"KMK" (space) message & send to 7575

مجموعی قومی پالیسی سے حلقہ این اے 154تک

گزشتہ تین چار دن سے امریکہ میں سوالات کی مجموعی صورتحال میں تھوڑی سی تبدیلی آئی ہے۔ ایک نیا سوال سامنے آ رہا ہے۔ سوال اپنا رخ تبدیل کرتا ہے مگر اس کی بنیادی روح وہی ایک ہے۔ امریکہ میں رہنے والا ہر ایسا پاکستانی جو پاکستانی میڈیا سے تھوڑا سا بھی متعلق ہے اور پاکستانی چینلز کو دیکھ رہا ہے ایک سوال ضرور کر رہا ہے کہ اس بار چھ ستمبر اتنے جوش و خروش سے آخر کیوں منایا جا رہا ہے؟ وہ اس کا جواب یہ دیتے ہیں کہ ''ضرب عضب‘‘ کے حوالے سے ملک اس وقت‘ خواہ کوئی تسلیم کرے یا نہ کرے‘ حالت جنگ میں ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں پاک فوج کے شہدا کی تعداد پاکستان کی تمام اعلانیہ جنگوں سے کہیں زیادہ ہے۔ اس جنگ میں پاک فوج کے افسروں کی شہادت کی شرح شاید دنیا میں سب سے زیادہ ہے کہ افسر اپنے جوانوں کے ہمراہ ہی نہیں بلکہ ایک قدم آگے بڑھ کر اس جنگ میں مصروف کار ہیں‘ لیکن ایمانداری کی بات ہے کہ امریکہ میں رہنے والے پاکستانی ہماری اس بات سے کسی حد تک متفق تو ہوتے ہیں مگر اس کو موجودہ جنگی صورتحال جیسے ماحول کا مکمل جواب تسلیم نہیں کرتے۔ 
شفیق علی الصبح اٹھنے والوں میں سے ہے اور میرے قارئین لاس اینجلس میں مقیم برادر عزیز شفیق سے اچھی طرح آگاہ ہیں۔ میں امریکہ جائوں تو لاس اینجلس ضرور جاتا ہوں۔ اگر مشاعرہ ہو تو بہت خوب‘ لیکن اگر مشاعرہ نہ بھی ہو تو صرف شفیق کو ملنے لاس اینجلس جانا پڑتا ہے۔ میں کل سے لاس اینجلس میں ہوں۔ گزشتہ رات مشاعرہ تھا اور شفیق موجود تھا۔ پرسوں وہ حج پر روانہ ہو رہا ہے۔ میں اکثر شفیق کے پاس ٹھہرتا ہوں مگر اس بار ہوٹل میں ہوں۔ ہوٹل شفیق کے گھر کے بالکل قریب ہے۔ صبح دس بجے شفیق کو فون کیا تو آواز سے لگا کہ وہ نیند سے اٹھا ہے۔ یہ حیران کن بات تھی کہ وہ صبح دس بجے تک سوتا رہے۔ میں نے پوچھا‘ دوبارہ سو گئے تھے؟ کہنے لگا‘ صبح اٹھا تھا‘ چھ ستمبر کا جذبہ تازہ کیا بلکہ اپنے سے زیادہ دوسروں کا جذبہ تازہ کیا اور ایک اچھے پاکستانی کی طرح دوسروں کا جذبہ جگا کر خود سو گیا۔ میں گزشتہ پچیس سال سے امریکہ میں ہوں مگر اندر سے ابھی تک مکمل پاکستانی ہوں‘ بلکہ عام پاکستانی بھی نہیں‘ پاکستانی لیڈروں جیسا۔ دوسروں کا جذبہ جگائے رکھنا ہے اور اپنے جذبات کو سلائے رکھنا ہے۔ یہ کہہ کر وہ زور سے ہنسا اور کہنے لگا‘ میں تمہارے پاس ہوٹل آ رہا ہوں‘ پھر گھر آتے ہیں۔ وہ ہوٹل میں میرے ساتھ مقیم دیگر دوستوں کو جن میں برادرم سہیل وڑائچ‘ وصی شاہ اور ڈاکٹر حسین پراچہ ہیں کو ساتھ لے کر واپس گھر آتے ہیں اور دوپہر کا کھانا اکٹھے کھاتے ہیں۔ 
اس کا سوال تھا کہ آخر ایک دم اس باسی کڑھی میں ابال کیسے آ گیا؟ میں نے کہا عزیزم پچاسویں سالگرہ ہے‘ اس لیے دھوم دھام سے منائی جا رہی ہے‘ مگر وہ مطمئن نہیں ہو رہا تھا۔ اس کا کہنا ہے کہ ایک طرف میاں نوازشریف بھارت سے دوستی‘ تجارت اور بھائی چارے کے لیے بے چین تھے‘ ادھر یہ عالم ہے کہ لگتا ہے صرف طبل جنگ کا انتظار ہو رہا ہے۔ حکومت کی پالیسی تو کچھ اور ہی تھی۔ جب میاں صاحب آئے تھے تو ان کے ارادے بالکل مختلف تھے۔ جب بھارت مودی کی حلف کی تقریب پر گئے تو بھارت سے تجارت کرنے کی اتنی بے صبری میں مبتلا تھے کہ تمام تر پروٹوکول کو پس پشت ڈالتے ہوئے بھارتی بزنس مین کے گھر چلے گئے۔ اپنے ساتھ اپنے غیر سیاسی لیکن خالصتاً کاروباری بچوں کو بھی لے گئے۔ اب صورتحال بالکل مختلف نظر آ رہی ہے۔ بھارت سے محبت‘ تجارت اور بھائی چارے کا دور دور تک آگا پیچھا نظر نہیں آ رہا۔ کشمیر پر کمپرومائز اور کشمیر کے مسئلے کے حل سے پہلے بھارت کو ''پسندیدہ ترین قوم‘‘ یعنی موسٹ فیورٹ نیشن قرار دینے کا معاملہ‘ جو پہلے بڑی پھرتیوں میں تھا‘ اب کہیں میلوں تک نظر نہیں آ رہا۔ کشمیر پر بیک ڈور ڈپلومیسی کا تو مجھے پتہ نہیں مگر کشمیر ایشو پوری توانائی سے پیش کیا جا رہا ہے۔ یہ سب کیا ہو رہا ہے؟ میں نے کہا‘ سوال مت کرو بلکہ جواب دو۔ تمہارا تجزیہ تھوڑا مختلف ہوتا ہے۔ تم بتائو کیا ہو رہا ہے؟ کہنے لگا‘ مجھے کیا پتہ؟ آپ پاکستان سے آئے ہیں‘ آپ لوگوں کو پتہ ہوگا۔ مجھے تو یہ پتہ ہے کہ اب سب کچھ ویسا نہیں چل رہا جیسا میاں نوازشریف چلانا چاہتے تھے‘ مگر اب اس پالیسی کا حصہ ہیں۔ میں نے کہا کیسا حصہ؟ شفیق کہنے لگا‘ کرنے والے کر رہے ہیں اور میاں نوازشریف نے نماز کی نیت کر رکھی ہے۔ بلکہ نماز بھی نہیں اکٹھے سو نفل کی نیت کر لی ہے۔ 
شفیق کہنے لگا‘ ممکن ہے مجھے کوئی غلط فہمی ہوئی ہو‘ لیکن سارا قصہ تب کے بعد شرو ہوا ہے جب جنرل راحیل گزشتہ سال امریکہ آئے تھے۔ نومبر 2013ء میں عہدہ سنبھالنے کے بعد یہ ان کا امریکہ کا پہلا دورہ تھا اور 2010ء کے بعد کسی پہلے پاکستانی آرمی چیف کا دورہ امریکہ تھا۔ وہ یہاں آئے تو دورہ غیر معمولی لمبا ہو گیا۔ انہیں زبردست پروٹوکول دیا گیا Legion of merit کا اعلیٰ اعزاز عطا کیا گیا۔ 
امریکہ میں تھینکس گونگ ڈے (Thanks giving day) کی چھٹی بڑی ہی اہم چھٹی ہے‘ یہ ہر سال نومبر کے چوتھی جمعرات کو ہوتا ہے۔ 2014ء میں یہ ستائیس نومبر کو تھا۔ اس دن اتنی اہم چھٹی کے باوجود فارن آفس میں کام ہوا اور جان کیری کی جنرل راحیل شریف سے میٹنگ کا اہتمام کیا گیا۔ یہ سب کچھ بڑا غیر معمولی تھا۔ لیکن خدا جانے کیا ہوا کہ اس دورے کے دوران جنرل راحیل شریف نے کیا خاص بات نوٹ کی یا اللہ جانے کس بات کا ادراک ہوا کہ واپسی پر امریکی خواہشات کے برعکس والے معاملات کا آغاز ہوا۔ ضرب عضب تو خیر جون 2014ء میں شروع ہو چکا تھا مگر کراچی آپریشن وغیرہ امریکی ڈیزائن میں نہیں تھے۔ بلوچستان میں معاملات کو صحیح ڈگر پر لے کر جانا امریکہ کی پالیسی میں کہیں نہیں تھا۔ دراصل معاملہ یہ ہے کہ پاکستانی معاملات میں پڑوسی ممالک کے غیر معمولی عمل دخل اور حالات کو خراب کرنے میں عملی مداخلت کے اتنے ثبوت مل چکے ہیں کہ اب عسکری حلقوں نے ماضی والی گومگو اور خاموشی والی پالیسی سے یکسر انحراف کرتے ہوئے اندرونی معاملات کو اپنے حساب سے حل کرنے کی بالکل نئی اور مختلف پالیسی بنائی ہے۔ میاں صاحب کے پاس اس پالیسی کو ماننے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں۔ میاں صاحب کراچی پالیسی کے اندرخانے حامی بھی ہیں مگر اوپر سے سیاسی معاملات ان کی مرضی اور منشاء سے مطابقت نہیں رکھتے مگر وہ ان پر کسی قسم کا سٹینڈ لینے سے مکمل نہ سہی مگر وقتی طور پر دستبرداری کا غیراعلانیہ مظاہرہ ضرور کر رہے ہیں۔ ایسے معاملات پر انہوں نے دخل اندازی کے بجائے نفل ادا کرنے کی پالیسی اختیار کر لی ہے۔ اب یہ پالیسی کب تک چلتی ہے‘ پتہ نہیں مگر فی الحال تو اسے ہی حتمی سمجھیں۔ لیکن یہ بات طے ہے کہ دوسری طرف بھی کوئی جلدی نہیں ہے۔ دوسری طرف والوں کو جلدی اس لیے نہیں کہ وہ اس پالیسی کو قیادت میں تبدیلی کے باوجود جاری رکھنے کے بارے میں مکمل یکسو نظر آتے ہیں۔ اتنا کہہ کر شفیق خاموش ہوا‘ پھر پوچھنے لگا‘ جہانگیر ترین‘ خالی ہونے والے حلقے این اے 154 لودھراں ایک سے الیکشن لڑے گا کہ نہیں؟ 
میں نے کہا‘ اگر کوئی معقول بہانہ مل گیا تو اور بات ہے وگرنہ جہانگیر ترین کے پاس دوسرا کوئی چوائس نہیں ہے کہ وہ الیکشن نہ لڑے۔ اس حلقہ سے صدیق خان بلوچ 2013ء میں تقریباً چھیاسی ہزار ووٹ لے کر جیتا تھا۔ تب یاد رہے کہ وہ آزاد امیدوار تھا اور اسے سرکاری حمایت حاصل نہیں تھی۔ اس حلقہ سے مسلم لیگ ن کا امیدوار موجود تھا اور اس نے پینتالیس ہزار کے لگ بھگ ووٹ لیے تھے۔ پیپلز پارٹی کے امیدوار‘ ہمارے پرانے دوست مرزا ناصر بیگ نے گیارہ ہزار ووٹ لیے تھے۔ جہانگیر ترین دوسرے نمبر پر تھا اور اس نے پچھتر ہزار کے لگ بھگ ووٹ لیے تھے۔ جہانگیر ترین پہلے گیارہ ہزار ووٹ سے ہارا تھا اور ا گر اب الیکشن ہوا تو میرا خیال ہے زیادہ مارجن سے ہارے گا۔ 
شفیق کہنے لگا‘ میں نے یہ نہیں پوچھا کہ کون جیتے گا اور کون ہارے گا‘ میرا سوال یہ ہے کہ کیا جہانگیر ترین الیکشن کمیشن کے فیصلے کے بعد اس خالی ہونے والے حلقہ سے خود الیکشن لڑے گا یا عمران خان کی طرح‘ جیسے وہ حلقہ این اے 122 سے خود الیکشن لڑنے کے بجائے علیم خان کو لڑوا رہا ہے‘ جہانگیر ترین بھی یہی کرے گا؟ میں نے کہا بظاہر عمران اور جہانگیر ترین کا معاملہ بالکل مختلف ہے۔ عمران اسمبلی کا ممبر ہے اور وہ پہلی سیٹ سے مستعفی ہو کر دو سیٹوں کا رسک نہیں لے سکتا کہ یہاں سے ہار جائے اور پہلی والی سے بھی فارغ ہو جائے۔ مگر جہانگیر ترین نے اس حلقہ میں دھاندلی ثابت کرنے پر تقریباً دو کروڑ روپے کا خرچہ کیا ہے‘ اب کس بنیاد پر الیکشن سے بھاگ سکتا ہے؟ شفیق کہنے لگا‘ میرا خیال ہی نہیں یقین ہے کہ جہانگیر ترین اس حلقہ سے الیکشن نہیں لڑے گا۔ میں نے کہا فی الحال تم پرسوں حج پر جا رہے ہو‘ یہاں کی ساری فکریں چھوڑو۔ واپس آ کر دیکھ لینا کہ کیا بنتا ہے۔ بہرحال اس حلقے سے الیکشن لڑے یا نہ لڑے وہ فی الحال اسمبلی میں جاتا نظر نہیں آتا۔ شکر ہے کہ ہم نے اس معاملے پر شرط نہیں لگائی۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں