"KMK" (space) message & send to 7575

قدرت کا اٹل قانون

گزشتہ ایک ماہ سے ملک خالد نے صرف ایک سوال سے ہی اس عاجز کو تنگ و پریشان کر رکھا تھا۔ وہ سوال تھا کہ جوڈیشل کمیشن کیا فیصلہ کرے گا۔ یہ تقریباً روٹین کا معاملہ ہے۔ صبح ساڑھے آٹھ بجے کے قریب ملک خالد فون کرتا ہے۔ وہ صرف مجھے ہی نہیں ایک دو اور دوستوں کو بھی تقریباً اسی وقت فون کرتا ہے۔ یہ بھی طے ہے کہ پہلا فون کس کو کرنا ہے دوسرا کس کو اور پھر تیسرا چوتھا کس کو۔ اس ترتیب میں تبدیلی اسی صورت ہوتی ہے جب کسی دوست کا فون مصروف ملے یا جواب نہ ملے۔ ایسی صورت میں وہ اگلے دوست کو فون کر لیتا ہے وگرنہ ایک خاص ترتیب سے فون کرنا اس کی صبح کی شروعات کا طے شدہ حصہ ہے۔ مجھے اس کا فون دو تین دن نہ آئے تو اندازہ ہو جاتا ہے کہ وہ پاکستان سے باہر ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ میں پاکستان میں نہ ہوں تو صبح کا آغاز اس کے فون سے نہیں ہوتا۔ بصورت دیگر حالات وہی ہیں جو میں نے بتائے ہیں۔ سچی بات تو یہ ہے کہ جس صبح اس کا فون نہ آئے ایسا لگتا ہے کہ کوئی اہم کام نامکمل رہ گیا ہے۔ 
گفتگو کا اہم موضوع بلکہ اکلوتا موضوع ملکی صورتحال ہوتی ہے۔ سیاسی‘ اقتصادی اور عالمی صورتحال کے تناظر میں پاکستان سے متعلق اہم معاملات پر اپنا نقطہ نظر دینا اور بعض اوقات اتنا جذباتی ہو جانا کہ دوسرے کی بات ہی نہ سننا ملک خالد کی عادت ہے۔ بسا اوقات وہ صرف اپنی سناتا ہے لیکن بہت کم۔ ایسا دو تین موضوعات پر ہوتا ہے وگرنہ وہ گفتگو کرتا ہے‘ بحث کرتا ہے‘ اپنا نقطہ نظر بیان کرتا ہے۔ دوسروں کی بات سنتا ہے۔ ان کی رائے کو اہمیت دیتا ہے۔ ڈائیلاگ کرتا ہے؛ تاہم جس روز وہ جذباتی ہو جائے یکطرفہ گفتگو کرتا ہے کسی کی سنے بغیر۔ ایسے میں کبھی کبھار (سال میں ایک آدھ بار) مجھے بھی تائو آ جاتا ہے اور میں اسے کہتا ہوں کہ میں تمہارا مزارعہ نہیں کہ تمہاری بے سروپا (یہ میرا خیال ہے) لا یعنی و بے معنی اور فضول گفتگو (یہ تمام خیالات گرمی کھانے کے سبب ہوتے ہیں) سنوں۔ میں صبح صبح ڈائیلاگ سننا تو پسند کروں گا مگر مونولاگ (یکطرفہ گفتگو‘ جس میں دوسری طرف سے کسی کی نہ سنی جا رہی ہو یا دوسری طرف سامع ہی موجود نہ ہو) سے صبح خراب کرنے کا قائل نہیں ہوں لہٰذا میں فی الحال فون بند کر رہا ہوں۔ میں اتنا کہہ کر فون بند کر دیتا ہوں۔ گھنٹے بعد ملک خالد کا فون آئے گا۔ وہ قہقہے مار کر ہنس رہا ہوتا ہے اور کہتا ہے کہ میں بھی جذباتی ہو گیا تھا مگر تم بھی کم نہیں ہو۔ اچھا چلو یہ بتائو کہ فلاں معاملے پر تم کیا کہتے ہو؟ تمہارا کیا خیال ہے؟ اور بات ایسے شروع ہو جاتی ہے جیسے کبھی بدمزگی ہوئی ہی نہیں تھی۔ پرانی دوستیوں میں درگزر اور اعتبار دو ایسی خوبیاں ہیں جو آہستہ آہستہ عنقا ہوتی جا رہی ہیں۔ 
ملک خالد گزشتہ ایک ڈیڑھ ماہ سے صبح ہی صبح دیگر معاملات پر بحث کے دوران یا آخر میں ایک سوال تسلسل سے کر رہا تھا کہ جوڈیشل کمیشن کا کیا بنے گا۔ میں ہر روز گھما پھرا کر ایک ہی جواب دیتا تھا کہ میں کسی بھی طرح اس کمیشن کا حصہ نہیں ہوں لہٰذا یہ نہیں بتا سکتا کہ کیا ہونے جا رہا ہے؛ تاہم میرا ذاتی خیال ضرور ہے اور ممکن ہے کہ وہ بالکل غلط ہو۔ خیال تو انسان کا ذاتی ہوتا ہے اور محض غلط بھی ہو سکتا ہے؛ تاہم کسی ذاتی خیال کے باعث دوسروں کو اپنی رائے کا پابند کرنا‘ اپنے خیال سے زبردستی متفق کرنا یا اسے دوسروں پر مسلط کرنے کا نہ تو میں قائل ہوں اور نہ کسی دوسرے کو ایسا کرنے دیتا ہوں۔ خیال اور ذاتی رائے محض ایک دوسرے سے گفتگو کا لطف لینے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہونا چاہیے۔ ہاں اگر آپ اس دوران دوسرے فریق کو اس سے قائل کر لیں یا خود قائل ہو جائیں تو یہ آپ کی رائے کی منطقی مضبوطی کی دلیل ہو سکتی ہے۔ آپ کی خیال پیش کرنے کی بہتر خوبی ہو سکتی ہے اور فن خطابت بھی ہو سکتا ہے مگر یہ بات طے ہے کہ یہ محض ذاتی خیالات ہوتے ہیں‘ حقیقت سے ان کا تعلق ہونا قطعاً ضروری نہیں۔ 
میں روز ملک خالد کو کہتا تھا کہ کمیشن سے جس قسم کا انقلابی‘ کھڑکی توڑ اور تباہ کن قسم کے نتیجے کی توقع آپ لگائے بیٹھے ہیں وہ تو قطعاً پوری نہیں ہوگی۔ بڑا دھنیا قسم کا فیصلہ آئے گا۔ سب کچھ ایسا ہی رہے گا۔ ''سٹیٹس کو‘‘ کی صورتحال برقرار رہے گی۔ اگر بڑا تیر مارا تو آئندہ کے لیے انتخابی اصلاحات‘ الیکشن کمیشن کے اختیارات اور ذمہ داریوں یعنی Responsibilities کے بارے میں گائیڈ لائن وغیرہ دے دے گا؛ تاہم عمران خان کے منظم دھاندلی والے الزامات پر ٹکے کی پیش رفت نہیں ہوگی کہ ایسے الزامات صرف محسوس کیے جا سکتے ہیں ثابت نہیں کیے جا سکتے۔ الیکشن میں دھاندلی دراصل ''وائٹ کالر کرائم‘‘ جیسا معاملہ ہے محسوس کیا جا سکتا ہے‘ حتیٰ کہ دیکھا جا سکتا ہے مگر ثابت کرنا نہایت مشکل امر ہے۔ کسی دفتر میں رشوت کی طرح کی صورتحال۔ آپ دیکھ رہے کہ رشوت چل رہی ہے۔ حتیٰ کہ کھلے عام چل رہی ہے مگر اسے عدالتوں میں ثابت کرنا بڑا مشکل ہو جاتا ہے۔ متاثرین بھی گواہی نہیں دیتے۔ گفتگو‘ باتیں‘ روایات‘ (سینہ بہ سینہ چلنے والی) جیبوں سے نکلنے والا پیسہ‘ کان پڑتی باتیں اور زیادہ سے زیادہ ذاتی تجربہ۔ ہر دفتر میں مختلف طریقے‘ مختلف سسٹم اور مختلف لوگ مگر کام ایک جیسا۔ اب اسے آپ رشوت کی ''آفاقیت‘‘ تو کہہ سکتے ہیں مگر منظم رشوت ثابت نہیں کر سکتے۔ ہر فرد اپنی جگہ پر علیحدہ آفتاب ہے اور چمک رہا ہے۔ 
ہر پولنگ سٹیشن پر اور ہر حلقے میں جہاں جہاں دھاندلی دیکھیں اس میں یکسانیت بھی ملتی ہے اور انفرادیت بھی۔ پرانے پاپی جہاں آزمودہ نسخے آزماتے ہیں وہیں نت نئے تجربات بھی کرتے ہیں۔ انگریزی کی ایک کہاوت ہے There is no short cut to experience یعنی تجربے کا کوئی نعم البدل نہیں ہے۔ اب بھلا پہلی بار ا لیکشن لڑنے والا حامد خان پانچویں دفعہ الیکشن لڑنے والے سعد رفیق کے انتخابی پینتروں کا مقابلہ کیسے کر سکتا ہے۔ بھائی یہ الیکشن ہے عدالت میں لگنے والا کیس نہیں کہ حامد خان لڑے گا۔ یا یہ سپریم کورٹ بار کا الیکشن نہیں۔ جس کا میکینزم عوامی الیکشن سے بالکل مختلف ہے۔ عمران خان کے پاس جو ٹیم تھی اس کے پاس جذبہ تھا اور ا یاز صادق کے پاس مسلم لیگیوں کی وہ ٹیم تھی جس کے پاس انتخابی دائو پیچ اور جادوگریوں کا وسیع تجربہ تھا۔ جذبہ اور چیز ہے چالبازیاں اور چیزیں ہیں لیکن سب باتوں سے ہٹ کر اصل بات یہ ہے عمران خان کو جہانگیر ترین اور شاہ محمود قریشی جیسے مشیروں نے خراب و خستہ کیا ہے۔ یہ باتیں عدالتوں میں ثبوت کے ساتھ ثابت ہو نہیں سکتی تھیں جنہیں لے کر عمران خان نے جوڈیشل کمیشن کا راستہ پکڑا تھا۔ عمران خان کی نیک نیتی اپنی جگہ مگر عدالتوں میں‘ عدالتی کمیشنوں میں نیک نیتی نہیں ثبوت چلتے ہیں‘ خواہ بدنیتی پر کیوں نہ مبنی ہوں۔ 
عمران خان کی سادگی اور بھروسے کا یہ عالم ہے کہ جلسے میں تقریر کر رہا ہے اور پیچھے سے کسی نے اس کے کان میں کوئی بات کہہ دی تو اس نیک نیت آدمی نے پلٹ کر بھی نہیں دیکھا کہ بات کرنے والا کون ہے من و عن اسی طرح اگلے ہی لمحے اپنی تقریر میں دہرا دی۔ عمران خان کی اس سادگی اور بھروسے کو سٹیج پر کھڑے ہر شخص نے اپنی استطاعت اور ہمت کے مطابق استعمال کیا۔ نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔ کسی کا کچھ نہیں گیا۔ نہ شاہ محمود قریشی کا نہ جہانگیر ترین کا۔ بھداڑی ہے عمران خان کی۔ یہ وہ باتیں ہیں جو میں ملک خالد کو پچھلے ڈیڑھ ماہ سے بتا رہا تھا مگر ملک نے کچھ اور امیدیں باندھ رکھی تھیں۔ چند ریٹائرڈ جرنیلوں کی طرح۔ ملک کے بڑے بھائی ملک طارق کا خیال تھا کہ جوڈیشل کمیشن دراصل ایک نئے سیٹ اپ کی ابتدا ہے۔ بنگلہ دیش یا اس سے ملتا جلتا کوئی کاک ٹیل ماڈل۔ عدلیہ کی سربراہی میں قائم ہونے والی ایسی حکومت جو دو تین سال میں صفائی کرے۔ میرا خیال تب بھی یہی تھا اور اب بھی یہی کہ فی الحال کچھ نہیں ہونے والا۔ سب لوگ اسی تنخواہ پر کام کریں گے کہ سب کو تنخواہ بھی معقول مل رہی ہے اور تنخواہ کے علاوہ دیگر الائونس اور سہولتیں بھی۔ بھلا ایسے میں کیا تبدیلی آئے گی؟ لیکن یہ بات طے ہے کہ اگر ان لوگوں نے شاندار تنخواہ اور سہولتوں کے عوض صورتحال کو تبدیل کرنے میں رکاوٹ ڈالی یا رکاوٹ ڈالنے والوں کو بچانے کی کوشش کی تو یہ کمپنی زیادہ دیر نہیں چلے گی۔ میاں صاحب نہ صرف یہ کہ قسمت کے دھنی ہیں بلکہ خراب صورتحال کو سرکاری وسائل اور وقتی تابعداری سے درست کرنے میں بھی ماہر ہیں مگر یہ سب کچھ ساری عمر نہیں چلنے کا۔ تبدیلی تو آئے گی۔ جلد یا بدیر لیکن اس میں بہرحال بہت دیر ہرگز نہیں۔ اگر عمران خان اسی پرانی کمپنی کے زیر اثر اسی قسم کے ایڈونچر کرتا رہا اور دھرنے اور جوڈیشل کمیشن میں کمزور مقدمہ لڑنے جیسی حماقتیں کرتا رہا تو تبدیلی لانے والا کوئی اور ہوگا۔ جگہ زیادہ دیر خالی نہیں رہتی۔ یہ قدرت کا قانون ہے اور اٹل ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں