"KMK" (space) message & send to 7575

سلطان محمد فاتح کا قسطنطنیہ اور میٹرو

پنجابی کی ایک کہاوت کا ترجمہ ہے کہ ''ہنستے ہوئے شخص کا منہ اور روتے ہوئے کی آنکھیں، سارا حال بتا دیتی ہیں‘‘۔ خوشحالی ایسی چیز ہے جو شکل سے لے کر رہن سہن تک، سب میں نظر آتی ہے اور ترکی میں خوشحالی ہے۔ ترکوں کے چہرے روشن ہیں‘ بازار خریداروں اور اشیائے صرف سے بھرے پڑے ہیں۔ خریداروں میں غیر ملکی سیاح بھی ہیں اور مقامی لوگ بھی۔ ترکوں کی انگریزی خاصی کمزور ہے مگر اس کے باوجود سیاست عروج پر ہے۔ استنبول کے بعض علاقے دیکھ کر گمان ہوتا ہے کہ یہاں صرف اور صرف ہوٹل ہی ہیں۔ جہاں میں کھڑا ہوا تھا وہاں یہی حال تھا۔ سات آٹھ مرلے پر بنا ہوا ''جم سلطان‘‘ ہوٹل مسجد سلطان احمد یعنی نیلی مسجد اور آیا صوفیہ سے محض تین منٹ کے پیدل فاصلے پر تھا۔ بحیرہ مرمرہ محض پانچ منٹ کے فاصلے پر تھا۔ ہمارے ہوٹل سے مسجد سلطان احمد کے درمیان بھی صرف ہوٹل تھے۔ چھوٹے بڑے ہر قسم کے، مگر صاف ستھرے اور آرام دہ۔ چھوٹے سے چھوٹا ہوٹل بھی بنیادی ضروری لوازمات سے آراستہ ہے۔ ہر ہوٹل کسی نہ کسی ہوٹل بکنگ والی کمپنی سے مربوط ہے اور رجسٹرڈ ہے۔ آپ ہوٹل کا نام ڈالیں‘ انٹرنیٹ پر اس کی تصویر، کمروں کی صورتحال، کرایہ، محل وقوع اور ایئرپورٹ سے ہوٹل پہنچنے کا طریقہ، نقشہ اور دیگر معلومات اس طرح دی گئی ہیں کہ تھوڑی سی کامن سینس استعمال کریں تو معاملات نہایت آسان لگیں گے۔ 
لاہور میں عامر جعفری سے ملاقات کے دوران کچھ ٹپس لئے۔ عامر جعفری دو تین بار استنبول جا چکا ہے، اس لئے ضروری سمجھا کہ اس سے کچھ ہدایات اور رہنمائی لے لی جائے۔ عامر نے مشورہ دیا کہ ہوٹل پرانے شہر میں لیا جائے اور کوشش کرنا کہ نیلی مسجد اور آیا صوفیہ وغیرہ کے نزدیک لیا جائے۔ میٹرو اور ٹرام کے روٹس سمجھائے اور ایک عدد نقشہ بھی عطا کیا۔ پھر یہ بھی بتایا کہ پاکستان سے یورو لے کر جانا اور انہیں ترکی میں جا کر وہاں کی کرنسی ''لیرا‘‘ میں تبدیل کرا لینا۔ کوئی زمانہ تھا کہ ترکی کا لیرا نہایت ہی بے وقعت اور خاصی بے قیمت کرنسی تھی۔ ایک ڈالر میں تقریباً تیس لاکھ لیرے آتے تھے۔ ایک پاکستانی روپیہ ستائیس ہزار تین سو ترکی لیرا کے برابر تھا۔ 2005ء میں ترکی کی حکومت نے پرانے دس لاکھ لیرا کو ایک لیرا کے برابر قرار دے دیا۔ یعنی ہر نوٹ پر سے چھ صفر ہٹا دئیے گئے۔ پہلے دس لاکھ لیرا میں پانی کی ایک بوتل ملتی تھی۔ لیرا کا نام بھی غالباً اسی لئے لیرا رکھا گیا تھا کہ رقم ہاتھ میں آتے ہی لیرے لیرے ہو جاتی تھی۔ اب یہ عالم ہے کہ ایک ترک لیرا اڑتیس پاکستانی روپوں کے برابر ہے۔ ایک یورو کے تین لیرا ملتے ہیں اور بعض اوقات اس سے بھی کم۔ 
پہلے دو دن تو صرف پیدل پھرا گیا۔ ہوٹل سے نکل کر بحیرہ مرمرہ کے کنارے کنارے چلنا شروع کر دیا۔ ایک طرف سمندر اور دوسری طرف سڑک کے پار پرانی پتھروں والی فصیل۔ یہ توپ کاپی محل کی فصیل ہے جو ساتھ ساتھ چلتی ہے۔ جب ہم بائیں مڑ کر بحیرہ مرمرہ سے شاخ زریں کی طرف چلتے ہیں تو یہ فصیل پیچھے رہ جاتی ہے اور درمیان میں عمارتیں آ جاتی ہیں۔ تھوڑی دور آگے پل غلطہ ہے، یہ نئے اور پرانے شہر کو آپس میں ملانے والی کئی پلوں میں سے ایک پل ہے اور بحیرہ مرمرہ سے شاخ زریں میں داخل ہوں تو پہلا پل ہے۔ پل کو پار کریں تو آپ کے بائیں ہاتھ سامنے کی طرف غلطہ ٹاور ہے۔ تقریباً سات سو سال پرانا یہ ٹاور دو سو فٹ سے زیادہ بلند ہے اور دور سے نظر آتا ہے۔ پتھر کا بنا ہوا یہ ٹاور اپنی موجودہ جگہ سے پہلے تھوڑا ہٹ کر تھا اور کانسٹنٹائن کی حکومت کے خاتمے کے وقت تباہ کر دیا گیا تھا۔ شاخ زریں میں ڈالی گئی آہنی زنجیروں کا شمالی سرا اسی ٹاور سے منسلک تھا۔ اس ٹاور میں ‘سمندر میں ڈالی گئی زنجیروں کو نیچا کرنے اور اوپر کرنے کا میکنزم تھا۔ شاخ زریں میں ڈالی گئی یہ آہنی زنجیریں دشمن کے بحری جہازوں کو شاخ زریں میں داخل ہونے سے روکنے کے لئے ڈالی گئی تھیں اور ان کے ذریعے استنبول کی بندرگاہ اور شہر پناہ کی حفاظت کا کام لیا جاتا تھا۔ استنبول کی فتح میں یہ زنجیریں ایک نہایت اہم عسکری دفاعی لائن کا فریضہ سرانجام دیتی تھیں اور ان کے باعث شہر پناہ پر بحری طاقت کے ذریعے براہ راست حملہ ناممکن ہو کر رہ گیا تھا تاوقتیکہ سلطان محمد فاتح نے خشکی پر بحری جہاز چلاتے ہوئے ان زنجیروں کو عبور کیا اور قسطنطنیہ پر حملہ کر دیا۔ 
سلطان محمد دوم نے عثمانی سلطنت کے فرمانروا کے طور پر اگست 1444ء میں عنان حکومت سنبھالی۔ یہ اس کا پہلا اور مختصر دور حکومت تھا جو اگست 1444ء سے ستمبر 1446ء تک تھا۔ اس کے بعد حکومت دوبارہ اس کے والد مراد ثانی نے سنبھالی اور سلطان محمد ثانی نے دوبارہ عنان حکومت تین فروری 1451ء کو سنبھالی اور تیس سال تین ماہ حکومت کرنے کے بعد تین مئی 1481ء کو وفات پائی ۔میں نے یہ تفصیلات اپنے بچوں کو پل غلطہ کے پاس کھڑے ہو کر سنائیں۔ اسی سے قریب کسی جگہ سے اس نے خشکی پر بحری جہاز چلائے تھے۔ اسد نے حیرانی سے پوچھا خشکی پر بحری جہاز ‘بھلا خشکی پر بحری جہاز کیسے چل سکتے ہیں؟ اور چلوانے کا مقصد کیا تھا؟ سمندر میں چلنے والے جہازوں کو خشکی پر کیوں چلایا گیا؟ خشکی پر چلنے کے دوسرے آسان ذرائع تو موجود ہوں گے۔ مثلاً گھوڑے، بگھی وغیرہ۔ میں نے کہا سلطان قسطنطنیہ کو فتح کرنا چاہتا تھا اور سمندر والے راستوں سے حملہ کرنا مشکل تھا۔ سمندر کے ساتھ ساتھ والی فصیل اونچی اور مضبوط تھی۔ اسے توڑنا اور ادھر سے داخل ہونا بہت مشکل تھا۔ سلطان نے حکومت سنبھالتے ہی قسطنطنیہ کی فتح کا بیڑا اٹھایا اور تیاریاں شروع کر دیں۔ ہاں! درمیان میں بڑا مزے دار واقعہ پیش آیا۔ سلطان مراد ثانی 1444ء میں اپنے بارہ سالہ فرزند سلطان محمد ثانی کے حق میں ازخود دستبردار ہو گیا اور جا کر اناطولیہ میں گوشہ نشین ہو گیا۔ اس نے اپنے بارہ سالہ سلطان فرزند کے لئے نہایت قابل اور بلند پایہ استادوں کا اہتمام کیا۔ خصوصاً مذہب کے معاملات میں اپنے بیٹے کی بڑی مضبوط بنیادوں پر تعلیم و تربیت کا بندوبست کیا۔ اسی دوران کم عمر سلطان دیکھ کر یورپ سے حملوں کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہو گیا۔ یہ باقاعدہ صلیبی جنگیں تھیں جنہیں پوپ کی مکمل حمایت حاصل تھی۔ ترکوں اور عیسائیوں کے درمیان ایک امن معاہدہ ہوا جس کا نام Peace of Szeged تھا۔ کارڈینل جولین کیسرا رینی نے‘جو پوپ کا نمائندہ تھا‘ ہنگری کے بادشاہ کو قائل کر لیا کہ مسلمانوں کے ساتھ قائم معاہدے کو توڑنا دھوکہ دہی نہیں ہے۔ اس موقع پر سلطان محمد نے اپنے والد مراد کو کہا کہ وہ آئے اور دوبارہ حکومت سنبھالے تاکہ اس صورتحال سے نپٹا جا سکے۔ سلطان مراد نے اناطولیہ سے واپس آنے اور حکومت سنبھالنے سے صاف انکار کر دیا اور اپنے بارہ سالہ بیٹے سے کہا کہ بطور سلطان وہ ان حالات سے خود نبردآزما ہو۔ کم عمر سلطان نے اپنے باپ کو پیغام بھیجا کہ ''اگر وہ سلطان ہے تو آ کر افواج کی قیادت کرے اور اگر میں (سلطان محمد) سلطان ہوں تو تم کو حکم دیتا ہوں کہ واپس آؤ اور سلطنت کی نگہبانی کرو‘‘۔ سلطان مراد واپس آیا اور جنگ وارنا کی قیادت کی اور یورپی افواج کو شکست فاش دی۔ 1451ء میں سلطان مراد کا انتقال ہو گیا۔ انیس سالہ سلطان محمد ثانی نے دوبارہ تاج اپنے سر پر سجا لیا۔ 
سلطان محمد نے اپنی زندگی فتح قسطنطنیہ کے لئے وقف کر دی تھی۔ اس نے عثمانی بحریہ کو مضبوط کیا۔ باسفورس کے ایشیائی کنارے پر اس کے پڑدادا بایزید اول نے ایک مضبوط فصیل تعمیر کروائی تھی۔ سلطان محمد نے باسفورس کے یورپی کنارے پر اس سے کہیں زیادہ مضبوط فصیل تعمیر کروا کر باسفورس کے دونوں کناروں پر اپنا قبضہ مستحکم کر لیا۔ یہ فصیل ''رومیلی حصار‘‘ کہلاتی ہے۔ 1453ء دو لاکھ کے لگ بھگ فوجیوں اور تین سو بیس بحری جہازوں کی مدد سے جن میں بیشتر تجارتی اور مال بردار جہاز تھے قسطنطنیہ کا محاصرہ کر لیا۔ مرمرہ اورپاسفورس سے زوردار حملہ ممکن نہ تھا ‘لہٰذا سلطان نے ایک انوکھی ترکیب سوچی جس کی تاریخ میں اس سے پہلے نہ تو کوئی مثال تھی اور نہ ہی اس بارے میں سوچا جا سکتا تھا۔ سلطان نے باسفورس سے غلطہ کی جانب سے زمین کے ایک میل خشکی والے حصے پر لکڑی کے پھٹے ڈلوائے، ان پر سینکڑوں گھوڑے، اونٹ اور بھیڑ بکریوں کو ذبح کر کے ان کی کھالیں منڈھیں، خون ملا اور چربی کا لیپ کرنے کے بعد بائیس اپریل کی رات اپنے اٹھائیس ہلکے بحری جہازوں کو جانوروں کی مدد سے سمندر سے کھینچ کر خشکی پر چڑھایا اور پھر جہازوں کے بادبان کھول دئیے گئے۔ صبح جب اہل قسطنطنیہ کی آنکھ کھلی تو شاخ زریں میں 28ترک بحری جہاز موجود تھے۔ 29 مئی کو قسطنطنیہ فتح ہو گیا اور سلطان محمد ثانی کا نام تاریخ میں سلطان محمد فاتح کے نام سے مشہور ہوا۔ فتح قسطنطنیہ کے بعد سلطان محمد نے ترک دارالسلطنت ایڈریا نوپل سے قسطنطنیہ منتقل کر دیا۔ عثمانی خلافت کے اختتام تک قسطنطنیہ یعنی استنبول ترکی کا دارالخلافہ تھا۔ 
1923ء میں انقرہ ترکی جمہوریہ کا دارالحکومت قرار پایا‘ تاہم استنبول اب بھی ترکی کا سب سے بڑا شہر ہے۔ شہر میں ٹریفک کا نظام نہایت اعلیٰ ہے۔ برادرم عامر جعفری کی ہدایات کے مطابق اترتے ہی استنبول پاس لے لیا۔ چھ ترک لیرا کا یہ ٹرانسپورٹ پاس دس لیرا میں دستیاب تھا جس میں چار لیرا کا کریڈٹ موجود تھا۔ بیس لیرا اور ڈالے گئے اور پھر ترک ٹرانسپورٹ کے مزے لینے شروع کر دئیے۔ ایئرپورٹ سے شہر تک ہم لوگ تو ٹیکسی میں آئے کہ ساتھ سامان تھا وگرنہ میٹرو دستیاب ہے۔ سڑک کے درمیان چلنے والی میٹرو کا تصور استنبول سے لاہور آیا تاہم استنبول کی میٹرو کے گرد جنگلہ نہیں ہے۔ دو تین فٹ اونچے لوہے کے چھوٹے چھوٹے گارڈروں کے درمیان آہنی رسے لگے ہوئے ہیں یا چھوٹی سی اونچائی کی رکاوٹ ہے۔ لاہور والی میٹرو کے دونوں کناروں پر بلند و بالا وزنی آہنی جنگلے لگانے کا تصور کم از کم ترکی میں تو کہیں نظر نہ آیا حالانکہ یہ سارا تصور ترکی سے مستعار لیا گیا تھا۔ مگر غالباً وہاں کسی فاؤنڈری کو اپنا لوہا بیچنا مقصود نہ ہو گا۔ یہ محض میرا خیال ہے، باقی سب اللہ جانے!

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں