن‘ ناجائز منافع خوری اور اوورچارجنگ ایسے معاملات گھسے پٹے موضوع بن چکے ہیں کہ اب نہ ان پر کوئی اعتراض کرتا ہے اور نہ ہی اس پر آواز اٹھاتا ہے۔ حالات کی خرابی کا یہ عالم ہے کہ اگر کوئی شخص ان مسئلوں پر بات کرے تو باقی لوگ اسے حیرانی سے دیکھنے لگ جاتے ہیں۔ اب ان باتوں کو ہم نے قبول کر لیا ہے ان پر احتجاج کرنا‘ آواز بلند کرنا یا کوئی عملی قدم اٹھانا تقریباً بند کردیا ہے۔ جس کا جہاں زور چلتا ہے چلائے جا رہا ہے۔ معاملہ دو طرح کا آن پڑا ہے۔ ایک ایسا کہ لوگ آپ کی مجبوری خرید رہے ہیں اور من چاہے دام پر خرید رہے ہیں۔ عدالتوں میں وکیل‘ ہسپتالوں میں مسیحا اور تھانوں‘ پٹوار خانوں میں آپ کی سہولت کے لیے تعینات کیے گئے سرکاری اہلکار۔ دوسرا یہ کہ مختلف طبقوں نے گٹھ جوڑ کر کے آپ کو اور ہم کو لوٹنے کا تہیہ کر رکھا ہے۔ تمام معزز پیشے اور شعبے بے اعتبار ہو چکے ہیں اور ان پر اعتماد ختم ہو چکا ہے۔
ایک زمانہ تھا کہ پٹرول کی قیمتیں سال میں ایک بار بجٹ میں انائونس ہوتی تھیں اور سارا سال چلتی تھیں۔ لوگوں کو پٹرول کی قیمت زبانی یاد ہوتی تھی۔ جب سے اوگرا وغیرہ کی ولادت باسعادت ہوئی ہے ہم لوگ اس سالانہ قیمت والی سہولت سے محروم ہو چکے ہیں۔ ''پیسہ‘‘ نامی سکے کا عملی طور پر اب وجود ختم ہو چکا ہے مگر قیمت کا اعلان کرتے وقت اس مرحوم کو بلا دریغ استعمال کیا جاتا ہے۔ ہر ماہ نئی قیمت نے ایسے گورکھ دھندے میں ڈالا ہے کہ اب ہر شخص کا معاملہ تقریباً تقریباً اس سردار جیسا ہو چکا ہے جس کے آگے کسی شخص نے اسی طرح پٹرول کے ریٹ بڑھنے پر رونا روتے ہوئے کہا کہ ''لو جی! پٹرول کے ریٹ پھر بڑھ گئے ہیں۔ بڑی مہنگائی ہو گئی ہے‘‘۔ سردار نے یہ سن کر کہا۔ لو جی! واہ گورو کی کرپا سے۔ اپنے پر تو اس مہنگائی کا رتی برابر اثر نہیں۔ اپنا سارا معاملہ تو پہلے کی طرح آرام سے چل رہا ہے۔ آپاں پہلے بھی ہزار روپے کا پٹرول ڈلواتے تھے اب بھی ہزار روپے کا ہی ڈلواتے ہیں۔ اپنے پر تو اس ریٹ بڑھنے کا بھورا فرق نہیں پڑا۔
ہم بھی پٹرول پمپ پر جاتے ہیں۔ اندر سے ٹینکی کا ڈھکن کھولتے ہیں۔ شیشہ نیچے کرتے ہیں اور کہتے ہیں۔ دو ہزار روپے کا پٹرول ڈال دو یا یہ کہ بیس لٹر پٹرول ڈال دو۔ پٹرول ڈال دیا جاتا ہے۔ ہمیں کبھی حساب کتاب کی نہ تو فرصت ملتی ہے کہ ہم دیکھیں کیا ریٹ تھا؟ کتنا پٹرول ڈالا گیا اور کتنی رقم بنتی تھی۔ ہم مشینی انداز میں چلتا ہوا میٹر دیکھتے ہیں۔ آخر پر رقم پر نظر ڈالتے ہیں۔ کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہم یہ بھی دیکھ لیتے ہیں کہ کتنے لٹر پٹرول ڈالا گیا ہے مگر کم از کم مجھے تو یہ توفیق کبھی نہیں ہوئی کہ میں ڈالے گئے پٹرول کی قیمت اور مقدار کے حوالے سے کبھی حساب کروں کہ کیا یہ واقعی اسی قیمت پر فروخت کیا گیا ہے جو سرکاری طور پر ہر ماہ اعلان کیا جاتا ہے۔ یہ معاملہ گزشتہ کئی برسوں سے چل رہا ہے اور ابھی اور بھی چلتا مگر برا ہو ''کلب کارڈ‘‘ کا کہ جس نے مجھ پر‘ اس عجب چور بازاری بلکہ ڈکیتی کا راز افشا کیا۔ جب اس مسلسل لوٹ مار پر نظر پڑی تو معاملے کی تہہ میں جانے کی کوشش کی تو انکشاف ہوا: ملتان میں سارے پٹرول پمپ عرصے سے اوورچارجنگ کر رہے ہیں اور دھڑلے سے کر رہے ہیں۔ اس پر مستزاد یہ کہ یہ سب کچھ تقریباً سرکاری اجازت سے ہو رہا ہے۔
ایک سرکاری افسر سے اس سلسلے میں بات کی تو وہ کہنے لگا۔ سر! مجبوری ہے اگر سرکاری ریٹ کا اطلاق کریں تو پٹرول پمپوں والے ہڑتال کر دیتے ہیں۔ میرا حیرانی سے منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔ میں نے پوچھا کیا مطلب ہے کہ پٹرول پمپ والے آپ کی مرضی اور منشا سے اوور چارجنگ کر رہے ہیں؟ وہ افسر کہنے لگا مرضی اور منشا سے تو نہیں کہا جا سکتا مگر ہمارے علم میں یہ بات ضرور ہے۔
میں نے کہا تو آپ نے کیا ایکشن لیا؟ جواب ملا پٹرول پمپوں نے ہڑتال کردی تھی۔ میں نے پوچھا ہڑتال کیوں کردی تھی؟ جواب ملا کہ اصل میں پٹرول کی قیمت پہلے زیادہ تھی تقریباً ایک سو تیرہ روپے کے لگ بھگ۔ اس پر پمپوں کو منافع کی شرح پٹرول کی قیمت کے حساب سے شرح فیصد میں ملتی تھی۔ یعنی ایک سو تیرہ روپے کو شرح فیصد سے ضرب دے کر جو منافع بنتا تھا وہ پٹرول پمپ والے کی جیب میں چلا جاتا تھا۔ جب قیمت کم ہوئی تو لامحالہ یہ نفع کم ہو گیا۔ پٹرول پمپ والوں کو زیادہ منافع کی عادت پڑ چکی تھی اور وہ کم منافع پر تیار نہیں تھے لہٰذا انہوں نے ہڑتال کردی اور وجہ یہ بتائی کہ ان کو پٹرول کے کرائے کی مد میں ملتان تک ٹرانسپورٹیشن کے سلسلے میں فالتو ادائیگی کرنا پڑتی ہے اور وہ یہ فالتو ادائیگی کی وصولی اس طرح کر سکتے ہیں کہ انہیں تیس چالیس پیسے فی لٹر زیادہ وصول کرنے کی اجازت دی جائے۔ آہستہ آہستہ اپنا اخلاقی اور انتظامی اختیار کھوتی ہوئی ضلعی انتظامیہ نے ہڑتال کی بلیک میلنگ میں آ کر پمپوں کو اس اوور چارجنگ کی اجازت دے دی۔ تیس پیسے کی اجازت سرکار نے دی ایک روپیہ ساتھ پمپ والوں نے ملا لیا۔ پھر نہ کبھی انتظامیہ نے پوچھا اور نہ کبھی ہڑتال ہوئی۔ اس دوران عوام لٹتے رہے۔ عوام کا اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اور مصرف بھی کیا ہے؟
میں نے چند روز پہلے ایسے ہی اپنے پٹرول کے کلب کارڈ کی ''کلائنٹ رسید‘‘ پر نظر ڈالی تو اس پر فی لٹر پٹرول کی قیمت 74.76 روپے تھی۔ جب پٹرول پمپ کے ڈسپنسر پر سبز جلتی ہوئی قیمت پر نظر ڈالی تو وہ 75.80 روپے تھی۔ یعنی سرکاری قیمت سے ایک روپے چار پیسے فی لٹر زائد۔ چار چھ دن کے بعد اسی کمپنی کے ایک اور پٹرول پمپ سے پٹرول ڈلوایا تو کلب کارڈ کی پرچی پر قیمت 74.77 اور پٹرول پمپ کے ڈسنپسر پر قیمت تھی 75.50روپے یعنی سرکاری قیمت سے تہتر پیسے فی لٹر زیادہ۔ مزے کی بات یہ تھی دیدہ دلیری سے وہ دونوں پٹرول پمپ اس کی رسیدیں بھی جاری کر رہے تھے۔
لاہور میں اس کمپنی کے پٹرول پمپ سے پٹرول ڈلوایا تو کلب کارڈ کی رسید پر یہ رقم 74.61 روپے تھی پٹرول کی ڈسنپسر پر بھی قیمت 74.61 روپے درج تھی اور رسید بھی اسی رقم کی ملی۔ یعنی لاہور میں پٹرول ملتان سے سستا تھا۔ اب پٹرول کی قیمت میں فرق کو کرائے کی مد میں دیکھا تو پتہ چلا کہ مذکورہ آئل کمپنی کی ریفائنری مظفرگڑھ میں یعنی ملتان کی بغل میں ہے اور یہاں ٹرانسپورٹیشن کی لاگت کم ہے اور لاہور تیل پہنچانے پر لاگت زیادہ آتی ہے مگر قیمت ملتان میں زیادہ ہے۔ ایک دوست سے بات کی تو پتہ چلا کہ اوگرا نے ریفائنری سے پٹرول پمپ تک پہنچانے کی ضلع کے حساب سے قیمت مقرر کر رکھی ہے وگرنہ گلگت‘ چترال‘ مظفر آباد اور سکردو وغیرہ میں پٹرول دو سو روپے لٹر فروخت ہو کہ وہاں تک کا کرایہ بہت زیادہ بنتا۔ میں نے اوگرا کی ویب سائٹ پر جا کر اس کمپنی کے حوالے سے ضلع وار قیمت کی چھان بین کی تو پتہ چلا کہ ملتان کے لیے اس کمپنی کے ہائی سپر پٹرول کی قیمت 74.76 روپے فی لٹر ہے۔ یعنی اس حساب سے ملتان میں پٹرول پمپوں والے برسوں سے عوام کو دن دہاڑے لوٹ رہے ہیں اور کوئی پرسان حال نہیں۔ حتیٰ کہ ٹکے ٹکے کے معاملے میں حکم امتناعی جاری کرنے والوں کو بھی اس لوٹ مار کا نہ تو احساس ہوا اور نہ ہی انہوں نے کوئی ایکشن لیا۔ ہر پٹرول پمپ اپنے جائز منافع کے علاوہ روزانہ ہزاروں لاکھوں روپے ہماری جیبوں سے نکال رہا ہے۔
میں نے آج صبح اس کمپنی کے ایریا منیجر سے بات کی تو اس نے سرے سے میری بات ماننے سے ہی انکار کردیا اور کہنے لگا کہ ایسا ممکن ہی نہیں۔ میں نے کہا کہ میرے پاس رسیدیں موجود ہیں۔ وہ کہنے لگا آپ مجھے کوریئر کردیں۔ میں نے کہا حضور سائنس ترقی کر گئی ہے میں آپ کو ابھی ای میل کر دیتا ہوں۔ اس نے مجھے اپنا ای میل ایڈریس دے دیا۔ میں نے پانچ منٹ میں اسے دونوں رسیدیں ای میل کردیں۔ اسی دوران وہ مجھے کہنے لگا یہ ہماری نہیں‘ ڈی سی او کی ذمہ داری ہے۔ میں نے کہا میں اس فورم پر بھی نپٹ لوں گا۔ ان صاحب کو اور تو کچھ نہ سوجھا کہنے لگے‘ آپ بڑی سخت بات کہہ رہے ہیں۔ میں نے کہا آپ کے بارے نہیں۔ ضلعی انتظامیہ کے بارے میں کہہ رہا ہوں۔ وہ جانیں اور میں جانوں۔ آپ بحیثیت ایریا منیجر اپنی ذمہ داریاں پوری کریں باقی بات چھوڑیں۔ چار گھنٹے بعد فون کر کے پوچھا کہ آپ کو رسیدیں مل گئی ہیں؟ جواب ملا مل گئی ہیں۔ میں اس وقت بہت مصروف ہوں آپ سے پھر رابطہ کروں گا۔ اس بات کو بھی اب دو گھنٹے گزر چکے ہیں ان صاحب کی مصروفیت میں غالباً کوئی کمی نہیں آئی۔
صورتحال یہ ہے کہ اب ملک ملٹی نیشنل‘ نیشنل‘ معزز پیشوں اور اداروں سے وابستہ چوروں ڈکیتوں نے اصل اور بدنام چوروں ڈکیتوں کو کہیں پیچھے چھوڑ دیا ہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ ان کے خلاف اول تو ہوتا کچھ نہیں اور اگر کوئی ایسا کرنے کی گستاخی کرے تو یہ معززین ہڑتال کر دیتے ہیں۔ اوپر سے حکومت کا یہ عالم ہے کہ وہ دھنیا پی کر سو رہی ہے جس کا جی چاہتا ہے کرتا ہے کوئی پوچھنے والا نہیں۔ ہم لوگ Total Collapse کی طرف جا رہے ہیں۔ یہ ایک کمپنی کا حال ہے اس حمام میں باقی بھی سارے اسی حال میں ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں